اعتراض: ٦ ۔ اگر اسلام آج کے دور میں آتا تو خواتین کا ترکے میں حصہ کم نہ ہوتا ۔ گواہی آدھی نہ ہوتی ۔ انہیں گھروں میں بند رہنے کو نہ کہا جاتا ۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا حکم ہوتا ۔ پسند کی شادی کی حوصلہ افزائی کی جاتی ۔ اکیسویں صدی میں آنے والا اسلام غلامی کو برقرار نہ رکھتا ۔ سنگسار کی سزا نہ ہوتی ۔ چور کے ہاتھ نہ کاٹے جاتے ۔ غیر مذہب کے شہریوں سے جزیہ طلب نہ کیا جاتا ۔
جواب :
ان میں کچھ سوال ایسے ہیں جن کا دین اسلام سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے اور کچھ ایسے ہیں جن کا جدید دور سے کوئی تعلق نہیں ۔جیسے لکھتے ہیں کہ اگر اسلام آج کے دور میں آتا تو خواتین کا ترکے میں حصہ کم نہ ہوتا ۔ گواہی آدھی نہ ہوتی ۔ سنگسار کی سزا نہ ہوتی ۔ چور کے ہاتھ نہ کاٹے جاتے ۔ غیر مذہب کے شہریوں سے جزیہ طلب نہ کیا جاتا ۔یہ وہ سوالات ہیں جن کا جدید دور سے کچھ لینا دینا نہیں ہے ۔
خواتین کا حصہ ترکے میں کم کیوں ہے اس کا جواب میں پہلے بھی دے چکا ہوں ۔ اسے پڑھ لیں ۔ اگر آپ کو لگے کہ اس میں زیادتی کا کوئی تاثر ہے تو ضرور بدلیں ۔ لیکن اگر وہ آج بھی اسی طرح خواتین کے لیئے فائدہ مند نظر آتا ہے جیسے چودہ سو سال پہلے تھا تو تبدیلی کی ضرورت کیا ہے ؟
مرد عورتوں پر مسلط وحاکم ہیں اس لئے کہ خدا نے بعض کو بعض سے افضل بنایا ہے اور اس لئے بھی کہ مرد اپنا مال خرچ کرتے ہیں تو جو نیک بیبیاں ہیں وہ مردوں کے حکم پر چلتی ہیں اور ان کے پیٹھ پیچھے خدا کی حفاظت میں (مال وآبرو کی) خبرداری کرتی ہیں اور جن عورتوں کی نسبت تمہیں معلوم ہو کہ سرکشی (اور بدخوئی) کرنے لگی ہیں تو (پہلے) ان کو (زبانی) سمجھاؤ (اگر نہ سمجھیں تو) پھر ان کے ساتھ سونا ترک کردو اگر اس پر بھی باز نہ آئیں تو زدوکوب کرو اور اگر فرمانبردار ہوجائیں تو پھر ان کو ایذا دینے کا کوئی بہانہ مت ڈھونڈو بےشک خدا سب سے اعلیٰ (اور) جلیل القدر ہے ۔( سورہ النساء ۔ آیت 33)
“خدا تمہاری اولاد کے بارے میں تم کو ارشاد فرماتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے حصے کے برابر ہے۔ اور اگر اولاد میت صرف لڑکیاں ہی ہوں (یعنی دو یا) دو سے زیادہ تو کل ترکے میں ان کادو تہائی۔ اور اگر صرف ایک لڑکی ہو تو اس کا حصہ نصف۔ اور میت کے ماں باپ کا یعنی دونوں میں سے ہر ایک کا ترکے میں چھٹا حصہ بشرطیکہ میت کے اولاد ہو۔ اور اگر اولاد نہ ہو اور صرف ماں باپ ہی اس کے وارث ہوں تو ایک تہائی ماں کا حصہ۔ اور اگر میت کے بھائی بھی ہوں تو ماں کا چھٹا حصہ۔ (اور یہ تقسیم ترکہ میت کی) وصیت (کی تعمیل) کے بعد جو اس نے کی ہو یا قرض کے (ادا ہونے کے بعد جو اس کے ذمے ہو عمل میں آئے گی) تم کو معلوم نہیں کہ تمہارے باپ دادؤں اور بیٹوں پوتوں میں سے فائدے کے لحاظ سے کون تم سے زیادہ قریب ہے، یہ حصے خدا کے مقرر کئے ہوئے ہیں اور خدا سب کچھ جاننے والا اور حکمت والا ہے ﴿۱۱﴾ اور جو مال تمہاری عورتیں چھوڑ مریں۔ اگر ان کے اولاد نہ ہو تو اس میں نصف حصہ تمہارا۔ اور اگر اولاد ہو تو ترکے میں تمہارا حصہ چوتھائی۔ (لیکن یہ تقسیم) وصیت (کی تعمیل) کے بعد جو انہوں نے کی ہو یا قرض کے (ادا ہونے کے بعد جو ان کے ذمے ہو، کی جائے گی) اور جو مال تم (مرد) چھوڑ مرو۔ اگر تمہارے اولاد نہ ہو تو تمہاری عورتوں کا اس میں چوتھا حصہ۔ اور اگر اولاد ہو تو ان کا آٹھواں حصہ (یہ حصے) تمہاری وصیت (کی تعمیل) کے بعد جو تم نے کی ہو اور (ادائے) قرض کے (بعد تقسیم کئے جائیں گے) اور اگر ایسے مرد یا عورت کی میراث ہو جس کے نہ باپ ہو نہ بیٹا مگر اس کے بھائی بہن ہو تو ان میں سے ہر ایک کا چھٹا حصہ اور اگر ایک سے زیادہ ہوں تو سب ایک تہائی میں شریک ہوں گے (یہ حصے بھی ادائے وصیت و قرض بشرطیکہ ان سے میت نے کسی کا نقصان نہ کیا ہو (تقسیم کئے جائیں گے) یہ خدا کا فرمان ہے۔ اور خدا نہایت علم والا (اور) نہایت حلم والا ہے “( سورہ النساء ۔آیت 11, 12)
سورہ النساء کی آیت نمبر 11 اور 12 میں وراثت کی تقسیم بتائی گئی ہے ۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اسلام میں عورت کا حصہ مرد سے آدھا ہے ۔مگر کیوں ؟
کیا مرد اور عورت کا حصہ برابر نہیں ہو سکتا تھا ؟اگر آپ اس معاملے کو گہرائی میں جا کر پرکھیں تو محسوس ہو گا کہ عورت کا حصہ آدھا ہونے کے باوجود مرد سے زیادہ ہے اور مرد کا حصہ دگنا ہونے کے باوجود عورت سے کم ہے ۔سورہ النساء کی آیت نمبر 11 اور 12 سے پہلے میں نے سورہ النساء کی آیت نمبر 33 بھی پیش کی ہے ۔ اس کو پڑھنے سے بات واضح ہو جاتی ہے ۔
اصل معاملہ یہ ہے کہ حقوق و فرائض کا آپس میں بڑا گہرا تعلق ہے ۔مثلاً اگر میں دو میں سے ایک شخص کو سو روپے دوں اور دوسرے کو پچاس روپے دوں ۔ تو اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ میں نے دوسرے کو آدھا دے کر اس کا حق مارا ۔ مگر اگر میں سو روپے والے شخص کو پابند کر دوں کہ پچاس روپے والے شخص کی پوری زندگی کا تمام خرچہ تم نے اٹھانا ہے تو اب زیادتی کس کے ساتھ ہو گی ؟
سوچیئے ؟ پچاس روپے والے شخص کے پاس پچاس روپے باقی رہیں گے کہ اس کا کوئی خرچہ نہیں ہے ۔ اس کا اپنا خرچہ بھی دوسرا اٹھا رہا ہے اور سو روپے والا شخص کچھ ہی عرصے میں سارے پیسے خرچ کر بیٹھے گا مگر فرض ساقط پھر بھی نہیں ہو گا ۔ پھر وہ اپنی کمائی بھی اسی پہ خرچ کرے گا ۔
