ایک ملحد نے اصول حدیث کے رد میں ایک تحریر لکھی جسکا خلاصہ یہ ہے کہ
“کسی خبر یا روایت کی تحقیق کیوں کی جائے اس کے لئے مسلمان علماء قرآن کی ایک آیت سے استدلال کرتے ہیں جو کچھ یوں ہے:”اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمھارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لیا کرو(مبادا) کہ کسی قوم پر نادانی سے جا پڑو، پھر اپنے کئے پر پچھتانے لگو۔ (الحجرات:6) بیسوں مستند حوالہ جات سے ثابت ہے کہ کسی بھی خبر اور روایت کو قبول کرنے لئے یہ اصول اور قاعدہ اہل اسلام کے ہاں مسلمہ ہے کہ اس کا راوی ثقہ و مستند ہو۔ اس کے برعکس فاسق کی خبر اور روایت نا قابل قبول اور مردود قرار پائے گی لیکن جس آیت سے استدلال کرتے ہوئے راویوں کے لئے فاسق نہ ہونے کی شرط عائد کی جا رہی ہے وہ دوسرے راویوں سے پہلے خود صحابہ کرام کے دور میں ان کے لئے ہی اتری تھی۔ چنانچہ اس آیت کے متعلق امام المفسرین حافظ ابن کثیر نےلکھا:”اکثر مفسرین کرام نے فرمایا ہے کہ یہ آیت ولید بن عقبہ بن ابو معیط کے بارے میں نازل ہوئی تھی جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں قبیلہ بنومصطلق سے زکوٰۃ لینے کے لئے بھیجا تھا۔” (تفسیر ابن کثیرمترجم: ج5 ص89، طبع مکتبہ اسلامیہ، لاہور)کیا اصحاب رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) میں ولید بن عقبہ بن ابی معیط جیسے لوگ نہ تھے جو نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) سے بھی جھوٹ بولتے نہ شرماتے تھے اور جو اکثر مفسرین کے نزدیک قرآن کی رُو سے فاسق قرار پائے ؟ کیا وہ لوگ صحابہ کرام میں سے ہی نہ تھے جنہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی بیوی عائشہ تک پر محض سنی سنائی باتوں سے انتہائی گھناؤنے الزامات عائد کئے؟۔۔۔
جواب:
کیا یہ آیت ولید بن عقبہ بن ابو معیط کے بارے میں نازل ہوئی ؟
بعض مفسرین نے کچھ روایات کی بنیاد پر سورہ حجرات کی آیت نمبر(٦) میں ”فاسق” سے مرادولید رضی اللہ عنہ کو قرار دیا ہے ۔ یہ ساری روایات مجاہد یا قتادہ یا ابن ابی لیلیٰ یا یزید بن رومان پر موقوف ہیں اور کسی نے ان راویوں کا ذکر نہیں کیا ہے جو وقت حادثہ سے لے کر ان کے زمانے تک اس خبر کو نقل کرتے رہے ہیں اور یہ درمیانی مدت کم وبیش سو سال کی ہے۔عام طور پر ایسی روایات دو طریقوں سے موصولا روایت کی گئی ہیں!(1) طبری نے ابن سعد سے (2)اور امام احمد نے محمد بن ساق سے ۔
طبری ابن سعد سے روایت کررہے ہیں حالانکہ طبری کی ابن سعد سے سماع ثابت نہیں ہے۔ نہ ہی ملاقات ثابت ہے۔ کیونکہ جب ٢٣٠ھ میں بغداد میں ابن سعد کی وفات ہوئی اس وقت طبری چھ سال کے بچے تھے۔ ابھی اپنے شہر آمل سے جو طبرستان کا ایک علاقہ ہے نہیں نکلے تھے۔ امام احمد کی روایت میں ایک راوی “عیسی بن دینار ہیں جو اپنے والد دینار سے روایت کرتے ہیں۔محدثین نے دینار کو مجہول اور ضعیف کہا ہے۔
قصہ کے بطلان کی ایک اور وجہ:
