اعتراض: قرآن پر ایمان لانے کے لئے رسولؐ کی رسالت پر ایمان لانا ضروری ہے۔ پس اسی طرح روایتوں کو حدیث ِرسولؐ ماننے کے لئے تمام راویوں پر ایمان لانا ضروری ہوگا۔ تو کیا ہمیں اللہ اور رسولؐ کی طرف سے اَن گنت راویوں پر ایمان لانے کی تکلیف دی گئی ہے؟
تبصرہ:
1. میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ کیا آپ نے حضورؐ کو خود دیکھا ہے؟ اور حضورؐ پر قرآن کے نزول کا بذاتِ خود مشاہدہ کیا ہے؟ نہیں اور یقینا نہیں۔ بلکہ آپ تو چودھویں صدی میں پیداہوئے ہیں۔ اب آپ بتائیے کہ آپ کو اس بات کا علم کیسے ہوا کہ حضور پیغمبر تھے؟ اور آپ پر یہی قرآن نازل ہوا تھا جو اس وقت ہمارے ہاں متداول ہے؟ آپ یہی کہیں گے کہ اس امت کے اجتماعی نقل و تواتر سے یہ قرآن ہم تک پہنچا ہے، اس لئے ہم اس کی صحت کا یقین رکھتے ہیں۔
اب مجھے عرض کرنے دیجئے کہ آپ کے مقرر کئے ہوئے اُصول کے مطابق قرآن پر ایمان لانے کے لئے صرف حضورؐ کی رسالت پرایمان لانا کارآمد نہ ہوسکے گا،بلکہ اس چودہ سو برس کے دوران پیداہونے والے تمام مسلمان مردوں اور عورتوں پر (خواہ زاہد و متقی ہوں، خواہ فاسق و فاجر) ایمان لانا ہوگا تو کیا ہمیں اللہ اور اس کے رسولؐ کی طرف سے اس اُمت کے اَن گنت نیک و بدانسانوں پر ایمان لانے کی تکلیف دی گئی ہے؟ إنا للہ
2. قرآن نے جو یہ حکم دیا ہے کہ اگر کوئی فاسق خبر لائے تو تحقیق کرلو۔ اب آپ ہی بتائیے کہ اگر اُسوہ ٔ رسولؐ کے متعلق کوئی شخص کوئی خبر دے تو قرآن کے اس اصول اور حکم پر عمل کیا جائے یا نہ کیا جائے؟ اگر قرآن کے اس حکم پر عمل کیا گیا، اور اس کی بتائی ہوئی خبر قابل قبول ثابت ہوئی تو کیا اس خبر کو ماننے کیلئے اس شخص پر ایمان لانا پڑے گا؟ اگر ایمان لانا پڑے گا تو پھر ایسے جتنے بھی افراد پر ایمان لانا پڑےیہ تو عین حکم قرآنی کا اتباع ہوگا۔ اور اگر نہیں لانا پڑے گا تو پھر آپکے اس چیخ و پکار کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے کہ روایتوں کو قبول کرنے کا مطالبہ کرکے درحقیقت ہم سے اَن گنت راویوں پر ایمان لانے کا مطالبہ کیا جارہا ہے؟
اپنے تفقه في الدین اور تدبر فی القرآن کی کچھ تو لاج رکھنی تھی۔
اعتراض:
“قرآنِ كريم پر ہمارا ايمان ہے اور اس پر ايمان لانے كا ہم كو حكم ديا گيا ہے … ليكن اس كے برخلاف نہ حديث پر ہمارا ايمان ہے، نہ اس پر ايمان لانے كا حكم ديا گيا ہے، نہ حديث كے رواة پر ہمارا ايمان ہے، نہ ان پر ايمان لانے كا ہم كو حكم ديا گيا ہے، نہ حديث كى سند ميں جو رجال ہيں ، ان پر ہمارا ايمان ہے، نہ ان پر ايمان لانے كا ہم كو حكم ديا گيا ہے۔( طلوع اسلام، مئی 2005ء ، ص25تا 26)
