کائنات اک بہت بڑی کتاب کی مانند ہمارے سامنے پھیلی ہوئی ہے مگر یہ اک ایسی انوکھی کتاب ہے جس کے کسی صفحہ پر اس کا موضوع اور اسکے مصنف کا نام تحریر نہیں اگر چہ اس کتاب کا اک اک حرف یہ بول رہا ہے کہ اس کا موضوع کیا ہوسکتا ہے اور اسکا مصنف کون ہے ۔ جب کوئی شخص آنکھ کھولتا ہے اور دیکھتا ہے کہ وہ اک وسیع و عریض کائنات کے درمیان کھڑا ہے تو بالکل قدرتی طور پر اس کے ذہن میں سوال آتا ہے کہ —- ” میں کون ہوں اور یہ کائنات کیا ہے –” وہ اپنے آپ کو اور کائنات کو سمجھنے کیلئے بے چین ہوتا ہے ، فطرت میں سموئے ہوئے اشارات کو پڑھنے کی کوشش کرتا ہے دنیا میں وہ جن حالات سے دوچار ہورہا ہے چاہتا ہے کہ وہ انکے حقیقی اسباب معلوم کرے غرض اس کے ذہن میں بہت سے سوالات اٹھتے ہیں جنکا جواب معلوم کرنے کیلئے وہ بیقرار رہتا ہے مگر وہ نہیں جانتا کہ اس کا جواب کیا ہوسکتا ہے ۔
یہ سوالات محض فلسفیانہ قسم کے سوالات نہیں ہیں بلکہ یہ انسان کی فطرت اور اسکے حالات کا قدرتی نتیجہ ہیں ۔ یہ ایسے سوالات ہیں جن سے دنیا میں تقریبا ہر شخص کو اک بار گزرنا ہوتا ہے ۔ جن کا جواب نہ پانے کی صورت میں کوئی پاگل ہوجاتا ہے ،کوئی خودکشی کرلیتا ہے ،کسی کی ساری زندگی بے چینیوں میں گذرجاتی ہے اور کوئی اپنے حقیقٰی سوال کا جواب نہ پاکر دنیا کی دلچسپیوں میں کھوجاتا ہے اور چاہتا ہے اسی میں گم ہوکر اس ذہنی پریشانی سے نجات حاصل کرے ۔ وہ جو کچھ حاصل کرسکتا ہے اسکو حاصل کرنے کی کوشش میں اسکو بھلا دیتا ہے جس کو وہ حاصل نہ کرسکا -اس سوال کو ہم ایک لفظ میں ” حقیقت کی تلاش ” کہہ سکتے ہیں لیکن اسکا اگر تجزیہ کریں تو یہ بہت سے سولات کا مجموعہ نکلے گا- یہ سوالات کیا ہیں ۔ ان کو مختلف الفاظ میں ظاہر کیا جاسکتا ہے مگر میں اپنی آسانی کیلئے ان کو مندرجہ ذیل تین عنوانات کے تحت بیان کرونگا : ١۔ خالق کی تلاش ٢۔ معبود کی تلاش ٣۔ اپنے انجام کی تلاش
میرے نزدیک حقیقت کی تلاش دراصل نام ہے ان ہی تینوں سوالات کا جواب معلوم کرنے کا ۔ آپ خواہ جن الفاظ میں بھی اس سوال کی تشریح کریں ۔ مگر حقیقتا وہ اسی کی بدلی ہوئی تعبیر ہوگی اور انہیں تین عنوانات کے تحت انھیں اکٹھا کیا جاسکے گا ۔
بظاہر یہ سوالات ایسے ہیں جن کے بارے میں ہم کچھ نہیں جانتے(نا سائنس کچھ بتاتی ہے) اور نہ کسی پہاڑ کی چوٹی پر ایسا کوئی بورڈ لگا ہوا نظر آتا ہے جہاں ان کا جواب لکھ کر رکھ دیا گیا ہو ۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ جو سوال ہے اسی کے اندر ان کا جواب بھی موجود ہے ۔ کائنات اپنی حقیقت کی طرف آپ اشارہ کرتی ہے اگر چہ وہ ہم کو یقینی علم تک نہیں لے جاتی لیکن یہ اشارہ اتنا واضح اور قطعی ہے کہ اگر ہم کو کسی ذریعہ سے حقیقت کا علم ہوجائے تو ہمارا ذہن پکار اٹھتا ہے کہ یقینا یہی حقیقت ہے ،اسکے سوا کائنات کی کوئی اور حقیقت نہیں ہو سکتی-
کائنات کو دیکھتے ہی جو سب سے پہلا سوال ذہن میں آتا ہے وہ یہ کہ اسکا بنانے والا کون ہے اور کون ہے جو اس عظیم کارخانے کو چلا رہا ہے ۔ پچھلے زمانوں میں انسان یہ سمجھتا تھا کہ بہت سی غیر مرئی طاقتیں اس کائنات کی مالک ہیں ۔ اک بڑے خدا کے تحت بہت سے چھوٹے چھوٹے خدا اس کا انتظام کر رہے ہیں ۔ اب بھی بہت سے لوگ اس قسم کا عقیدہ رکھتے ہیں ۔ مگر علمی دنیا میں عام طور پر اب یہ نظریہ ترک کیا جا چکا ہے ۔ یہ اک مردہ نظریہ ہے نہ زندہ نظریہ-
موجودہ زمانے کہ وہ لوگ جو اپنے آپ کو ترقی یافتہ کہتے ہیں اور جن کا خیال ہے کہ وہ جدید دور کے انسان ہیں ؛ وہ شرک کے بجائے الحاد کے قائل ہیں ۔ ان کا خیال ہے کہ کائنات کسی ذی شعور ہستی کی کار فرمائی نہیں ہے بلکہ اک اتفاقی حادثہ کا نتیجہ ہے ۔ اور جب کوئی واقعہ وجود میں آجائے تو اس کے سبب سے کچھ دوسرے واقعات بھی وجود میں آئینگے- اس طرح اسباب و واقعات کااک لمبا سلسلہ قائم ہوجاتا ہے اور یہی سلسلئہ اسباب ہے جو کائنات کو چلا رہا ہے- اس توجیہ کی بنیاد دو چیزوں پر ہے ایک ” اتفاق ” اور دوسرا ” قانون علت ” law of causation۔ کائنات کی پیدائش اور اسکی حرکت کے بارے میں یہ دونوں نظریے جو سائنسی ترقیوں کے ساتھ وجود میں آئے تھے اب تک یقین کی دولت سے محروم ہیں ۔ جدید تحقیقات ان کو مضبوط نہیں بناتی بلکہ اور کمزور کردیتی ہے ۔(اس پر سیرحاصل بحث ہماری گزشتہ تحاریر میں آچکی-ایڈمن) اس طرح گویا سائنس خود ہی اس نظریہ کی تردید کررہی ہے ، اب انسان دوبارہ اپنے ابتدائی مقام پر کھڑا ہے ۔ ہمارے سامنے پھر یہ سوال ہے کہ کائنات کس نے بنائی اور کون اسے چلا رہا ہے ؟
یہ خالق کی تلاش کا مسئلہ تھا ۔ اس کے بعد دوسری چیز انسان جو جاننا چاہتا ہے وہ یہ کہ ” میرا معبود کون ہے ؟” ہم اپنی زندگی میں صریح طور پر ایک خلا محسوس کرتے ہیں مگر ہم نہیں جانتے کہ کیسے اس خلا کو پر کریں – یہی خلا کا وہ احساس ہے جس کو میں نے “معبود کی تلاش ” سے تعبیر کیا ہے ۔ یہ احساس دو پہلو سے ہوتا ہے :اپنے وجود اور باہر کی دنیا پر جب ہم غور کرتے ہیں تو دو نہایت شدید جذبے ہمارے اندر پیدا ہوتے ہیں- پہلا شکر اور احسان مندی کا اور دوسرا کمزوری اور عجز کا –
ہم اپنی زندگی کے جس گوشہ میں بھی نظر ڈالتے ہیں ، ہمیں صاف دکھائی دیتا ہے کہ ہماری زندگی کسی کے احسانات سے ڈھکی ہوئی ہے یہ دیکھ کر دینے والے کیلئے ہمارے اندر بے پناہ جذبہ شکر امنڈ آتا ہےاور ہم چاہتے ہیں کہ اپنی بہترین عقیدتوں کو اپنے محسن پر قربان کرسکیں ۔ یہ تلاش ہمارے لئے محض فلسفیانہ نوعیت کی چیز نہیں ہے بلکہ ہماری نفسیات سے اس کا گہرا تعلق ہے یہ سوال محض ایک خارجی مسئلہ کو حل کرنے کا سوال نہیں ہے بلکہ یہ ہماری اندرونی طلب ہے اور ہمارا پورا وجود اس سوال کا جواب معلوم کرنا چاہتا ہے –
غور کیجئے ، کیا کوئی شریف آدمی اس حقیقت کو نظر انداز کرسکتا ہے کہ وہ کائنات میں ایک مستقل واقعہ کی حیثیت سے موجود ہے ؟ حالانکہ اس میں اسکی اپنی کوششوں کا کوئی دخل نہیں ہے ۔ وہ اپنے آپ کو ایک ایسے جسم میں پا رہا ہے جس سے بہتر جسم کا وہ تصور نہیں کرسکتا حالانکہ اس جسم کو اس نے خود نہیں بنایا ہے ۔ اس کو ایسی عجیب و غریب ذہنی قوتیں حاصل ہیں جو کسی بھی دوسرے جاندار کو نہیں دی گئی ہیں حالانکہ اس نے ان قوتوں کو حاصل کرنے کیلئے کچھ بھی نہیں کیا ہے اور نہ وہ کچھ کرسکتا ہے- ہمارا وجود ذاتی نہیں ہے بلکہ عطیہ ہے ۔ یہ عطیہ کس نے دیا ہے ؟ انسانی فطرت اس سوال کا جواب معلوم کرنا چاہتی ہے تاکہ وہ اپنے اس عظیم محسن کا شکریہ ادا کرسکے –
پھر اپنے جسم کے باہر دیکھئے ، دنیا میں ہم اس حال میں پیدا ہوتے ہیں کہ ہمارے پاس اپنا کچھ بھی نہیں ہوتا ، نہ ہم کو کائنات کے اوپر کوئی اختیار حاصل ہے کہ ہم اس کو اپنی ضرورت کے مطابق بنا سکیں ۔ ہماری ہزاروں ضرورتیں ہیں مگر کسی ایک ضرورت کو بھی ہم خود سے پورا نہیں کرسکتے ۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں حیرت انگیز طور پر ہماری تمام ضرورتوں کو پورا کرنے کا انتظام کیا گیا ہے ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کائنات اپنے تمام سازوسامان کے ساتھ اس بات کی منتظر ہے کہ انسان پیدا ہو اور وہ اس کی خدمت میں لگ جائے ۔ مثال کے طور پر آواز کو لیجئے جس کے ذریعہ ہم اپنا خیال دوسروں تک پہنچاتے ہیں یہ کیسے ممکن ہوا کہ ہمارے ذہن میں پیدا ہونے والے خیالات زبان کا ارتعاش بن کر دوسرے کے کان تک پہنچیں اور ان کو قابل فہم آوازوں کی صورت میں سن سکے ۔ اس کیلئے ہمارے باہر اور اندر بے شمار انتظامات کئے گئے ہیں – جن میں سے ایک وہ درمیانی واسطہ ہے جس کو ہم “ہوا ” کہتے ہیں ۔ ہم جو الفاظ بولتے ہیں وہ بے آواز لہروں کی صورت میں ہوا پر اس طرح سفر کرتے ہیں جس طرح پانی کی سطح پر موجیں پیدا ہوتی ہیں اور بڑھتی چلی جاتی ہیں ۔ میرے منہ سے نکلی ہوئی آواز آپ تک پہنچنے کے لئے درمیان میں ہوا کا موجود ہونا ضروری ہے – اگر یہ درمیانی واسطہ نہ ہو تو آپ میرے ہونٹ ہلتے ہوئے دیکھیں گے مگر میری آواز نہ سنیں گے ۔ ۔یہ ان بے شمار انتظامات میں سے ایک ہیں جس کو میں نے بیان نہیں کیا ہے بلکہ اس کا صرف نام لیا ہے – اگر اس کا اور دوسری چیزوں کا تفصیلی ذکر کیا جائے تو اس کے لئے ہزاروں صفحے درکار ہونگے اور پھر بھی ان کا بیان ختم نہ ہوگا ۔
