حدیث اور فحش نگاری کا الزام
ایک صاحب نے ایسی کچھ احادیث نقل کیں اور اسکے بعد لکھا مذکورہ بالا احادیث میں جو مضامین بیان کیے گئے ہیں، ان کی روایت حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت ام سلمہ کی طرف منسوب ہیں۔ میں یہ باور کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں کہ یہ دونوں ازواج ہر لحاظ سے کامل تھیں۔ انہوں نے اسی عریانی کے ساتھ اپنی ان پرائیویٹ باتوں کو ظاہر کر دیا ہو گا جو ان کے اور محمد رسول اللہ کے درمیان میاں بیوی کی صورت میں ہوئی ہوں گی۔
انکار حدیث کے مذہب سے منسلک لوگاسی طرح بہت سی احادیث نقل کرتے ہیں۔ ان کی پیش کردہ احادیث پر فرداً فرداً کلام کرنے سے پہلے چند اصولی باتیں بیان کر دینی ضروری ہیں، کیونکہ موجودہ زمانے کے “تعلیم یافتہ” اصحاب بھی بالعموم انہی باتوں کو نہ سمجھنے کی وجہ سے اسی طرح کی احادیث پر الجھتے ہیں۔
1. انسان کی داخلی زندگی کے چند گوشے ایسے ہیں جن کے متعلق اس کو ضروری تعلیم و تربیت اور ہدایات دینے میں شرم کا بے جا احساس اکثر مانع ہوتا رہا ہے اور اسی وجہ سے اعلیٰ ترقی یافتہ قومیں تک ان کے بارے میں طہارت و نظافت کے ابتدائی اصولوں تک سے ناواقف رہی ہیں۔ شریعت الہٰی کا یہ احسان ہے کہ اس نے ان گوشوں کے بارے میں بھی ہم کو ہدایات دیں اور ان کے متعلق قواعد و ضوابط بتا کر ہمیں غلطیوں سے بچایا۔ غیر قوموں کے صاحب فکر لوگ اس چیز کی قدر کرتے ہیں، کیونکہ ان کی قومیں اس خاص شعبۂ زندگی کی تعلیم و تربیت سے محروم ہیں۔ مگر مسلمان جن کو گھر بیٹھے یہ ضابطے مل گئے، آج اس تعلیم کی ناقدری کر رہے ہیں اور عجیب لطیفہ ہے کہ ان ناقدری کے اظہار میں وہ لوگ بھی شریک ہو جاتے ہیں جو اہل مغرب کی تقلید میں (Sex Education) تک مدارس میں رائج کرنے کے قائل ہیں۔
2. اللہ تعالیٰ نے جس نبی پاک کو ہماری تعلیم کے لیے مامور فرمایا تھا، اسی کے ذمہ یہ خدمت بھی کی تھی کہ اس خاص شعبۂ زندگی کی تعلیم و تربیت بھی ہمیں دے۔ اہل عرب اس معاملہ میں ابتدائی ضابطوں تک سے ناواقف تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو ان کے مردوں کو بھی اور عورتوں کو بھی طہارت، استنجا اور غسل وغیرہ کے مسائل، نیز ایسے ہی دوسرے مسائل نہ صرف زبان سے سمجھائے بلکہ اپنی ازواج مطہرات کو بھی اجازت دی کہ آپ کی خانگی زندگی کے ان گوشوں کو بے نقاب کریں اور عام لوگوں کو بتائیں کہ حضورﷺ خود کن ضابطوں پر عمل فرماتے تھے۔
3. اللہ تعالیٰ نے اسی ضرورت کی خاطر حضور ﷺ کی ازواج مطہرات کو مومنین کے لیے ماں کا درجہ عطا فرمایا تھا تا کہ مسلمان ان کی خدمت میں حاضر ہو کر زندگی کے ان گوشوں کے متعلق رہنمائی حاصل کر سکیں اور جانبین میں ان مسائل پر گفتگو کرتے ہوئے کسی قسم کے ناپاک جذبہ کی دخل اندازی کا خطرہ نہ رہے۔ یہی وجہ ہے کہ حدیث کے پورے ذخیرہ میں کوئی ایک نظیر بھی اس بات کی نہیں ملتی کہ جو باتیں امہات المومنین سے پوچھی گئی ہیں وہ خلفائے راشدین یا دوسرے صحابیوں کی بیگمات سے بھی کبھی پوچھی گئی ہوں اور انہوں نے مردوں سے اس نوعیت کی گفتگو کی ہو۔
