ایک منکر حدیث صاحب ایک حدیث مبارکہ ان الفاظ میں پیش کرتے ہیں کہ عائشہؓ فرماتی ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور میں ایک ہی برتن میں نہاتے تھے صحیح بخاری۔
ایک اورسابقہ منکر حدیث یہ حدیث نقل کرکے لکھتے ہیں “مطلب یہ کہ حضور ازواج کے ہمراہ برہنہ غسل فرمایا کرتے تھے۔ دنیا میں کوئی عورت یہ برداشت نہیں کرسکتی کہ وقت مباشرت کے علاوہ اسکا خاوند اسے برہنہ دیکھ سکے ، پھر سرور کائنات ؐ اور انکی ازواج مطہرات کے متعلق یہ کیسے تسلیم کرلیں کہ وہ اکھٹے غسل فرمایا کرتے تھے ۔ (دو اسلام ص ۲۱۱)
٭جواب٭
یہ روایت صحیح بخاری میں ان الفاظ سے منقول ہے۔عن عائشہ قالت کنت اغتسل أنا والنبیۖ من اناء واحد کلانا جنب(صحیح بخاری کتاب الحیض،رقم الحدیث 299)وکان یأمرنی فاتزرفیبا شرنی وأنا حائض۔ ترجمہ :”عائشہ فرماتی ہیں کہ میں اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی برتن سے غسل فرماتے تھے اور ہم حالت جنابت میں ہوتے ۔اور آپ مجھے ازار باندھنے کا حکم دیتے اور مجھ سے حالت حیض میں اختلاط فرماتے ”(صحیح بخاری کتاب الحیض،رقم الحدیث 300)
معترض نے یہاں حدیث کا ترجمہ کرتے ہوئے تلبیس سے کام لیتے ہوئے محض حدیث پر اعتراض کے لیے ترجمہ کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور میں ایک برتن میں نہاتے تھے حالانکہ صحیح ترجمہ یہ ہے کہ ایک برتن “سے” نہاتے تھے۔
اس حدیث سے جس مسئلہ کی وضاحت ہوتی ہے وہ صرف یہ ہے کہ شوہر اپنی بیوی کے ساتھ غسل کرسکتا ہے آخر اس میں اعتراض کی کیا بات ہے ؟ معترض نے جو تبصرہ کیا ہے ” مطلب یہ کہ حضور ازواج کے ہمراہ برہنہ غسل فرمایا کرتے تھے ” ہم اسکی وضاحت کے لیے چند باتیں عرض کردیتے ہیں ۔
1.ہمارا سوال یہ ہے کہ اس پیش کردہ حدیث میں وہ کون سا لفظ موجود ہے جسکا معنی اور ترجمہ برہنہ ہوتا ہے ؟ پھر کیا یہ کھلی خیانت اور بدیانتی نہیں ہے کہ حدیث رسول میں اپنی طرف سے ایک نازیبا لفظ برہنہ کا اضافہ کرکے حدیث کا مضمون بدل کر اس پر اعتراض کیا جائے ؟ کیا ایک جگہ غسل کرنے کے لیے برہنہ ہونا ضروری ہے ؟ غسل کرنے اور بالکل برہنہ ہونے میں کون سا نقلی و عقلی اور عرفی تلازم ہے ؟کیا کپڑا پہن کر غسل کرنا شرعا اور عقلا محال اور ممنوع ہے ؟ منکرین حدیث کی عقل نے صحیح تصویر دماغ میں کیوں نا تیار کرلی ؟ جبکہ احادیث سے اسکی تائید بھی ہوتی ہے چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں:ما رأیت فرج رسول اللہ ﷺ قط۔ ترجمہ : میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شرم گاہ کو کبھی نہیں دیکھا۔ (ابن ماجہ جلد اول صفحہ 48)اس حدیث سے بھی ثابت ہوا کہ آپ اور ازواج مطہرات برہنہ نہیں نہاتے تھے اور اگر بالفرض محال تاریکی میں برہنہ ہو کر نہائے بھی تو ایک دوسرے کو ننگا نہیں دیکھتے تھے، یہ ننگا دیکھنے کی بات منکرین حدیث کی اپنی گھڑی ہوئی ہے۔
2. آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں چراغ نہیں ہوتا تھا، حضرت عائشہ فرماتی ہیں:میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لیٹی ہوتی تھی اور میرے پیر آپ کے قبلہ کی جانب ہوتے تھے، پس جب آپ سجدہ کرتے تو میرے پیر کو دبا دیتے میں پیر سمیٹ لیتی، پھر جب آپ کھڑے ہو جاتے تو میں پیر پھیلا دیتی اور ان ایام میں گھروں میں چراغ نہیں ہوتے تھے۔ (موطا مالک باب صلوٰۃ اللیل)
