مستند روایات سے پتا چلتا ہے کہ آنحضرت ؐ نے صحابہ کرام رضوان اللہ کو نہ صرف یہ کہ احادیث کتابت کی اجازت دی تھی بلکہ انہیں اس کی ترغیب بھی دلائی تھی۔ اس ہدایت کی روشنی میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین احادیث تحریر کرنے کے عادی تھے اور کئی صحابہ رضوان اللہ نے یہ تحریریں کتابی شکل میں مدون کی تھیں۔ چند مثالیں درج ذیل ہیں۔
حضرت ابوہریرہ اور کتابتِ حدیث:
حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ نے دیگر اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نسبت سب سے زیادہ احادیث شریف روایت کی ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ احادیث کی تعداد ۵۳۷۴ بیان کی جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ قبول اسلام کے بعد انہوں نے اپنی پوری زندگی احادیث کی حفاظت اور نقل کے لیے وقف کر دی تھی۔ دیگر معروف صحابہ کرام رضوان اللہ کے برعکس حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ نے کسی بھی قسم کا ذریعہ معاش اختیار نہیں کیا بلکہ آپ رضی اللہ عنہ مسجد نبوی میں مقیم ہو گئے تھے تاکہ آنحضرت اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ارشادات سن سکیں اور گرد و پیش میں رونما ہونے والے حالات اور ہر ہر واقعے کا مشاہدہ کر سکیں۔ یہ کام معمولی اور آسان نہ تھا۔ چنانچہ حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ کو بھوک پیاس کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں اور فاقوں کے علاوہ دوسرے مشکل امتحانات بھی پیش آتے رہے۔ لیکن جو راستہ انہوں نے اختیار کر لیا تھا اس سے سرمو نہ ہٹے۔
اس حقیقت کے ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ انہوں نے احادیث تحریری شکل میں محفوظ کی تھیں۔ ان کے شاگردوں میں سے ایک یعنی حسن ابن عمرو بیان کرتے ہیں کہ :”حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ انہیں اپنے گھر لے گئے اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر مشتمل کئی ایک کتابیں دکھائیں۔” (جامع بیان العلم ص ۱۷۴ ج ۱، فتح الباری ص ۱۸۴ ج ۱)
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس کئی مسودات احادیث تھے۔ یہ بات بھی ثابت شدہ ہے کہ آپ کے شاگردوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی روایات کے کئی مجموعے تیار کئے تھے۔ ان میں سے ایک شاگرد ھمام بن منبہ کا صحیفہ ہے جو حال ہی میں دریافت ہوا ہے۔اس پر کافی سارا تحقیقی کام ہوا ہے۔اس کی احادیث بخاری اور مسند احمد بن حنبل میں موجود ہیں اور الحمدللہ ان میں باہم کوئ فرق نہیں.جو اس سلسلہءنقل وروایت کی عمدگی اور قابلِ اعتماد ہونے پر شاہد ہے.اس صحیفے پر ہم پہلے بھی ایک تحریر میں تفصیل پیش کرچکے ہیں ، وہ یہاں دیکھی جاسکتی ہے۔
حضرت ابوہریرہ سے اس کے علاوہ بھی بہت ساری احادیث کی کتابت ثابت ہے..تہذیب التہذیب..ج ۹، ص ۳۰۴ میں مذکور ہے کہ عبدالعزیز بن مروان نے آپ کی مرویات کا ایک مجموعہ مرتب کیا تھا..اعمش نے ابوصالح سمان کی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک ہزار احادیث لکھی تھیں.
صحیفہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما:
حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بطور خاص احادیث تحریر کرنے کی ہدایت فرمائی تھی۔ حضرت ابوہریرہ رض کی گواہی بھی ملاحظہ کریں.. “عبداللہ بن عمرو نے رسولﷺ سے لکھنے کی جازت طلب کی تھی اور آپ نے انھیں اجازت عطافرمادی تھی..(مسند احمد ج۲ص۴۰۲)خود ہی فرماتے ہیں الاصابہ کی روایت ہے “میں جو کچھ رسول اللہﷺ سے سنتا، وہ لکھ لیتا.. (الاصابہ ج۲ص۲۰۱) حضرت عبداللہ بن عمرو رض کی یہ روایت دیکھئے..