جواب:
کیا قرآن بغیر کسی واسطے کے آپ تک پہنچا ہے؟ اگر یہ سينكڑوں ، ہزاروں اور كروڑوں افراد كے تواتر سے آپ تك پہنچا ہے تو کیاآپ ان كروڑوں افراد پر بھی ايمان لائے؟ ان سب پر ايمان لانے كا آپ كو کہیں حكم ديا گيا تھا تو ہمیں بھی دکھائیں ؟؟
آج سے آپ ہر گز كسى خبر دينے والے كى خبر اور كسى شاہد كى شہادت كى طرف كان بهى نہ دهرئيے گا، ورنہ اس كامطلب يہ ہوگا كہ آپ اس خبررساں اور اس شاہد پر ايمان لارہے ہيں جس كا اللہ نے آپ كو حكم نہيں دياہے اور يہ جو ہميشہ سے دنيا بهر كى عدالتوں ميں شاہدوں كے بيانات اور ان كى شہادتيں سنى اور قبول كى جاتى رہى ہيں ، آپ جيسے نكتہ سنج حضرات كے نزديك سارے قضاة كرام اور جج صاحبان ان شاہدوں پر ايمان ہى لايا كرتے ہيں حالانكہ ايسى ‘غير يقينى اور غير ايمانى چيزوں ‘ پر ايمان لانے كا اُنہيں حكم ہى نہيں ديا گيا-
مزيد آگے بڑهئے اور ديكهئے كہ حضورِ اكرمﷺاور خلفاے راشدين نے كسى مخبر كى خبر پر اگر اعتبار و اعتماد كيا تها ياكسى گواہ كى گواہى كو قبول كيا تها تو مقالہ نگار كى اس عجيب منطق كى رو سے رسولِ اللہ بهى اور خلفاے راشدين بهى مخبر و شاہد پر ايمان لانے والے ٹھہرتے ہيں ۔۔سمجھ ميں نہيں آتا مقالہ نگار اور ان كے ہم نوا منكرين حديث نے سارى دنيا كو جاہل اور احمق سمجھ ليا ہے يا يہ ان كے مبلغ علم كا كرشمہ ہے جو ايسے مضحكہ خيز ‘نوادرات’ ان كے قلم سے صادر ہورہے ہيں ۔
ہماری گزشتہ گذارشات سے واضح ہوچکا ہے کہ منکرین حد یث جس چیز کو ایک ‘ٹھوس حقیقت’ سمجھے بیٹھے ہیں وہ درحقیقت ایک پھسپھسا تخیل ہے جس کی حیثیت﴿وَمَثَلُ كَلِمَةٍ خَبيثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبيثَةٍ اجتُثَّت مِن فَوقِ الأَرضِ ما لَها مِن قَرارٍ ٢٦ ﴾… سورة ابراهيم” سے زیادہ نہیں ہے۔
اگر کوئی ٹھوس حقیقت ہے تو صرف یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ اور اس کی کتاب پر ایمان لانافرض ہے، اسی طرح رسول اللہ ﷺ کی رسالت پر ایمان لانا، آپ کی اطاعت کرنا، آپ کے فیصلوں کو دل کی تنگی و ناگواری کے بغیر تسلیم کرنا اور ان فیصلوں کے مقابل میں اپنے آپ کو خود مختار نہ سمجھنا، آپ کے اُسوے اور طریق عمل کی پیروی کو رضاے الٰہی اور نجاتِ آخرت کا مدار سمجھنا اور آپ کے اوامر و نواہی کی پابندی کرنا فرض ہے۔ یہ سارا فرض خود قرآن نے عائد کیا ہے، اس فرض کو عائد کرنے کے بعد اس نے دین کے بڑے اہم اہم اور بنیادی قسم کے مسائل میں خاموشی اختیار کرلی ہے۔ نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم سینکڑوں جگہ دیا ہے مگر ان کی تفصیلات سے خاموشی ہے۔ اسی طرح اس نے زندگی کے بے شمار مسائل میں صرف بعض بنیادی اُمور کی طرف اشارہ کرکے خاموشی اختیار کرلی ہے۔ کیونکہ اس نے باقی تفصیلات کا دارو مدار اُسوہ ٔ رسولؐ پر رکھ دیا ہے۔