یہ عطیات جن سے ہر آدمی دوچار ہورہا ہے اور جن کے بغیر اس زمین پر انسانی زندگی اور تمدن کا کوئی تصور نہیں کیا جاسکتا ۔ انسان جاننا چاہتا ہے کہ یہ سب کس نے اس کے لئے مہیا کیا ہے ۔ ہر آن جب وہ کسی نعمت سے دوچار ہوتا ہے تو اس کے دل میں بے پناہ جذبہ شکر امنڈ آتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اپنے محسن کو پائے اور اپنے آپ کو اس کے قدموں میں ڈال دے- محسن کے احسانات کو ماننا ، اس کو اپنے دل کی گہرائیوں میں جگہ دینا اور اس کی خدمت میں اپنے بہترین جذبات کو نذر کرنا ، یہ انسانی فطرت کا شریف ترین جذبہ ہے ہر آدمی جو اپنی اور کائنات کی زندگی پر غور کرتا ہے اس کے اندر نہات شدت سے یہ جذبہ ابھرتا ہے ۔پھر کیا اس جذبہ کا کوئی جواب نہیں ؟ کیا انسان اس کائنات کے اندر ایک یتیم بچہ ہے جس کے اندر امنڈتے ہوئے جذبات محبت کی تسکین کا کوئی ذریعہ نہیں ؟
یہ معبود کی تلاش کا ایک پہلو ہے۔ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ انسان کے حالات فطری طور پر یہ تقاضہ کرتے ہیں کہ کائنات کے اندر اسکا کوئی سہارا ہو ۔ اگر ہم آنکھ کھول کر دیکھیں تو ہم اس دنیا میں ایک انتہائی عاجز اور بے بس مخلوق ہیں ۔ ذرا اس خلاء کا تصور کیجئے جس میں ہماری یہ زمین سورج کے گرد چکر لگا رہی ہے ۔ آپ جانتے ہیں کہ زمین کی گولائی تقریبا 25 ہزار میل ہے اور وہ ناچتے ہوئے لٹو کی مانند اپنے محور پر مسلسل اس طرح گھوم رہی ہے کہ ہر 24 گھنٹے میٰں ایک چکر پورا ہوجاتا ہے گویا اس کی رفتار تقریبا ایک ہزار میل فی گھنٹہ ہے ۔ اسی کے ساتھ وہ سورج کے چاروں طرف اٹھارہ کروڑ ساٹھ لاکھ میل کے لمبے دائرے میں نہایت تیزی سے دوڑ رہی ہے ۔
خلاء کے اندر اس قدر تیز دوڑتی ہوئی زمین پر ہمارا وجود قائم رکھنے کے لئے زمین کی رفتار کو ایک خاص اندازہ کے مطابق رکھا گیا ہے ۔ اگر ایسا نہ ہوتو زمین کے اوپر انسان کی حالت ان سنگ ریزوں کی طرح ہوجائے جو کسی متحرک پہیہ پر رکھ دئے گئے ہو ں اسی کے ساتھ مزید انتظام یہ ہے کہ زمین کی کشش ہم کو کھینچے ہوئے ہے اور اوپر سے ہوا کا زبردست دباؤ پڑتا ہے ہوا کے ذریعہ جو دباؤ پڑھ رہا ہے کہ وہ جسم کے ہر مربع انچ پر ساڑھے سات سیر تک معلوم کیا گیا ہے ۔ یعنی ایک اوسط آدمی کے سارے جسم پر تقریبا 280 من کا دباؤ ہے ۔ ان حیرت انگیز انتظامات نے ہم کو خلاء میں مسلسل دوڑتی ہوئی زمین کے چاروں طرف قائم کر رکھا ہے-
پھر ذرا سورج پر غور کیجئے – سورج کی جسامت آٹھ لاکھ 65 ہزار میل ہے ۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہماری زمین سے دس لاکھ گناہ بڑا ہے ۔ یہ سورج آگ کا دہکتا ہوا سمندر ہے جس کے قریب کوئی بھی چیز ٹھوس حالت میں نہیں رہ سکتی ۔ زمین اور سورج کے درمیان اس وقت تقریبا ساڑھے نو کروڑ میل کا فاصلہ ہے اگر اس کے بجائے وہ اس کے نصف فاصلے پر ہوتا تو سورج کی گرمی سے کاغذ جل جاتا اور اگر وہ چاند کی جگہ یعنی دو لاکھ چالیس ہزار میل کے فاصلے پر آجائے تو زمین پگھل کر بخارات میں تبدیل ہوجائے ۔یہی سورج ہے جس سے زمین پر زندگی کے تمام مظاہر قائم ہیں – اس مقصد کے لئے اس کو ایک خاص فاصلہ پر رکھا گیا ہے اگر وہ دور چلا جائے تو زمین برف کی طرح جم جائے اور اگر قریب آجائے تو ہم سب لوگ جل بھن کر خاک ہوجائیں –
پھر ذرا اس کائنات کی وسعت کو دیکھئے اور اس قوت کشش پر غور کیجئے جو اس عظیم کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے ۔ کائنات ایک بے انتہاء وسیع کارخانہ ہے اس کی وسعت کا اندازہ ماہرین فلکیات کے نزدیک یہ ہے کہ روشنی جس کی رفتار ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سکنڈ ہے اس کو کائنات کے گرد ایک چکر کرنے میں کئی ارب برس درکار ہونگے – یہ نظام شمسی جس کے اندر ہماری زمین ہے بظاہر بہت بڑا معلوم ہوتا ہے مگر پوری کائنات کے مقابلے میں اس کی کوئی حیثیت نہیں – کائنات میں اس سے بہت بڑے بڑے بے شمار ستارے لا محدود وسعتوں میں پھیلے ہوئے ہیں جن میں سے بعض اتنے بڑے ہیں کہ ہمارا پورا نظام شمسی اس پر رکھا جاسکتا ہے جو قوت کشش ان بے شمار دنیاؤں کو سنبھالے ہوئے ہے اس کی عظمت کا تصور اس سے کیجئے کہ سورج جس بے پناہ طاقت سے زمین کو اپنی طرف کھینچ رہا ہے اور اس کو وسیع ترین فضاء میں گر کر برباد ہوجانے سے روکتا ہے یہ غیر مرئی طاقت اس قدر قوی ہے کہ اگر اس مقصد کیلئے کسی مادی شئے سے زمین کو باندھنا پڑھتا تو جس طرح گھاس کی پتیاں زمین کو ڈھانکے ہوئے ہیں اسی طرح دھاتی تاروں سے کرہ ارض ڈھک جاتا ۔ ہماری زندگی بالکلیہ ایسی طاقتوں کے رحم و کرم پر ہے جن پر ہمارا کوئی اختیار نہیں انسان کی زندگی کے لئے دنیا میں جو انتظامات ہیں اور جن کی موجودگی کے بغیر انسانی زندگی کا تصور نہیں کیا جاسکتا وہ اتنے بلند پیمانہ پر ہورہے ہیں اور ان کو وجود میں لانے کے لئے اتنی غیر معمولی قوت تصرف درکار ہے کہ انسان خود سے انھیں وجود میں لانے کا تصور نہیں کرسکتا موجودات کے لئے جو طریق عمل مقرر کیا گیا ہے ، اس کا مقرر کرنا تو درکنار ، اس پر کنٹرول کرنا بھی انسان کے بس کی بات نہیں ۔ وہ دیکھتا ہے کہ کائنات کی غیر معمولی قوتیں میرے ساتھ ہم آہنگی نہ کریں تو میں زمین پر ٹھہر بھی نہیں سکتا ، اس کے اوپر ایک متمدن زندگی کی تعمیر تو بہت دور کی بات ہے ۔
ایسی ایک کائنات کے اندر جب ایک انسان اپنے حقیر وجود کو دیکھتا ہے تو وہ اپنے آپ کو اس سے بھی زیادہ بے بس محسوس کرنے لگتا ہے جتنا کہ سمندر کو موجوں کے درمیان ایک چیونٹی اپنے آپ کو بچانے کی جدوجہد کررہی ہو ۔ وہ بے اختیار چاہتا ہے کہ کوئی ہو جو اس اتھاہ کائنات میں اس کا سہارا بن سکے ۔ وہ ایک ایسی ہستی کی پناہ ڈھونڈنا چاہتا ہے جو کائنات کی قوتوں سے بالاتر ہو جس کی پناہ میں آجانے کے بعد وہ اپنے آپ کو محفوظ و مامون تصورکرسکے –
یہ وہ دو جذبے ہیں جن کو میں نے ” معبود کی تلاش ” کا عنوان دیا ہے ۔معبود کی تلاش دراصل ایک فطری جذبہ ہے جس کا مطلب ایک ایسی ہستی کی تلاش ہے جو آدمی کی محبت اور اس کے اعتماد کا مرکز بن سکے موجودہ زمانے میں قوم ، وطن اور ریاست کو انسان کی اس طلب کا جواب بناکر پیش کیا گیا ہے ۔ جدید تہذیب یہ کہتی ہے کہ اپنی قوم اپنے وطن اور اپنی ریاست کو یہ مقام دو کہ وہ تمہاری عقیدتوں کا مرکز بنے اور اسی سے وابستگی کو اپنا سہارا بناؤ – ان چیزوں کو معبود کے نام پر پیش نہیں کیا جاتا مگر زندگی میں ان کو جو مقام دیا گیا ہے وہ تقریبا وہی ہے جو دراصل ایک معبود کا نام ہونا چاہئے مگر ان چیزوں کو معبود کی جگہ دینا بالکل ایسا ہی ہے جیسے کسی کو ایک رفیق زندگی کی ضرورت ہو تو اس کی خدمت میں آپ ایک پتھر کی ایک سل پیش کردیں ۔
کھلی ہوئی بات ہے کہ انسان کے اندر تلاش کا یہ جذبہ جو ابھرتا ہے اس کے اسباب انسانی نفسیات میں بہت گہرائی سے پھیلے ہوئے ہیں ، وہ ایک ایسی ہستی کی تلاش میں ہے جو ساری کائنات پر محیط ہو – اس طلب کا جواب کسی جغرافیائی خطہ میں نہیں مل سکتا – یہ چیزیں زیادہ سے زیادہ کسی سماج کی تعمیر میں کچھ مدد دے سکتی ہیں مگروہ انسان کے تلاش معبود کے جذبے کی تسکین نہیں بن سکتیں – اس کے لئے ایک کائناتی وجود درکار ہے ۔ انسان کو اپنی محبتوں کے مرکز کے لئے ایک ایسا وجود چاہئے جس نے زمین و آسمان کو بنایا ہو اور وہ اپنے سہارے کے لئےاسے ایک ایسی طاقت کی تلاش ہے جو کائنات کے اوپر حکمران ہو – جب تک انسان ایسے ایک وجود کو نہیں پائےگا اس کا خلا بدستور باقی رہیگا ، کوئی دوسری چیز اسے پر نہیں کرسکتی –