4. لوگ اپنے گمان سے، یا یہود و نصاریٰ کے اثر سے جن چیزوں کو حرام یا مکروہ اور ناپسندیدہ سمجھ بیٹھے تھے، ان کے متعلق صرف یہ سن کر ان کا اطمینان نہیں ہوتا تھا کہ شریعت میں وہ جائز ہیں۔ حکم جواز کے باوجود ان کے دلوں میں یہ شک باقی رہ جاتا تھا کہ شاید یہ کراہت سے خالی نہ ہو اس لیے وہ اپنے اطمینان کی خاطر یہ معلوم کرنا ضروری سمجھتے تھے کہ حضور ﷺ کا اپنا طرز عمل کیا تھا۔ جب وہ یہ جان لیتے تھے کہ حضور ﷺ نے خود فلاں عمل کیا ہے، تب ان کے دلوں سے کراہت کا خیال نکل جاتا تھا، کیونکہ وہ حضور ﷺ کو ایک مثالی انسان سمجھتے تھے اور ان کو یقین تھا کہ جو کام آپ نے کیا ہو وہ مکروہ یا پایۂ ثقاہت سے گرا ہوا نہیں ہو سکتا۔ یہ ایک اہم درجہ ہے جس کی بنا پر ازواج مطہرات کو حضور ﷺ کی خانگی زندگی کے بعض ایسے معاملات کو بیان کرنا پڑا جو دوسری خواتین نہ بیان کر سکتی ہیں، نہ ان کو بیان کرنا چاہیے۔
5. احادیث کا یہ حصہ درحقیقت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی عظمت اور ان کی نبوت کے بڑے اہم شواہد میں شمار کرنے کے لائق ہے۔ محمد رسول اللہ کے سوا دنیا میں کون یہ ہمت کر سکتا تھا اور پوری تاریخ انسانی میں کس نے یہ ہمت کی ہے 23 سال تک شب و روز کے ہر لمحے اپنے آپ کو منظر عام پر رکھ دے، اپنی پرائیویٹ زندگی کو بھی پبلک بنا دے اور اپنی بیویوں تک کو اجازت دے دے کہ میری گھر کی زندگی کا حال بھی لوگوں کو صاف صاف بتا دو۔
٭احادیث سے چند مثالیں ٭
معترض کی احادیث بمعہ تبصرہ پیش ہیں۔
حدیث:
عطاء سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی جو سب سے زیادہ پسندیدہ اور عجیب بات دیکھی ہو، وہ بتائیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا رو دیں اور فرمایا: آنحضور ﷺ کی کون سی حالت عجیب اور خوش کن نہیں تھی۔ ایک رات آپ تشریف لائے اور میرے ساتھ میرے بستر یا لحاف میں داخل ہو گئے حتیٰ کہ میرے بدن نے آپ ﷺ کے بدن کو چھو لیا۔ پھر فرمایا اے ابو بکر کی بیٹی، مجھے اپنے رب کی عبادت کرنے دو۔ میں نے عرض کیا: مجھے آپ کا قرب پسند ہے لیکن میں آپ کی خواہش کو قابل ترجیح سمجھتی ہوں۔ پس میں نے آپ ﷺ کو اجازت دے دی۔ آپ ﷺ پانی کے ایک مشکیزے کے پاس تشریف لے گئے۔ پھر آپ ﷺ نے وضو کیا اور زیادہ پانی نہیں بہایا۔ پھر آپ ﷺ کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے اور اتنے روئے کہ آپ ﷺ کے آنسو آپ ﷺ کے سینۂ مبارک پر بہہ نکلے۔ پھر آپ ﷺ نے روتے ہوئے رکوع کیا پھر روتے ہوئے سجدہ کیا، پھر روتے ہوئے سر اٹھایا۔ آپ ﷺ مسلسل اسی طرح روتے رہے یہاں تک کہ بلال آئے اور انہوں نے نماز (کا وقت ہو جانے) کی خبر دی۔ میں نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول، آپ کیوں روتے ہیں حالانکہ اللہ نے آپ کے اگلے پچھلے گناہ معاف کر دیے؟ آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: تو کیا میں ایک شکر گذار بندہ نہ بنوں؟”
تبصرہ:
اس حدیث میں حضرت عائشہ دراصل یہ بتانا چاہتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اگرچہ رہبانیت سے بالکل دور تھے اور اپنی بیویوں سے وہی ربط و تعلق رکھتے تھے جو دنیا کے ہر شوہر کا اپنی بیوی سے ہوتا ہے، لیکن اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے آپ کا ایسا گہرا تعلق تھا کہ بستر میں بیوی کے ساتھ لیٹ جانے کے بعد بھی بسا اوقات یکایک آپ پر عبادت کا شوق غالب آ جاتا تھا اور آپ دنیا کا لطف و عیش چھوڑ کر اس طرح اٹھ جاتے تھے کہ گویا آپ کو خدا کی بندگی کے سوا کسی چیز سے دلچسپی نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی حیات طیبہ کا یہ مخفی گوشہ آپ کی اہلیہ کے سوا اور کون بتا سکتا تھا؟ اور اگر یہ روشنی میں نہ آتا تو آپ کے اخلاص لِلہ کی صحیح کیفیت دنیا کیسے جانتی؟ مجلس وعظ میں خدا کی محبت اور خشیت کا مظاہرہ کون نہیں کرتا۔ سچی اور گہری محبت و خشیت کا حال تو اسی وقت کھلتا ہے جب معلوم ہو کہ گوشۂ تنہائی میں آدمی کا رنگِ زندگی کیا ہوتا ہے۔
حدیث:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: نبی صلی اللہ علیہ و سلم اپنی کسی بیوی کا بوسہ لیتے تھے اور پھر وضو کیے بغیر نماز پڑھ لیتے تھے۔
تبصرہ:
اس حدیث میں دراصل بتانے کا مقصود یہ ہے کہ بوسہ بجائے خود وضو توڑنے والے چیز نہیں ہے جب تک کہ غلبۂ جذبات سے کوئی رطوبت خارج نہ ہو جائے۔ عام طور پر لوگ خود بوسے ہی کو ناقصِ وضو سمجھتے تھے اور ان کا خیال یہ تھا کہ اس اگر وضو ٹوٹتا نہیں ہے تو کم از کم طہارت میں فرق ضرور آ جاتا ہے۔ حضرت عائشہ کو ان کا شک دور کرنے کے لیے یہ بتانا پڑا کہ حضور ﷺ نے خود اس کے بعد وضو کیے بغیر نماز پڑھی ہے۔ یہ مسئلہ دوسرے لوگوں کے لیے چاہے کوئی اہمیت نہ رکھتا ہو، مگر جنہیں نماز پڑھنی ہو، ان کو تو یہ معلوم ہونے کی بہرحال ضرورت ہے کہ کس حالت میں وہ نماز پڑھنے کے قابل ہوتے ہیں اور کس حالت میں نہیں ہوتے۔
حدیث:
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ام سلیم نے کہا: اے اللہ کے رسول! اللہ حق (بات) سے شرم روا نہیں رکھتا۔ پس کیا عورت پر غسل ہے جب اسے احتلام ہو؟ آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، ہاں، جب وہ پانی دیکھے (یعنی جبکہ فی الواقع خواب میں اسے انزال ہو گیا ہو)۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا اور کہا: اے اللہ کے رسول، کیا عورت کو بھی احتلام ہوتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں، تیرا سیدھا ہاتھ خاک آلود ہو، آخر اس کا بچہ اس سے کیسے مشابہ ہوتا ہے۔ اور مسلم نے ام سلیم کی روایت میں یہ اضافہ کیا کہ مرد کا مادہ گاڑھا سفید ہوتا ہے اور عورت کا پتلا اور پیلا۔ پس ان میں سے جو بھی غلبہ حاصل کرے اسی سے مشابہت ہوتی ہے۔
تبصرہ:
اس حدیث میں ایک خاتون کو اس مسئلے سے سابقہ پیش آ جاتا ہے کہ اگر ایک عورت اسی طرح کا خواب دیکھے جیسا عام طور پر بالغ مرد دیکھا کرتے ہیں تو وہ کیا کرے۔ یہ صورت چونکہ عورتوں کو بہت کم پیش آتی ہے اس لیے عورتیں اس کے شرعی حکم سے ناواقف تھیں۔ ان خاتون نے جا کر مسئلہ پوچھ لیا اور حضورﷺ نے یہ بتا کر عورت کو بھی مرد ہی طرح غسل کرنا چاہیے، نہ صرف ان کو بلکہ تمام عورتوں کو ایک ضروری تعلیم دے دی۔