یہی معاملہ اسلام میں عورت اور مرد کا ہے ۔ اللہ نے عورت کو معاش کی فکر سے آزاد رکھا ہے ۔ایک عورت جب پیدا ہوتی ہے تو مکمل طور پر باپ کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔ باپ اس کے کھانے پینے کپڑوں اور رہائش کے بندوبست کا پابند ہوتا ہے ۔ باپ مر جائے تو وہ شادی ہونے تک بھائی یا کسی اور قریبی محرم کی ذمہ داری ہے ۔ شادی کے بعد وہ اپنے شوہر کی ذمہ داری ہے ۔ شوہر مر جائے تو بیٹوں کی ذمہ داری یا اگلے شوہر کی ۔یعنی عورت کے پیدا ہونے سے مرنے تک اس پر نہ تو کمانا فرض ہے نہ کسی کی کفالت کرنا ۔اس سے یہ مطالبہ بھی نہیں کیا جا سکتا کہ جو رقم اسے باپ کی جائداد میں سے ورثے میں مل رہی ہے اسے وہ گھر کا خرچہ چلانے میں صرف کر دے ۔ ہاں اگر اپنی مرضی سے کرنا چاہے تو پابندی نہیں ۔ اس کا مال ہے جس طرح چاہے خرچ کرے ۔
مگر مرد کا معاملہ اس سے قطعاً مختلف ہے ۔اس پر معاش کی تنگی ڈالی گئی ہے ۔ اس کے سکون کا زمانہ صرف اس کی معصومیت کا زمانہ ہے ۔ جیسے ہی بالغ ہو گا اسے اپنے باپ کے ساتھ مل کر معاشی جدوجہد شروع کر دینی ہے ۔ اپنے ماں باپ کا سہارا بننا ہے ۔ اپنی بہنوں کی کفالت کرنی ہے ۔ پھر شادی کے بعد تاحیات اپنی بیوی اور بچوں کا ہر قسم کا خرچہ اٹھانا ہے ۔ وہ اس سے نہ بھاگ سکتا ہے نہ انکار کر سکتا ہے ورنہ گناہ گار ہو گا ۔یقیناٌ یہ سب ذمے داریاں وراثت سے حاصل کردہ رقم سے پوری نہیں کی جا سکتیں ۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم عورت کے وراثتی حقوق اسلامی معاشرے سے دیکھتے ہیں اور عورت کے فرائض اہلِ مغرب سے اٹھا لاتے ہیں ۔ یقیناً مغرب میں عورت مرد کے ساتھ ہر معاملے میں پچاس فیصد کی شریک ہوتی ہے ۔ اس کا حق ہے کہ باپ کی جائداد میں سے اسے پچاس فیصد حصہ ملے مگر اس کا فرض بھی ہے کہ اپنے شوہر کے ساتھ مل کر گھر کا آدھا بوجھ بھی اٹھائے ۔ اگر گھر کا کرایہ ہزار ڈالر ہے تو اس میں سے پانچ سو ڈالر عورت بھی ادا کرے گی ورنہ وہ شوہر کے ساتھ زیادتی کی مرتکب ہو گی ۔ شوہر کو حق حاصل ہو گا کہ اسے اپنے گھر سے نکال دے ۔ گھر کے باقی ماندہ اخراجات جن میں کھانا پینا کپڑے بچوں کے اخراجات ہر قسم کے ۔ غرض جو بھی گھر کے اخراجات ہوں گے اس میں بیوی اپنا پچاس فیصد حصہ ڈالے گی ۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ اتنا پیسہ لائے گی کہاں سے ؟ باپ کی جائداد میں سے کتنا حصہ مل گیا ہو گا ؟ جہاں سے مرضی لائے ۔ جاب کرے ۔ سڑکیں کھودے ۔ لوگوں کا مال ڈھوئے ۔ یہ مرد کا مسئلہ نہیں ہے ۔اسلام عورت کو ایسی مشقت بھری زندگی نہیں دیتا ۔ اللہ نے عورت کو فطرتاً کمزور بنایا ہے اور مرد کو طاقتور ۔ اسی فرق کی بناء پر فرائض لاگو کیئے ہیں اور اسی فرق کی بناء پر حقوق بھی دیئے ہیں ۔