یعنی تاریکی کی وجہ سے یہ معلوم نہیں ہوتا تھا کہ آپ سجدہ کے لیے جھک رہے ہیں، لہٰذا آپ کو پیر دبانے کی ضرورت پیش آتی تھی، اگر اجالا ہوتا تو وہ خود بخود آپ کو سجدہ کے لیے جھکتا دیکھ کر پیر سمیٹ لیتیں، دوسری حدیث سنیے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:ایک رات کو میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بستر پر نہیں پایا، تو میں نے ٹٹولا تو میرے ہاتھ آپ کے تلووں پر لگے، آپ سجدہ کر رہے تھے اور آپ کے پاؤں مبارک کھڑے تھے۔ (صحیح مسلم باب مایقال فی الرکوع السجود)
ان دونوں احادیث سے معلوم ہوا کہ آپ کے گھر میں اتنا اندھیرا گھپ ہوتا تھا کہ ایک دوسرے کو دیکھنا محال تھا، لہٰذا حدیث پر جو اعتراض ہے، وہ کالعدم ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز اندھیرے میں پڑھتے تھے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز ایسے وقت میں پڑھتے تھے کہ عورتیں جب نماز پڑھ کر اپنی چادروں میں لپٹی ہوئی واپس ہوتی تھیں تو اندھیرے کے سبب سے پہچانی نہیں جاتی تھیں۔ (موطا امام مالک باب وقوت الصلوۃ۔ بخاری و مسلم)
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ نماز صبح سے فارغ ہونے کے بعد بھی اتنا اندھیرا ہوتا تھا، کہ کسی کو پہچانا نہیں جاسکتا تھا، یہ تو کھلی جگہ کا حال تھا، حجرہ کے اندھیرے کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے، پھر یہ بھی غور فرمائیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں بڑی طویل قرأت کیا کرتے تھے، پھر اس سے پہلے کچھ دیر لیٹے رہتے، اس سے پہلے سنتیں پڑھتے تھے، نہانا ان تمام کاموں سے پہلے ہی ہوتا ہوگا، جب نماز کے بعد کھلی جگہ میں اچھی طرح دیکھا نہیں جاسکتا تھا، تو پھر بند حجرے میں شدید تر تاریکی میں کیا نظر آتا ہوگا، پس اس تشریح سے ثابت ہوا کہ دونوں ایک دوسرے کو برہنہ دیکھ ہی نہیں سکتے تھے، لہٰذا اعتراض فضول ہے۔
3. حدیث میں ہے کہ:من اناء بینی وبینہ واحد۔ ترجمہ:یعنی ہم ایک ہی لگن سے نہا لیا کرتے تھے، جو ہم دونوں کے درمیان رکھا ہوتا تھا۔ (صحیح مسلم عن عائشۃ)
لہٰذا یہ لگن دونوں کے درمیان پر دہ کا کام بھی کرتا ہوگا۔انتہائی تاریکی میں دونوں نہاتے تھے، ایسا اندھیرا ہوتا تھا کہ ایک دوسرے کو دیکھ نہیں سکتا تھا، پھر دونوں کے درمیان لگن رکھا ہوتا تھا ، لہٰذا یہ سمجھنا کہ دونوں ایک دوسرے کو برہنہ دیکھتے تھے، بالکل غلط ہے۔
4. مولانہ مودودی رحمہ اللہ رقم طراز ہیں :” اس مسئلے کے معلوم کرنے کی ضرورت دراصل ان لوگوں کو پیش آئی تھی جن کے ہاں بیویاں اور شوہر سب نماز کے پابند تھے۔ فجر کے وقت ان کو بارہا اس صورت حال سے سابقہ پیش آتا تھا کہ وقت کی تنگی کے باعث یکے بعد دیگرے غسل کرنے سے ایک کی جماعت چھوٹ جاتی تھی۔ ایسی حالت میں ان کو یہ بتانا ضروری تھا تاکہ دونوں کا ایک ساتھ غسل کر لینا نہ صرف جائز ہے بلکہ اس میں کوئی قباحت بھی نہیں ہے۔ اس سلسلے میں یہ بھی جان لینا چاہیے کہ مدینے میں اس وقت بجلی کی روشنی والے غسل خانے نہیں تھے اور فجر کی نماز اس زمانے میں اول وقت ہوا کرتی تھی اور عورتیں بھی صبح اور عشا کی نمازوں میں مسجد جایا کرتی تھیں۔ ان باتوں کو نگاہ میں رکھ کر ہمیں بتایا جائے کہ اس حدیث میں کیا چیز ماننے کے لائق نہیں ہے”۔(سنت کی آئینی حیثیت )