اس پر اگر کسی کو اعتراض ہے تو گویا وہ یہ چاہتا ہے کہ عورتیں اپنی زندگی کے مسائل کسی سے نہ پوچھیں اور شرم کے مارے خود ہی جو کچھ اپنی سمجھ میں آئے، کرتی رہیں۔ رہا حدیث کا دوسرا ٹکڑا تو اس میں ایک خاتون کے اظہار تعجب پر حضور ﷺ نے یہ علمی حقیقت بیان فرمائی ہے کہ عورت سے بھی اسی طرح مادہ خارج ہوتا ہے، جس طرح مرد سے ہوتا ہے۔ اولاد ان دونوں کے ملنے سے پیدا ہوتی ہے اور دونوں میں سے جس کا نطفہ غالب رہتا ہے بچے میں اسی کی خصوصیت زیادہ نمایاں ہوتی ہیں۔ اس حدیث کی جو تفصیلات بخاری و مسلم کے مختلف ابواب میں آئی ہیں ان کو ملا کر دیکھیے۔ ایک روایت میں حضور ﷺ کے الفاظ یہ ہیں :”اور کیا اولاد کی مشابہت اس کے سوا کسی اور وجہ سے ہوتی ہے؟ جب عورت کا نطفہ مرد کے نطفے پر غالب رہتا ہے تو ننھیال پر جاتا ہے اور جب مرد کا نطفہ اس کے نطفے پر غالب رہتا ہے تو بچہ ددھیال پر جاتا ہے”۔
منکرین حدیث نے جہالت یا شرارت سے ان احادیث کو یہ معنی پہنائے ہیں کہ مجامعت میں اگر مرد کا انزال عورت سے پہلے ہو تو بچہ باپ پر جاتا ہے ورنہ ماں پر۔ ہم اس ملک کی حالت پر حیران ہیں کہ یہاں جہلا اور اشرار اعلانیہ اس قسم کی علمی دغا بازی کر رہے ہیں اور اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ تک تحقیق کے بغیر اس سے متاثر ہو کر اس غلط فہمی میں پڑ رہے ہیں کہ احادیث ناقابل یقین باتوں سے لبریز ہیں۔
چند مزید احادیث:
1. حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں حیض کی حالت میں برتن سے پانی پیتی تھی اور پھر اسے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی جانب بڑھا دیتی تھی۔ پس آپ ﷺ وہاں منہ رکھتے تھے جہاں میں نے منہ رکھا ہوتا تھا اور آپ پیتے تھے۔ اور میں بحالت حیض ہڈی پر سے گوشت کھاتی تھی اور پھر اسے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو دے دیتی تھی اور آپ ﷺ اس جگہ اپنا منہ رکھتے تھے جہاں میں نے رکھا ہوتا تھا۔
2. حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب میں حائضہ ہوتی تو میں بستر چھوڑ کر چٹائی پر لیٹتی تھی پس ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے مقاربت نہیں کرتے تھے جب تک کہ پاکیزگی حاصل نہیں کر لیتے تھے۔
3. انہی سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ سے فرمایا: مجھے مسجد سے چٹائی اٹھا کر دے دو۔ میں نے عرض کیا کہ میں حیض کی حالت میں ہوں آپ ﷺ نے فرمایا: حیض (کا اثر) تمہارے ہاتھ میں تو نہیں ہے (یعنی تم ہاتھ بڑھا کر مسجد سے چٹائی لے سکتی ہو)۔
تبصرہ:
ان احادیث کو سمجھے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ جنابت اور حیض کی حالت میں انسان کے ناپاک ہونے کا تصور قدیم شریعتوں میں بھی تھا اور شریعت محمدیہ میں بھی پیش کیا گیا۔ لیکن قدیم شریعتوں میں یہودیوں اور عیسائی راہبوں کی مبالغہ آرائی نے اس تصور کو حد اعتدال سے اتنا بڑھا دیا تھا کہ وہ اس حالت میں انسان کے وجود ہی کو ناپاک سمجھنے لگے تھے اور ان کے اثر سے حجاز کے اور خصوصاً مدینے کے باشندوں میں بھی یہ تصور حدِ مبالغہ کو پہنچ گیا تھا۔ خصوصاً حائضہ عورت کا تو اس معاشرے میں گویا پورا مقاطعہ ہو جاتا تھا۔ چنانچہ اسی کتاب مشکوٰۃ میں، جس سے معترض نے یہ حدیث نقل کی ہیں، باب الحیض کی پہلی حدیث یہ ہے کہ “جب عورت کو حیض آتا تھا تو یہودی اس کے ساتھ کھانا پینا اور اس کے ساتھ رہنا سہنا چھوڑ دیتے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے لوگوں کو بتایا کہ اس حالت میں صرف فعل مباشرت ناجائز ہے، باقی ساری معاشرت اسی طرح رہنی چاہیے جیسی عام حالت میں ہوتی ہے۔” لیکن اس کے باوجود ایک مدت تک لوگوں میں قدیم تعصبات باقی رہے اور لوگ یہ سمجھتے رہے کہ جنابت اور حیض کی حالت میں انسان کا وجود کچھ نہ کچھ گندا تو رہتا ہی ہے اور اس حالت میں اس کا ہاتھ جس چیز کو لگ جائے وہ بھی کم از کم مکروہ تو ضرور ہو جاتی ہے۔ ان تصورات کو اعتدال پر لانے کے لیے حضرت عائشہ کو یہ بتانا پڑا کہ حضورﷺ خود اس حالت میں کوئی اجتناب نہیں فرماتے تھے۔ آپﷺ کے نزدیک نہ پانی گندا ہوتا تھا، نہ بستر ، نہ جانماز۔ نیز یہ بھی انہوں نے ہی بتایا کہ حائضہ بیوی کے ساتھ اس کا شوہر صرف ایک فعل نہیں کر سکتا، باقی ہر قسم کا اختلاط جائز ہے۔ ان تعصبات کو حضور ﷺ کا اپنا فعل بتا کر حضرت عائشہ اور دوسری ازواج مطہرات نے نہ توڑ دیا ہوتا تو آج ہمیں اپنی گھریلو معاشرت میں جن تنگیوں سے سابقہ پیش آ سکتا تھا ان کا اندازہ کیا جا سکتا ہے لیکن اپنے ان محسنوں کا شکریہ ادا کرنے کے بجائے ہم اب بیٹھے یہ سوچ رہے ہیں کہ بھلا نبی کی بیوی اور ایسی باتیں بیان کرے!
٭اعتراض :٭
حیا عورت کی فطرت ہے کوئی عورت کسی صورت میں بھی شرمگاہوں (مردانہ ہوں یا زنانہ) کا ذکر نہیں کرتی، آج تک کسی بیوی نے اپنے شوہر سے مباشرت کی التجا نہیں کی اور نہ مرد کے سامنے کبھی عریاں بات کی تو پھر ہم یہ کیسے تسلیم کرلیں کہ حضرت عائشہ غیر مردوں کو اپنے گھر میں اور وہ بھی روزہ کی حالت میں بوس و کنار کی ترغیب دیتی تھیں۔ (دو اسلام ص ۲۰۶۔ ۲۰۷)
جواب:
بے شک حیا عورت کی فطرت ہے لیکن اظہار حق کے معاملہ میں حیا مذموم ہے، یہی وجہ ہے کہ مسائل کے بیان میں ازواج مطہرات نے اخفائے حق سے کام نہیں لیا، اور کنایوں میں مسائل کو حل کردیا، یہ قطعاً صحیح نہیں کہ کسی زوجہ مطہرہ نے شرمگاہوں کا ذکر کیا ہو، اگر ایسی کوئی حدیث ہو، تو بتائیے پھر یہ بھی بتائیے کہ ڈاکٹری و طب یونانی کے کالجوں اور مدرسوں میں تناسل و توالد پر لیکچر دئیے جاتے ہیں یا نہیں اور آج کل کا گندہ معاشرہ ہوتا ہے، لیکن کبھی کسی نے کہا ہے کہ یہ کیا بے حیائی ہے بلکہ اب تو عام اسکولوں میں اس قسم کی ابتدائی تعلیم لازمی ہوگئی ہے، ہر اسکول میں اعضائے تناسل کے متعلق پڑھایا جاتا ہے اس کی شکلیں تک کھینچی جاتی ہے، پڑھانے والی عورتیں ہوتی ہیں، پڑھنے والی بھی عورتیں ہوتی ہیں لیکن اس تعلیم سے ان دونوں کو روکنے والی کوئی چیز نہیں ہوتی ، یہاں عورت کی فطرت کہاں چلی جاتی ہے۔