مسند احمد کی روایت (٤/٣٢) کے مطابق فتح مکہ کے موقع پر آپ ایک کمسن بچے تھے اور کسی کمسن بچے کا صدقات کی وصولی پر مقرر کیا جانا درایتا غلط ہے۔ اس لیے سورہ حجرات میں فاسق کے مصداق ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ نہیں ہے ۔اسکا ایک اور ثبوت یہ ہے اگر یہ جلیل القدر صحابی قرآن کے صریح نص کے مطابق “فاسق” ہوتے تو خلفاء ثلاثہ ان کو ریاستی امور میں اہم عہدے تفویض نا فرماتے ۔ ولید رضی اللہ عنہ کو ابوبکر وعمرو عثمان رضی اللہ عنہما نے اپنے ادوار میں مختلف علاقوں کا گورنر مقرر کیا تھا۔لہذا ان روایات کو لے کر یہ کہنا کہ صحابی ولید بن عقبہ فاسق تھے اور انہوں نے جھوٹ بولا غلط ہے۔تفصیلی مضمون بہ عنوان “ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ سے متعلق ایک مشہور واقعہ کی علمی تحقیق” اس لنک سے ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔
خلاصہ یہ کہ آیت “إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ” کے سبب نزول کسی صحابی کے بارے میں نہیں ہے ۔ اس آیت کا نزول عام ہے، اس میں ایک عام اصول بیان ہوا کہ اگر کوئی فاسق آپ کے پاس خبر لے کر آئے تو اسکی تحقیق کرلیا کرو۔
ملحد نے ایک یہ دلیل بھی پیش کی کہ یہ آیت صحابہ ؓ کے دور میں نازل ہوئی اس لیے لامحالہ وہ بھی فاسق تھے ۔۔اگر اس لاجک کو درست مان لیا جائے تو پھر صحابہ کے دور میں تو پورا قرآن اتراجس میں کافروں کے لیے وعیدیں بھی اتریں۔ کیا ان وعیدوں کی آیات کو یہ کہہ کر صحابہ پر فٹ کیا جائے گا کہ چوں کہ یہ صحابہ کے دور میں اتری اس لیے وہ بھی کافر تھے اور ان کے لیے بھی یہ وعیدیں شامل ہیں؟
صحابہ ؓ کا ایک دوسرے کو کاذب کہنا:
کچھ روایات میں صحابہ ؓ کا ایک دوسرے کے متعلق کذب کا لفظ آیا ہے اسکی حقیقت یہ ہے کہ عربی میں لفظ کذب صرف جھوٹ کے معنی میں نہیں، بعض دفعہ خلافِ واقع بات کرنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔اُردو میں یہ لفظ صرف جھوٹ کے معنوں میں آتا ہے، صحابہ کرامؓ ایک دوسرے کی بات کواگر کبھی خلافِ واقع کہتے تھے بھی تواس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ فلاں صحابی کی بات صحیح نہیں (انہیں غلطی واقع ہورہی ہے) یہ نہیں کہ وہ صحابی (معاذ اللہ) جھوٹ بول رہے ہیں، صحابہ کرامؓ سے اس قسم کی بات عادۃ ہرگز ممکن نہ تھی. مشہور محدث علامہ خطابی (۳۸۸ھ) ایک جگہ لکھتے ہیں:
ترجمہ: اسکا کہنا کہ ابومحمدنے کذب (غلط) کہا، اس سے مراد یہ ہے کہ اس نے غلطی کی کہنے والے کی مراد یہ نہیں کہ اس نے جھوٹ بولا جوسچ کی ضد ہوتی ہے۔ (معالم السنن للخطابی:۱/۱۳۴)ھرایک صحابی کے بارے میں بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:”ھورجل من الانصار لہ صحبۃ والکذب علیہ فی الاخبار غیرجائز والعرب تضع الکذب موضع الخطأ فی کلامہا فنقول کذب سمعی وکذب بصری ای زل ولم یدرک مارأی وماسمع”۔ ترجمہ:وہ انصاری صحابی ہیں ان پر خبر میں جھوٹ بولنے کا الزام جائز نہیں، عرب بات میں غلطی کرنے پر بھی کذب کا لفظ بولتے ہیں، مثلاً کہتے ہیں میرے کان نے (کذب) غلطی کی، میری آنکھ نے (کذب) غلطی کی یعنی وہ پھسل گئی اور جودیکھا اور سنا اسے نہ سمجھ سکا۔(معالم السنن للخطابی:۱/۱۳۵)
