یورپ کی چھلنیاں ذرا انہی پر لگا کے دیکھیے۔۔

1510703_1591294817773811_1811743769516882633_n

جو حضرات اور طبقاتِ فکر جو چھلنیاں ذخیرہ حدیث اور مسلم تاریخ پر لگاتے ہیں یہ ذرا یورپ اور امریکہ کی تاریخ اور ذخیرہ و منبع ہائے قوانین پر لگا کر دیکھیے ۔
حضور ! ہمار ے پاس تو انشاءاللہ سب کچھ بچ رہے گا اور بچا ہوا ہے ۔ وہاں کچھ بھی نہیں نکلنا ۔ بڑی بڑی شخصیات کی تاریخی حیثیت اور بڑے بڑے واقعات کا ہونا نہ ہونا ہی زیر بحث آجائے گا۔آج کے دور سے ہی مثال لے لیں ۔
آج بھی چہار سو گونجتی خبروں ‘ تبصروں اور تجزیوں کی اس دنیا میں جہاں روزانہ اربوں ٹن نشریاتی مواد ہمارے کانوں میں انڈیلا جاتا ہے کسی بھی خبر کی صداقت کا پیمانہ عینی شہادت سے زیادہ نہیں۔خبر کا ذریعہ آپ کو معلوم ہے لیکن اس کی بصیرت ‘ بصارت ‘ صداقت ‘ متعلقہ معاملے کی بنیادی چیزوں سے واقفیت اور پھر اس خبر کے بارے میں خود اس کے رجحان ‘ تعصب یا حمیت‘ ان سب سے آپ واقف نہیں ہوتے ۔
لیکن آج سے چودہ سو سال پہلے کی جو خبریں ہم تک پہنچی ہیں ان میں ہمیں خبریں پہنچانے والے لاکھوں افراد کا ذاتی احوال ‘ حتی کہ مجموعی سیرت و کردار تک معلوم ہے۔
ان کی بصیرت ‘ بصارت ‘ علمیت ‘ صداقت ‘ متعلقہ معاملے سے ان کی واقفیت ‘ ان کا رجحان ‘ تعصب ‘ عدم تعصب یہ سب کسی نہ کسی حدتک ہمیں معلوم ہوتا ہے ۔
جس چیز کو یہ بنیاد بناتے ہیں وہ حد سے حد انسان کی امکانی غلطیاں ہیں جو آج کے جدید ترین ٹیکنالوجی کے دور میں بھی اسی طرح نظر آتی ہیں ۔لیکن جو معیارات تاریخ و سیر و حدیث کو لینے کے ہمارے اسلاف نے مقرر کیے یورپ اور امریکہ تو ان کا ابھی تک تصور کرنے ہی سے قاصر ہیں۔
میں بھائیوں ‘ بزرگوں اور دوستوں سے عرض کروں گا کہ اس تناظر میں نوجوانوں کو خاص طور پر مولانا مناظر احسن گیلانی رحمت اللہ علیہ کی کتاب ”تدوین حدیث“ پڑھنے کی ضرور تلقین کریں۔بیشتر (اپنے اور پیدا کردہ) شکوک رفع ہوجائیں گے۔
راشد قدوس

 

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password