اعتراض: “قرآن کے متعلق تو اللہ تعالیٰ نے شروع میں ہی یہ کہہ دیا کہ” ذلک الکتٰب لا ریب فیہ” کہ اس کتاب میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں اور وحی کے دوسرے حصے کی کیفیت یہ ہے کہ اس میں اس شک کی گنجائش موجود ہے کہ جس قول یا فعل کو حضورؐ کی طرف منسوب کیا گیا ہے وہ واقعی حضورؐ کا ہے یا نہیں؟ کیا خدا کی حفاظت اسی کا نام ہے؟
جواب:
وحی کی دو بڑی قسمیں ہیں: ایک: وہ جو اللہ تعالیٰ کے اپنے الفاظ میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس بھیجی گئی تھی تاکہ آپؐ انہی الفاظ میں اسے خلق تک پہنچا دیں۔ اس کا نام وحیِ متلو ہے اور اس نوعیت کی تمام وحیوں کو اس کتاب پا ک میں جمع کر دیا گیا ہے جسے قرآن کے نام سے دنیا جانتی ہے۔ دوسری قسم کی وحی وہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی رہنمائی کے لیے نازل کی جاتی تھی تاکہ اس کی روشنی میں آپؐ خلق کی رہنمائی فرمائیں۔ اسلامی نظریۂ حیات کی تعمیر فرمائیں اور اسلامی تحریک کی قیادت کے فرائض انجام دیں۔ یہ وحی لوگوں کو لفظاً لفظاً پہنچانے کے لیے نہ تھی، بلکہ اس کے اثرات حضورؐ کے اقوال و افعال میں بےشمار مختلف صورتوں سے ظاہر ہوتے تھے اور حضورؐ کی پوری سیرت پاک اس کے نور کا مظہر تھی۔ یہی چیز ہے جسے سنت بھی کہا جاتا ہے اور وحیِٔ غیرمتلو بھی، یعنی “وہ وحی جو تلاوت کے لیے نہیں ہے”۔
دوسری بات یہ کہ دین کا علم جن ذرائع سے ہمیں ملا ہے ان کی ترتیب اس طرح ہے سب سے پہلے قرآن! پھر وہ سنتیں جو تواتر عملی کے ساتھ حضورؐ سے منتقل ہوئی ہیں، یعنی جن پر شروع سے آج تک امت میں مسلسل عمل ہوتا رہا ہے۔ پھر آپؐ کے وہ احکام اور آپؐ کی وہ تعلیمات و ہدایات جو متواتر یا مشہور روایات کے ذریعہ سے ہم تک پہنچی ہیں۔ پھر وہ اخبار آحاد جن کی سند بھی قابل اعتماد ہے، جو قرآن اور متواترات سے بھی مطابقت رکھتی ہیں اور باہم ایک دوسرے کی تائید و تشریح بھی کرتی ہیں۔ پھر وہ اخبار آحاد جو سند کے اعتبار سے بھی صحیح ہیں اور کسی قابل اعتماد چیز سے متصادم بھی نہیں ہیں۔
ان ذرائع سے جو کچھ بھی ہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پہنچا ہے وہ شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ اس کے بعد وہ مرحلہ آتا ہے جہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کوئی قول یا فعل جو حضورؐ کی طرف منسوب کیا گیا ہے وہ واقعی حضورؐ کا قول و فعل ہے یا نہیں۔ یہ سوال دراصل ان روایات کے بارے میں پیدا ہوتا ہے:
(1) جن کی سند تو قوی ہے مگر ان کا مضمون کسی زیادہ معتبر چیز سے متصادم نظر آتا ہے۔
(2) جن کی سند قوی ہے مگر وہ باہم متصادم ہیں اور ان کا تصادم رفع کرنے میں مشکل پیش آتی ہے۔
(3) جن کی سند قوی ہے مگر وہ منفرد روایتیں ہیں اور معنی کے لحاظ سے ان کے اندر کچھ غرابت محسوس ہوتی ہے۔
(4) جن کی سند میں کسی نوعیت کی کمزوری ہے مگر معنی میں کوئی قباحت نظر نہیں آتی۔
(5) جن کی سند میں بھی کلام کی گنجائش ہے اور معنی میں بھی۔
اب اگر کوئی بحث ان دوسری قسم کی روایات میں پیدا ہو تو اسے یہ دعویٰ کرنے کے لیے دلیل نہیں بنایا جا سکتا کہ پہلی قسم کے ذرائع سے جو کچھ ہمیں نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے پہنچا ہے وہ بھی مشکوک ہے۔
