کبھی سوچا !!!!
کبھی کسی لمحے۔۔۔
یہ سوال کیا ہے؟؟
یہ کیا ہے؟
یہ کیوں ہے؟
یہ کب سے ہے؟
یہ کیونکر ہے؟
یہ کیسے ہے؟
یہ ایسا کیوں ہے؟
یہ ویسا کیوں نہیں ہے؟ اور اس طرح کے کئی سوالات کے ہجوم میں انسان گھرا ھوا ہے؟
انسان کیا ہے؟
کائنات کیا ہے؟
وجود کیا ہے؟
شعور کیا ہے؟
حقیقت کیا ہے؟
کیا وہ خدا ہے؟ وہ وحدت ہے؟ یا دوئی وہ دوئی ہے؟ یا کثرت
تصور کیا ہے؟
مادہ کیا ہے؟
صداقت کیا ہے؟
خیر کیا ہے؟
شر کیا ہے؟
حسن کیا ہے؟
عدل کیا ہے؟
علم کیا ہے؟ اس کے ذرائع کیا ھیں
ان سب چیزوں کا جاننا کیونکر ممکن ہے؟ اور کہاں تک ممکن ہے؟
یہ وہ بنیادی سوال ہیں جن کے جواب کی تلاش میں انسان صدیوں سے بھٹک رھا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خود ہی جواب دیتا ہے اور خود ہی اس کو رد کر دیتا ہے وہ اپنے جواب پر سوال کھڑا کر دیتا ہے اور پھر نئے جواب کی تلاش میں لگ جاتا ہے۔۔۔۔۔
انسان جواب تو ازل سے تلاش کر رھا ہے لیکن سوال کیا ہے اس پرانسان نے بہت کم غور کیا ہے ۔۔۔۔اگر غور کرتا بھی ہے تو اس کی ساخت اور بناوٹ پر ناکہ ماہیت سوال پر۔۔۔۔۔کہ یہ ۔۔۔کیا ۔۔۔۔۔کیا ہے یہ ۔۔۔۔کیوں ۔۔۔۔۔کیا ہے ۔۔۔۔یہ ۔۔کیا کیوں کب کیسے۔۔۔۔یہ سوال کی گرفت میں نہیں آتے۔۔۔۔
یہ سوال انسان کا خاصہ ہے اگر نہیں تو کم از کم اس کی فارمولیشن اس کی ترسیل اور اس کی توجیہ تو انسان ہی سے جڑی ہے ۔
آخر یہ سوال ہے کیا؟۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا یہ عقل کی مجبوری ہے ؟
یا شعور کی چالاکی ہے؟
یا کھیل کا کوئی روول ہے؟
یا زندگی کا کوئی اصول ہے؟
یا مصروفیت کا کوئی ڈھنگ ہے؟
کیا یہ کھوج ہے ؟
کیا یہ الجھن ہے؟
کیا یہ پیاس ہے؟
کیا یہ تسکین ہے ؟
کیا یہ بیماری ہے؟
کیا یہ حل ہے؟
کیا یہ وھم ہے؟
کیا یہ عقیدہ ہے؟
کیا یہ علم ہے؟
کیا یہ جہالت ہے؟
کیا یہ شوق ہے؟
کیا یہ روگ ہے؟
کیا یہ انتقام ہے؟
کیا یہ بے لگام ہے؟
کیا یہ دام ہے؟
کیا یہ دوام ہے؟
کیا یہ رام ہے؟ کیا یہ شام ہے؟ کیا یہ آن کیا یہ شان ہے کیا یہ چٹان ہے کیا یہ انسان کی پہچان ہے۔۔۔۔یا پھر
بغاوت کا اعلان ہے ۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟؟
یہ تکبر ہے؟
یہ عاجزی ہے؟
یہ تڑپ ہے ؟
یہ تلاش ہے؟
یہ جستجو ہے؟
یہ ہمت ہے؟
یہ جرات ہے؟
یہ انکار ہے؟
یہ اثبات ہے؟
یہ کمزوری ہے؟
یہ طاقت ہے؟
یہ مسکنت ہے؟
یہ رعونت ہے ؟
یہ تفریق ہے؟
یہ تقسیم ہے؟
یہ تنظیم ہے؟
یہ عروج ہے؟
یہ زوال ہے؟
یہ وبال ہے؟
یہ کمال ہے؟
یہ وصال ہے؟
یہ فصال ہے؟
یہ گمراہی ہے یہ راہنمائی ہے یہ فقیری ہے یہ خدائی ہے یا پھر ضد ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آخر یہ کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟
شاید ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال انسانی تخلیق کا حصہ ہے ۔۔۔۔۔یہ مخلوق کی علامت ہے۔۔۔۔۔۔۔ یہ خالق کی شھادت ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ خلوص ہے لیکن اس کا غلط استعمال بھی ھوتا ہے ۔۔۔۔۔یہ جستجو یہ تلاش ہے لیکن یہ پوری ھو یہ ضروری نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس لیے کہ سوال کا جواب سائل جہاں تلاش کرے وھاں ھو یہ ضروری نہیں ۔۔۔۔۔یہ جاننے کی کوشش ہے لیکن یہ جاننا نہیں ہے ۔۔۔یہ وصال کا ذریعہ ہے لیکن یہ فصال کا سبب بھی بن جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ حقیقت کی چاہت ہے لیکن یہ چاہت اس سے دور بھی کر دیتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ سیڑھی ہے لیکن یہ آخری معراج نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔سوال تسلسل ہے لیکن اس کا مقدر آخر ماننا ہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ ذریعہ ہے یہ مقصد نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ راستہ ہے یہ منزل نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔سوال آخر سوال ہے یہ جواب نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔
الفاظ۔۔۔۔۔۔ا ب ج۔۔۔۔۔۔۔۔کیا ھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انسان کی زندگی لفظوں کے تال میل سے گندھی ہے ۔۔۔۔۔ انسان لفظوں کے سہارے جیتا ہے یہ اسے حوصلہ دیتے ہیں جینے کا آگے بڑھنے کا لڑ جانے کا مر جانے کا حد سے گزر جانے کا۔۔۔۔۔۔۔۔انسان لفظوں سے تسکین پاتا ہے الفاط اسے ماں کی طرح سہارتے ھیں یہ اس کے دکھوں کا مداوا بنتے ھیں۔۔۔۔۔ اس کے زخموں پے مرہم پٹی باندھتے ھیں۔۔۔۔۔۔ ۔اس میں جینے کی امید جھگاتے ھیں ۔۔یہ انسان کی خوشیوں کا باعث ھیں انسان کی مسکراہٹ ان لفظوں سے پھوٹتی ہے یہ الفاظ ہر ہر موڑ پر انسان سے جڑتے ھیں اور انسان ان کی بیساکھیوں سے چلتا ہے ۔۔۔۔۔۔
آخر یہ الفاظ خود کیا ھیں ؟؟؟؟؟؟
کیا الفاظ محض بے ہنگم آوازیں ھیں یا پھر اصوات کی کوئی ترتیب ہے
کیا ان آوازوں کا کوئی مفہوم ہے یا پھر فی نفسہ یہ مفہوم سے آزاد ھیں
کیا الفاظ محض تصویریں ھیں یا ان تصویروں کی کوئی تعبیر بھی ہے
کیا الفاظ خود حقیقت ھیں یا پھر کسی چھپی حقیقت کے غماز ھیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الفاظ اور معانی کا آپسی سنمبند کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا الفاظ اور معانی دو الگ چیزیں ھیں یا پھر ایک ہی سکے کے دو رخ ھیں
الفاظ کا کوئی معانی ھوتا ہے یا پھر معانی کے لیے الفاظ تلاش کیے جاتے ھیں
