ختم نبوت کی توجیہہ کے لئے کچھ اہل علم نے انبیاء کی بعثت کو انسانی سماج کی ارتقائی ضرورتوں کے تحت جو بیان کیا ہے وہ درست مفروضہ نہیں۔ قرآن سے اس نظرئیے کی کوئی واضح دلیل نہیں ملتی۔انبیاء کی شرائع میں وہ کونسے “اختلافات” ہیں جنہیں سماجی ارتقاء پر مبنی قرار دیا جائے؟ اس ضمن میں عام طور پر جن مثالوں کو پیش کیا جاتا ہے ان کا سماجی ارتقاء سے کوئی تعلق نہیں بنتا۔ مغرب کے اس مقبول عام ارتقائی تصور علم سے متاثر ہوکر ہمارے ہاں بھی انبیاء کرام کے حوالے سے ایک ارتقائی تعبیر اختیار کی گئی ہے جسکا حا صل یہ ہے کہ وقت اور حالات بدلنے کے ساتھ جوں جوں انسانیت آگے بڑھتی جا رہی تھی اس کے مسائل بھی اسی لحا ظ سے تبدیل ہو رہے تھے ، اور اللہ تعالی نے انسانوں کی ان ضروریات کا لحاظ کرتے ہوئے مختلف رسل کو مختلف شریعتیں دیں۔ چونکہ تبدیلی شرائع کی اس تعبیر کا مسئلہ یہ تھا کہ اس میں ختم نبوت کسی طرح فٹ نہیں ہوتی کیونکہ انسانیت کا یہ سفر تو تا قیامت چلتا رہے گا، تو اسے مکمل کرنے کیلئے ایک اضافی مفروضہ یہ گھڑ لیا گیا کہ آپﷺ کی بعثت کے وقت انسان بحیثیت مجموعی اپنے عہد طفولیت سے نکل کر عہد شباب میں دا خل ہو چکا تھا اور گویا اب وہ اس قابل ہو گیا تھا کہ اسے ایک آخری اور اصولی پیغام دیکر ہمیشہ کی نبوت کے سہارے سے آزاد کر دیا جا ئے کیونکہ باقی کا سفر وہ اپنی عقل کی روشنی میں طے کرنے کے قابل ہو گیا تھا۔
پہلی بات تو یہ کہ یہ تعبیر ایک فرضی کہانی ہے جس کے حق میں آج تک نصوص شریعہ سے کوئی واضح دلیل پیش نہیں کی گئی محض قیاس آرائی ہی کو حتمی بات سمجھ کر پیش کر دیا گیا ہے۔ اس دعوے کے ثبوت کے لئے جن مثالوں کا سہارا لیا جا تا ہے انکا تصور ارتقا ء کے ساتھ سرے سے کوئی تعلق ہے ہی نہیں۔ مثلاً تبدیلی احکامات کی ایک مثال یہ دی جا تی ہے شریعت محمدی ﷺ میں دو بہنوں کوایک ساتھ نکاح میں رکھنا حرام قرار دیا گیا جبکہ اس سے پہلے یہ جائز تھا۔ لیکن ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ آخر اس تبدیلی کا انسانی تمدن و حا لات کے ارتقاء سے کیا تعلق ہے؟ اسی طرح امت محمدی ﷺ کے لئے بہت سے ایسے جانوروں کا کھا نا حلال قرار دیا گیا ہے جو پہلے کی امتوں پر حرام تھے۔ لیکن اس تبدیلی کا بھی ارتقاء کے ساتھ کیا لینا دینا؟ کیا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان کے نظام ہاضمہ میں کوئی تبدیلی آ گئی تھی کہ پہلے کا انسان انہیں ہضم کرنے کی صلا حیت نہ رکھتا تھا اور اب کے انسان میں یہ صلاحیت پیدا ہوگئی ہے، یا یہ کہ پہلے یہ جا نور ناپید تھے اور اللہ نے انکی نسل کشی ہو جانے کے خوف سے انکے کھانے کو حرام قرار دیا تھا؟ آخر حالات کے ارتقاء کا انکی حرمت سے کیا لینا دینا؟
تبدیلی احکامات کا پس منظر اگر نصوص قرآنی میں تلاش کیا جائے تو قرآن اس ارتقائی تصور کے بر خلاف یہ تصور پیش کرتا ہے کہ احکامات کی یہ تبدیلی اللہ تعالی کی رحمت کا مظہر ہیں۔ چنانچہ اس ضمن میں دو مثالیں قابل غور ہیں۔ بنی اسرائیل کو قاتل سے خون بہا لیکر اسے معاف کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی البتہ شریعت محمدیہﷺ میں اسکی اجازت دی گئی ہے۔ اس رعایت پر کیا جانے والا تبصرہ قابل غور ہے، فرمایا گیا ذالک تخفیف من ربکم و رحمۃ (بقرۃ: ۱۷۸) یعنی یہ تمہارے رب کی طرف سے ایک آسانی اور رحمت ہے ۔ اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں، اولاً قتل کی صورت میں خون بہا لینا انسانی صوابدید پر مبنی نہیں بلکہ شارع بذات خود جب تک اپنے حکم میں تبدیلی نہ کرے محض حالات کی تبدیلی کا بہانا بنا کر خود انسان احکامات الہی تبدیل کرنے کا مجاز نہیں ، ثانیاً حکم کی یہ تبدیلی حالات میں ارتقاء کا نہیں بلکہ رحمت الہی کا مظہر ہے۔ اسی طرح بنی اسرائیل پر انکی سرکشی کی پاداش میں بہت سی چیزیں حرام ٹھرا دی گئی تھیں اور نسبتاً زیادہ سخت قوانین کے پابند بنادئیے گئے تھے جو رحمت اللعالمینﷺ کے صدقے امت محمدیﷺ سے اٹھا لئے گئے ۔ یہاں بھی غور طلب بات یہ ہے کہ احکامات کی یہ لچک کسی ارتقاء پر نہیں بلکہ رحمت خداوندی پر مبنی تھی۔ ان مثالوں سے واضح ہوا کہ احکامات شریعت میں تبدیلی کو انسانی حالات کے ارتقاء سے مختص کردینا نصوص قرآنی کے خلاف ہے۔
دوسری بات یہ کہ اگر اس کہانی کو مان بھی لیا جائے تو بھی یہ دعوی قابل نزاع ہے کہ انسانیت کا عہد شباب آج سے چودہ سو سال پہلے آگیا تھا کیونکہ مغربی مفکرین کا دعوی یہ ہے کہ نیا انسان تو پیدا ہی سترہویں اور اٹھا رویں صدی میں ہوا جبکہ اس سے پہلے کا انسان محض افسانوں اور کہانیوں پر یقین رکھتا تھا۔ تیسری بات یہ کہ تبدیلی کا یہ عنصر تو بدستور جاری و ساری ہے، مثلاً صنعتی انقلاب کے بعد کے انسان کے معا شرتی و معا شی مسائل پہلے سے بہت مختلف ہیں تو ارتقاء کی اس تعبیر کا تقا ضا یہ ہوا کہ شریعت کے بہت سے احکامات اب منسوخ قرار دئیے جا ئیں اور کچھ نئے احکامات کا اضافہ کر لیا جا ئے”