اب بات کرتے ہیں عورت کی گواہی کی ۔
“مومنو! جب تم آپس میں کسی میعاد معین کے لئے قرض کا معاملہ کرنے لگو تو اس کو لکھ لیا کرو اور لکھنے والا تم میں (کسی کا نقصان نہ کرے بلکہ) انصاف سے لکھے نیز لکھنے والا جیسا اسے خدا نے سکھایا ہے لکھنے سے انکار بھی نہ کرے اور دستاویز لکھ دے۔ اور جو شخص قرض لے وہی (دستاویز کا) مضمون بول کر لکھوائے اور خدا سے کہ اس کا مالک ہے خوف کرے اور زر قرض میں سے کچھ کم نہ لکھوائے۔ اور اگر قرض لینے والا بےعقل یا ضعیف ہو یا مضمون لکھوانے کی قابلیت نہ رکھتا ہو تو جو اس کا ولی ہو وہ انصاف کے ساتھ مضمون لکھوائے۔ اور اپنے میں سے دو مردوں کو (ایسے معاملے کے) گواہ کرلیا کرو۔ اور اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں جن کو تم گواہ پسند کرو (کافی ہیں) کہ اگر ان میں سے ایک بھول جائے گی تو دوسری اسے یاد دلادے گی۔ اور جب گواہ (گواہی کے لئے طلب کئے جائیں تو انکار نہ کریں۔ اور قرض تھوڑا ہو یا بہت اس (کی دستاویز) کے لکھنے میں کاہلی نہ کرنا۔ یہ بات خدا کے نزدیک نہایت قرین انصاف ہے اور شہادت کے لئے بھی یہ بہت درست طریقہ ہے۔ اس سے تمہیں کسی طرح کا شک وہ شبہ بھی نہیں پڑے گا۔ ہاں اگر سودا دست بدست ہو جو تم آپس میں لیتے دیتے ہو تو اگر (ایسے معاملے کی) دستاویز نہ لکھوتو تم پر کچھ گناہ نہیں۔ اور جب خرید وفروخت کیا کرو تو بھی گواہ کرلیا کرو۔ اور کاتب دستاویز اور گواہ (معاملہ کرنے والوں کا) کسی طرح نقصان نہ کریں۔ اگر تم (لوگ) ایسا کرو تو یہ تمہارے لئے گناہ کی بات ہے۔ اور خدا سے ڈرو اور (دیکھو کہ) وہ تم کو (کیسی مفید باتیں) سکھاتا ہے اور خدا ہر چیز سے واقف ہے “۔( سورہ البقرہ ۔ آیت 282)
یہ ہے وہ قرآنی آیت جس سے عورت کی آدھی گواہی کا حکم اخذ کیا گیا ہے ۔ مگر آپ اگر غور کریں تو یہاں ایک کاروباری لین دین کی بات ہو رہی ہے ناکہ کسی اور معاملے کی ۔ یہ بات میں پہلے عرض کر چکا کہ عورت پر معاش کی فکر لاگو نہیں کی گئی ۔ لہٰذا یہ معاملہ یقیناً عورت کی دلچسپی سے باہر کا معاملہ ہے ۔
آیت میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ اگر ایک عورت بھول جائے گی تو دوسری اسے یاد دلا دے گی ۔اس سے بعض لوگوں نے یہ نتیجہ بھی اخذ کر لیا کہ عورتیں شائد بھلکڑ ہوتی ہیں ۔ ایسا نہیں ہے ۔سائنسی لحاظ سے بھی یاداشت کا تعلق انسان کی دلچسپی اور عدم دلچسپی کے امور سے ہوتا ہے ناکہ دماغ کی کمزوری سے ۔ آپ کسی سائنسدان سے اس کی مشکل ترین تھیوریز فرفر سن سکتے ہیں ۔ مگر اس سے یہ پوچھیں کہ اس نے کھانے میں کیا کھایا تھا تو وہ سوچ میں پڑ جائے گا ۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ کھانا کھاتے وقت بھی اس کی دلچسپی کھانے کے بجائے اپنی تھیوریز میں ہوتی ہے ۔یہی معاملہ عورتوں کے ساتھ ہے ۔ کاروباری معاہدے عورت کی دلچسپی کے موضوعات نہیں ہیں ۔ لہٰذا یہاں دو عورتوں کی قید لگائی گئی ہے ۔ اس کا اطلاق باقی معاملات پر نہیں ہوتا ۔
ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ عورت حکمران یا امام نہیں بن سکتی ۔اس میں پہلے تو اس بات کو سمجھ لیں کہ یہ دونوں عہدے فرائض میں آتے ہیں حقوق میں نہیں آتے ۔ یعنی کوئی شخص اس کو بطور حق قبول نہیں کرتا بلکہ ان کو ایک فرض سمجھ کر نبھایا جاتا ہے ۔ ان تینوں معاملات میں غفلت کی قطعاً گنجائش نہیں ہے ۔ ہمارے آج کل کے حکمرانوں کو اگر یہ ادراک ہو جائے کہ انہیں کتنے لوگوں کی تکلیفوں کا حساب دینا ہے تو شائد وہ حکومت چھوڑ کر جنگلوں میں نکل جائیں اور باقی ماندہ زندگی عبادات میں صرف کریں ۔ یہ کوئی تحفہ نہیں ہے جو مرد کو دے دیا گیا اور عورت محروم رہ گئی ۔ یہ ایک ذمہ داری ہے کہ جس کو نہ ملے اسے للہ کا شکر ادا کرنا چاہئے ۔
دوسری قباحت اس میں یہ ہے کہ حکمران اور امام کی ذمہ داریاں عورت کی فطری شرم و حیا اور پردے کے احکامات سے متصادم ہیں ۔حکمران سے ملنے والے لوگوں کی کوئی کمی نہیں ہوتی ۔ کسی دوسرے ملک کے حکمران سے اپنے ملک میں ملنا یا باہر جا کر ملنا ۔ پھر اپنی قوم سے ملنا ملانا ۔ جنگ ہو جانے کی صورت میں بطور لیڈر اگلی صفوں میں لڑنا ۔اسلام میں حکمران کا تصور کسی ٹیبل اور کرسی کے گرد نہیں گھومتا ۔ گھوڑے کی پیٹھ پر اور تلواروں کے سائے میں حکمرانی کرنی پڑتی ہے ۔ ٹیبل اور کرسی نے تو آج امتِ مسلمہ کو اس حال میں پہنچایا ہے ۔یہ تمام کام صنفِ نازک کے لئے زحمت ضرور بن سکتے ہیں مگر رحمت ہرگز نہیں ۔
سنگسار کی سزا چور کی سزا اور جزیہ کا تعلق آپ کے ملکی قانون سے ہے ناکہ ادوار سے ۔ سعودی عرب میں ان میں سے بیشتر سزائیں آج بھی لاگو ہیں ۔ آپ پاکستان میں بھی قوانین بنا لیں تو یہاں بھی لاگو ہو جائیں گی ۔ اس کا معاملہ طاقت کے ساتھ ہے ۔ اگر پاکستان ایک طاقتور اور خودمختار ریاست بن جائے تو ان قوانین کے لاگو کرنے سے انہیں کون روکے گا ؟ رہا ان قوانین کی افادیت کا معاملہ تو وہ سعودی عرب میں جا کر دیکھ لیں ۔