اس محاورے کی تائید ایک واقعہ سے بھی ہوتی ہے، حضرت عبداللہ بن سلامؓ اورحضرت کعب احبارؓ کے مابین اختلاف ہوا کہ وہ گھڑی جس میں دُعا لازماً قبول ہوتی ہے سال میں ایک دفعہ آتی ہے یاہفتہ وار؟ حضرت عبداللہ بن سلامؓ حضورﷺ سے نقل کررہے تھے کہ وہ گھڑی ہرجمعہ آتی ہے، حضرت کعبؓ کہہ رہے تھے کہ نہیں سال میں ایک دفعہ آتی ہے، امام نسائی (۳۰۳ھ) روایت کرتے ہیں کہ:”قَالَ كَعْبٌ ذَلِكَ يَوْمٌ فِي كُلِّ سَنَةٍ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ كَذَبَ كَعْبٌ قُلْتُ ثُمَّ قَرَأَ كَعْبٌ فَقَالَ صَدَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ”۔ترجمہ:کعب نے کہا وہ گھڑی سال میں ایک دفعہ آتی ہے، عبداللہ بن سلام کہنے لگے کعب کی زبان سے جھوٹ نکل گیا؛ پھرکعب نے تورات پڑھی اور کہا کہ حضورِپاکﷺ نے سچ فرمایا۔(سنن النسائی،كِتَاب الْجُمْعَةِ، بَابُ ذِكْرُ السَّاعَةِ الَّتِي يُسْتَجَابُ فِيهَا الدُّعَاءُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ،حدیث نمبر:۱۴۱۳، شاملہ، موقع الإسلام)اس سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن سلام کا کذب کعبؓ کہنا ان پر جھوٹ کی چوٹ کرنا نہیں تھا؛ نہ یہ مطلب تھا کہ وہ جھوٹ بول رہے ہیں، ان کی مراد صرف یہ تھی کہ کعبؓ غلط کہہ رہے ہیں؛ چنانچہ کعبؓ نے جب تورات مطالعہ کی تواپنی غلطی تسلیم کرلی اور کہا “صَدَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ” حضورﷺ نے سچ کہا۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ صحابہ ؓ معصوم تھے یا ان سے غلطیاں سرزد نہیں ہوسکتی تھیں ۔ صحابہ سے غلطیاں ہوئیں لیکن اللہ نے ازخود ان کی غلطیاں بیان کرکے توبہ کروائی اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے توسط سے ان کو متنبہ کیا چناچہ ان کی توبہ قبول کرنے کے بعد رضی اللہ عنہم کا پروانہ دیا گیا۔پھر وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَى کے ذریعہ اللہ نے ان کے اچھے انجام سے دنیا کو باخبر بھی کردیا۔ اس لیے جتنے بھی صحابہ کرام روایت کرنے والے ہیں وہ عادل اور ثقہ ہیں،روایت حدیث میں ان کی ثقاہت مسلم ہے۔ صحابہ ؓ کی زندگی میں یہ بات عام دیکھی جاسکتی ہے آپس میں ان کے کتنے ہی اختلافات کیوں نہ ہوں، مسائل میں بھی کتنے ہی اختلاف واقع ہوچکے ہوں، فقہی موقف بھی جدا جدا ہوچکے ہوں؛ مگرآنحضرتﷺ کی بات نقل کرنے میں سب کے سب ثقہ اور قابلِ اعتماد سمجھے جاتے تھے، حضورﷺ پرکوئی صحابی جھوٹ کہے اس کا اُن کے ہاں تصور بھی نہ ہوسکتا تھا.
عدالتِ صحابہ ؓ کی نرالی شان:
یہی وجہ ہے کہ ائمہ اربعہ میں تابعی کی روایت کے متعلق تو اختلاف ہے کہ قبول کی جائے یا نہیں ؟ امام ابوحنیفہ النعمانؒ اور امام مالکؒ ثقہ تابعی کی مرسل کوقبول کرتے ہیں اور امام شافعیؒ وامام بخاریؒ اسے قبول نہیں کرتے؛ لیکن اس پر ائمہ اربعہ کا اتفاق ہے کہ صحابہ کی مرسل سب کی سب قبول ہیں۔
صحابہ کی مرسلات سے وہ روایات مراد ہیں جن میں صحابی حضورﷺ سے اس دور کی روایت نقل کرے جب وہ اس دور میں مسلمان نہ ہوا تھا یاحضورﷺ کے ہاں موجود نہ تھا، ظاہر ہے کہ اس نے وہ بات کسی اور صحابی سے جووہاں موقع پر موجود ہوگا سنی ہوگی اور اب وہ اس کا نام ذکر نہیں کررہا ہے یااس نے اسے حضورﷺ سے سنا ہوگا اور اب وہ اسے حضورﷺ کے نام سے روایت نہیں کررہا اس دور کی بات کواپنی طرف سے روایت کررہا ہے، صحابہؓ کی یہ مرسلات بالاتفاق مقبول ہیں، درمیانے راوی کی تلاش اس وقت ہوتی ہے جب اس کی ثقاہت معلوم کرنی ضروری ہو، صحابہؓ چونکہ کلہم ثقہ اور عادل ہیں اس لیے ان میں سے کسی کا معلوم نہ ہونا قبولیتِ روایت میں قادح نہیں ہوسکتا۔