“ہم جب رسولﷺ کے پاس ہوتے، تو جب آپﷺ فرماتے، تو وہ لکھ لیا کرتے تھے.” (سیر اعلام النبلاء ج۳ص۸۷)
چنانچہ انہوں نے ایک ضخیم مسودہ حدیث تیار کیا تھا جس کا نام “الصحیفہ الصادقہ” (سچائی کا صحیفہ) رکھا تھا۔ ابن اثیر کا بیان ہے کہ اس مسودے میں ایک ہزار احادیث تھیں۔ (اسد الغابہ ج ۳ س ۲۳۳) حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ اس مسودے کی حفاظت کا بیحد خیال رکھتے تھے۔ آپ کے چہیتے شاگرد مجاہد بن کبیر بہت بڑے تابعی ہیں فرماتے ہیں۔”میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اور ایک مسودہ جو آپ کے تکیے کے نیچے رکھا ہوا تھا اٹھا کر ہاتھ میں لے لیا، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے مجھے روک دیا ۔ میں نے کہا کہ آپ تو کبھی مجھ سے کچھ نہیں چھپاتے ہیں اس پر آپ نے فرمایا”یہ صادقہ ہے! یہ وہ کچھ ہے جو میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے براہ راست سنا ہے اور آپ کے اور میرے درمیان کوئی تیسرا راوی نہیں ہے۔ اگر یہ کتاب اللہ اور وعظ (آپ کی زرعی زمین) میرے لیے موجود رہیں تو پھر مجھے باقی دنیا کی کچھ پرواہ نہیں۔” (جامع بیان العلم ج ۱ ص ۷۲، اسد الغابہ ج ۳ ص ۲۳۳، ۲۳۴)
یہ مسودہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے بعد آپ کی اولاد کے پاس رہا۔ آپ کے پوتے عمرو بن شعیب رضی اللہ عنہ اس کی احادیث کی تعلیم دیا کرتے تھے۔ یحیٰی بن معین اور علی بن المدنی فرماتے ہیں کہ عمرو رضی اللہ عنہ بن شعیب کی روایت کردہ ہر حدیث خواہ وہ کسی بھی کتاب میں ہو اس مسودے میں سے لی گئی ہے (تہذیب التہذیب ص ۴۹، ۵۳ ج ۸)۔
اکابر محدثین مثلاً امام بخاریؒ ، امام مالکؒ ، احمد بن حنبلؒ ، اسحاق بن راہویہؓ وغیرہم نے عمرو بن شعیب کی مرویات پر اعتماد کیا تھا۔ یہ صحیفہ مسند احمد میں بہ تمام و کمال مل سکتا ہے۔[تاریخ الحدیث و المحدثین، ص۳۱۰]
حضرت عبد اللہ بن عباس کا مسودہ:
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی جلالتِ شان بیان کرنے کی ضرورت یوں بھی نہیں ہے کہ ہرخاص و عام آپ کی ذاتِ بابرکات سے باخبر ہے..آپ سے ایک ہزار چھ سو ساٹھ احادیث مروی ہیں، جن میں سے پچھتر متفق علیہ ہیں. ایک سو بیس صرف بخاری میں ہیں اور نو صحیح مسلم میں.
حفظِ حدیث اور کتابتِ حدیث آپ کا شوق تھا..اس کے لئے بہت زیادہ مجاہدات بھی کئے..صحابہء کرام رض سے بار بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث دریافت کرتے اور انہیں لکھا کرتے.بعض مرتبہ ایک ہی حدیث تیس صحابہ سے سنی.. (طبقات ابن سعد ج۲ص۱۲۳)
ایسی تمام احادیث شریف آپ نے بہت سے مجموعوں میں مدون کی تھیں۔ یہ مجموعے اتنی کثیر تعداد میں تھے کہ انہیں ایک اونٹ پر لادا جاتا تھا۔ پھر یہ مسودات حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے شاگرد اور تابعی کریب رحمہ اللہ کے پاس منتقل ہوئے۔ مشہور مؤرخ موسٰی ابن عقبہ کا بیان ہے۔”کریب” نے ہمارے لیے ابن عباس رضی اللہ عنہ کی کتب کا اونٹ بھر بوجھ چھوڑا۔ جب علی بن عبد اللہ بن عباس کو کسی کتب کی ضرورت ہوتی تو وہ کریب کو لکھ بھیجتے کہ مجھے فلاں فلاں کتب بھیج دیں۔ پھر (کریب رحمہ اللہ) اس کتاب کا نسخہ تیار کرتے اور دو میں سے ایک نسخہ انہیں بھیج دیتے۔ (طبقات ابن سعد ص ۴۹۳ ج ۵)۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے شاگرد مسودے کی نقل کیا کرتے اور پھر آپ کو پڑھ کر سناتے تاکہ وہ نسخے کی تصحیح کر سکیں (جامع الترمذی کتاب التلل ص ۲۶۱ ج ۱)۔ کبھی کبھار حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ شاگردوں کے سامنے احادیث روایت کرتے اور شاگرد انہیں تحریر کر لیتے۔ (سنن الداری ۱۰۶ ج ۱ حدیث ۵۱۰ ص ۱۰۵ ج ۱ حدیث ۵۰۵)۔
یوں آپ کے شاگردوں کے درمیان یہ کتابیں متداول رہی اور نقل در نقل ہوکر موجودہ مؤلفات کی شکل میں ہم تک پہنچ گئیں..
