انسان کے مسائل اسکی عقل کے بغیر حل نہیں ہوسکتے لیکن ایک حد سے ذیادہ عقل کا استعمال خود دماغ کو بلیک آؤٹ کر دیتا ہے ایسی صورت میں عقل گم ہو جاتی ہے، نہیں سمجھے نہ؟ چلیں سادہ کر تے ہیں، آپ ایک ایسا گیند لیں جس کے ساتھ ہک لگی ہو اور اسے مسئلہ قرار دیں، عقل کی ڈوری اس کے ساتھ باندھیں، اب یہ دونوں اشیاء حالت جمود میں ایسے ہی دکھائی دیں گی کہ ایک گیند کو دھاگے کے ساتھ باندھ دیا گیا ہے، جمود سے تحریک کی طرف پھیرنے کے لیے اسے آپ کے ہاتھ کا محرک درکار ہوگا، اس لیے ڈوری کے دوسرے کنارے کو ہاتھ سے پکڑیے اور گھمانا شروع کیجئے، ایک دائرے میں آپ کا گیند بمراد مسئلہ گھومنا شروع کر دے گا اب ذرا عقل کی ڈوری کو دیکھئے کہ اس کی کیا حالت ہو رہی ہے، ایک حد تک تو وہ آپ کو اس دائرے میں نظر آئے گی اور تختہ بنا دکھائی گا لیکن جونہی ایک حد سے زیادہ اسے گھمائیں گے تو آپ کو نہ تو ڈوری نظر آئے گی اور نہ وہ تختہ- اس کی سائنس کسی اور دن سمجھائیں گے لیکن فی الحال اتنا سمجھ لیجئے کہ عقل کا حد سے زیادہ استعمال خود اس کی غیر موجودگی کی علامت بن جاتا ہے- مذہب الحاد میں تو یہ بطور طریقہ کار ، حد سے زیادہ استعمال کرنا فرض عین ہے، ولایتی جدیدیت میں سچائی کی تلاش کے لیے عقل ہی کو معیار تسلیم کیا جاتا ہے، لیکن جدیدیت کو اس وقت مشکل پیش آئی جب ایک سچائی کی گونج ابھی رکتی نہیں تھی کہ اس کے رد میں ایک سچائی بول اٹھتی تھی، مابعد جدیدیت نے یہ کہہ کر اس سے جان چھڑا لی کہ دنیا میں کوئی بھی سچائی نہیں-مذہب کے الہامی سچائیوں کو جدیدیت کے ٹول سے پرکھنے کا یہ عمل اس کے لیے زہر ثابت ہوتا ہے
پس منظر کوئی اور رخ اختیار کرےاصل بات کی طرف آتے ہیں کہ قاری حنیف ڈار صاحب علم اور مرتبے کے لحاظ سے بہت اوپر بیٹھے ہیں، اس مقام پر ہم آپ کو ان کے زانو بیٹھے نظر آئیں گے اور ان کے استدلال کے آگے چُلو بھرتے دکھائی دیں گے، خود میں نہ کسی مدرسے کا طالب علم ہوں اور نہ دین کا مطالعہ اس قدر وسیع ہے کہ قاری حنیف ڈار صاحب جیسی ہستی کو جواب دینے کی جسارت کروں ، ان صلاحیتوں سے بھرپورلوگ آپ کو سماجی دنیا میں جا بجا بلکہ بے جا نظر آئیں گے البتہ کسی یونیورسٹی سے علم جراحت سیکھا ہے، سو آج قاری صاحب کی دو پوسٹوں پر اپنے نشتر آزمانا چاہوں گا-
فرماتے ہیں کہ ‘بخاری شریف ، حدیث کی کتاب نہیں، امام بخاری کی فقہ ہے’، گویا معاملہ یہ نہیں کہ بخاری شریف پر کوئی علمی و تحقیقی رائے دینا ہے بلکہ اب میدان وہ سجائیں گے جو بریلویوں نے دیوبندیوں کے ساتھ سجایا تھا، اس کا ثبوت انہوں پھر اپنی دیوار شریف پر بھی پیش کیا ہے، خیر اس مقدمہ کی دلیل وہ یہ دیتے ہیں کہ انہوں نے اپنی فقہ کو ہی روایت کر کے ثابت کیا ہے، مزید وضاحت کر دیتے ہیں کہ انہوں نے اپنی فقہ کو حدیث کے عنوانات میں پیش کیا ہےاور اپنے موقف کے مخالف وہ کوئی روایت کوٹ نہیں کرتے- وہ ان کی شافعیت کو بطور حوالہ اور دو موضوعات سے وہ اس کی مثالیں پیش کرتے ہیں-