حقیقت کی تلاش کا تیسرا جزو اپنے انجام کی تلاش ہے آدمی یہ جاننا چاہتا ہے کہ وہ کہاں سے آیا ہے اور کہاں جائے گا وہ اپنے اندر بہت سے حوصلے اور تمنائیں پاتا ہے – وہ معلوم کرنا چاہتاہے کہ ان کی تسکین کس طرح ہوگی وہ موجودہ محدود زندگی کے مقابلے میں ایک طویل تر زندگی چاہتا ہے مگر نہیں جانتا کہ وہ کس کو کہاں پائے گا ۔ اس کے اندر بہت سے اخلاقی اور انسانی احساسات ہیں جو دنیا میں بری طرح پامال کئے جا رہے ہیں ۔ اس کے ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا وہ اپنی پسندیدہ دنیا کو حاصل نہ کرسکے گا۔ یہ سوالات انسان کے اندر سے ابلتے ہیں اور کائنات کا مطالعہ اس کے ذہن میں یہ سوال پیدا کرتا ہے ۔تاریخ کے طویل ترین دور میں بے شمار واقعات کیا صرف اس لئے جمع ہوئے تھے کہ ایک انسان کو چند دنوں کے لئے پیدا کرکے ختم کردیں ؟
زمین پر آج جتنے انسان پائے جاتے ہیں اگر ان میں کا ہر آدمی چھ فٹ لمبا ڈھائی فٹ چوڑا اور ایک فٹ موٹا ہوتو اس پوری آبادی کو بہ آسانی ایک ایسے صندوق میں بند کیا جاسکتا ہے جو طول و عرض اور بلندی میں ایک میل ہو – بات کچھ عجیب سی معلوم ہوتی ہے مگر حقیقت یہی ہے پھر اس صندوق کو کسی سمندر کے کنارے لے جاکر ایک ہلکا سا دھکا دے دیں تو یہ صندوق پانی کی گہرائی میں جاگرےگا- صدیا ں گزر جائیں گی ، نسل انسانی اپنے کفن میں لپٹی ہوئی ہمیشہ کے لئے پڑی رہے گی ، دنیا کے ذہن سے یہ بھی محو ہوجائے گا کہ یہاں کبھی انسان کی قسم کی کوئی نسل آباد تھی سمندر کی سطح پر بدستور طوفان آتے رہیں گے سورج اسی طرح چمکتا رہے گا ، کرہ ارض بدستور اپنے محور پر چکر لگاتا رہے گا ، کائنات کی لا محدود پہنائیوں میں پھیلی ہوئی بے شمار دنیائیں اتنے بڑے حادثہ کو ایک معمولی واقعہ سے زیادہ اہمیت نہ دیں گی – کئی صدیوں کے بعد ایک اونچا سا مٹی کا ڈھیر زبان حال سے بتائے گا کہ یہ نسل انسانی کی قبر ہے جہاں وہ صدیوں پہلے ایک چھوٹے سے صندوق میں دفن کی گئی تھی –
کیا انسان کی قیمت بس اسی قدر ہے ، مادہ کو کوٹئیے ، پیٹئے ، جلائیے ، کچھ بھی کیجئے ، وہ ختم نہیں ہوتا – وہ ہر حال میں اپنے وجود کو باقی رکھتا ہے مگر انسان جو مادہ سے برتر مخلوق ہے کیا اس کے لئے بقا نہیں ؟ یہ زندگی جو ساری کائنات کا خلاصہ ہے ، کیا وہ اتنی بے حقیقت ہے کہ اتنی آسانی سے اسے ختم کیا جاسکتا ہے ؟
کیا انسانی زندگی کا منتہابس یہی ہے کہ وہ کائنات میں اپنے ننھے سے وطن میں چند روز کے لئے پیدا ہوا اور پھر فنا ہوکر رہ جائے ؟ تمام انسانی علم اور ہماری کامرانیوں کے سارے واقعات ہمارے ساتھ ہمیشہ کے لئے ختم ہوجائیں اور کائنات اس طرح باقی رہ جائے گویا نسل انسانی کبھی کوئی چیز ہی نہیں تھی –
اس سلسلہ میں دوسری چیز جو صریح طور پر محسوس ہوتی ہے وہ یہ کہ اگر زندگی بس اسی دنیا کی زندگی ہے تو یہ ایک ایسی زندگی ہے جس میں ہماری امنگوں کی تکمیل نہیں ہوسکتی – ہر انسان لا محدود مدت تک زندہ رہنا چاہتا ہے کسی کو بھی موت پسند نہیں – مگر اس دنیا میں ہر پیدا ہونے والا جانتا ہے کہ وہ ایسی زندگی سے محروم ہے – آدمی خوشی حاصل کرنا چاہتا ہے – ہر آدمی کی یہ خواہش ہے کہ وہ دکھ درد ہر قسم کی تکلیفوں سے محفوظ رہ کر زندگی گذارے مگر حقیقی معنوں میں کیا کوئی شخص بھی ایسی زندگی حاصل کرسکتا ہے ہر آدمی یہ چاہتا ہے کہ اس کو اپنے حوصلوں کی تکمیل کا آخری حد تک موقع ملے وہ اپنی ساری تمناؤں کو عمل کی صورت میں دیکھنا چاہتا ہے مگر اس محدود دنیا میں وہ ایسا نہیں کرسکتا ہم جو کچھ چاہتے ہیں یہ کائنات اس کے لئے بالکل ناسازگار معلوم ہوتی ہے – وہ ہر چند قدم پر ہمارا راستہ روک کر کھڑی ہوجاتی ہے – کائنات صرف ایک حد تک ہمارا ساتھ دیتی ہے – اس کے بعد ہم کو مایوس اور ناکام لوٹا دیتی ہے ۔
سوال یہ ہے کہ انسانی زندگی محض غلطی سے اس کائنات میں بھٹک آئی ہے جو دراصل اس کے لئے نہیں بنائی گئی تھی اور جو بظاہر زندگی اور اسکے متعلقات سے بالکل بے پرواہ ہے ؟
کیا ہمارے تمام جذبات و خیالات اور ہماری تمام خواہشیں غیر حقیقی ہیں جن کا واقعی دنیا سے کوئی تعلق نہیں ؟
ہمارے تمام بہترین تخیلات کائنات کے راستے سے ہٹے ہوئے ہیں اور ہمارے ذہنوں میں بالکل الل ٹپ طریقے سے پیدا ہوگئے ہیں ۔ وہ تمام احساسات جن کو لے کر انسانی نسل پچھلے ہزاروں سال سے پیدا ہورہی ہے اور جن کو اپنے سینہ میں لئے ہوئے ہے وہ اس حال میں دفن ہوجاتی ہے کہ وہ انھیں حاصل نہیں کرسکی ۔ کیا ان احساسات کی کوئی منزل نہیں ؟
کیا وہ انسانوں کے ذہن میں بس یونہی پیدا ہورہے ہیں جن کے لئے نہ ماضی میں کوئی بنیاد موجود ہے اور نہ مستقبل میں ان کا کوئی مقام ہے ؟
ساری کائنات میں انسان ایک ایسا وجود ہے جو کل Tomorrow کا تصور رکھتا ہے یہ صرف انسان کی خصوصیت ہے کہ وہ مستقبل کے بارے میں سوٍچتا ہے اور اپنے آئندہ حالات کو بہتر بنانا چاہتا ہے – اسمیں شک نہیں کہ بعض جانور مثلا چیونٹیاں خوراک جمع کرتی ہیں یابئیاں گھونسلے بناتا ہے مگر ان کا یہ عمل غیر شعوری طور پر محض عادتا ہوتا ہے ان کی عقل اس کا فیصلہ نہیں کرتی کہ انہیں خوراک جمع کرکے رکھنی چاہئے تاکہ کل کے کام آسکے یا ایسا گھر بنانا چاہئے جو موسموں کے ردوبدل میں تکلیف سے بچائے – انسان اور دوسری مخلوقات کا یہ فرق ظاہر کرتا ہے کہ انسان کو تمام دوسری چیزوں سے زیادہ موقع ملنا چاہئے جانوروں کے لئے زندگی صرف آج کی زندگی ہے ، وہ زندگی کا کوئی کل نہیں رکھتے- کیا انسانی زندگی کا بھی کوئی کل نہیں ہے ؟ ایسا ہونا فطرت کے خلاف ہے فردکا تصور جو انسان میں پایا جاتا ہے اس کا صریح تقاضا ہے کہ انسان کی زندگی اس سے کہیں زیادہ بڑی ہو جتنی آج اسے حاصل ہے انسان ” کل ” چاہتا ہے مگر اس کو صرف” آج ” دیا گیا ہے-
اسی طرح جب ہم سماجی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم کو ایک خلاء کا زبردست احساس ہوتا ہے ایک طرف مادی دنیا ہے جو اپنی جگہ پر مکمل نظر آتی ہے- وہ ایک متعین قانون میں جکڑی ہوئی ہے اور اس کی ہر چیز اپنے مقرر راستے پر چلی جارہی ہے ۔ دوسرے لفظوں میں مادی دنیا ویسی ہی ہے جیسی کہ اسے ہونا چاہئے مگر انسانی دنیا کا حال اس سے مختلف ہے یہاں صورت حال اس سے برعکس ہے جیسا کہ اسے ہونا چاہئے تھا – ہم صریح طور پر دیکھتے ہیں کہ ایک انسان دوسرے انسان پر ظلم کرتا ہے اور دونوں اس حال میں مرجاتے ہیں کہ ایک ظالم اور دوسرا مظلوم ہوتا ہے – کیا ظالم کو اسکے ظلم کی سزا اور مظلوم کو اس کی مظلومیت کا بدلہ دئے بغیر دونوں کی ندگی کو مکمل کہا جاسکتا ہے ۔ایک شخص سچ بولتا ہے اور حق داروں کو ان کے حقوق ادا کرتا ہے جس کے نتیجہ میں اس کی زندگی مشکل بن جاتی ہے دوسرا شخص جھوٹ اور فریب سے کام لیتا ہے اور جس کی جو چیز پاتا ہے ہڑپ کرلیتا ہے جس کے نتیجہ میں اس کی زندگی نہایت عیش و عشرت کی زندگی بن جاتی ہے – اگر یہ دنیا اسی حال میں ختم ہوجائے تو کیا دونوں انسانوں کے اس مختلف انجام کی کوئی توجیہ کی جاسکتی ہے ۔ ؟
ایک قوم دوسری قوم پر ڈاکہ ڈالتی ہے اور اس کے وسائل اور ذرائع پر قبضہ کرلیتی ہے مگر اس کے باوجود دنیا میں وہی نیک نام رہتی ہے کیونکہ اس کے پاس نشر و اشاعت کے ذرائع ہیں اور دبی ہوئی قوم کی حالت سے دنیا ناواقف رہتی ہے کیونکہ اس کی آہ دنیا کے کانوں تک پہنچنے کا کوئی ذریعہ نہیں – کیا ان دونوں کی صحیح حیثیت کبھی ظاہر نہیں ہوگی ؟
دو اشخاص اور دو قوموں میں ایک مسئلہ میں اختلاف ہوتا ہے اور زبردست کشمکش تک نوبت پہنچ جاتی ہے دونوں اپنے آپ کو برسر حق کہتے ہیں اور ایک دوسرے کو انتہائی برا ثابت کرتے ہیں مگر دنیا میں ان کے مقدمہ کا فیصلہ نہیں ہوتا – کیا ایسی کوئی عدالت نہیں ہے جو ان کے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ کرسکے- دو اشخاص یا دوقوموں میں ایک مسئلہ پر اختلاف ہوتا ہے اور زبردست کشمکش تک نوبت پہنج جاتی ہے- دونوں اپنے آپ کو برسر حق کہتے ہیں اور ایک دوسرے کو انتہائی برا ثابت کرتے ہیں مگر دنیا میں ان کے مقدمے کا فیصلہ نہیں ہوتا کیا ایسی کوئی عدالت نہیں ہے جو ان کے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ کرسکے ؟