مثلاً صحیح بخاری کی دوسری روایت اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے مروی ہے آپ اس میں یہ بیان کرتی ہیں کہ حضورﷺ پر وحی کا آغاز کیسے ہوا؟ ظاہر ہے کہ اس وقت تک حضرت عائشہ کی پیدائش بھی نہ ہوئی تھی اور وہ دور آپؓ کا دیکھا ہوا نہ تھا آپؓ نےیہ حالات وواقعات کسی اور صحابی سے یا خود حضور ﷺ سے سنے ہوں گے؛ مگرآپ اس واسطۂ روایت کو ذکر نہیں کررہی ہیں، یہ مرسل روایت حضرت عائشہ صدیقہؓ کی ثقاہت اور جلالتِ شان کے پیشِ نظر کسی طرح بھی رد نہ کی جائے گی، صحابہ کی مرسلات توان ائمہ کے نزدیک بھی معتبر اور لائقِ اعتماد ہیں جواوروں کی مرسل روایات کو قبول نہیں کرتے، امام نوویؒ مقدمہ شرح مسلم میں ایک جگہ لکھتے ہیں ترجمہ: یہ حدیث صحابہؓ کی مرسل روایات میں سے ہے اور وہ جمہور علماءِ اسلام کے نزدیک حجت ہے۔ (شرح مسلم للنووی:۲/۲۸۴)
حافظ ابن حجرعسقلانی رحمہ اللہ ایک بحث میں لکھتے ہیں:” اس طرح کی باتوں پر صحیح کا حکم لگانے سے یہ بات مستفاد ہوتی ہے کہ صحابہ کی مرسل روایات سے حجت پکڑنا قانونی طور پر صحیح ہے۔ (فتح الباری،باب قول المحدث حدثنا وأخبرنا وأنبأنا:۱/۱۴۴، شاملہ،الناشر: دار المعرفة،بيروت،۱۳۷۹)
اس تفصیل سے یہ بات اور واضح ہوجاتی ہے کہ پہلے دور میں صحابہ کرام کا عادل اور ثقہ ہونا یقینی اور قطعی دلائل سے معلوم تھا تواب ان کی مرسلات بھی حجت سمجھی گئیں، اللہ تعالیٰ نے جب اُن کی عدالت پر مہر کردی تواب اس کی کیا ضرورت ہے کہ ائمہ حدیث میں سے کوئی ان کی تعدیل کرے۔
خطیب بغدادی (۴۶۳ھ) ایک جگہ لکھتے ہیں:”صحابہ کی عدالت اللہ کی تعدیل سے معلوم اور ثابت ہے؛ سوصحابہ میں سے کوئی بھی کیوں نہ ہو وہ کسی کی تعدیل کا محتاج نہیں کہ انہیں اللہ تعالیٰ کی تعدیل حاصل ہے جوان کے بواطن امور پر پوری طرح مطلع ہے اور انہیں عادل قرار دے رہا ہے۔ (الکفایہ فی علوم الروایہ:۴۸،۴۶)
صحابہ کے اسی عمومی اعتماد کا اثر دوسرے صحابہ میں بھی تھا، علمی حلقوں میں اعتماد عام تھا، علمی حلقے سب اعتماد پر چلتے تھے، اس دور میں اسناد پر زیادہ زور نہ تھا، خیراور صدق عام تھی، اسنادی مباحث، ہردوراویوں کے مابین فاصلے اور رابطے اور روایت میں اتصال وارسال کی بحثیں اس وقت چلیں جب امت میں فتنے پیدا ہوئے، جھوٹ عام ہونے لگا؛ سوضروری ہوا کہ اس وقت کے ائمہ حدیث اس سلسلہ میں کوئی قدم اُٹھائیں اور حق یہ ہے کہ اس وقت دینی سرمائے کے تحفظ کے لیے ایسے اقدامات ضروری تھے، امام ابنِ سیرینؒ (۱۱۰ھ) ایک جگہ فرماتے ہیں:ترجمہ: امام سیرین سے روایت ہے کہ پہلے دور میں لوگ سند کے بارے میں اتنے فکرمند نہ ہوتے تھے؛ لیکن جب فتنے اُٹھے توعلماء کہنے لگے اپنی روایت کے راوی سامنے لاؤ تاکہ اہلِ سنت اور اہلِ بدعت کی پرکھ ہو، اہلِ سنت کی حدیثیں لے لی جائیں اور اہلِ بدعت کی روایات سے پرہیز کی جائے۔ (مسلم،مُقَدِّمَةٌ،حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ:۱/۱۱)حضرت امام شافعیؒ اس نئے دور کے مجدد سمجھے جاتے ہیں؛ جنھوں نے وقت کی نبض پر ہاتھ رکھا اور آئندہ کے لیے تحقیق حدیث کی اساس صحت سند کوقرار دیا اور راویوں کی جرح وتعدیل اور اتصال رواۃ اس نئے دور کا بڑا موضوع قرار پایا….. اس درجہ کی پڑتال کی ضرورت دورِ اوّل میں کبھی محسوس نہ ہوئی تھی۔