اگر ہم اس بات کو تسلیم کر لیں کہ امام بخاریؒ اپنی فقہ کو روایت کرتے ہیں تو پھر بجاء طور یہ سوال بھی پیدا ہوگا کہ وہ کس فقہ کو روایت کر رہے ہیں؟ یہ فیصلہ ہمیں قطعیت کے ساتھ کرنا ہوگا کہ امام بخاریؒ فقہ شافعی کو روایت کر رہے ہیں، یا فقہ حنفی کو یا فقہ مالکی کو یا کسی نئی فقہ کو روایت کرتے دکھائی دیتے ہیں- انہوں نے امام شافعیؒ سے علم کا ایک ذخیرہ حاصل کیا جس کے نتیجے میں ان کی بہت ساری آراء اپنے استاد سے ہم آراء ہوتی ہیں لیکن ایسا نہیں ہے کہ وہ مکمل طور پر شافعی ہیں ، ان کی بہت سی آراء فقہ حنفی کی آراء سے اتفاق کرتی ہیں، فیض الباری کے باب چہارم میں ان کی مکمل تفصیل موجود ہے، اور پھر کیسے کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے کوئی نئی فقہ ایجاد کی جبکہ ان کی فقہی نقطہ ِ نظر کو شافعی و حنفی میں تقسیم بھی کیا جا سکتا ہے اور پھر جب انہوں نے کوئی اصول فقہ بھی نہ مرتب کیا ہو، البتہ فروع میں انہوں نے بعض مقامات پر اجتہاد کیا ہے، اسی طرح انہوں نے مسند احمد بن حنبل، مسند امام ابو بکر بن ابی شیبہ، مسند امام اسحاق بن راہویہ (ان کا شمار امام بخاری کے اساتذہ میں بھی کیا جاتا ہے)، مسند امام عثمان بن ابی شیبہ وغیرہ کی احادیث کو تحقیق سے گزارا اور کہا کہ ان میں صحیح کے ساتھ ساتھ ضعیف احادیث بھی موجود ہیں، جو ان مجتہدانہ اور تحقیقی فکر کی عکاس ہیں، لیکن کیااس کے نتیجے میں وہ تمام سابقہ آراء کو دریا بُرد کرکے نئی فقہ بناتے دکھائی نہیں دیتے؟ لہٰذاامام بخاریؒ کی فقہ کو قطعیت کے ساتھ نہ تو شافعی کہا جا سکتا ہے اور نہ حنفی، اور نہ قطعیت کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے کوئی نئی فقہ ایجاد کی-اگر ہم یہ فیصلہ نہیں کر سکتے اور حقیقتاًنہیں کر سکتے تو یہ بات کیسے درست ہو سکتی ہے کہ اپنی ایک فقہ کو روایت کر رہے ہیں- اب آتے ہیں دی گئی دو مثالوں کی طرف ، مثالوں کا سینہ چاک نہیں کرتے فقط اتنا دیکھتے ہیں کہ اگر وہ اپنی فقہ کے مخالف کوئی روایت پیش نہیں کرتے تو لازماًان کی کتاب میں ایک ہی موضوع پر دو آراء رکھنے والی روایات موجود نہیں ہو سکتیں؟ ایسا بھی نہیں ہے کیونکہ وہ کئی مقامات پر ایک ہی موضوع پر ایک سے زائد اور مختلف روایات ثابت کرتے دکھائی دیتے ہیں، صلوة الوتر ایک رکعت کے ساتھ تین کا قول بھی ذکر کرتے ہیں، پھر دوسری جگہ پر نماز میں قنوت قبل الرکوع وبعدہ دونوں کو لائے ہیں۔ صلوة استسقاء میں تحویل رداء کرنے اور نہ کرنے دونوں کو روایت کر تے دکھائی دیتے ہیں-
