سائنس جب کبھی اسکا جواب دیتی ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے، اس سے درحقیقت یہ مراد ہوتی ہے کہ ایسا کیسے ہوتا ہے۔ اسباب کی سائنسی تحقیق ہمیشہ کسی امر کی تجربہ گاہ میں تصدیق و تكرار سے بحث کرتی ، تخلیق کی غیبی و روحانی وجوہات سے اسکو کوی خاص دلچسپی نہیں ہوتی ۔جب انسان اپنے گرد ونواح پر نظر ڈالتا ہے تو اس کا یہ سوال، ایسا کیوں ہے، عموما اس جواب کا متقاضی ہوتا ہے کہ اس کارخانہ ہستی کی اصل کیا ہے، تخلیق کا مبتدا و منتہی کیا ہے، مقصد زندگانی کیا ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے بارے میں سائنسی تحقیق یا تو خاموش ہے یا اسکا خیال ہے کہ یہ سب یونہی بے کار بے سبب بے وجہ وجود میں ٓآگیا ہے۔
آپ مجھ سے سوال پوچھیں کہ سامنے کھڑی گاڑی کس نے بنائی؟ اور میں آپ کو جواب دوں کہ دراصل پہلے انجن بنا پھر اس پر گاڑی کی باڈی سجای گئی اور پھر اس میں پہیئے شیشے لگا کر اسکی تزئین کی گئی.اس جواب پر ممکن ہے آپ مجھیں ناگواری سے گھوریں ضرور، کہ بھائی سیدھا سا سوال تھا کہ گاڑی کس نے بنائی ، جواب دے دینا تھا کہ ٹویوٹا نے .. بات سمجھ آجاتی. یہ اتنی لمبی اور غیر متعلق تفصیل بتانے کی کیا ضرورت تھی ؟ کہ گاڑی ‘کیسے’ بنی ؟ یا اس میں کیا کیا اجزاء استمعال ہوئے؟ یہ تو سوال ہی نہ تھا. لہٰذا پوچھنے والا جواب سے محروم ہی رہے گا.
آپ مجھ سے دریافت کریں کہ تاج محل کس نے تعمیر کیا؟ اور میں پروفیسر انداز میں یہ جواب دینے لگوں کہ اسکی تعمیر میں پہلے اینٹیں لگائی گئیں، پھر کھڑکیاں دروازے بنے، پھر رنگ و روغن ہوا اور آخر میں باہر کا چبوترا بنایا گیا.یقیناً آپ کو میرے اس احمقانہ جواب پر شدید کوفت ہوگی. آپ نے تو آسان سا سوال پوچھا تھا کہ تاج محل کس نے بنوایا یا بنایا؟ میرا جواب ہونا چاہیئے تھا کہ مغل بادشاہ شاہ جہاں نے اپنے کاریگروں سے اسے تعمیر کروایا تھا. بات مکمل ہوجاتی. اس تقریر کی قطعی کوئی حاجت نہ تھی کہ اسکی تعمیر میں کون سا کام پہلے اور کون سا بعد میں ہوا؟ اس نامناسب تفصیل سے یہی ہوا کہ سوال جوں کا توں باقی رہا.
ملحدین کا حال بھی کچھ اس سے زیادہ بہتر نہیں ہے. آپ ان سے پوچھیں کہ اس باشعور انسان کو کس نے تخلیق کیا؟ یہ فوراً ارتقاء سمیت دس نظریات پیش کردیں گے کہ تخلیق کا عمل کن مراحل سے گزرا. انہیں کوئی عقل دلائے کہ عقلمندوں ! انسان کی تخلیق کے مراحل جو بھی رہے ہوں ، سوال یہ نہیں ہے. سوال یہ ہے کہ تخلیق ‘کس’ نے کی؟
آپ ان سے دریافت کریں کہ اس عظیم کائنات کو ایسے بہترین نظم کے ساتھ کس نے پیدا کیا ؟ اور یہ جواب میں آپ کو بگ بینگ سمیت پچاس سائنسی تھیوریاں پیش کرنے لگیں گے کہ کائنات کی تخلیق میں کون کون سے مراحل گزرے ہیں؟ انہیں کوئی سمجھائے کہ زہین فلسفیوں سوال یہ نہیں ہے. تخلیق کائنات میں کتنا ہی وقت لگا ہو یا کتنے ہے مراحل گزرے ہوں. سوال یہ ہے کہ کون ہے جس نے بے جان بے شعور مادہ سے اس پر ہیبت کائنات کو تخلیق کردیا. اسمیں بے مثال نظم اور بے نظیر توازن پیدا کردیا؟
ہم پوچھ رہے ہیں کہ ‘کس’ نے بنایا ؟؟آپ فرما رہے ہیں کہ ‘کیسے’ بنا ؟؟ ..سوال ہمارا گندم ہے ..جواب آپ کا چنا ہے ..