اب جو لوگ یہ کہتے پھر رہے ہیں کہ قرآن سے باہر اُسوۂ رسولؐ کہیں بھی محفوظ نہیں رہ گیا ہے، اور احادیث کے نام سے جو ذخائر اُمت کے ہاتھ میں متداول ہیں، ان کی کوئی حیثیت اور کوئی مقام نہیں، وہ درحقیقت قرآن کو ناقابل عمل اور اس کی رہنمائی کو سراپا لغو سمجھ رہے ہیں، اور انکارِ حدیث کا لبادہ اوڑھ کر قرآنی تعلیمات کو روندنے اور کچلنے کی کوشش کررہے ہیں۔یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو عاجز و درماندہ اور مجبور و بے بس سمجھ رہے ہیں کہ اس نے اُسوۂ رسولؐ کی پیروی کا حکم تو دے دیا اور اسے مدارِ نجات تو ٹھہرا دیا، لیکن چند ہی برس بعد جب چند ‘ایرانی سازشیوں’ نے اس اُسوۂ رسولؐ کے خلاف ‘سازش’کی تو اپنی تمام تر قوت و طاقت، ملک و جبروت اور حکمت و قہرمانی کے باوجود ان کی ‘سازش’ کو ناکام نہ بنا سکا، اُمت ِمرحومہ کی دستگیری نہ کرسکا اور ہمیشہ کے لئے گمراہی میں بھٹکتا ہوا چھوڑ دیا۔
یہ لوگ یہودی مستشرقین کی پلائی ہوئی شراب ‘حقیقت پسندی’ کے نشے میں بدمست ہوکر ساری اُمت کو بیوقوت سمجھ بیٹھے ہیں اور سول اللہ ﷺ کی بتائی ہوئی شاہراہِ ہدایت سے کٹ کر اور لوگوں کو کاٹ کر اپنی عقلی تک بندیوں کے خار زار پر دوڑانا چاہتے ہیں،
﴿وَمَن يُشاقِقِ الرَّسولَ مِن بَعدِ ما تَبَيَّنَ لَهُ الهُدىٰ وَيَتَّبِع غَيرَ سَبيلِ المُؤمِنينَ نُوَلِّهِ ما تَوَلّىٰ وَنُصلِهِ جَهَنَّمَ ۖ وَساءَت مَصيرًا ١١٥ ﴾… سورة النساء
” جو شخص ہدایت واضح ہوجانے کے بعد رسول للہ ؐ کی مخالفت اختیار کرے گا، اور مؤمنین کی راہ سے الگ تھلگ اپنی راہ بنائے گا، ہم اسے اسی راہ پر ڈال دیں گے جسے اس نے اختیار کیاہے، اور اسے جہنم میں جلائیں گے اور وہ بدترین ٹھکانہ ہے۔”
یہ بات واضح ہے کہ قرآن اور صاحب ِقرآنﷺكے فرمودات ہم تك ايك ہى ذرائع سے پہنچے ہيں ، لہٰذا اگر پہنچانے والے قابل اعتماد ہيں تودونوں (قرآن اور رواياتِ حديث) كو ہم تك پہنچانے ميں قابل اعتماد ہيں اور اگر ناقابل اعتماد ہيں تب بهى دونوں كو ہم تك پہچانے ميں ناقابل اعتماد ہيں
-“ایک منکر حدیث مقالہ نگار اس بات سے اس طرح جان چھڑاتے ہیں ” قرآنِ كريم پر ايمان لانے كے بعديہ سوال ہى باقى نہيں رہتا كہ يہ قرآن كن ذرائع سے ہم تك پہنچا ہے-” یہ بات دراصل اس مفروضہ پر قائم ہے كہ سب سے پہلے ہمارے پاس قرآن آيا ہم فوراً ہى اس پر ايمان لے آئے لہٰذا ايمان لا ڈالنے كے بعد اب يہ سوال ہى باقى نہيں رہتا كہ يہ كن ذرائع سے ہم تك پہنچا ہے۔