فلسفے کی دنیا میں ایک سوچ یہ بھی فروغ پائی کہ ہم سب اس وقت خواب دیکھ رہے ہیں اور حقیقت نام کی کوئی شے وجود نہیں رکھتی۔ لہذا اس فلسفیانہ سوچ کے حاملین نے ہر اچھا برا کام یہی کہہ کر بنا تامل انجام دیا کہ یہ سب خواب ہی تو ہے۔
ہندوستان کے “آگھوری” قبائل نے ایک فلسفہ و عقیدہ یہ تراشا کہ یہ نجس اور پاک کی کوئی تفریق نہیں۔ کائنات کی ہر چیز اپنی اصل میں پاک ہے۔ اس خودساختہ عقیدے کو اپنا کر انہوں نے اپنی انسانی غلاظت کھانے پینے سمیت ہر گندگی کو تناول کرنا اپنے لیے معمول کرلیا۔ لہذا یہ گلے سڑے انسانی مردے کھانے سمیت گٹر میں پڑی ہر شے کھایا کرتے ہیں۔
مہذب دنیا کے کچھ فلسفیانہ اذہان نے یہ فکر اپنائی کہ انسان بھی کسی دوسرے جانور کی طرح ایک جانور ہی ہے جس نے خود پر بلاوجہ پابندیاں عائد کرلی ہیں۔ لہذا اس گروہ نے کپڑے پہننے یعنی جسم ڈھانپنے کو خود ساختہ پابندی سمجھ کر ترک کر دیا۔ آج اسی فلسفے کے تحت دنیا بھر میں “نیوڈ بیچز” ہیں جہاں مرد و زن کا ننگ دھڑنگ رہنا شرط ہے۔ اسی گروہ نے جنسی تعلق میں سگے رشتے نہ ہونے کی شرط کو بھی ایک اختراع مانا۔ چنانچہ کسی دوسرے جانور کی مانند ماں نے بیٹے کے ساتھ اور بھائی نے بہن کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرلیا۔ اسے دنیا بھر میں “انسیسٹ ریلیشن شپ” کہا جاتا ہے۔ جو اس حد تک نہ جاسکے انہوں نے ہم جنسی یعنی “ہومو سیکشویلٹی” کو عین فطری مان کر اپنا لیا اور باقاعدہ شادی کرنے کو غیر ضروری قرار دیا۔
یہ اور اس طرح کے متعدد فلسفے جو اخلاقیات کا نوحہ پڑھتے ہیں، تاریخ انسانی میں بدلتے خیالات کے ساتھ اپنائے جاتے رہے ہیں۔ یہ اس حقیقت کو آشکار کرتے ہیں کہ اگر انسانی ذہن کو وحی الہی کا پابند نہ کیا جاتا یا نہ کیا جائے تو وہ عقل و فطرت کے نام پر کیا کیا گل کھلائے گا۔ ہماری فطرت کے حقیقی تقاضوں کو مدنظر رکھ کر خالق کی جانب سے جو الہامی ہدایات و پابندیاں ہمیں عطا ہوئی ہیں، وہ پوری نوع انسانی کے لیے ایک عظیم نعمت ہے۔ اسی طرح دیگر معاملات میں بھی جہاں جہاں انسانی فہم کے ٹھوکر کھانے کا امکان تھا، وہاں وہاں بذریعہ وحی حدود کا تعین کردیا گیا۔ جیسے انسان نے طعام کے لیے کبھی تو یہ انتہا اپنائی کہ درندے کھانے اور خون پینے کو بھی جائز سمجھا تو کبھی دوسری انتہا اپنائی کہ گوشت کو مطلق ناجائز مان لیا۔ جنسی تعلق میں کبھی ایسا آزاد ہوا کہ جو سامنے آئی، اسے رسوا کر دیا اور کبھی رہبانیت اختیار کرکے ایسا پاکباز بننا چاہا کہ شادی کرنا بھی جرم سمجھا۔ جرائم کی سزا پر بات آئی تو کبھی ایسا بے رحم ہوا کہ مجرم کو سر سے پاؤں تک آرے سے کاٹ ڈالا اور زندہ انسان کی کھال اتار لی۔ پھر آج ایسا رحمدل ہونا چاہتا ہے کہ قاتل کو بھی نفسیاتی مریض اور حالات کا مارا سمجھ کر سزا دینے گریز کرتا ہے۔ ان سب معاملات میں وحی الہی نے حد فاصل کھینچ کر ایک ایسا اعتدال قائم کردیا ہے جو انتہا پسندی سے دور ہے۔ الحمدللہ۔
تحریر عظیم الرحمن عثمانی