موجودہ دور کو ایٹمی دور کہا جاتا ہے لیکن اس کو خود سری کا دور کہیں تو زیادہ صحیح ہوگا ۔ آج کا انسان صرف اپنی رائے اور خواہش پر چلنا چاہتا ہے خواہ اس کی رائے اور خواہش کتنی ہی غلط کیوں نہ ہو ۔ ہر شخص غلط کار ہے مگر ہر شخص گلے کی پوری قوت کے ساتھ اپنے کو صحیح ثابت کررہا ہے ۔ اخبارات میں لیڈروں اور حکمرانوں کے بیانات دیکھئے ۔ ہر ایک انتہائی دیدہ دلیری کے ساتھ اپنے ظلم کو آئین انصاف اور اپنی غلط کاریوں کو بالکل جائز ثابت کرتا ہوا نظر آئے گا ۔ کیا اس فریب کا پردہ کبھی چاک ہونے والا نہیں ہے ؟
یہ صورت حال صریح طور پر ظاہر کررہی ہے کہ یہ دنیا نامکمل ہے اس کی تکمیل کے لئے ایک ایسی دنیا چاہئے جہاں ہر ایک کو اس کا صحیح مقام مل سکے ۔ مادی دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ جہاں کوئی خلا ہے ، اس کو پورا کرنے کے اسباب موجود ہے ۔ مادی دنیا میں کہیں کوئی کمی نظر نہیں آتی ۔ اس کے برعکس انسانی دنیا میں ایک زبرست خلا ہے ۔ جس قدرت نے مادی دنیا کو مکمل حالت میں ترقی دی ہے کیا اسکے پاس انسانی دنیا کا خلا پر کرنے کا کوئی سامان موجود نہیں ؟ ہمارا احساس بعض افعال کو اچھا اور بعض کو برا سمجھتا ہے ۔ ہم کچھ باتوں کے متعلق چاہتے ہیں کہ وہ ہوں اور کچھ باتوں کو چاہتے ہیں کہ وہ نہ ہوں ۔ مگر ہماری فطری خواہش کے علی الرغم وہ سب کچھ یہاں ہورہا ہے جس کو انسانی فطرت برا سمجھتی ہے ۔ انسان کے اندر اس طرح کے احساس کی موجودگی یہ معنی رکھتی ہے کہ کائنات کی تعمیر حق پر ہوئی ہے – یہاں باطل کے بجائے حق کو غالب آنا چاہئے ۔ پھر کیا حق ظاہر نہیں ہوگا ۔ جو چیز مادی دنیا میں پوری ہورہی ہے ۔ کیا وہ انسانی دنیا میں پوری نہیں ہوگی –
یہی وہ سوالات ہیں جن کے مجموعہ کو میں نے اوپر ” انسانیت کے انجام کی تلاش ” کہا ہے ۔ ایک شخص جب ان حالات کو دیکھتا ہے تو وہ سخت بے چینی میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ اس کے اندر نہایت شدت سے یہ احساس ابھرتا ہے کہ زندگی اگر یہی ہے جو اس وقت نظر آرہی ہے ، تو یہ کس قدر لغو زندگی ہے ! وہ ایک طرف دیکھتا ہے کہ انسانی زندگی کے لئے کائنات میں اس قدر اہتمام کیا گیا ہے گویا سب کچھ صرف اسی کے لئے ہے ،دوسری طرف انسان کی زندگی اس قدر مختصر اور اتنی ناکام ہے کہ سمجھ میں نہیں آتا کہ اس کو کس لئے پیدا کیا گیا ہے ۔
اس سوال کے سلسلے میں آج لوگوں کا رجحان عام طور پر یہ ہے کہ اس قسم کے جھنجھٹ میں پڑھنا فضول ہے ۔ یہ سب فلسفیانہ سوالات ہیں ، اورحقیقت پسندی یہ ہے کہ زندگی کا جو لمحہ تمہیں حاصل ہے اس کو پر مسرت بنانے کی کوشش کرو ۔ آئندہ کیا ہوگا ؟ یا جو کچھ ہورہا ہے وہ صحیح ہے یا غلط ، اس کی فکر میں پرھنے کی ضرورت نہیں –
اس جواب کے بارے میں کم از کم بات جو کہی جاسکتی ہے وہ یہ کہ جو لوگ اس انداز میں سوچتے ہیں انہوں نے ابھی انسانیت کے مقام کو نہیں پہنچانا وہ مجاز کو حقیقت سمجھ لینا چاہتے ہیں ۔ واقعات انھیں ابدی زندگی کا راز معلوم کرنےکی د عوت دے رہے ہیں ۔ مگر وہ چند روزہ زندگی پر قانع ہوگئے ہیں ۔ انسانی نفسیات کا تقاضہ ہے کہ اپنے امنگوں اور اصولوں کی تکمیل کے لئے ایک وسیع تر دنیا کی تلاش کرے مگر یہ نادان روشنی کے بجائے اس کے سایہ کو کافی سمجھ رہے ہیں ۔ کائنات پکاررہی ہے کہ یہ دنیا تمہارے لئے نا مکمل ہے ، دوسری مکمل دنیا کا کھوج لگاؤ ۔ ہمارا فیصلہ ہے کہ ہم اس نا مکمل دنیا میں اپنی زندگی کی عمارت تعمیر کریں گے ، ہم کو مکمل دنیا کی ضرورت نہیں ۔ حالات کا صریح اشارہ ہے کہ زندگی کا ایک انجام ہونا چاہئے مگر یہ لوگ صرف آغاز کو لے کر بیٹھ گئے ہیں ۔ اور انجام کی طرف سے آنکھیں بند کرلی ہیں ۔ حالانکہ یہ اس قسم کی ایک حماقت ہے جو شتر مرغ کے متعلق مشہور ہے- اگر فی الواقع زندگی کا کوئی انجام ہے تو وہ آکر رہے گا اور کسی کا اس سے غافل ہونا اس کو روکنے کا سبب نہیں بن سکتا- البتہ ایسے لوگوں کے حق میں وہ ناکامی کا فیصلہ ضرور کرسکتا ہے حقیقت یہ ہے کہ موجودہ زندگی کو کل زندگی سمجھنا اور صرف آج کو پر مسرت بنانے کی کوشش کو اپنا مقصد بنالینا بڑی کم ہمتی اور بے عقلی کی بات ہے ۔ آدمی اگر اپنی زندگی اور کائنات پر تھوڑا سا بھی غور کرے تو اس نقطہ نظر کی لغویت فورا واضح ہوجاتی ہے ۔ ایسا فیصلہ وہی کرسکتا ہے جو حقیقتوں کی طرف سے آنکھیں بند کرلے اور بالکل بے سمجھی بوجھی زندگی گذارنا شروع کردے –
یہ ہے وہ چند سوالات جو کائنات کو دیکھتے ہی نہایت شدت کے ساتھ ہمارے ذہن میں ابھرتے ہیں ۔ اس کائنات کا ایک خالق ہونا چاہئے مگر اس کے متعلق ہمیں کچھ نہیں معلوم ۔ اس کو چلانے والا اور اس کو سنبھالنے والا ہونا چاہئے، مگر ہم نہیں جانتے کہ وہ کون ہے ۔ ہم کسی کے احسانات سے ڈھکے ہوئے ہیں اور مجسم شکر و سپاس بن کر اس ہستی کو ڈھونڈنا چاہتے ہیں جس کے آگے اپنی عقیدت کے جذبات کو نثار کرسکیں مگر ایسا کوئی وجود ہمیں نظر نہیں آتا- ہم اس کائنات کے اندر انتہائی عجز اور بےبسی کے عالم میں ہیں ، ہم کو ایک ایسی پناہ کی تلاش ہے جہاں پہنچ کر ہم اپنے آپ کو محفوظ تصور کرسکیں مگر ایسی کوئی پناہ ہماری آنکھوں کے سامنے موجود نہیں ہے ۔ پھر جب ہم اپنی زندگی اور اپنی عمر کو دیکھتے ہیں تو کائنات کا یہ تضاد ہم کو ناقابل فہم معلوم ہوتا ہے کہ کائنات کی عمر تو کھربوں سال ہو اور انسان جو کائنات کا خلاصہ ہے اس کی عمر صرف چند سال ۔ فطرت ہم کو بے شمار امنگوں اورحوصلوں سے معمور کرے مگر دنیا کے اندر اس کی تسکین کا سامان فراہم نہ کرے ۔ پھر سب سے زیادہ سنگین تضاد وہ ہے جو مادی دنیا اور انسانی دنیا میں پایا جاتا ہے ۔ مادی دنیا انتہائی طور پر مکمل ہے ، اس میں کہیں خلا نظر نہیں آتا مگر انسانی زندگی میں زبردست خلا ہے ۔ اشرف المخلوقات کی حالت ساری مخلوق سے بد تر نظر آتی ہے ہماری بد قسمتی کی انتہاء یہ ہے کہ اگر پٹرول کا کوئی نیا چشمہ دریافت ہو یا بھڑ بکریوں کی نسل بڑھے تو اس سے انسان خوش ہوتا ہے مگر انسانی نسل کا اضافہ ہم سے گوارا نہیں ۔ ہم اپنی مشکلوں سے اس قدر پریشان ہیں کہ انسان کی پیدائش کو روک دینا چاہتے ہیں –
یہ سوالات ہم کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہیں ۔ وہ اندر سے بھی ابل رہے ہیں اور باہر سے بھی ہمیں گھیرے ہوئے ہیں مگر ہمیں نہیں معلوم کہ ان کا جواب کیا ہے- یہ زندگی کی حقیقت معلوم کرنے کا سوال ہے- مگر کس قدر عجیب بات ہے کہ ہمیں زندگی تو مل گئی مگر اس کی حقیقت ہمیں نہیں بتائی گئی-
اس حقیقت کی دریافت کے لئے جب ہم اپنی عقل اور اپنے تجربات کی طرف دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا صحیح اور قطعی جواب معلوم کرنا ہماری عقل اور ہمارے تجربہ کے بس سے باہر ہے ۔اس سلسلہ میں اب تک ہم نے جو رائیں قائم کی ہیں وہ اٹکل سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتیں ۔ جس طرح ہماری نظر کا دائرہ محدود ہے اور ہم ایک مخصوص جسامت سے چھوٹی چیزوں کا مشاہدہ نہیں کرسکتے اور ایک مخصوص فاصلہ سے آگے کے اجسام کو نہیں دیکھ سکتے ، اسی طرح کائنات کے متعلق ہمارا علم بھی ایک تنگ دائرے میں محدود ہے جس کے آگے یا پیچھے کی ہمیں کوئی خبر نہیں ۔ ہمارا علم نا مکمل ہے ہمارے حواس خمسہ ناقص ہے ۔ ہم حقیقت کو نہیں دیکھ سکتے ۔ میدہ اور کالک کو اگر ملایا جائے تو بھورا خاکستری رنگ کا ایک سفوف سا بن جاتا ہے ، لیکن اس سفوف کا باریک کیڑا جو سفوف کے ذروں ہی کہ برابر ہوتا ہے اور صرف خوردبین کی مدد سے دیکھا جاسکتا ہے وہ اس کو کچھ سیاہ اور کچھ کوسفید رنگ کی چٹان سمجھتا ہے ۔ اس کے مشاہدہ کے پیمانے میں خاکستری سفوف کوئی چیز نہیں-
