ملحد لوگ ہر بات میں ہم سے عقلی دلیل طلب کرتے ہیں ، ان سے صرف ایک عقلی سوال کیا گیا کہ بہن بھائی کی شادی میں اتنے عقلی فائدے ہیں، ذرا اس کی ممانعت کے عقلی دلائل دے دیں ؟ مگر یہ لوگ درمیان میں اخلاقیات کو گھسیڑ دیتے ہیں دوسری طرف یہی لوگ قرآن کے اخلاقیات کی بنیاد پر بنائے گئے قوانین کو عقلی دلائل سے ثابت کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ۔ ان عقلیت پسندوں کے یہاں دو kits لگی ہوئی ہیں پیٹرول والی بھی اور سی این جی والی ۔ جہاں پھنستے ہیں وہاں اخلاق والا سوئچ آن کر لیتے ہیں ورنہ عقلی۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ یہ بہن بھائی کی شادی کی ممانعت کا اسی شدت سے عقلی جواز فراہم کریں جس شدت خالق کا انکار کا جوازدیتے نظر آتے ہیں۔
ملاحدہ کے چند دلائل کا جائزہ:
1. بہن یا ماں کے ساتھ بدکاری کے خلاف ملحد حضرات عموما یہ عقلی توجیہہ پیش کرتے ہیں کہ سائنسی تحقیق کے مطابق اس عمل سے پیدا ہونے والے بچے معذور ہونے کا خدشہ بہت زیادہ ہوتا ہے وغیرہ لہذا یہ عمل عقلی طور پر بھی قبیح ہوا۔ مگر اس دلیل میں مسئلہ یہ ہے کہ یہاں معذور بچے پیدا نہ ہونے کو ایک احسن شے کے طور پر بطور مفرضہ قبول کرلیا گیا ہے (اور ظاہر ہے اس کی الگ سے دلیل چاہئے) ، اگر مانع حمل تدابیر اختیار کر لی جائیں تو اس دلیل کی رو سے ایسی بدکاری میں پھر کوئی قباحت نہ رہے گی،الغرض عقل سے حسن و قبح کا حتمی تعین کرنا ناممکن ہے۔
2. ایک یہ دلیل دی جاتی ہے کہ والدین اور معاشرہ کے لوگ ناراض ہوتے ہیں۔ جواب یہ ہے کہ ایسا اس وجہ سے محسوس ہورہا ہے کیونکہ پیشگی طور پر ایک ایسا معاشرہ فرض کیا جارہا ہے جہاں بہن بھائی کی بدکاری کو برا تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن اگر ایک ایسے معاشرے کا تصور کیا جائے جہاں یہ فعل عام ہو اور سب اسے نارمل تصور کرتےہوں تو اس زنا سے والدین کے پریشان ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ہمارے معاشرے میں باپ اپنی بیٹی کے بوائے فرینڈ کے ساتھ گھومنے پھرنے سے پریشان ہوتا ہے مگر یورپی معاشروں میں نہیں ہوتا۔ویسے جو خدا سے نہیں ڈرتے وہ معاشرے سے ڈرتے ہوئے اچھے نہیں لگتے، یہ تو سیدھی سیدھی منافقت ہوئی ! دوسروں کو تو دن رات اللہ کے خلاف بغاوت پر اکسانا اور خود معاشرے سے ڈر جانا ؟؟؟؟ انہیں تو شادی کرنی چاہئے کیونکہ عقل کی ہر دلیل اس کی طرف مائل ہے ۔ ہمیں طعن کرتے ہیں کہ ہم سماجی پابندیوں میں جکڑ کر جبر کے تحت خدا بنائے بیٹھے ہیں خود سماجی جبر کے تحت ایسی کوئی شادی نہیں کرتے !
3. یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہم تو کسی طور بہن بھائی کی شادی جائز نہیں مانتے لیکن مذہبی لوگ مانتے ہیں کہ آدم و حوا کی اولاد آپس میں شادیاں کرتی تھی۔ حقیقت میں ایسی باتیں صرف اصل سوال کو گول کرنے کیلئے کی جاتی ہیں یہ بہن بھائی کے نکاح کے جائز نہ ہونے کی عقلی دلیل نہیں ہے؟ ہمارے نزدیک خیر و شر کی تعریف ہی یہ ھے کہ خیر و شرتو وہ ہے جسے خدا خیر و شر کہتا ھے۔ اگر خدا نے آدم و ہوا کے بچوں کی شادی کو جائز کہا تو یہ جائز ہوگیا اور اگر بعد مین اسے ناجائز کہہ دیا تو یہ ناجائز ہوگیا۔ ہم تو اللہ پاک کے ہر تصرف پہ آمنا و صدقنا ،، سمعنا و اطعنا کے قائل ہیں ۔ ہماری عقل چونکہ خدا کی بیان کردہ اقداری ترتیب کو قبول کرتی ہے لہذا ہمیں اپنی بیٹی اور بیٹے کے اس تعلق میں قباحت معلوم ہوتی ہے۔ سوال تو یہ ہے کہ جنکی عقل اس اقداری ترتیب کو قبول نہیں کرتی انکے پاس خالص عقلی دلیل کیا ہے؟ ‘ھاتو برھانکم ان کنتم صدقین’۔
عقل سے کسی شے پر (جواز یا عدم جواز کا) حکم لگانے کیلئے کوئی اقداری ترتیب پہلے سے فرض کرنا لازم ہوتی ہے، یہ عقل کی ایک حد ہے جسے پہچاننا ضروری ہے۔ ملاحدہ کی چال یہ ہے کہ وہ اپنی اس ماقبل عقل اقداری ترتیب کو عقل کے ہم معنی کہہ کر پیش کرتے ہیں اور یوں وہ اہل مذہب کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کرتے ہیں کہ تم تو ایمان لاتے ہو ہم نہیں۔
حقیقت میں اخلاقیات کیلئے الہامی بنیاد ختم کرنے کے بعد انسان ایک صحرا میں آکھڑا ہوتا ہے جہاں اسکی عقل اسے کوئی راہ سجھانے سے قاصر ہوتی ہے، عقل کو یہاں ہر جہت یکساں معلوم ہوتی ہے۔ نبی ہی خدا کی لٹکائی ہوئی وہ واحد رسی ہے جسے پکڑ کر انسان صحیح سرے لگتا ہے۔