اس کے بعد کچھ ایسے معاملات بیان کیئے گئے ہیں جن کا اسلام سے ہی کوئی تعلق نہیں ہے ۔مثلاً خواتین کو گھروں میں بند رہنے کو نہ کہا جاتا ۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا حکم ہوتا ۔ پسند کی شادی کی حوصلہ افزائی کی جاتی ۔ اکیسویں صدی میں آنے والا اسلام غلامی کو برقرار نہ رکھتا ۔اسلام میں کوئی ایسا قانون نہیں جو خواتین کو گھروں میں قید رکھے ۔ خواتین ضروری معاملات کے لیئے گھروں سے باہر نکل سکتی ہے مگر پردے کے ساتھ اور پردہ اس کی حفاظت کے لیئے ہیں ۔ خواتین کی عصمت دری کے جتنے واقعات آج سے چودہ سو سال پہلے ہوتے تھے اس سے ہزار گنا زیادہ آج بھی ہوتے ہیں ۔ میں سائنس کی کسی ایسی ایجاد سے واقف نہیں ہوں جو خواتین کی عصمت دری میں مانع ہو ۔ اگر آپ کو پتہ ہے تو بتا دیں تاکہ ہم بھی اپنی خواتین کے پردے ہٹوا کر اس ایجاد سے مستفید کروا دیں ۔
اعلیٰ تعلیم کی بھی اسلام حوصلہ افزائی کرتا ہے ۔ اس سلسلے میں جو حکم مردوں کے لیئے ہے وہی خواتین کے لیئے بھی ہے ۔ میں دین اسلام کا کوئی ایک بھی ایسا حکم نہیں جانتا جس میں خواتین کو علم حاصل کرنے سے روکا گیا ہو ۔پسند کی شادی کا معاملہ بھی دین میں سادہ اور آسان ہے ۔ جس وقت نکاح ہوتا ہے اس وقت قاضی جن الفاظ میں مرد سے پوچھتا ہے کہ کیا تمہیں یہ نکاح قبول ہے ۔ من و عن انہی الفاظ میں لڑکی سے بھی پوچھتا ہے کہ کیا تمہیں یہ نکاح قبول ہے ۔ لڑکی کے باپ سے نہیں پوچھا جاتا ۔ اس کے بھائی سے بھی نہیں پوچھا جاتا ۔ نہ ہی ایسی کوئی رسم ہے کہ لڑکے نے نکاح قبول کر لیا تو بس کافی ہے لڑکی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں ۔
لڑکی کی مرضی کے بغیر اس کا نکاح ہو ہی نہیں سکتا ۔ اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا ۔
لیکن اگر یہاں پسند کی شادی سے مراد یہ ہے کہ لڑکی پہلے کچھ عرصہ لڑکے کے ساتھ ریسٹورینٹ میں برگر وغیرہ کھاتی رہے ۔ اس سے تنہائی میں ملاقاتیں کرے ۔ ایک دوسرے کو جاننے کی آڑ میں بغیر نکاح کے بدکاری کی جائے ۔ تو اسلام میں اسے پسندیدگی نہیں بلکہ بے غیرتی کہا جاتا ہے ۔ اسلام بے غیرتی کی اجازت نہیں دیتا ۔ یہ سب کچھ الحاد میں ہوتا ہے ۔ جسے شوق ہو کسی کی بہن سے بغیر نکاح کے ملاقاتیں کرنے کا وہ بڑے شوق سے الحاد اختیار کر لے ۔ اسلام کو اس سے فرق نہیں پڑتا ۔ مگر تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے ۔ آپ کسی کی بہن سے بغیر نکاح کے تنہائی میں ملاقاتیں کرنے کے خواہشمند ہوں تو پھر آپ کو یہی اجازت اپنی بہن کے معاملے میں کسی دوسرے لڑکے کو بھی دینی پڑے گی ۔