مزید برآں یہ بھی جان لینا چاہیے کہ دین میں جو چیزیں اہمیت رکھتی ہیں وہ سب ہمیں پہلی قسم کے ذرائع سے ملی ہیں اور دوسرے ذرائع سے آنے والی روایات اکثر و بیشتر محض جزوی و فروعی معاملات سے متعلق ہیں جن میں ایک مسلک یا دوسرا مسلک اختیار کر لینے سے درحقیقت کوئی بڑا فرق واقع نہیں ہوتا۔ ایک شخص اگر تحقیق کر کے ان میں سے کسی روایت کو سنت کی حیثیت سے تسلیم کرے اور دوسرا تحقیق کر کے اسے سنت نہ مانے تو دونوں ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پیرو مانے جائیں گے۔ البتہ ان لوگوں کو حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا پیرو نہیں مانا جا سکتا جو کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا قول و فعل اگر ثابت بھی ہو کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم ہی کا قول و فعل ہے تب بھی وہ ہمارے لیے آئین و قانون نہیں ہے۔
احادیث میں اختلاف کی حقیقت
احادیث کے “انتہائی مشکوک” اور “ناقابل اعتماد” ہونے کی ایک وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ “بہت کم احادیث ہیں جن میں یہ جامعین حدیث متفق ہوں۔” یہ ایک ایسا دعویٰ ہے جو سرسری طور پر چند مختلف احادیث پر ایک نگاہ ڈال کر تو کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر تفصیل کے ساتھ کتب حدیث کا متقابل مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے درمیان اتفاق بہت زیادہ اور اختلاف بہت کم ہے۔ پھر جن میں اختلاف ہے، ان کا جائزہ لیا جائے تو زیادہ تر اختلافات حسب ذیل چار نوعیتوں میں سے کسی نوعیت کے پائے جاتے ہیں :
ایک یہ کہ مختلف راویوں نے ایک ہی بات یا واقعہ کو مختلف الفاظ میں بیان کیا ہے اور ان کے درمیان معانی میں کوئی اختلاف نہیں ہے یا مختلف راویوں نے ایک ہی واقعہ یا تقریر کے مختلف اجزا نقل کیے ہیں۔
دوسرے یہ کہ خود حضور ﷺ نے ایک مضمون کو مختلف الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔
تیسرے یہ کہ خود حضورﷺ نے مختلف مواقع پر مختلف طریقوں سے عمل فرمایا ہے۔
چوتھے یہ کہ ایک حدیث پہلے کی ہے اور دوسرے حدیث بعد کی اور اس نے پہلی کو منسوخ کر دیا ہے۔
ان چار اقسام کو چھوڑ کر جن احادیث کا باہمی اختلاف رفع کرنے میں واقعی مشکل پیش آتی ہے ان کی تعداد پورے ذخیرۂ حدیث میں ایک فی صدی سے بھی بہت کم ہے۔ کیا چند روایات میں اس خرابی کا پایا جانا یہ فیصلہ کر دینے کے لیے کافی ہے کہ پورا ذخیرۂ حدیث مشکوک اور ناقابل اعتماد ہے؟ روایات کسی ایک ناقابل تقسیم کِل کا نام نہیں ہے، جس کے کسی جز کے ساقط ہو جانے سے کِل کا ساقط ہو جانا لازم آئے۔ ہر روایت اپنی ایک منفرد حیثیت رکھتی ہے اور اپنی جداگانہ سند کے ساتھ آتی ہے۔ اس بنا پر ایک دو نہیں، دو چار سو روایتوں کے ساقط ہو جانے سے بھی بقیہ روایات کا سقوط لازم نہیں آ سکتا۔ علمی تنقید پر جو جو روایات بھی پوری اتریں انہیں ماننا ہی ہو گا۔