نوع انسان کی زندگی اس زمانے کے مقابلہ میں جب کہ یہ کرہ ارض وجود میں آیا ، اس قدر مختصر ہے کہ کسی شمار میں نہیں آتی اور خود کرہ ارض کائنات کے اتھاہ سمندر میں ایک قطرہ کے برابر بھی نہیں ۔ ایسی صورت میں انسان کائنات کی حقیقت کے بارے میں جو خیال آرائی کرتا ہے ، اس کو اندھیرے میں ٹٹولنے سے زیاہ اور کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔ ہماری انتہائی لا علمی فورا ظاہر ہوجاتی ہے جب ہم کائنات کی وسعت کا تصور کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اگر آپ اسے ملحوظ رکھیں کہ آفتاب اسی ( 80 ) کھرب سال سے موجود ہے ، اس زمین کی عمر جس پر ہم بستے ہیں ، دو ارب سال ہے اور زمین پر زندگی کے آثار نمایاں ہوئے تین کروڑ سال گذر چکے ہیں مگر اس کے مقابلے میں زمین پر ذی عقل انسان کی تاریخ پندرہ بیس ہزار سال سے زیادہ نہیں ، تویہ حقیقت عیاں ہوجاتی ہے کہ یہ چند ہزار سال کا زمانہ جس میں انسان نے اپنی معلومات فراہم کی ہے ۔ اس طویل زمانے کا ایک بہت حقیر جزو ہے جو کہ دراصل کائنات کے اسرار کو معلوم کرنے کے لئے درکار ہے- کائنات کے بےحد طویل ماضی اور نا معلوم مستقبل کے درمیان انسانی زندگی محض ایک لمحہ کی حیثیت رکھتی ہے ۔ ہمارا وجود ایک نہایت حقیر قسم کا درمیانی وجود ہے جس کے آگے اور پیچھے کی ہمیں کوئی خبر نہیں ۔ ہماری عقل کو عاجزی کہ ساتھ اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ اس کائنات کی وسعت لا محدود ہے اور اس کو سمجھنے کے لئے ہماری عقل اور ہمارا تجربہ بالکل نا کافی ہے ۔ ہم اپنی محدود صلاحیتوں کے ذریعہ اس کو کبھی سمجھ نہیں سکتے –
اس طرح ہمارا علم اور ہمارا مطالعہ ہم کو ایک ایسے مقام پر لاکر چھوڑ دیتا ہے جہاں ہمارے سامنے بہت سے سوالات ہیں ، ایسے سوالات جو لازمی طور پر اپنا جواب چاہتے ہیں ۔ جن کے بغیر انسانی زندگی بالکل لغو اور بے کار نظر آتی ہے ۔ مگر جب ہم ان پر سوچنے بیٹھتے ہیں تو ہم کو معلوم ہوتا ہے کہ ہم اپنے ذہن سے ان کا جواب معلوم نہیں کرسکتے ۔ ہم کو آنکھ ہی نہیں ملی جس سے حقیقت کا مشاہدہ کیا جاسکے- اور وہ ذہن ہمیں حاصل نہیں ہے جو براہ راست حقیقت کا ادراک کرسکے –
اس موقع پر ایک شخص ہمارے سامنے آتا ہے اور کہتا ہے کہ جس حقیقت کو تم معلوم کرنا چاہتے ہو اس کا علم مجھے دیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ :
” اس کائنات کا ایک خدا ہے ۔ جس نے سارے عالم کو بنایا ہے اور اپنے غیر معمولی قوتوں کے ذریعہ اس کا انتظام کر رہا ہے ۔ جو چیزیں تمہیں حاصل ہیں وہ سب اسی نے تمہیں دی ہیں اور سارے معاملات کا اختیار اسی کو ہے ۔ یہ جو تم دیکھ رہے ہو کہ مادی دنیا کے اندر کوئی تضاد نہیں ، وہ ٹھیک ٹھیک اپنے فرائض انجام دے رہی ہے اور اس کے برعکس انسانی دنیا ادھوری نظر آتی ہے ، یہاں زبردست خلفشار برپا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کو آزادی دے کر اسے آزمایا جا رہا ہے ۔ تمہارا مالک یہ چاہتا ہے کہ اس کا قانون جو مادی دنیا میں براہ راست نافذ ہورہا ہے ، اس کو انسان اپنی زندگی میں خود سے اختیار کرے – یہی وجود کائنات کا خالق ہے ، وہی اس کا مدبر اور منتظم ہے ، وہی تمہارے جذبات شکر کا مستحق ہے اور وہی ہے جو تم کو پناہ دے سکتا ہے اس نے تمہارے لئے ایک لا محدود زندگی کا انتظام کر رکھا ہے جو موت کے بعد آنے والی ہے ، جہاں تمہاری امنگوں کی تسکین ہوسکے گی ۔ جہاں حق و باطل الگ الگ کردئے جائیں گے اور نیکو ں کو انکی نیکی کا اور بروں کو ان کی برائی کا بدلہ دیا جائے گا ۔ اس نے میرے ذریعہ سے تمہارے پاس اپنی کتاب بھیجی ہے جس کا نام قرآن ہے ۔ جو اس کو مانے گا وہ کامیاب ہوگا اور جو اس کو نہ مانے گا وہ ذلیل کردیا جائے گا- ”
یہ محمدﷺ کی آواز ہے جو چودہ سو برس پہلے عرب کے ریگستان سے بلند ہوئی تھی اور آج بھی ہم کو پکار رہی ہے ۔ اس کا پیغام ہے کہ اگر حقیقت کو معلوم کرنا چاہتے ہوتو میری آواز پر کان لگاؤ اور میں جو کچھ کہتا ہوں اس پر غور کرو ۔
کیا یہ آواز حقیقت کی واقعی تعبیر ہے ؟ کیا ہمیں اس پر ایمان لانا چاہئے ؟ وہ کونسی بنیادیں ہیں جن کی روشنی میں اس کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ کیا جائے گا؟
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس حقیقت کو اس وقت تسلیم کریں گے جبکہ وہ انھیں نظر آئے ۔ وہ حقیقت کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتے ہیں مگر یہ مطالبہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص فلکیا ت کا مطالعہ ریاضی کے بغیرکرنے کی کوشش کرے اور کہے کہ وہ فلکیاتی سائنس کی صرف ان ہی دریافتوں کو تسلیم کرے گا جو کھلی آنکھوں سے اسے نظر آتی ہو، ریاضیات کی دلیل اس کے نزدیک قابل قبول نہیں ہے ، یہ مطالبہ ظاہر کرتا ہے کہ آدمی کو اپنی قوتوں کا صحیح علم نہیں ہے۔
انسان کے پاس مشاہدہ کی جو قوتیں ہیں وہ نہایت محدود ہیں ۔ حقیقت ہمارے لئے ایک ناقابل مشاہدہ چیز ہے ۔ ہم اسے محسوس تو کرسکتے ہیں مگر اسے دیکھ نہیں سکتے ۔ ایک زمانے میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ دنیا چار چیزوں سے مل کر بنی ہے —- ” آتش و آب و خاک و باد ۔ ” دوسرے لفظوں میں قدیم انسان اس غلط فہمی میں مبتلا تھا کہ حقیقت ایک ایسی چیز ہے جسے دیکھا جاسکتا ہے ۔ مگر جدید تحقیقات نے اس کی غلطی واضح کردی ہے ۔ اب ہم جانتے ہیں کہ دنیا کی تمام چیزیں اپنے آخری تجزیہ میں ایٹم کے باریک ترین ذرات پر مشتمل ہے ۔ ایٹم ایک اوسط درجہ کے سیب سے اتنا ہی چھوٹا ہوتا ہے جتنا کہ سیب ہماری زمین سے ۔ یہ ایٹم ایک طرح کا نظام شمسی ہے جس کا ایک مرکز ہے ۔ اس مرکز میں پروٹان اور نیوٹران ہوتے ہیں اور اس کے چاروں طرف الکٹران ( برقیے ) مختلف مداروں میں اسی طرح حرکت کرتے ہیں جیسے سورج کے گر د اس کے تابع سیارے حرکت کرتے ہیں ۔ ایک برقیہ جس کا قطر سنٹی میٹر کا پانچ ہزار کروڑواں حصہ ہو اور جو اپنے مرکز کے چاروں طرف ایک سکنڈ میں کروڑوں مرتبہ چکر کاٹتا ہو ، اس کے تصور کی کوشش کرنا سعی لا حاصل ہے جب کہ ہمیں یہ بھی نہیں معلوم کہ یہ اندرونی عالموں کی آخری حد ہے ۔ ممکن ہے ان عالموں کے اندر ان سے بھی چھوٹے عالم ہوں –
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے مشاہدہ کی قوت کس قدر کمزور ہے ۔ پھر سوال یہ ہے کہ پروٹان اور نیوٹران کہ وہ انتہائی چھوٹے ذرے جو باہم مل کر مرکز بناتے ہیں وہ کس طرح قائم ہے ۔ آخر یہ پروٹان اور نیوٹران مرکز سے باہر کیوں نہیں نکل پڑتے ۔ وہ کیا چیز ہے جو انھیں ایک دوسرے سے باندھے ہوئے ہے ۔ سائنس دانوں کاخیال ہے کہ ان مادی ذرات کے درمیان ایک توانائی موجو ہے اور یہی توانائی مرکز کے برقی اور غیر برقی ذرات کو آپس میں جکڑے ہوئے ہے ۔ اس کو طاقت یکجائی کا نام دیا گیا ہے ۔ گویا مادہ اپنے آخری تجزیہ میں توانائی ہے ۔ میں پوچھتا ہوں ، کیا یہ توانائی قابل مشاہدہ چیز ہے ؟ کیا کسی بھی خوردبین کے ذریعہ اسے دیکھا جاسکتا ہے ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جدید سائنس نے خود یہ تسلیم کرلیا ہے کہ حقیقت ایک ناقابل مشاہدہ چیز ہے ۔ اس کو انسانی آنکھ نہیں دیکھ سکتی –
اب اگر ہم رسول ؐ کی بات کو ماننے کے لئے ہم یہ شرط لگائیں کہ وہ جن حقیقتوں کی خبر دے رہے ہیں وہ ہمیں چھونے اور دیکھنے کو ملنی چاہئیں تب ہم اسے مانیں گے تو یہ ایک نہایت نا معقول بات ہوگی – یہ ایسی ہی بات ہوگی کہ کوئی تاریخ ہند کا طالب علم ایسٹ انڈیا کمپنی کے حالات کامطالعہ کرتے ہوئے اپنے استاد سے کہے کہ کمپنی کے تمام کردار کو میرے سامنے لا کھڑا کردو ، اور وہ میرے سامنے وہ تمام گذرے ہوئے واقعات کو دہرائیں ، تب میں تمہاری تاریخ تسلیم کروں گا-
پھر وہ کونسی بنیادیں ہیں جن کی روشنی میں دیکھ کر ہم یہ فیصلہ کریں کہ یہ دعوت صحیح ہے یا غلط ، اور ہم کو اسے قبول کرنا چاہئے یا نہیں – میرے نزدیک اس دعوت کو جانچنے کے تین خاص پہلو ہیں- اول یہ کہ اس کی توجیہ حقیقت سے کتنی خاص مطابقت رکھتی ہے دوسرے یہ کہ زندگی کے انجام کے بارے میں اس کا دعوی محض دعوی ہے یا اس کی کوئی دلیل بھی ان کے پاس ملتی ہے ۔ اور تیسرے یہ کہ ان کے پیش کئے ہوئے کلام میں کیا ایسی کوئی نمایاں خصوصیت پائی جارہی ہے کہ اس کو خدا کا کلام کہا جاسکے ۔ ان تینوں پہلوؤں کےاعتبار سے جب ہم رسولؐ کے کام کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے ہر ایک پر وہ نہایت کامیابی کے ساتھ پورا اتر رہے ہیں –
1. رسول ؐ نے کائنات کی جو توجیہ کی ہے اس میں ہماری تمام پیچیدگیوں کا حل موجود ہے ۔ ہمارے اندر اور ہمارے باہر جتنے سوالات پیدا ہوتے ہیں ان سب کا وہ بہترین جواب ہے –
