صحابہ کرام کے بعد کے ادوار میں تاریخ تدوین حدیث وسیع تر اور تفصیل طلب ہو جاتی ہے۔ احادیث کی روایت سے متعلق ہر صحابی کے کثیر شاگرد ہوئے ہیں جنہوں نے اپنی سنی ہوئی احادیث قلم بند اور مدون کی ہیں۔ صحابہ کرام کے ان شاگردوں کو تابعین کہا جاتا ہے۔تابعین کی تدوین حدیث عموماً موضوعاتی ترتیب سے نہیں ہے۔ اگرچہ ان میں سے چند ایک حضرات نے احادیث کو موضوعاتی عنوانات اور سرخیوں کے تحت بھی یکجا کیا ہے۔ اس طرح ترتیب شدہ حدیث کی کتاب “الابواب” مصنفہ امام شعی رحمہ اللہ (ولادت ۱۹ھ) اس طرز کی پہلی کتاب سمجھی جاتی ہے۔ یہ کتاب مختلف ابواب میں منقسم تھی اور ہر باب میں ایک ہی موضوع سے متعلق احادیث یکجا تھیں۔ مثلاً زکوٰۃ، صلوٰۃ وغیرہ وغیرہ۔( تدریب الرادی ص ۴۰)۔یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ عام ترتیب پر مدون ہونے والی حدیث کی اولین کتاب پہلی صدی ہجری میں ہی ترتیب کی گئی تھی۔ ایک اور کتاب جو قرآن کریم کی تفسیر پر مبنی احادیث پر مشتمل تھی حضرت حسن بصری (م ۱۱۰ھ) نے تصنیف فرمائی تھی (ا لستہ قبل التدوین عجاج الخطیب ص ۳۳۸)۔ یہ بھی عمومی ترتیب کے مطابق ایک باقاعدہ کتاب تھی جو ایک مخصوص موضوع پر پہلی صدی ہجری میں لکھی گئی۔
عہد تابعین میں تدوین حدیث کا کام مشہور خلیفہ عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے سرکاری طور پر سنبھالا۔ آپ رحمہ اللہ نے تمام گورنروں کو سرکاری حکم بھیجا کہ وہ اپنی ذاتی نگرانی میں صحابہ کرام رضوان اللہ اور ان کے شاگردوں میں سے ذی علم حضرات کو مجتمع کریں اور ان سے حاصل ہونے والی احادیث کو قلم بند کر لیں۔ (فتح الباری ص ۱۷۴ ج ۱)یہ اسی سرکاری حکم کا نتیجہ تھا کہ احادیث کی کثیر کتب تیار ہو کر پورے ملک کے طول و عرض میں پھیل گئیں۔ ابن شہاب الزھری بھی تدوین حدیث کے انہی ابتدائی معماروں میں سے ہیں۔ آپ نے کئی کتب تحریر فرمائی ہیں۔عہد تابعین میں لکھی جانے والی ان کتب میں سے ایک “صحیفہ ہمام بن منبہ” بھی ہے جسکا ذکر پہلے آچکا۔
آج حدیث کا جو علم دنیا میں موجود ہے وہ تقریباً دس ہزار صحابہ سے حاصل کیا گیا ہے۔ تابعین نے صرف ان کی احادیث ہی نہیں لی ہیں بلکہ ان سب صحابیوں کے حالات بھی بیان کر دیئے ہیں اور یہ بھی بتا دیا ہے کہ کس نے حضور ﷺ کی کتنی صحبت پائی ہے یا کب اور کہاں آپ کو دیکھا ہے اور کن کن مواقع پر آپ کی خدمت میں حاضری دی ہے۔منکرین حدیث کہتے ہیں کہ احادیث ابتدائی دور کے مسلمانوں کے ذہن میں دفن پڑی رہیں اور دو ڈھائی صدی بعد امام بخاری اور ان کے ہم عصروں نے انہیں کھود کر نکالا۔ لیکن تاریخ ہمارے سامنے جو نقشہ پیش کرتی ہے ، وہ اس کے بالکل برعکس ہے