محدثین کے درمیان اختلاف کی ایک اور صورت یہ ہے کہ کسی روایت کی سند کو ایک محدث اپنی تنقید کے اعتبار سے درست سمجھتا ہے اور دوسرا محدث اسے کمزور قرار دیتا ہے۔ یہ رائے اور تحقیق کا اختلاف ہے جس سے پریشان ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔ کیا عدالتوں میں کسی شہادت کو قبول کرنے اور نہ قبول کرنے پر اختلاف کبھی نہیں ہوتا؟
بادی النظر میں یہ بات بالکل صحیح معلوم ہوتی ہے کہ ایسی فعلی اور قولی احادیث کو تواتر کا درجہ حاصل ہونا چاہیے جن کے دیکھنے اور سننے والے بکثرت ہوں۔ ان میں اختلاف نہ پایا جانا چاہۓ۔ لیکن ہر شخص بادنیٰ تامل یہ سمجھ سکتا ہے کہ جس واقعہ کو بکثرت لوگوں نے دیکھا ہو یا جس تقریر کو بکثرت لوگوں نے سنا ہو اس کو نقل کرنے یا اس کے مطابق عمل کرنے میں سب لوگ اس قدر متفق نہیں ہو سکتے کہ ان کے درمیان یک سرمو فرق نہ پایا جائے۔ اس واقعہ یا اس تقریر کے اہم اجزا میں تو سب کے درمیان ضرور اتفاق ہو گا مگر فروعی امور میں بہت کچھ اختلاف بھی پایا جائے گا اور یہ اختلاف ہر گز اس بات کی دلیل نہ ہو گا کہ وہ واقعہ سرے سے پیش ہی نہیں آیا۔ مثال کے طور پر آج میں ایک تقریر کرتا ہوں اور کئی ہزار آدمی اس کو سنتے ہیں۔ جلسہ ختم ہونے کے چند گھنٹے بعد ہی (مہینوں اور برسوں بعد نہیں بلکہ چند ہی گھنٹوں بعد) لوگوں سے پوچھ لیجیئے کہ مقرر نے کیا کہا؟ آپ دیکھیں گے کہ تقریر کا مضمون نقل کرنے میں سب کا بیان یکساں نہ ہو گا۔ کوئی کسی ٹکڑے کو بیان کرے گا، کوئی کسی ٹکڑے کو۔ کوئی کسی جملے کو لفظ بلفظ نقل کرے گا، کوئی اس مفہوم کو جو اس کی سمجھ میں آیا ہے اپنے الفاظ میں بیان کر دے گا۔ کوئی زیادہ فہیم آدمی ہو گا اور تقریر کو ٹھیک ٹھیک سمجھ کر اس کا صحیح ملخص بیان کرے گا۔ کسی کی سمجھ زیادہ اچھی نہ ہو گی اور وہ مطلب کو اپنے الفاظ میں اچھی طرح ادا نہ کر سکے گا۔ کسی کا حافظہ اچھا ہو گا اور تقریر کے اکثر حصے لفظ بلفظ نقل کر دے گا۔ کسی کی یاد اچھی نہ ہو گی اور وہ نقل و روایت میں غلطیاں کرے گا۔”
اب اگر کوئی شخص اس اختلاف کو دیکھ کر یہ کہہ دے کہ میں نے سرے سے کوئی تقریر ہی نہیں کی، یا جو تقریر کی وہ از سرتاپا غلط نقل کی گئی تو یہ صحیح نہ ہو گا بخلاف اس کے اگر تقریر کے متعلق تمام اخبارِ آحاد کو جمع کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ اس امر میں سب کے درمیان اتفاق ہے کہ میں نے تقریر کی، فلاں جگہ کی، فلاں وقت کی۔ بہت سے آدمی موجود تھے اور تقریر کا موضوع یہ تھا۔ پھر تقریر کے جن جن حصوں کے متعلق زیادہ سے زیادہ اتفاق لفظاً یا معناً پایا جائے گا، وہ زیادہ مستند سمجھے جائیں گے اور ان سب کو ملا کر تقریر کا ایک مستند مجموعہ تیار کر لیا جائے گا اور جن حصوں کے بیان میں ہر راوی منفرد ہو گا وہ نسبتاً کم معتبر ہوں گے مگر ان کو موضوع اور غلط کہنا صحیح نہ ہو گا۔ تاوقتیکہ وہ تقریر کی پوری اسپرٹ کے خلاف نہ ہوں، یا کوئی اور بات ان میں ایسی نہ ہو جس کی وجہ سے ان کی صحت مشتبہ ہو جائے، مثلاً تقریر کے معتبر حصوں سے مختلف ہونا، یا مقرر کے خیالات اور اندازِ بیان اور افتادِ مزاج کے متعلق جو صحیح معلومات لوگوں کے پاس پہلے سے موجود ہیں ان کے خلاف ہونا۔”
( تفہیمات، جلد اول، ص 330)