یہ جان لیجیے کہ سائنسدانوں اور دیگر ہر شعبہ کے ماہر کی عزت اپنی جگہ ضروری ہے مگر ہر فن اور علم کی اپنی حدود متعین ہیں. کوئی انسانی علم اپنی حدود سے تجاوز نہیں کرسکتا. سائنس مادی علوم سے آگے نہیں دیکھ سکتی.مادہ کہاں سے وجود میں آیا ؟یا توانائی کون تخلیق کر گیا ؟یا ایک بے جان مادہ کے ڈھیر سے جیتا جاگتا باشعور انسان کون نکال لایا ؟
یہ اور ایسے بیشمار سوالوں کے سامنے مادی علوم کے پر جلنے لگتے ہیں. سائنس کا کام ہے یہ بتانا کہ کوئی مخلوق ‘کیسے’ تخلیق ہوئی ؟ مگر ‘کیوں’ ہوئی اور ‘کس نے’ اسے تخلیق کیا ؟ یہ سوالات اس کی حدود سے باہر ہیں. اس کے لئے لامحالہ وحی کی جانب ہی دیکھنا ہوگا.
اٹھارویں صدی کے ملحد فلاسفہ نے یہ بلند و بانگ دعوی کرکے مذہب کو رد کردیا تھا کہ ھم سچ، حقیقت، معنی، قدر، عدل، علم اور حسن کو وحی کی بنیاد پر قبول کرنے کے بجاۓ انسانی عقل پر تعمیر کریں گے، انکا دعوی تھا کہ سچ، حقیقت، معنی، قدر، عدل، علم اور حسن کی جو تشریح ھم تعمیر کریں گے چونکہ وہ عقلی ھوگی، اسکی بنیاد کسی مفروضے پر نھیں بلکہ حقائق پر مبنی ہوگی، لہذا دنیا کے سب انسان اسے ماننے پر مجبور ھونگے۔ مگر پھر کیا ھوا؟ دو سو سال کی فلسفیانہ لم ٹٹول، اور نتیجہ: ”انسان اپنے کلیات سے سچ، حقیقت، معنی، قدر، عدل، علم اور حسن جان ہی نہیں سکتا”۔
اس مقام پر اصولا انسان کو اپنی علمی کم مائیگی کو پہچان کر اپنے رب کے حضور جبین نیاز خم کردینا چاھئے تھی کہ اسنے اپنے پالن ہار کے آگے سرکشی کرکے خود خدا بننے کا جو نعرہ بلند کیا تھا اس دعوے میں وہ پوری طرح چت ھوچکا تھا۔ مگر یہ کیسا عجیب معاملہ ھے کہ وہ شکست جو اسکی آنکھیں کھول دینے کیلئے بہت کافی ہوجانی چاہئے تھی اسنے اپنے رب کی اسی نشانی کو اپنی سرکشی میں مزید اضافے کا باعث بنا لیا۔ بجاۓ اپنی شکست قبول کرنے کے اب وہ یہ کہنے لگا کہ سچ، حقیقت، معنی، قدر، عدل، علم اور حسن نامی کوئ شے ہوتی ہی نہیں، یہ سب اضافی و بے معنی تصورات ہیں۔ آج اپنے اس دعوے کو وہ اپنی ‘تلاش’ سمجھتا ھے جبکہ فی الحقیقت یہ دعوی صرف اور صرف اسکی ‘شکست’ (retreat) کا باغیانہ اعتراف ھے اور بس۔ مگر اسے یاد رکھنا چاہئے کہ موت اٹل ھے، اپنے رب کے حضور اسکی حاضری کا وقت بالکل قریب ھے۔۔۔۔۔۔ہاں توبہ کا دروازہ ہر آن کھلا ھے اور اسکا رب بڑا رحیم ھے۔
تحریر عظیم الرحمان عثمانی، زاہد مغل