٭پہلی صدی ہجری کے جامعین حدیث٭ :
صحابہ کا نام پہلے آچکا ۔ جن اکابر تابعین نے حدیث کے علم کو حاصل کرنے، محفوظ کرنے اور آگے پہنچانے کا سب سے بڑھ کر کام کیا ہے، وہ یہ ہیں :
نام ۔۔۔۔۔ پیدائش ۔۔۔۔۔۔۔ وفات
سعید بن المسیب ۔۔۔ ۔۔ 14 ھ ۔۔ 93 ھ
حسن بصری ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ 21 ھ ۔۔ 110 ھ
ابن سیرین ۔۔۔ ۔۔۔ 33 ھ ۔۔ 110 ھ
عروہ بن زبیر ۔۔۔ ۔۔ 22 ھ ۔۔ 94 ھ
(انہوں نے سیرت رسول پر پہلی کتاب لکھی)۔
علی بن حسین (زین العابدین) ۔۔۔ 38 ھ ۔۔94 ھ
مجاہد ۔۔۔ ۔۔۔ 21 ھ ۔۔104 ھ
قاسم بن محمد بن ابی بکر ۔ 37 ھ ۔۔ 106 ھ
شریح (حضرت عمر کے زمانے میں قاضی مقرر ہوئے) ۔۔ 37 ھ ۔۔ 78 ھ
مسروق (حضرت ابوبکر کے زمانہ میں مدینہ آئے) ۔۔۔۔ 37 ھ ۔۔ 63 ھ
اسود بن یزید ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ 37 ھ ۔۔ 75 ھ
مکحول ۔۔۔ ۔۔۔ 37 ھ ۔۔۔ 112 ھ
رجاء بن حیوہ ۔۔۔ ۔۔ 37 ھ ۔۔ 103 ھ
ہمام بن منبہ ۔۔۔ ۔۔۔ 40 ھ ۔۔ 131 ھ
سالم بن عبد اللہ بن عمر ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ 106 ھ
نافع مولیٰ عبد اللہ بن عمر ۔۔۔ ۔۔۔۔ 117 ھ
سعید بن جبیر ۔۔۔ ۔۔ 45 ھ ۔ 95 ھ
سلیمان الاعمش ۔۔۔ ۔۔۔۔۔ 61 ھ ۔ 148 ھ
ایوب المستحتیاتی ۔۔۔ ۔۔۔۔ 66 ھ ۔ 131 ھ
محمد بن المنکدر ۔۔۔ ۔۔۔۔۔ 54 ھ ۔ 130 ھ
ابن شہاب زہری ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ 58 ھ ۔ 124 ھ
سلیمان بن یسار ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ 34 ھ ۔ 107 ھ
عکرمہ مولیٰ ابن عباس ۔۔۔ ۔ 22 ھ ۔ 105 ھ
عطا بن ابی رباح ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ 27 ھ ۔ 115 ھ
قتادہ بن وعامہ ۔۔۔ ۔۔ 61 ھ ۔ 117 ھ
عامر الشعبی ۔۔۔ ۔۔ 17 ھ ۔ 104 ھ
علقمہ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ 62 ھ
ابراہیم النخعی ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ 46 ھ ۔ 96 ھ
زید بن ابی حبیب ۔۔۔ ۔۔۔۔۔ 53 ھ ۔ 128 ھ
ان حضرات کی تواریخ پیدائش و وفات پر ایک نگاہ ڈالنے سے ہی معلوم ہو جاتا ہے کہ ان لوگوں نے صحابہ کے عہد کا بہت بڑا حصہ دیکھا ہے۔ ان میں سے بیشتر وہ تھے جنہوں نے صحابہ کے گھروں میں اور صحابیات کی گودوں میں پرورش پائی ہے اور بعض وہ تھے جن کی عمر کسی نہ کسی صحابی کی خدمت میں بسر ہوئی ہے۔ ان کے حالات پڑھنے سے پتہ چلتا ہے کہ ان میں سے ایک ایک شخص نے بکثرت صحابہ سے مل کر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے حالات معلوم کیے ہیں اور آپ ﷺ کے ارشادات اور فیصلوں کے متعلق وسیع واقفیت بہم پہنچائی ہے۔ اسی وجہ سے روایت حدیث کا بہت بڑا ذخیرہ انہی لوگوں سے بعد کی نسلوں کو پہنچا ہے۔ تاوقتیکہ کوئی شخص یہ فرض نہ کر لے کہ پہلی صدی ہجری کے تمام مسلمان منافق تھے، اس بات کا تصور تک نہیں کیا جا سکتا کہ ان لوگوں نے گھر بیٹھے حدیثیں گھڑ لی ہوں گی اور پھر بھی پوری امت نے انہیں سر آنکھوں پر بٹھایا ہو گا اور ان کو اپنے اکابر علما میں شمار کیا ہو گا۔
٭دوسری صدی ہجری کے جامعین حدیث(اصاغر تابعین و تبع تابعین)٭
اس کے بعد اصاغر تابعین اور تبع تابعین کا وہ گروہ ہمارے سامنے آتا ہے جو ہزارہا کی تعداد میں تمام دنیائے اسلام میں پھیلا ہوا تھا۔ ان لوگوں نے بہت بڑے پیمانے پر تابعین سے احادیث لیں اور دور دور کے سفر کر کے ایک ایک علاقے کے صحابہ اور ان کے شاگردوں کا علم جمع کیا، ان کی چند نمایاں شخصیتیں یہ ہیں :
نام ۔۔۔۔۔ پیدائش ۔۔۔ وفات
جعفر بن محمد بن علی (جعفر الصادق) ۔ 80 ھ ۔۔ 148 ھ
ابو حنیفہ النعمان (امام اعظم) ۔۔ 80 ھ ۔۔ 150 ھ
شعبہ بن الحجاج ۔۔۔ 83 ھ ۔۔ 160 ھ
لیث بن سعد ۔۔۔۔۔۔۔ 93 ھ ۔۔ 165 ھ
ربیعہ الرائے (استاذ امام مالک) ۔۔؟؟۔۔ 136 ھ
سعید بن عروبہ ۔۔۔۔۔۔؟؟ ۔۔ 156 ھ
مسعر بن کدام ۔۔۔۔۔۔۔؟؟ ۔۔۔ 126 ھ
عبد الرحمٰن بن قاسم بن محمد بن ابی بکر ۔۔ 97 ھ ۔۔ 161 ھ
حماد بن زید ۔۔۔ 98 ھ ۔۔ 179 ھ
یہی دور تھا جس میں حدیث کے مجموعے لکھنے اور مرتب کرنے کا کام باقاعدگی کے ساتھ شروع ہوا۔ اس زمانے میں جو احادیث کے مجموعے مرتب ہوئے انکی تفصیل آگے آئے گی ۔
٭پہلی صدی ہجری کی تصنیف شدہ کتب حدیث٭
پہلی اور دوسری صدی ہجری میں تابعین نے علم حدیث کی جو خدمات انجام دی ہیں ذیل میں اس کی ایک فہرست دی جا رہی ہے۔ پہلی صدی ہجری میں تابعین نے درج ذیل کتب تدوین کیں۔
۱ ۔ کتاب خالد بن معدان (م ۱۰۴ھ)
۲ ۔ کتب ابو قلابہ (م ۱۰۴ھ)
۳ ۔ صحیفہ ھام بن منبہ – اس کا حوالہ پہلے دیا جا چکا ہے۔
۴ ۔ کتب حضرت حسن بصری (۲۱-۱۱۰)
۵ ۔ کتب محمد الباقر (۵۶-۱۱۴ھ)
۶ ۔ کتب مکحول شامی
۷ ۔ کتاب حکم بن عتبہ
۸ ۔ کتاب بکیر بن عبد اللہ بن الاشجعح
۹ ۔ کتب قیس بن سعد (م ۱۱۷ھ)
۱۰ ۔ کتاب سلیمان الیشکری
۱۱ ۔ الا ابواب للشعبی رحمہ اللہ (اس کتاب کا حوالہ اوپر دیا جا چکا ہے۔
۱۲ ۔ کتب ابن شہاب الزھری رحمہ اللہ
۱۳ ۔ کتاب ابو العالیہ رحمہ اللہ