2. زندگی کے انجام کے بارے میں ان کا جو دعوی ہے اس کے لئے وہ اایک قطعی دلیل بھی اپنے پاس رکھتے ہیں ۔ وہ یہ کہ موجودہ زندگی میں وہ اس انجام کا ایک نمونہ ہمیں دکھا دیتا ہے جس کو بعد کی زندگی میں آنے کی وہ خبر دے رہا ہے –
3.وہ جس کلام کو خدا کا کلام کہتے ہیں اس کے اندر اتنی غیر معمولی خصوصیات پائی جاتی ہیں کہ ماننا پڑتا ہے کہ یقینا یہ ایک فوق الانسانی طاقت کا کلام ہے – کسی انسان کا کلام ایسا نہیں ہوسکتا –
آئیے اب ان تین پہلوؤں سے رسول ؐ کی دعوت کا جائزہ لیں-
1. اس کی پہلی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ وہ انسانی نفسیات کے عین مطابق ہے ۔ اس کے معنی یہ ہے کہ انسان کی پیدائش جس فطرت پر ہوئی ہے وہی فطرت اس توجیہ کی بھی ہے ۔ اس توجیہ کی بنیاد ایک خدا کے تصور پر رکھی گئی ہے اور ایک خدا کا شعور انسان کی فطرت میں شامل ہے ۔ اس کے دو نہایت مضبوط قرینے ہیں – ایک یہ کہ انسانی تاریخ کی تمام معلوم زبانوں میں انسانوں کی اکثریت بلکہ تقریبا ان کی تمام تعداد نے خدا کے وجود کو تسلیم کیا ہے ۔ انسان پر کبھی بھی ایسا دور نہیں گذرا ہے جب اس کی اکثریت خدا کے شعور سے خالی رہی ہو ۔ قدیم ترین زمانوں سے لےکر آج تک انسانی تاریخ کی متفقہ شہادت یہی ہے کہ خدا کا شعور انسانی فطرت کا نہایت طاقتور شعور ہے ۔ دوسرا قرینہ یہ ہے کہ جب انسان پر کوئی نازک وقت آتا ہے تو اس کا دل بے اختیار خدا کو پکار اٹھتا ہے جہاں کوئی سہارا نظر نہیں آتا وہاں وہ خدا کا سہارا ڈھونڈتا ہے – جاہل ہو یا عالم خدا پرست ہو یا ملحد روشن خیال ہو یا تاریک خیال ۔ جب بھی اس پر کوئی ایسا وقت گذرتا ہے جہاں عام انسانی قوتیں جواب دیتی نظر آتی ہیں تو وہ ایک ایسی ہستی کو پکار تا ہے جو تمام طاقتوں سے بڑھ کر طاقتور ہے اور جو تمام طاقتوں کا خزانہ ہے – انسان اپنے نازک ترین لمحات میں خدا کو یاد کرنے پر مجبور ہے ۔ اس کی ایک دلچسپ مثال ہمیں سٹالین کی زندگی میں ملتی ہے جس کا ذکر مسٹر چرچل نے دوسری جنگ عظیم کے حالات کے متعلق اپنی کتاب کی چوتھی جلد صفحہ 433 میں کیا ہے – 1942 کے نازک حالات میں جبکہ ہٹلر سارے یوروپ کے لئے خطرہ بنا ہوا تھا ، چرچل نے ماسکو کا سفر کیا تھا ۔ اس موقع پر چرچل نے سٹالین کو اتحادی فوجی کارروائی کے متعلق اپنی اسکیم کی تفصیلات بتائیں – چرچل کا بیان ہے کہ اسکیم کی تشریح کے ایک خاص مرحلہ پر جبکہ سٹالین کی دلچسپیاں اس سے بہت بڑھ چکی تھیں ، اس کی زبان سے نکلا ” خدا اس اسکیم کو کامیاب کرے “/ ۔ (“ڈاکٹر سید عبداللطیف – دی مائنڈ القرآن بلڈس صفحہ 94 )
اسی کے ساتھ نبی ؐ کی آواز کی یہ خصوصیت بھی ہے کہ وہ ان تمام سوالات کی مکمل توجیہ ہے جو انسان معلوم کرنا چاہتا ہے اور جو کائنات کے مطالعہ سے ہمارے ذہنوں میں ابھرتے ہیں – کائنات کے مطالعہ نے ہمیں اس نتیجہ پر پہنچایا تھا کہ یہ محض اتفاق سے نہیں پیدا ہوسکتی ، ضرور اس کا کوئی پیدا کرنے والا ہونا چاہئے ۔ اس توجیہ میں اس سوال کا جواب موجود ہے ۔ ہم کو نظر آرہا تھا کہ کائنات محض ایک مادی مشین نہیں ہے ۔ اس کے پیچھے کوئی غیر معمولی ذہن ہونا چاہئے جو اسے چلا رہا ہو ۔ اس توجیہ میں اس سوال کا جواب بھی موجود ہے ۔ ہم کو اپنے محسن کی تلاش تھی اور ایک ایسی ہستی کی تلاش تھی جو ہمارا سہارا بن سکے ۔ اس توجیہ میں اس کا جواب بھی موجود ہے ۔ ہم کو یہ بات بہت عجیب معلوم ہورہی تھی کہ انسانی زندگی اتنی مختصر کیوں ہے ہم اس کو لا محدود دیکھنا چاہتے تھے جہاں ہماری امنگوں کی تکمیل ہوسکے ۔ اس کی توجیہ میں اس کا جواب بھی موجود ہے – پھر انسانی حالات کا شدید تقاضہ تھا کہ حق کا حق ہونا اور باطل کا باطل ہونا واضح اور اچھے اور برے الگ الگ کردئے جائیں ہر ایک کو اس کا صحیح مقام دیا جائے ۔ اس سوال کا جواب بھی اس توجیہ میں موجود ہےغرض زندگی سے متعلق سارے سوالات کا مکمل جواب ہے اور اتنا بہتر جواب ہے کہ اس سے بہتر جواب کا ہم تصورنہیں کرسکتے- اس سے وہ سارے سوالات حل ہوجاتے ہیں جو کائنات کے مطالعہ سے ہمارے ذہن میں پیدا ہوئے تھے –
2 ۔ ان کی دعوت کی دوسری نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ زندگی کے انجام کے بارے میں وہ جو نظریہ پیش کرتے ہیں اس کا ایک واقعاتی نمونہ خود اپنی زندگی میں ہمیں دکھادیتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ دنیا اسی طرح ظالم اور مظلوم کو لئے ہوئے ختم نہیں ہوجائے گی بلکہ اس کے انجام پر کائنات کا رب ظاہر ہوگا اور سچوں اور جھوٹوں کو ایک دوسرے سے الگ الگ کردے گا – اس دن کے آنے میں جو دیر ہے وہ اس مہلت کار کے ختم ہونے کی ہے جو تمہارے لئے مقدر ہے –
یہ بات وہ صرف کہہ کر نہیں چھوڑدیتے ، بلکہ اسی کے ساتھ ان کا دعوی یہ بھی ہے کہ میں جو کچھ کہتا ہوں اس کے صحیح ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ اس عدالت کا ایک نمونہ مالک کائنات میرے ذریعہ سے اسی دنیا میں تم کو دکھائے گا – میرے ذریعہ سے وہ حق کو غالب اور باطل کو مغلوب کرے گا ، اپنے فرماں برداروں کو عزت دے گا اور اپنے نا فرمانوں کو ذلیل کرکے انھیں عذاب میں مبتلا کرے گا ۔ یہ واقعہ بہرحال ظہور میں آئے گا خواہ دنیا کے لوگ کتنی ہی مخالفت کریں اور ساری طاقت اس کے مٹانے پر لگادیں – جس طرح آخرت کا ہونا قطعی طور پر مقدر ہے اور کوئی اسے روک نہیں سکتا ۔ اسی طرح میری زندگی میں اس کا نمونہ دیکھایا جانا بھی لازمی ہے ۔ یہ ایک نشان ہوگا آنے والے دن کا اور یہ دلیل ہوگی اس بات کی کہ کائنات کی تعمیر عدل پر ہوئی ہے اور یہ میں جس طاقت کا نمائندہ ہوں وہ ایک ایسی طاقت ہے جس کی طاقت سب پر بالا ہے ۔ یہ طاقت ایک روز تم کو اپنے سامنے کھڑا کرکے تمام اگلے پچھلے انسانوں کا فیصلہ کرے گی –
چیلنچ وہ اس وقت دیتے ہیں جب کہ وہ تنہا ہیں ، پوری قوم ان کی دشمن ہوگئی ہے ۔ خود ان کا ملک ان کو جگہ دینے کے لئے تیار نہیں ۔ ان کے قریب ترین اعزا نے بھی ان کا ساتھ چھوڑ دیا – ان کے پاس مادی وسائل و ذرائع میں سے بھی کچھ نہیں ۔ ایسا ایک شخص پورے یقین کے ساتھ یہ اعلان کرتا ہے کہ میں غالب ہونگا اور میرے ذریعہ سے خدا کی عدالت زمین پر قائم ہوگی ۔ سننے والے ان کا مذاق اڑاتے ہیں مگر وہ نہایت سنجیدگی کے ساتھ اپنا کام کرتا چلا جا رہا ہے – ملک کی اکثریت اس کے قتل کا فیصلہ کرتی ہے ۔ اس کی معاشیات تباہ کردیتی ہے ۔ اس کو جلاوطنی پر مجبور کرتی ہے ۔ اس کو مٹانے پر اپنا سارا زور صرف کردیتی ہے ۔ مگر اس کے مقابلے میں یہ سب کچھ بے اثر ثابت ہوتا ہے اگرچہ بہت تھوڑے لوگ اس کا ساتھ دیتے ہیں ۔ ایک طرف معمولی اقلیت ہوتی ہے اور دوسری طرف زبردست اکثریت ۔ ایک طرف سازوسامان ہوتا ہے اور دوسری طرف بے سروسامانی ۔ ایک طرف ملکی باشندوں اور ہمسایہ قوموں کی حمایت ہوتی ہے اور دوسری طرف اپنوں اور غیروں کی متفقہ مخالفت ۔ حالات کی انتہائی ناسازگاری سے اس کے ساتھی اکثر گھبرا اٹھتے ہیں مگر وہ ہر بار یہی کہتا ہے کہ انتظار کرو ، خدا کا فیصلہ آکر رہے گا ، اس کو کوئی طاقت روک نہیں سکتی ۔
اس کے چیلنچ پر چوتھائی صدی بھی گذرنے نہیں پاتی کہ وہ مکمل شکل میں پورا ہوجاتا ہے اور تاریخ میں اپنی نوعیت کا واحد واقعہ ظہور میں آتا ہے کہ ایک شخص نے جن دعووں کے ساتھ اپنے کام کا آغاز کیا تھا ٹھیک اسی شکل میں اس کا دعوی پورا ہوا اور اس کے مخا لفین اس میں کوئی کمی بیشی نہ کر سکے –حق اور باطل الگ الگ ہوگیا ۔ خدا کے فرماں برداروں کو عزت اور غلبہ حاصل ہوا ، اور خدا کے نافرمانوں کا زور توڑ کر انھیں محکوم بنادیا گیا-
اس طرح اس دعوت نے انسانوں کے لئے جس انجام کی خبر دی تھی اس کا ایک نمونہ دنیا میں قائم کردیا جو قیامت کے لئے عبرت کا نشان ہے- اس نمونہ کی تکمیل آخرت میں ہوگی جب سارے انسانوں کو خداکی عدالت میں حاضر کرکے ان کا آخری فیصلہ کیا جائے گا –