چلیں ان کی دوسری پوسٹ کی طرف سفر کرتے ہیں ایک عرب قرآنسٹ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ وہ ” امام بخاریؒ کی احادیث جمع کرنے اور پھر ان کی تصدیق کرنے کی رفتار حساب کر کے بتا رہا ہے کہ 16 سال میں 6 لاکھ احادیث کس رفتار سے جمع کیں ـــ ایک حدیث 7 منٹ میں جمع بھی کی گئی اور اس کی تصدیق کے لئے سارے اصول لاگو بھی کیے گئے جہاں سفر کی ضرورت تھی سفر بھی 7 منٹ میں ہی کر لیا گیا — اس وضاحت کے ساتھ کہ اگر امام بخاری نہ تو کھانا کھائیں ، نہ ہی سوئیں ، نہ ہی نماز پڑھیں اور نہ ہی پیشاب اور وضو غسل کریں تب جا کر یہ 7 منٹ فی حدیث بنتے ہیں — اگر وہ ساری انسانی ضرورتوں سے بھی گزرتے اور وقت خرچ کرتے تھے تو پھر شاید باقی چند سیکنڈز ہی بچتے ہیں”، سچی بات ہے اسے پڑھنے کے بعد ہمیں اپنے پرائمری اسکول کے ماسٹر صاحب کا وہ سوال یاد آ گیا جو وہ اکثر ریاضی کے پیریڈ میں پوچھا کرتے تھے کہ کپڑوں کے دو جوڑے اگر سوکھنے میں بیس منٹ لیتے ہوں تو بچو! بتاؤ! پچاس جوڑے کتنے وقت میں سوکھیں گے؟ اور ان عرب قرآنسٹ کی طرح بچے کلکولیٹر نکالتے تھے، دو جوڑے بیس منٹ تو فی جوڑا دس منٹ بنے، اور پچاس جوڑا ضرب دس منٹ اور تفکرانہ انداز میں کھڑے ہو کر کہتے تھے ماسٹر صاحب پانچ سو منٹ مطلب آٹھ گھنٹے تیتیس منٹ لگیں گے- امید ہے اسی لطیفے سے ان اعداد و شمار کی صحت ٹھیک ہو سکتی ہے لیکن چلئیے مزید سمجھتے ہیں- قرآنسٹ نے 16 سال کے منٹس بنائے اور 6 لاکھ احادیث کے فی حدیث تحقیق کا وقت کا حساب لگایا اور نتیجہ نکالا کہ امام بخاری اگر انسانی ضرورتوں (کھانا، پینا، پیشاب، غسل، نمازوغیرہ) استعمال نہ کریں تو فی حدیث 7 منٹ بنتے ہیں اور استعمال کریں تو سکینڈز بچیں گے- اس میں انہوں نے کچھ چیزیں فرض رکھی ہیں، ظاہر ہے ریاضی میں کئی جگہ بہت سی چیزوں کو فرض کر لیا جاتا ہے جن کا عملی زندگی میں ہونا ممکن نہیں ہوتا- اس حساب میں فرض کر لیا گیا ہے امام بخاریؒ نے ایک کے بعد ایک حدیث کو تحقیق سے گزارا ہے، جب ایک حدیث کی تحقیق مکمل ہوئی تو پھراگلی حدیث کی تحقیق شروع کی، اب رجال حدیث کی تعداد کو دیکھیں جو تقریباً 13 ہزار بنتی ہے، مطلب یہ حقیقت ہے کہ ایک راوی نے ایک سے زائد احادیث روایت کی ہیں مثال کے طور پر سلیمان بن حزبؒ سے 127 احادیث روایت کیں، زین العابدینؒ سے پچیس احادیث روایت کیں، محمد بن عیسیؒ سے چھ احادیث روایت کیں، وغیرہ وغیرہ، پھر اس کی تحقیق میں حج کے ایام بھی استعمال ہوئے جس سے ثابت ہوتا کہ بہت سے راوی ان کو ایک جگہ بھی بھی میسر آئے، خود ان کے بقول وہ حجاز مقدس میں وہ چھ سال احادیث کی تحقیق کرتے رہے- اس لیے حساب کتاب کر فی حدیث کے منٹس نکالا کم از کم اس طریقہ سے ناممکن ہے جس طرح کا کلکولیٹر عرب قرآنسٹ نے آزمایا ہے
تحریر : غلام اصغر ساجد