حضرت جابر رض اور کتابتِ حدیث:
حضرت جابر رض جلیل القدر صحابہ میں سے ہیں.حضورﷺ کے ساتھ انیس غزوات میں شرکت فرمائی. .آپ مسجد نبویﷺ میں درسِ حدیث دیا کرتے تھے..لوگ کثرت سے آپ کے درس میں شریک ہوتے اور آپ کی احادیث لکھا کرتے تھے۔ محمد بن علی جعفر الباقر اور عبداللہ بن عقیل جیسے کبار تابعین نے آپ سے احادیث لکھیں. (تقیید العلم ص۱۰۴) وھب بن منبہ ہے، ھمام بن منبہ کے بھائی آپ کی احادیث قلمبند کرتے تھے اور بعد میں اسی سے احادیث روایت بھی کیں. (تہذیب التہذیب ج۱ص۱۷۴)
خود حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے دو مسودوں میں احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم تحریر کی تھیں۔ ان میں سے ایک مسودے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے آخری حج کی تفصیلات درج تھیں۔ اس مسودے کا مکمل متن صحیح مسلم میں موجود ہے جہاں حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے حجتہ الوداع کی معمولی تفصیلات تک بیان فرمائی ہیں۔ صحیح مسلم کتاب الحج ص ۳۹۴ – ۴۰۰کے بارے میں ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے مسودے ہی کی نقل ہے۔ (تذکرۃ الحفاظ للذہبی رحمہ اللہ ۴۱:۱)
دوسرے نسخے میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے متفرق موضوعات کے متعلق احادیث شریف تحریر فرمائی تھیں۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے مشہور شاگرد قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ مجھے حضرت جابر (رضی اللہ عنہ) کا صحیفہ سورت بقرہ سے بہتر طور پر یاد ہے۔ (تہذیب التہذیب ۳۵۳:۸)اس مسودہ حدیث کا حوالہ مصنف عبد الرزاق میں موجود ہے جہاں اس کی چند احادیث بھی روایت کی گئی ہیں۔ (مصنف عبد الرزاق حدیث ۲۰۲۷۷ ج ۱۱)
مسودہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ:
حضرت انس ابن مالک رضی اللہ عنہ آنحضرت ﷺ کے ان صحابہ کرام میں سے تھے جو لکھنا جانتے تھے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی والدہ آپ کو اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت اقدس میں لے آئی تھیں جب حضرت انس کی عمر دس سال تھی۔ پھر دس سال تک آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں رہے اور اس دوران بے شمار احادیث شریف سننے کا موقع ملا۔ بعد میں آپ نے یہ احادیث تحریر فرمائیں۔ آپ کے ایک شاگرد سعید ابن ھلال رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
“جب ہم حضرت انس بن مالک رضی اللہ سے بہت اصرار کرتے تو آپ ہمارے پاس کچھ تحریری یاد داشتیں لاتے اور فرماتے! یہ وہ احادیث ہیں جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنیں اور تحریر کر لیں پھر اس کے بعد میں یہ آنحضرت ﷺکے سامنے تصدیق کے لیے پیش بھی کر چکا ہوں۔” (مستدرک الحاکم، ذکر انس رضی اللہ تعالٰی عنہ ص ۵۷۳، ۵۷۴ ج ۳)
اس سے یہ بات ظاہر ہے کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے نہ صرف یہ کہ احادیث کی بڑی تعداد کئی نسخوں میں تحریر فرمائی تھی بلکہ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے تصدیق کے لیے بھی پیش کیا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کی تصدیق فرمائی تھی۔
آپ کو کتابتِ حدیث کا اتنا اہتمام تھا کہ اپنے بچوں کو فرماتے، ” بچو! احادیث لکھا کرو..ہم تو اس شخص کے علمِ حدیث کو علم تصور نہیں کرتے تھے، جو لکھا نہیں کرتا تھا۔ (تقیید العلم ص۹۶)
متفرق صحابہ :
–حضرت عائشہ صدیقہؓ سے بڑی تعداد میں احادیث مروی ہیں ۔ آپ کی مرویات آپ کےبھانجے اور شاگرد حضرت عروہ بن زبیر نے قلمبند کی تھیں۔
-حضرت سمرہ بن جندب رض نے ایک مجموعہء احادیث تیار کیا تھا..آپ کے بیٹے سلمان اسی مجموعہ سے احادیث روایت کرتے تھے..حضرت حسن بصری رض نے بھی یہ مجموعہ نقل کیا ہے.. (الاصابہ ج۲ص۷۹)سعید القطان کہتے ہیں کہ حسن بصری رح حضرت سمرہ رض کی روایت کردہ احادیث سناتے تھے..