3 ۔ اس شخص کے دعوے کہ برحق ہونے کا تیسرا ثبوت وہ کلام ہے جس کو وہ کلام الٰہی کہ کر پیش کر تا ہے ۔ اس کلام کے اوپر کتنی ہی صدیاں گذر چکی ہیں مگر اس کی عظمت ، اس کی سچائی اور حقیقت کے بارے میں اس بیان کا ایک حروف بھی غلط ثابت نہ ہوسکا جبکہ کوئی بھی انسانی کتاب ایسی نہیں ہے جو ان نقائص سے پاک ہو –
دوسرے لفظوں میں قرآن بذات خود اس بات کی دلیل ہے کہ وہ خدا کی کتاب ہے اس کے بہت سے پہلو ہیں مگر میں یہاں صرف تین پہلوؤں کا ذکر کرونگا ۔ ایک اس کا غیر معمولی انداز بیان ، دوسرے اس کے معنی کا تضاد سے پاک ہونا ۔ تیسرے اس کی ابدیت –
1. قرآن ایک غیر معمولی کلام ہے ۔ اس کو پڑھتے ہوئے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس کا مصنف ایک ایسے بلند مقام سے بول رہا ہے جو کسی بھی انسان کو حاصل نہیں ۔ اس کی عبارتوں کا شکوہ ، اس کی بے پناہ روانی اور اس کا فیصلہ کن انداز بیان اتنا حیرت انگیز طور پر انسانی کلام سے مختلف ہے کہ صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ یہ مالک کائنات کی آواز ہے کسی انسان کی آواز نہیں ۔ اس کا پر یقین اور با عظمت کلام خود ہی بول رہا ہے کہ یہ خدا کی کتاب ہے جس میں خدا اپنے بندوں سے مخاطب ہوا ہے ۔ قرآن میں کائنات کی حقیقت بتائی گئی ہے ۔ انسان کے انجام کی خبر دی گئی ہے اور زندگی سے متعلق تمام کھلے اور چھپے حالات پر گفتگو کی گئی ہے ۔ مگر یہ سب کچھ اس قدر قطعی انداز میں بیان ہوا ہے کہ اظہار واقعہ کا مشاہدہ معلوم ہونے لگتا ہے قرآن کو پڑھتے ہوئے گویا ایسا محسوس ہوتا ہے گویا آدمی کو حقیقت کا علم نہیں دیا جارہا ہے بلکہ اس کو حقیقت کے سامنے لے جاکر کھڑا کردیا گیا ہے ۔ وہ واقعہ کو کتاب کے صفحات میں نہیں پڑھ رہا ہے بلکہ اسکرین کے اوپر اس کو اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے ۔ کلام کی یہ قطعیت صاف ظاہر کر رہی ہے کہ یہ ایک ایسی ہستی کا کلام ہے جس کو حقیقتوں کا براہ راست علم ہے ۔ کوئی انسان جو حقیقتوں کا ذاتی علم نہ رکھتا ہو ، اپنے کلام میں ہر گز یہ قطعیت پیدا نہیں کرسکتا ۔ یہاں میں نمونہ کے طور پر قرآن کی ایک چھوٹی سی سورت نقل کروں گا –
بسم الله الرحمن الرحيم
إِذَا السَّمَاءُ انفَطَرَتْ ﴿١﴾ وَإِذَا الْكَوَاكِبُ انتَثَرَتْ ﴿٢﴾ وَإِذَا الْبِحَارُ فُجِّرَتْ ﴿٣﴾ وَإِذَا الْقُبُورُ بُعْثِرَتْ ﴿٤﴾ عَلِمَتْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ وَأَخَّرَتْ ﴿٥﴾ يَا أَيُّهَا الْإِنسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ ﴿٦﴾ الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ فَعَدَلَكَ ﴿٧﴾ فِي أَيِّ صُورَةٍ مَّا شَاءَ رَكَّبَكَ ﴿٨﴾ كَلَّا بَلْ تُكَذِّبُونَ بِالدِّينِ ﴿٩﴾ وَإِنَّ عَلَيْكُمْ لَحَافِظِينَ ﴿١٠﴾ كِرَامًا كَاتِبِينَ ﴿١١﴾ يَعْلَمُونَ مَا تَفْعَلُونَ ﴿١٢﴾ إِنَّ الْأَبْرَارَ لَفِي نَعِيمٍ ﴿١٣﴾ وَإِنَّ الْفُجَّارَ لَفِي جَحِيمٍ ﴿١٤﴾ يَصْلَوْنَهَا يَوْمَ الدِّينِ ﴿١٥﴾ وَمَا هُمْ عَنْهَا بِغَائِبِينَ ﴿١٦﴾ وَمَا أَدْرَاكَ مَا يَوْمُ الدِّينِ ﴿١٧﴾ ثُمَّ مَا أَدْرَاكَ مَا يَوْمُ الدِّينِ ﴿١٨﴾ يَوْمَ لَا تَمْلِكُ نَفْسٌ لِّنَفْسٍ شَيْئًا ۖ وَالْأَمْرُ يَوْمَئِذٍ لِّلَّـهِ ﴿١٩﴾
بسم الله الرحمن الرحيم
جب آسمان پھٹ جائے گا (1) اور جب ستارے جھڑ جائیں گے (2) اور جب سمندر بہہ نکلیں گے (3) اور جب قبریں (شق کر کے) اکھاڑ دی جائیں گی (4) (اس وقت) ہر شخص اپنے آگے بھیجے ہوئے اور پیچھے چھوڑے ہوئے (یعنی اگلے پچھلے اعمال) کو معلوم کر لے گا (5) اے انسان! تجھے اپنے رب کریم سے کس چیز نے بہکایا (6) جس (رب نے) تجھے پیدا کیا، پھر ٹھیک ٹھاک کیا، پھر (درست اور) برابر بنایا (7) جس صورت میں چاہا تجھے جوڑ دیا (8) ہرگز نہیں بلکہ تم تو جزا وسزا کے دن کو جھٹلاتے ہو (9) یقیناً تم پر نگہبان عزت والے (10) لکھنے والے مقرر ہیں (11) جوکچھ تم کرتے ہو وه جانتے ہیں (12) یقیناً نیک لوگ (جنت کے عیش وآرام اور) نعمتوں میں ہوں گے (13) اور یقیناً بدکار لوگ دوزخ میں ہوں گے (14) بدلے والے دن اس میں جائیں گے (15) وه اس سے کبھی غائب نہ ہونے پائیں گے (16) تجھے کچھ خبر بھی ہے کہ بدلے کا دن کیا ہے (17) میں پھر (کہتا ہوں کہ) تجھے کیا معلوم کہ جزا (اور سزا) کا دن کیا ہے (18) (وه ہے) جس دن کوئی شخص کسی شخص کے لئے کسی چیز کا مختار نہ ہوگا، اور (تمام تر) احکام اس روز اللہ کے ہی ہوں گے ( 19)
( یہاں یہ بات ملحوظ رکھی جائے کہ ترجمہ میں کبھی وہ زور پیدا نہیں ہوسکتا جو اصل کلام میں ہے )
کس قدر یقین سے بھرا ہوا ہے یہ کلام جس میں زندگی کی ابتداء اور انتہاء سب کچھ بیان کردی گئی ہے ۔ کوئی بھی انسانی کتاب جو زندگی اور کائنات کے موضوع پر لکھی گئی ہو ، اس یقین کی مثال پیش نہیں کرسکتی ، سیکڑوں سال سے انسان کائنات کی حقیقت پر غور کررہا ہے ، بڑے بڑے فلسفی اور سائنس داں پیدا ہوئے ، مگر کوئی اس یقین کے ساتھ بولنے کی جراءت نہ کرسکا ۔ سائنس آج بھی یہ تسلیم کرتی ہے کہ وہ کسی قطعی اور صحیح علم سے ابھی بہت دور ہے جبکہ قرآن اس قدر یقین کے ساتھ بات کہتا ہے گویا وہ علم کا احاطہ کئے ہوئے ہے اور حقیقت سے آخری وقت تک واقف ہے –
2. قرآن کے کلام الہی ہونے کی دوسری دلیل یہ ہے کہ اس نے مابعد الطبیعی حقائق سے لے کر تمدنی مسائل تک تمام اہم امور پر گفتگو کی ہے مگر کہیں بھی اس کے کلام میں تضاد نہیں پایا جاتا ۔ اس کلام پر تقریبا دیڑھ ہزار برس پورے ہورہے ہیں ، اس دوران میں بہت سی نئی نئی باتیں انسان کو معلوم ہوئی ہیں مگر اس کی باتوں میں اب بھی کوئی تضاد ظاہر نہ ہوسکا ۔ حالانکہ انسانوں میں سے کسی ایک بھی فلسفی کا اس حیثیت سے نام نہیں لیا جاسکتا کہ اس کا کلام تضاد اور اختلاف سے پاک ہے – اس دوران میں ہزاروں فلسفی پیدا ہوئے جنھوں نے اپنی عقل سے زندگی اور کائنات کی توجیہ کرنے کی کوشش کی مگر بہت جلد ان کے کلام کا تضاد ظاہر ہوگیا اور زمانہ نے انھیں رد کردیا –
کسی کلام کا تضاد سے پاک ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ حقیقت سے کلی مطابقت رکھتا ہے ۔ جو شخص حقیقتوں کا علم نہ رکھتا ہو یا صرف جزوی علم اسے حاصل ہو وہ جب بھی حقیقت کو بیان کرنے بیٹھے گا لازمی طور پرتضادات کا شکار ہوجائے گا – وہ ایک پہلو کی تشریح کرتے ہوئے دوسرے پہلو کی رعایت نہ کرسکے گا و ہ ایک رخ کو کھولے گا تو دوسرے رخ کو بند کردے گا – زندگی اور کائنات کی توجیہ کا سوال ایک ہمہ گیر سوال ہے – اس کے لئے ساری حقیقتوں کا علم حاصل ہونا ضروری ہے اور چونکہ اپنی محدود صلاحیتوں کی بنا پر ساری حقیقتوں کا علم حاصل نہیں کرسکتا اس لئے وہ سارے پہلوؤں کیہ رعایت بھی نہیں کرسکتا – یہی وجہ ہے کہ انسان کے بنائے ہوئے فلسفوں میں تضاد کا پایا جانا لازمی ہے – قرآن کی یہ خصوصیت کہ وہ اس قسم کے تضادات سے پاک ہے ، اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ وہ حقیقت کی صحیح ترین تعبیر ہے ، اس کے سوا تمام تعبیریں غلط ہیں – اس کو میں مثال کے ذریعہ واضح کروں گا-زندگی کے موضوع پر جو کتاب لکھی جائے اس کا ایک ضروری باب زندگی کے فرائض متعین کرنا ہے – یہ فرائض متعین کرنے میں ضروری ہے کہ ان کے مختلف پہلوؤں کی ٹھیک ٹھیک رعایت کی جائے –ایسا نہ ہو کہ کسی ایک پہلو سے کوئی ایسا حکم دیا جائے جو دوسرے پہلو سے ٹکراتا ہو- مثلا مرد اور عورت کی حیثیت متعین کرنا تمدنی زندگی کا ایک اہم مسئلہ ہے – آج کے ترقی یافتہ دور نے یہ قرار دیا ہے کہ عورت اور مرد کے درمیان مساوات ہونی چاہئے اور زندگی کے ہر شعبہ میں دونوں کو یکساں طور پر کام کرنے کا موقع دینا چاہئے مگر یہاں انسانی ساخت کا تمدنی اصول ایک نہایت اہم صورت واقعی سے ٹکرارہا ہے – یعنی اس حقیقت سے کہ حیاتیات کے اعتبار سے دونوں صنفوں کے درمیان مساوات نہیں ہے اور یہ ممکن نہیں ہے کہ دونوں یکساں طور پر زندگی کا بوجھ اٹھا سکیں – اس کے برعکس قرآن نے تمدنی زندگی میں عورت اور مرد کا جو مقام متعین کیا ہے وہ دونوں کی پیدائشی ساخت کے عین مطابق ہے اور قانون اور حقیقت کے درمیان کوئی تضاد پیدا نہیں ہوتا .