کیا الفاظ اور معانی ہم پلہ ھوتے ھیں یا پھر معانی الفاظ پر حاوی ھوتے ھیں
کیا الفاظ معانی کی ترسیل کے علمبردار ھوتے ھیں یا پھر اس کی ترسیل میں رکاوٹ کا ذریعہ بنتے ھیں ۔
۔۔۔۔۔۔الفاظ ۔۔۔۔۔۔
یہ حروف سے مل کر بنتے ھیں اور حروف مختلف آوازوں کا نام ھیں اور آوازوں سے انسانی تخیل ازل سے جڑا ہے انسان نے مختلف آوازوں سے مختلف مفاہیم وابسطہ کیے اور معاشرتی سفر کی طرف گامزن ھو گیا یہ الفاظ صرف انسانی خصوصیت ہے جدید نیورولوجسٹس نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ صرف انسانی برین ہی میں یہ فنکشن موجود ہے جو زبان کو تخلیق کرتا ہے اور انسان کے حیوان ناطق ھونے کا مطلب یہ ہے کہ اس میں نطق ۔۔بولنے۔۔ کی صلاحیت موجود ہے یہ ان بلٹ ہے بالقوۃ ہے ۔۔۔اسی وجہ سے کوئی ایولوشنسٹ ابھی تک کسی چیمپینزی کو زبان نہیں سکھا سکا اس لیے کہ ان میں یہ ان بلٹ ہی نہیں ہے ۔۔۔جب ان کو لکھنے کا وقت آیا تو انسان نے مختلف شکلوں کو حرفوں میں ڈھال دیا عبرانی زبان کے حروف تہجی اس کی شھادت ھیں عربی رسم الخط چونکہ اس سے ملتا ہے تو اس میں بھی ۔۔۔ج۔۔۔۔۔۔اصل میں جمل ۔۔اونٹ کی کوھاں کے مشابے ہے اور ۔۔۔۔ن۔۔۔۔۔۔۔نون ۔۔مجھلی۔۔ کی آنکھ کی علامت ہے ۔۔۔ان حروف سے الفاظ اور الفاظ سے جملے تحریر پا گئے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انسان آخر کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔
انسان نے انسان کو بہت کھوجا ہے۔۔۔۔۔صدیوں سے بھٹکتا انسان ابھی تک بھٹک رھا ہے ۔۔۔اپنے کھروں کو کھوجتا ہے اپنے پوروں کو پورتا ہے ۔۔۔۔اپنے ھونے کو ڈھونڈتا ہے اپنے کھونے کو پوجتا ہے ۔۔۔ اس نے اپنے اندر بھی سفر کیا ہے اس نے خود کو باہر بھی تلاش کیا ہے ۔۔۔۔۔اس نے خود کا انکار بھی کیا ہے اس نے غیر کو خود بھی کہا ہے ۔ ۔۔اپنے وجود کے آگے بھی بھاگا ہے ۔۔ اپنے سائے کے پیج ہے بھی بھاگا ہے ۔۔۔۔۔۔اس نے خود کو پایا بھی ہے اس نے خود کو کھویا بھی ہے ۔۔۔۔اور یہ خود سے مکرا بھی ہے ۔۔۔
آخر یہ ہے کیا؟؟؟
کیا یہ مادے کا اظہار ہے؟
یا شعور کا شاہکار ہے ؟
یا پھر مادے اور شعور کا گٹھ جوڑ ہے ۔۔؟
اگر گٹھ جوڑ ہے تو کیا مادے سے شعور پھوٹا ہے یا پھر شعور نے مادے کا لبادہ اوڑھا ہے؟
اس کی فظرت کیا ہے ؟
اس کی ماہیت کیا ہے اس کی ساخت اور عناصر کیا ہیں؟
انسان حادثہ ہے یا کوئی فیصلہ ہے ؟
یہ کوئی الجھاؤ ہے یا کوئی ترتیب ہے؟
یہ ارتقا ؑ کا نتیجہ ہے یا تخلیق کا نمونہ ہے؟
یہ کسی مطابقت کا صلہ ہے یا پھر کسی اختلاف کا مظہر ہے؟
انسان صرف انسان ہے یا پھر حیوان نے کمر سیدھی کی ہے
انسان سکوں ہے یا حرکت ہے ؟
یہ وحدت ہے یا کثرت کثرت ہے یا ثنویت؟
یہ عین ہے یا غیر؟
یہ جوہر ہے یا عرض ؟
یہ داخل ہے یا خارج ؟