–حضرت سعد بن عبادہ رض نے احادیث کا ایک مجموعہ لکھا تھا..آپ کے صاحبزادے نے اس کتاب سے احادیث روایت کی ہیں..اسی طرح حضرت عبداللہ بن ابی اوفی کے پاس بھی حضرت سعد بن عبادہ رض کی کتاب تھی.. (مسند احمد ج ۵ص۲۸۵)پھر ان کی اولاد در اولاد میں یہ کتاب چلتی رہی..
–حضرت ابوایوب انصاری رض سے ایک سو پچپن احادیث مروی ہیں..آپ نے بھی احادیث لکھ کر بھیجی تھی.. (مسند احمد بن حنبل ج ۵ ص۴۱۳)
–حضرت ابو بکرۃ رض سے ایک سو بتیس احادیث مروی ہیں..آپ نے اپنے صاحبزادے عبدالرحمن بن ابی بکرۃ، جو سجستان (بلوچستان) کے قاضی تھے، حدیث لکھ کر بھیجی تھی..صحیح مسلم کتاب الاقضیہ..ج۲ص۱۵)
–حضورﷺ کے آزاد کردہ غلام حضرت ابو ریحانہ رض کےبارے میں آتا ہے کہ آپ کاغذ کے دونوں طرف لکھتے اور پھر لکھے ہوئے کو کتاب کی صورت میں سی لیتے..کتابوں کو طومار کی صورت میں بھی سی لیتے تھے اور ان میں الٹ پلٹ کر لکھتے..کہتے ہیں کہ کتابت کے یہ طریقے سب سے پہلے انہوں نے ہی اختیار کئے تھے..(کتابتِ حدیث ۱۱۸)
-حضرت ابورافع رض کو خود حضورﷺ نے احادیث لکھنے کی اجازت مرحمت فرمادی تھی..ابوبکر بن حارث کا بیان ہے کہ ابو رافع نے مجھے ایک کتاب دی، جس میں نبیء کریم ﷺ کا نماز کے آغاز کے بارے میں عمل مذکور تھا.. (سیر اعلام النبلاء ج ۲ص ۱۶)
یاد رہے کہ
یہ ساری تفاصیل وہی لوگ بیان کررہے ہیں جو قرآن کی کتابت و تدوین کی تفصیل بیان کرتے ہیں ۔اس کے باوجود یہ کہنا کہ دورِ صحابہ میں کتابتِ حدیث ثابت نہیں، محض ضد اور حقیقت سے آنکھیں چرانا ہیں..دور صحابہ (پہلی صدی ہجری) جن حضرات نے سب سے زیادہ روایات بیان کی ہیں، ان کی ایک فہرست ملاحظہ ہو :
نام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تاریخ وفات۔۔۔۔۔تعداد احادیث
ابو ہریرہ ۔۔۔۔۔۔۔ متوفی 57 ھ ۔۔۔ ۔ 5374
ابو سعید خدری۔ ۔۔۔متوفی 46 ھ ۔۔۔۔۔1170
جابر بن عبد اللہ ۔۔۔متوفی 74 ھ ۔۔۔۔1540
انس بن مالک۔ ۔۔۔۔متوفی 93 ھ ۔۔۔۔1286
ام المومنین عائشہ ۔۔۔متوفیہ 59 ھ ۔۔۔2210
عبد اللہ بن عباس۔۔۔متوفی 68 ھ ۔۔۔۔1660
عبد اللہ بن عمر۔۔۔۔۔متوفی 70 ھ ۔۔۔ 1630
عبد اللہ بن عمرو ۔۔۔۔متوفی 63 ھ ۔۔۔۔ 700
عبد اللہ بن مسعود ۔۔متوفی 32 ھ ۔۔۔۔۔ 848
marwat hussain
May 22, 2024 at 6:10 pmماشاءاللہ بہت عمدہ کام۔۔۔