3.قرآن کی تیسری خصوصیت یہ ہے کہ وہ تقریبا دیڑھ ہزار برس سے موجود ہے – اس زمانے میں کتنے انقلابات آئے ہیں ، تاریخ میں کتنی الٹ پلٹ ہوئی ہے ، زمانہ نے کتنی کروٹیں بدلی ہیں ، مگر اب تک اس کی کوئی بات غلط ثابت نہیں ہوئی ، وہ ہر زمانہ کے عقلی امکانات اور تمدنی ضروریات کا مسلسل ساتھ دیتا چلا آرہا ہے – اس کی تعلیمات کی ہمہ گیری کسی مقام پر بھی ختم نہیں ہوتی بلکہ ہر زمانے کے مسائل پر حاوی ہوتی چلی جاتی ہے – یہ اس عظیم کتاب کی ایک ایسی خصوصیت ہے جو کسی بھی انسانی کتاب کو اب تک حاصل نہیں ہوسکی ہے – انسان کا بنایا ہوا ہر فلسفہ چند ہی دنوں بعد اپنی غلطی ظاہر کردیتا ہے مگر صدیوں پر صدیاں گذرتی جارہی ہیں اور اس کتاب کی صداقت میں کوئی فرق نہیں آتا –
یہ قانون اس وقت بنایا گیا تھا جب عرب کے غیر متمدن اور منتشر قبائل میں اسلامی ریاست قائم کرنے کا مسئلہ درپیش تھا مگر اس کے بعد صدیوں تک وہ اسلامی حکومتوں کی تمام ضرورتیں پوری کرتا رہا اور موجودہ ترقی یافتہ دور میں بھی نہ صرف یہ کہ وہ زمانہ کا پورا ساتھ دینے کی صلاحیت رکھتا ہے بلکہ صرف وہی ایک ایسا نظام ہے جو حقیقی معنوں میں زندگی کے مسائل کو حل کرسکتا ہے – دیڑھ ہزار برس پہلے جس طرح اس نے اپنی برتری ثابت کی تھی آج بھی وہ اسی طرح تمام فلسفوں پر فوقیت رکھتا ہے –
یہ قرآن کا معجزہ ہے کہ زندگی کے بارے میں اس نے جو نظریات پیش کئے تھے اور فرد اور جماعت کے عمل کے لئے جو خاکہ تجویز کیا تھا وہ آج بھی نہ تو پرانا ہوا اور نہ اس میں کسی نقص کی نشاندہی کی جاسکتی ہے اس دوران میں کتنے فلسفے پیدا ہوئے اور مرگئے اور کتنے نظام بنے اور بگڑ گئے مگر قرآن کے نظریہ کی صداقت اور اس کے عملی نظام کی افادیت آج بھی مسلم ہے ۔
میں یہاں دونوں پہلوؤں سے ایک ایک مثال پیش کروں گا –
قرآن نے یہ دعوی کیا تھا کہ کائنات کا محرک ایک ذہن ہے جو بالارادہ اسے حرکت دے رہا ہے – قرآن نے یہ دعوی یوروپ کی نشاۃ ثانیہ سے بہت پہلے کیا تھا – اس کے بعد بہت سے فلسفی اور سائنس داں اٹھے جنھوں نے بڑے زوروشور کے ساتھ یہ دعوی کیا کہ کائنات محض ایک مادی مشین ہے جو خودبخود حرکت کررہی ہے – یہ نظریہ دوسوبرس تک انسانی ذہنوں پر حکومت کرتا رہا – ایسا معلوم ہوا کہ علم کی ترقی نے قرآن کے دعوی کو رد کردیا ہے – مگر اس کے بعد خود کائنات کے مطالعہ سے سائنس دانوں پر یہ منکشف ہوا کہ زندگی اور کائنات کی توجیہ محض مادی قوانین کے ذریعہ نہیں کی جاسکتی – اب سائنس دن بدن قرآن کے اس نظریہ کی طرف لوٹ رہی ہے کہ اس کائنات کے پیچھے ایک ذہن ہے جو اپے ارادہ سے اس کو چلا رہا ہے – مشہور سانئس داں سر جیمز جنیز اس تبدیلی کی تشریح کرتے ہوئے لکھتا ہے :
” علم کے دریا نے پچھلے چند برسوں میں نہایت تیزی سے ایک نیا موڑ اختیار کیا ہے – تیس سال پہلے ہمارا خیال تھا یا ہم نےفرض کرلیا تھا کہ ہم ایک ایسی آخری حقیقت کی طرف بڑھ رہے ہیں جو اپنی نوعیت میں میکانیکی ہے – ایسا نظر آتا تھا کہ کائنات ایٹموں کے ایک ایسے بے ترتیب انبار پر مشتمل ہے جو اتفاقی طور پر اکٹھا ہوگئے ہیں اور جن کا کام یہ ہے کہ بے مقصد اور اندھی طاقتوں کے تحت جو کوئی شعور نہیں رکھتی ہیں ، کچھ زمانے کے لئے ایک بے معنی رقص کریں جس کے ختم ہونے پر ایک مردہ کائنات باقی رہ جائے – اس خالص میکانیکی دنیا میں مذکورہ بالا اندھی طاقتوں کے عمل کے دوران میں زندگی ایک حادثہ کے طور پر بالکل اتفاق سے آپہنچی ہے – کائنات کا ایک بہت ہی چھوٹا گوشہ یا امکان کے طور اس کے کئی گوشے کچھ عرصہ کے لئے اتفاقی طور پرذی شعور ہوگئے ہیں – مگر موجودہ معلومات کی روشنی میں طبیعیات کی حد تک سائنس کا اس بات پر تقریبا اتفاق ہے کہ علم کا دریا ہمیں ایک غیر میکانیکی حقیقت کی طرف لے جا رہا ہے ۔ ”
اسی مضمون میں آگے چل کر وہ لکھتا ہے :
” جدیدمعلومات ہم کو مجبور کرتی ہیں کہ ہم اپنے پچھلے خیالات پر نظرثانی کریں جو ہم نے جلدی میں قائم کرلئے تھے ۔ یعنی کی ہم اتفاق سے ایک ایسی کائنات میں آپڑے ہیں جس کو خود زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہے یا وہ باقائدہ طور پر زندگی سے عداوت رکھتی ہے ۔ اب ہم نے دریافت کرلیا ہے کہ کائنات ایک ایسی خالق یا مدبر Desiging or controling power طاقت کاثبوت فراہم کررہی ہے جو ہمارے شخصی ذہن سے بہت کچھ ملتی جلتی ہے ۔ ” ( ماڈرن سائنٹفک تھاٹ ، صفحہ 104 )
یہ نظری پہلو کی مثال تھی اب عملی پہلو سے متعلق ایک مثال لیجئے ۔ اسلام نے معاشرتی زندگی کا جو قانون بنایا ہے اس میں ایک مرد کو اجازت دی ہے کہ وہ چار عورتوں تک شادی کرسکتا ہے ۔ اسلام کے بعد جب مغربی تہذیب اٹھی تو اس نے اس قانون کا بہت مذاق اڑایا اور اس کو جاہلیت کے زمانہ کا وحشی قانون قرار دیا ۔ اس کے نزیک یہ قانون عورتوں کے ساتھ سراسر نا انصافی تھی اور اس بنیا پر کبھی بھی کوئی ترقی یافتہ تمدن تعمیر نہیں کیا جاسکتا تھا ۔ چنانچہ مسیحیت میں اس کی گنجائش موجود تھی مگر مغربی تہذیب نے اس کو ایک قلم اپنے ہاں سے خارج کردیا اور اس کو ایک نہایت ذلیل فعل قرار دیا کہ کوئی شخص ایک عورت رکھتے ہوئے دوسری عورت سے شای کرے ۔ اس کی تبلیغ اس زور شور سے کی گئی کہ اب یہ حال ہے کہ نہ کوئی مرد اس کی جرات کرسکتا ہے اور نہ کوئی عورت اپنے بارے میں ایسا سوچ سکتی ہے کہ وہ کسی شخص کی وسری یا تیسری بیوی بنے –
مگر حالات نے اور خاص طور پر دوسری جنگ عظیم کے حالات نے اب یہ ثابت کردیا ہے کہ ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت دراصل زندگی کی ایک عملی ضرورت ہے ۔ کبھی بعض افراد کی زندگی میں تو کبھی پوری جماعت کے لئے ایسے حالات پیدا ہوجاتے ہیں کہ و و میں سے کسی ایک چیز کا انتخاب ناگزیر ہوجاتا ہے ۔ یا تو فواحش یا بدکاری کو قبول کیا جائے جس کا مطلب پورے تمدن کو ہولناک خطرہ میں مبتلا کردینا ہے یا تعدد ازدواج کی شکل کو اختیار کیا جائے جس سے مسئلہ بھی حل ہوجاتا ہے اور کوئی خرابی بھی پیدا نہیں ہوتی ۔ چنانچہ دوسری جنگ عظیم کے بعد ان تمام ملکوں میں جو جنگ میں شریک تھے ، عورتوں کی تعداد بہت بڑھ گئی ۔ مرد لڑائیوں میں مارے گئے تھے جس کی وجہ سے مردوں کی تعداد کم اور عورتوں کی تعداد بہت زیادہ ہوگئی جس کا اثر آج تک باقی ہے ۔ 1955 کے اعداد و شمار کے مطابق جاپان میں ہر ایک مرد کے مقابلے میں آٹھ عورتیں تھیں ۔ اس جنگ کا سب سے زیادہ اثر جرمنی پر پڑا جہاں بے شمار عورتیں بیوہ اور کتنے بچے یتیم ہوگئے اور لڑکیوں کے لئے شوہر ملنا مشکل ہوگیا ۔ اس کی وجہ سے ان ملکوں میں لاوارث اور ناجائز بچوں کی تعداد بہت بڑھ گئی ۔ جو یتیم ہوگئے تھے ان کا کوئی وارث نہیں رہا اور جو عورتیں شوہر سے محروم ہوگئیں تھیں انھوں نے فطری تقاضہ سے مجبور ہوکر اپنی خواہش پوری کرنے کے لئے ناجائز طریقے اختیار کرنے شروع کردئے ۔ نوبت یہاں تک آپہنچی کہ جرمنی میں بعض عورتوں کہ گھروں پر اس قسم کا بورڈ نظر آنے لگا کہ :
Wanted an evening guest
( رات گزارنے کے لئے ایک مہمان چاہئے )
اگر چہ مغربی ذہن نے ابھی تک اس معاملہ میں اپنی غلطی تسلیم نہیں کی ہے مگر واقعات نے صریح طور پر اس کا غلط ہونا ثابت کردیا ہے اور وہ دن دور نہیں جب زبان سے بھی اس کو تسلیم کرلیا جائے گا ۔ اس وقت معلوم ہوگا کہ نکاح کے معاملہ میں جس اصول کو مغرب نے اختیار کیا تھااس کا مطلب یہ ہے کہ سماج کو فحاشی میں مبتلا کرکے بے شمار جرائم کا دروازہ کھول دیا جائے جبکہ اسلام کا اصول اصل مسئلہ کو بہترین طریقے پر حل کرتا ہے اور سماج کو بہت سے شدید نقصانات سے بچالیتا ہے –
قرآن کے نظریات اور اس کے قوانین کی یہ دو مثالیں تھیں جن سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ انسانی ساخت کے نظریے اور قوانین بن بن کر بگڑتے رہے مگر قرآن نے پہلے دن جو کچھ کہا تھا آخری دن تک اس کی سچائی میں کوئی فرق نہیں آیا ۔ وہ پہلے جس طرح حق تھا آج بھی اسی طرح حق ہے ۔ قرآن کی یہ خصوصیت ظاہر کرتی ہے کہ وہ ایک ایسے ذہن سے نکلا ہے جس کا علم ماضی اور مستقبل پر محیط ہے ۔ قرآن کی ابدیت قرآن کے کلام الٰہی ہونے کا کھلا ثبوت ہے –
حضرات ! ہمارے مطالعہ نے اب ہمارے لئے حقیقت کے دروازے کھول دئے ہیں ۔ ہم نے اپنے سفر کا آغاز اس سوال سے کیا تھا کہ ” ہم کیا ہیں اور یہ کائنات کیا ہے ” اس کا جواب بہت سے لوگوں نے اپنے ذہن سے دینے کی کوشش کی ہے ، مگر ہم نے دیکھا کہ یہ جوابات حقیقت کی صحیح تشریح نہیں کرتے پھر ہمارے کانوںمیں عرب سے بکلی ہوئی ایک آواز آئی ۔ ہم نے اس پر غور کیا ، اس کو کائنات کے فریم میں رکھ کر دیکھا ، انسانی تاریخ میں اسے آزمایا اور فطرت کی گہرائیوں میں اتر کر اس کو پہچاننے کی کوشش کی ۔ ہم نے دیکھا کہ کائنات ، تاریخ اور انسانی نفسیات متفقہ طور پر اس کی تصدیق کر رہے ہیں- ہمارا تمام علم اور ہمارے بہترین احساسات بالکل اس کی تائید میں ہیں جس حقیقت کی ہمیں تلاش تھی اس کو ہم نے پالیا ۔ اب ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ہم اس کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں-
تحریر وحید الدین خان