حالانكہ امر واقعہ يہ نہيں ہے كہ قرآن ہمارے پاس پہلے آيا ہو اور ہم اس پر ايمان لائے ہوں ، پهر قرآن نے ہميں محمد بن عبداللہ سے متعارف كروايا ہو، تب قرآن كے كہنے پر ہم نے اُنہيں محمد رسول اللہﷺ تسليم كيا ہو- بلكہ واقعاتى صورتِ حال يہ ہے كہ محمد رسول اللہﷺہمارے پاس پہلے آئے، ہم ان كى رسالت پر ايمان لائے، تب ان ہى كے كہنے پر (حديث رسول كى بنياد پر) ہم نے قرآن كو قرآن تسليم كيا ہے- اب يہ كس قدر عجيب بات ہے كہ محمد رسول اللہﷺ كى جس زبان پر اعتماد كرتے ہوئے ہم نے قرآن كو قرآن مانا ہے، اُسى زبان كوايمان بالقرآن كے فوراً بعد ہم نظر انداز كرديں اور خداے كائنات كى طرف سے مامور من اللہ نمائندہ ہونے كى حيثيت سے جو سركارى تشريح، زبان ترجمان وحى نے فرمائى ہے وہ يكسر مہمل اور بے معنى ہوكر رہ جائے۔
قرآن کی ماسٹر کاپی:پرویز صاحب کی غلط بیانی
پرویز صاحب بھی اسی حقیقت سے جان چھڑانے کے لیے ایک پتا پھینکتے ہیں :
’’اس طرح یہ کتاب (قرآن) ساتھ کے ساتھ محفوظ ہوتی چلی گئی اور جب نبی اکرم ﷺ اس دنیا سے تشریف لے گئے ہیں تو یہ بعینہ اسی شکل اور اسی ترتیب میں جس میں یہ اس وقت ہمارے پاس ہے، لاکھو ں مسلمانوں کے پاس موجود اور ہزاروں کے سینوں میں محفوظ تھی۔ اس کی ایک مستند کاپی (Master Copy) مسجد نبوی میں ایک ستون کے قریب، صندوق میں رکھی رہتی تھی۔ یہ وہ نسخہ تھا جس میں نبی اکرمﷺ سب سے پہلے وحی لکھوا یا کرتے تھے۔ اسے اُم یا امام کہتے تھے اور اس ستون کو جس کے قریب یہ نسخہ رہتا تھا، اسطوانہ مصحف کہا جاتا تھا اسی ستون کے پاس بیٹھ کر صحابہ کرامؓ نبی اکرم ﷺ کی زیر نگرانی اس مصحف سے اپنے اپنے مصاحف نقل کیا کرتے تھے۔ اس کتاب کی اشاعت اس قدر عام ہوگئی تھی کہ جب نبی اکرمﷺ نے اپنے آخری حج (حجۃ الوداع) کے خطبہ میں لاکھوں نفوس کو مخاطب کرکے پوچھا کہ میں نے تم تک خدا کا پیغام پہنچادیا ہے؟ تو چاروں طرف سے یہ آواز گونج اٹھی کہ ہاں! آپؐ نے اسے پہنچادیا ہے۔ یہی تھی وہ کتاب جس کے متعلق حضرت عمرؓ نے نبی اکرمﷺ کی حیاتِ طیبہ کے آخری لمحات میں دیگر صحابہ کرامؓ کی موجودگی میں فرمایا تھا کہ ’’حسبنا کتاب اللّٰہ‘‘ ہمارے لیے خدا کی کتاب کافی ہے۔‘‘ (طلوع اسلام۔ ص: ۱۱۔ فروری ۱۹۸۲ء)
یہ ایک صریح تاریخی غلط بیانی ہے ایسے کسی نسخے کے وجودکا ذکر تاریخ میں نہیں ملتا۔ پرویز صاحب کو غلط بیانی کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ وہ حدیث پر جتنے اعتراضات وارد کرچکے تھے ان سب کا اطلاق قرآن کی جمع و تدوین کے حوالے سے بھی ممکن تھا لہٰذا ان سے بچنے کے لیے اپنی طرف سے یہ روایت گھڑی دی کہ قرآن صندوق میں بند تھا