۱۴ ۔ کتاب سعید ابن جیر رحمہ اللہ (م ۹۵ھ)
۱۵ ۔ کتب عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ (۶۱ – ۱۰۱ھ)
۱۶ ۔ کتب مجاہد بن جبر رحمہ اللہ (م ۱۰۳ھ)
۱۷ ۔ کتب رجاء بن حیوۃ رحمہ اللہ (م ۱۱۲ھ)
۱۸ ۔ کتاب ابو بکر بن محمد بن عمرو بن حزم رحمہ اللہ
۱۹ ۔ کتاب بشیر بن نھیک
( سے ۱۹ تک کے حوالے :۱ ۔ تذکرۃ الحفاظ للذہبی رحمہ اللہ ۲۱۶:۱، ۱۶۶:۱۔، ۲ ۔ طبقات ابن سعد ۲۱۶:۵ و تذکرۃ الحفاظ ۸۸:۱۔،۳ ۔ صحیفہ ہمام بن منبہ تحقیق ڈاکٹر حمید اللہ۔ ،۴ ۔ طبقات ابن سعد ۱۷:۷ والحدیث الفاصل۔، ۵ ۔ تہذیب التہذیب ۱۰۴:۲۔۶ ۔ الفہرست الابن ندیم ص ۳۱۸۔،۷ ۔ تقدمہ الجراح والتعدیل ص ۱۳۰۔،۸ ۔ تہذیب التہذیب ۷۰:۱۰، ۷۱۔،۹ ۔ تذکرۃ الحفاظ ۱۹۰:۱۔،۱۰ ۔ تقدمہ الجراح والتعدیل ص ۱۴۴، ۱۴۵۔،۱۱ ۔ تدریب الراوی ص ۴۔،۱۲ ۔ جامع بیان العلم ۱۷۶:۱۔،۱۳ ۔ السنتہ قبل التدوین (تعلیق) ص ۳۳۸۔،۱۴ ۔ ۔۔۔۔۔۔ العلم ص ۱۰۲۔،۱۵ ۔سنن الدارمی ۱:۱۲۹ و تقید العلم ص ۱۰۸۔، ۱۶ ۔تاریخ البغداد للخطیب اا:۱۶۲، ۱۷ ۔سنن الدارمی ۱:۱۲۹ و تقید العلم ص ۱۰۸۔، ۱۸ ۔تقدمہ الجرح و التعدیل ص ۲۱۔، ۱۹ ۔طبقات ابن سعد ۷:۱۶۲)
٭دوسری صدی ہجری کی تصنیف شدہ کتب حدیث٭
دوسری صدی ہجری کی تصنیف کردہ احادیث کی کتب کی بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ ان میں سے بڑی تعداد موضوعات کے لحاظ سے ترتیب دی گئی ہے۔ جبکہ پہلی صدی ہجری میں ایسا نہ تھا۔ لیکن ایسی کتب بھی ملتی ہیں جو دوسری صدی ہجری میں اس ترتیب کے بغیر ہیں۔ اس صدی میں مدون ہونے والی کتب کی فہرست بہت طویل ہے۔ چند ممتاز اور نمایاں کتب کے نام درج ذیل ہیں۔
۱ ۔ کتاب عبد الملک بن جریب رحمہ اللہ (م ۱۵۰ھ)
۲ ۔ موطا امام مالک بن انس رحمہ اللہ(۹۳ – ۱۷۹ھ)
۳ ۔ موطا ابن ابی ذئب (۸۰ – ۱۵۳ھ)
۴ ۔ مغازی محمد بن اسحاق رحمہ اللہ(م ۱۵۱ھ)
۵ ۔ مسند ربیع بن صبیح رحمہ اللہ(م ۱۶۰ھ)
۶ ۔ کتاب سعید بن ابی عروبہ رحمہ اللہ(م ۱۵۶ھ)
۷ ۔کتاب حماد بن سلمہ رحمہ اللہ(م ۱۶۷ھ)
۸ ۔ جامع سفیان الثوری رحمہ اللہ(۹۷ – ۱۶۱ھ)
۹ ۔ جامع معمر بن راشد رحمہ اللہ(۹۵ – ۱۵۳ھ)
۱۰ ۔ کتاب عبد الرحمٰن الاوزاعی رحمہ اللہ(۸۸ – ۱۵۷ھ)
۱۱ ۔ کتاب الزھد ۔ عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ(۱۱۸ – ۱۸۱ھ)
۱۲ ۔ کتاب ھشیم بن بشیر رحمہ اللہ(۱۰۴ – ۱۸۳ھ)
۱۳ ۔ کتاب جریر بن عبد الحمید رحمہ اللہ(۱۱۰ – ۱۸۸ھ)
۱۴ ۔ کتاب عبد اللہ بن وھب رحمہ اللہ(۱۲۵ – ۱۹۷ھ)
۱۵ ۔ کتاب یحیٰی بن ابی کثیر رحمہ اللہ(م ۱۲۹ھ)
۱۶ ۔ کتاب محمد بن سوقہ رحمہ اللہ(م ۱۳۵ھ)