یہ خلاق ہے یا تخلیق؟
یہ مجبور یا مختار؟
یہ خود ہے یا کسی کے سہارے ہے؟
یہ کائنات کا جزو ہے یا پھر کائنات اس کل کے لیے ہے ؟
یہ جبریت میں جکڑا ھو ا ہے یا اختیار کی دولت سے مالامال ہے ؟
یہ کسی کل سے الگ ھوا ہے یا پھر کسی کل کی طرف لپک رھا ہے؟
انسان نے بڑا لمبا سفر طے کیا ہے یہ چقماق سے کھیلا ہے یہ خوف کے سایوں مین پلا ہے یہ برف کے طوفانوں سے بچا ہے یہ حیرت کے دشتوں میں پھرا ہے یہ پہاڑوں کے
غاروں میں بسا ہے یہ پتوں کی اوڑھ میں چھپا ہے اس نے بیج کو بویا اور زراعت کا جہاں ایجاد کیا ہے اس نے اپنے تحفظ کے لیے اجتماعیت کا میلا سجایا ہے اس نے ملکیت کا تصور گھڑا ہے اور طبقاتی تقسیم کو جڑا ہے اس نے بلندیوں کو چھوا ہے اور بڑی بڑی تہذیبوں کو جنم دیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ خود پے اڑا ہے یہ خود پہ چڑھا ہے یہ خود سے لڑا ہے اس نے خود کو گھڑا ہے یہ اپنے گھڑے میں گرا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انسان نے اپنی تلاش آپ کر کے بڑا ظلم سہا ہے
انسان نے انسان کو بہت تلاشا ہے لیکن ابھی تک مکمل طور پر خود کو خود سے تلاش نہیں کر پایا۔۔اس نے ہمیشہ خود کو محدود زاویہ سے دیکھا ہے
انسان کا تجزیہ کسی ایک سطح پر نہیں کیا جا سکتا اور ناہی کوئی ایک پہلو اس کی ہمہ جہتی کو بیان کر سکتا ہے انسان کی شناخت میں غلطی کی ایک وجہ یہ ہے کہ انسان انسان کو اپنے ہی گھڑے ھوئے کسی نظریہ کی کسوٹی پر پرکھتا ہے ۔!
اس وجہ سے کچھ لوگ اسے محض حیاتیاتی وجود قرار دیتے ھیں ہر ان کی ہر تعریف پر حیاتیات غالب ھوتی ہے۔۔
اور کچھ اسے محض مادے کا ڈھیر مانتے ہیں ان کی تمام تشریحات مادی بنیادون پر کھڑی ھوتی ھیں ۔۔۔
اور کچھ اسے صرف نفسیاتی ڈھانچہ مانتے ہیں اور اس کے تمام مسائل تمام محرکات تمام مقاصد تفسیات ہی مین ڈھونڈتے ہیں ۔۔۔۔
انسانی صرف مادی نہیں انسان صرف تاریخی نہیں انسان صرف حیاتیاتی نہیں انسانی صرف نفسیاتی نہیں انسان صرف معاشرتی نہیں انسان صرف تخیلاتی نہیں انسان صرف روحانی نہیں انسان صرف مابعد الطبیعاتی نہیں۔۔۔
انسان سب کا مجموعہ ہے اور جو تعریف انسان کو تسلی دیتی ہے اور اس کی حقیقت سے ملاتی ہے وہ یہ ہے کہ “انسان عبد ہے”۔
یہ جذبوں کا جہاں ہے اور ان جذبوں کو اس تعریف سے تسکین حاصل ھوتی ہے ہے ۔ عبدیت انسان کو اس کی حقیقت سے ملاتی ہے عبدیت انسان کو مقصدیت سے آشنا کرتی ہے عبدیت انسان کی زندگی کو مفھوم دیتی ہے جس کی وجہ سے انسان سے جڑی ہر چیز بامعنی ھو جاتی ہے ۔۔یہ ایک بڑی حقیقت کی خواہش ہے اور اس حقیقت کو پانا انسان کی آرزو ہے ۔ یہ جنت سے نکلا ھوا ہےاس جنت میں جانا اس کی سرشت میں ہے
قلم عثمان رمضی