پھر یہ بھی صحیح نہیں کہ ”حضرت عائشہ نے غیر مردوں کو اپنے گھر میں بوس و کنار کی ترغیب دی تھی” جس شخص سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ بات کہی تھی، آپ ہی کے بیان کے مطابق وہ حضرت ابوبکر کے پوتے عبداللہ تھے (دو اسلام ص ۲۰۶) لہٰذا عبداللہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حقیقی بھتیجے اور محرم تھے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ان کی حقیقی پھوپھی تھیں، اب بتائیے کہ وہ محرم تھے یا نا محرم ، معلوم نہیں آپ لکھتے وقت کچھ غور بھی کرتے ہیں یا نہیں؟ اچھا اب یہ بھی بتائیے کہ اماں یا پھوپھی اپنے بچہ کو اس قسم کے مسائل سے آشنا کرتی ہے یا نہیں، خصوصاً اس وقت جب کہ بچہ مسئلہ کو غلط سمجھا ہو، حضرت عائشہ نے عبداللہ کی غلط فہمی دور کرکے مسئلہ سمجھا دیا اور روزہ میں راہبانہ زندگی کو مہمل قرار دیا۔
٭اعتراض٭
اگر اعتراض اس بات پر ہے کہ یہ فحش الفاظ احادیث رسول اللہ ۖکس طرح ہوسکتے ہیں یا اس طرح کی حدیث کو بنیاد بناکر غیر مسلم اسلام پر بے ہودہ اعتراض کرتے ہیں وغیرہ۔ تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے مشرکین شروع دن ہی سے اسی طرح اسلام و مسلمان کو طعن وتشنیع کا نشانہ بناتے رہے ہیں جیساکہ حدیث میں ہے۔
”سلمان فارسی سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ بعض مشرکوں نے بطور استہزاء کے کہا کہ میں تمہارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جانتا ہوں کہ وہ تمہیں ہر چیز کی تعلیم دیتے ہے یہاں تک کہ قضائے حاجت کے طریقے بھی بتاتے ہے ۔تو سلمان فارسی نے جواب دیا ۔بالکل درست بات ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم قبلہ کی جانب منہ نہ کریں اور نہ ہی دائیں ہاتھ سے استنجا کریں اور تین ڈھیلوں سے کم پر اکتفاء نہ کریں نیز ڈھیلوں میں گوبر اور ہڈی نہ ہو ۔”(مسند احمد 5/437رقم الحدیث 23593قال احمد شاکر اسنادہ صحیح۔)
مذکورہ روایت میں صحابی رسول نے کس قدر فخر کے ساتھ طہارت پر مبنی مسائل کو بیان فرمایا اور ذرہ برابر بھی احساس کمتری کا شکار نہیں ہوئے. منکرین حدیث جس چیز کو اسلام کا جرم سمجھ رہے ہیں ۔صحیح احادیث پر مبنی اس سرمائے پر ہم فخر کرتے ہیں اور” ڈنکے کی چوٹ” پر کہتے ہیں کہ دین اسلام ایک ایسا مکمل ضابطہ حیات ہے کہ ہمیں اپنی رہنمائی کے لئے باہر جانے کا تکلف نہیں کرنا پڑتا۔
یہ لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوة حسنة ہی کا تقاضہ تھا کہ احادیث کے ذریعے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روزو شب اعمال و اقوال خلوت وجلوت سے ضابطہ حیات تیار کروایا جارہا ہے ۔مسائل ڈھل رہے ہیں حرام وحلال جائز وناجائز میں احادیث وسنن کے ذریعے امتیاز کیا جارہا ہے آپ کو یہاں ہر وہ چیز دستیاب ہوگی جس سے تہذیب وتمدن اور انسانی ضابطہ حیات پر روشنی پڑتی ہو ۔ایسے بیش بہا سرمائے پر فخر کرنا چاہئے نہ کہ احساس کمتری کا شکار ہوکر ان پر اعتراضات شروع کردئیے جائیں ۔جہاں تک غیروں کے اعتراضات کا معاملہ ہے تو یہی اعتراض قرآن کی آیت پر بھی ہوسکتے ہیں مثلاً ”افرأیتم ما تمنون ۔ ترجمہ :کہ اچھا ذرا یہ بتلاؤ کہ جو منی تم ٹپکاتے ہو .یا سورہ مریم میں مریم کا حاملہ ہونے کا ذکر ہے ۔ایسے بچگانہ اعتراضات کی بنیاد پر نا قرآن کو چھوڑا جاسکتا ہے نا حدیث کو.