۱۷ ۔ تفسیر زید بن اسلم رحمہ اللہ(۱۳۶ھ)
۱۸ ۔ کتاب موسیٰ بن عقبہ رحمہ اللہ( م ۱۴۱ھ)
۱۹ ۔ کتاب اشعث بن عبد الملک رحمہ اللہ(م ۱۴۲۳ھ)
۲۰ ۔ کتاب عقیل بن خالد رحمہ اللہ(م ۱۴۲ھ)
۲۱ ۔ کتاب یحیٰی بن سعید انصاری رحمہ اللہ(م ۱۴۳ھ)
۲۲ ۔ کتاب عوف بن ابی جمیلہ رحمہ اللہ(م ۱۴۶ھ)
۲۳ ۔ کتب جعفر بن محمد الصادق رحمہ اللہ(م ۱۴۸ھ)
۲۴ ۔ کتاب یونس بن یزید رحمہ اللہ(م ۱۵۲ھ)
۲۵ ۔ کتاب عبد الرحمٰن المسعودی رحمہ اللہ (م ۱۶۰ھ)
۲۶ ۔ کتب زائدہ ابن قدامہ رحمہ اللہ (م ۱۶۱ھ)
۲۷ ۔ کتب ابراھیم اللہمان رحمہ اللہ (م ۱۶۳ھ)
۲۸ ۔ کتب ابو حمزہ السکری رحمہ اللہ (م ۱۶۷ھ)
۲۹ ۔ الغرائب شعبہ بن الحجاح رحمہ اللہ (م ۱۶۴ھ)
۳۰ ۔ کتب عبد العزیزا بن عبد اللہ الما حبشون رحمہ اللہ (م ۱۶۴ھ)
۳۱۔ کتب عبد اللہ بن عبد اللہ بن ابی اویس رحمہ اللہ (م ۱۶۹ھ)
۳۲ ۔ کتب سلیمان بن بلال رحمہ اللہ (م ۱۷۲ھ)
۳۳ ۔ کتب عبد اللہ بن لہیعہ رحمہ اللہ (م ۱۴۷ھ)
۳۴ ۔ جامع سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ (م ۱۹۸ھ)
۳۵ ۔ کتاب الاثار امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ (م ۱۵۰ھ)
۳۶ ۔ مغازی معتمر بن سلیمان رحمہ اللہ (م ۱۸۷ھ)
۳۷ ۔ مصنف وکیع بن جراح رحمہ اللہ (م ۱۹۶ھ)
۳۸ ۔ مصنف عبد الرزاق بن ھمام رحمہ اللہ (۱۳۶ – ۲۲۱ھ)
۳۹ ۔ مسند زید بن علی رحمہ اللہ (۷۶ – ۱۲۲ھ)
۴۰ ۔ کتب امام شافعی رحمہ اللہ (۱۵۰ – ۲۰۴ھ)
(حوالوں کے لیے ملاحظہ فرمائیں۔ ۱ سے ۱۶ تک المحدث الفاصل ص ۱۵۵ و تدریب الراوی ص ۴ مقدمہ فتح الباری ص ۴ الرسالتہ المسطرفہ۔باقی نمبروں کے لیے ملاحظہ فرمائیں “والسنتہ قبل التدوین ص ۳۳۷۔ )
تدوین حدیث کی پہلی اور دوسری ہجری میں کی گئی کوششوں کی اس تفصیل سے اس جھوٹ کی حقیقت کھل کے سامنے آجاتعتی ہے کہ تدوین حدیث کا کام تیسری صدی ہجری سے قبل شروع نہیں ہوا تھا یا یہ ایرانیوں نے گھڑی تھیں ۔یہ تفصیل اس بات کو ثابت کرنے اور سمجھنے کے لیے بہت کافی ہے کہ تدوین حدیث خود رسالتماب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں شروع ہو چکی تھی۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کے ادوار میں ہر مرحلے پر تسلسل کے ساتھ اس پر کام کیا جاتا رہا۔امام بخاری جیسے محدیثین نے صرف یہ کیا کہ ان میں سے صحیح احادیث کو اک ترتیب کے ساتھ ایک کتاب میں اکٹھا کردیا۔امام بخاری کے دور تک علم حدیث کی اس مسلسل تاریخ کو دیکھنے کے بعد کوئی شخص منکرین حدیث کے ان دعووں کو آخر کیا وزن دے سکتا ہے۔؟