پھر کہا کہ اکیسویں صدی میں آنے والا اسلام غلامی کو برقرار نہ رکھتا ۔اس پر نہ جانے کتنی بار لکھ چکا ہوں میں ۔اسلام آنے سے پہلے غلام بنانے اور غلاموں کی خرید و فروخت ایک عام معمول تھا ۔ بعض لوگ غلام پیدا ہوتے اور غلام ہی مر جاتے ۔ غلاموں کے ساتھ جانوروں سے بدتر سلوک کیا جاتا جس کی مثال بلال رض جنہیں ابو بکر رض نے خرید کر آزاد کروایا ۔اسلام میں غلامی کا تصور وہ نہیں ہے جو دنیا میں پہلے رائج تھا ۔ اسلام کسی آزاد شخص کو خرید کر غلام بنانے کی اجازت نہیں دیتا ۔ بلکہ اسلام میں غلام کا صرف ایک ہی تصور ہے اور وہ ہے مسلمانوں کے خلاف جنگ میں شکست کے بعد مسلمانوں کے ہاتھوں گرفتار ہو جانا ۔ دوسرے لفظوں میں آپ انہیں جنگی قیدی کہہ سکتے ہیں ۔ مگر اس پر بھی ملحدوں کو اعتراضات ہیں کہ ایسا بھی آخر کیوں ہیں ۔آیئے اس کی وجوہات پر بات کرتے ہیں ۔
جنگ میں جو قیدی پکڑے جاتے ہیں ان کے ساتھ آخر سلوک کیا کیا جائے ؟١ ۔ انہیں قتل کر دیا جائے ۔٢ ۔ انہیں غیر مشروط طور پر آزاد کر دیا جائے ۔٣ ۔ ان کے بدلے میں اپنے وہ قیدی آزاد کروا لیے جائیں جو دشمن کی قید میں ہیں ۔٤ ۔ ان کے بدلے میں دشمن سے مالی یا علمی فائدہ حاصل کر لیا جائے ۔٥ ۔ انہیں غلام بنا کر رکھا جائے اور ان سے فائدہ اٹھایا جائے ۔
اب ان میں سے ہر نکتے پر تھوڑی گفتگو کرتے ہیں ۔
١ ۔ انہیں قتل کر دیا جائے ۔غلام کو قتل کرنے کا حکم اسلام میں قصاص کے طور پر ہے یعنی وہ جنگ لڑنے آیا تو مسلمانوں کو قتل کرنے کے ارادے سے ہی آیا ۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر کسی آزاد شخص پر مسلمان کے قتل کا الزام ثابت ہو جائے تو کیا اسے چھوڑ دیا جاتا ہے ؟ جی نہیں اسے بھی قصاص میں قتل ہی کیا جاتا ہے ۔ یعنی یہ قانون غلاموں کے لیئے خاص نہیں بلکہ ایک عمومی حکم ہے جو نہ صرف اسلام بلکہ پوری دنیا میں رائج ہے ۔
٢ ۔ انہیں غیر مشروط طور پر آزاد کر دیا جائے ۔یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیوں ؟ کیوں آزاد کر دیا جائے ؟ تاکہ وہ دوبارہ قوت پکڑیں اور ایک بار پھر حملہ کریں مسلمانوں پر ؟ وہ کرنے کیا آئے تھے ؟ کیا ان کا مقصد جیتنے کی صورت میں مسلمان عورتوں کی عصمت دری اور مردوں اور بچوں کا قتل عام نہیں تھا ۔ جنگی قیدیوں کو غیر مشروط طور پر آزاد کرنا ایک احمقانہ فعل ہے اور مسلمان احمق نہیں ہوتے ۔
٣ ۔ ان کے بدلے میں اپنے وہ قیدی آزاد کروا لیے جائیں جو دشمن کی قید میں ہیں ۔یہ وہ دانشمندانہ اصول ہے جو پوری دنیا میں رائج ہے ۔ سادہ حساب کہ ایک ہاتھ دو اور ایک ہاتھ لو ۔ ایک بندہ اپنا لے لو ایک بندہ ہمارا دے دو ۔ اس میں کیا بات قابل اعتراض ہے ؟
٤ ۔ ان کے بدلے میں دشمن سے مالی یا علمی فائدہ حاصل کر لیا جائے ۔یہ وہ اصول ہے جو غزوۂ بدر میں رسول للہ صلی للہ علیہ وسلم نے قائم کیا کہ جو قیدی دس صحابہ کو لکھنا پڑھنا سکھا دے گا وہ آزاد ہو گا ۔ ملحد عموماً مسلمانوں پہ ایک اعتراض یہ بھی کرتے ہیں کہ کافروں سے اتنی نفرت ہے تو مسلمان ان سے علم کیوں حاصل کرتے ہیں ۔ ان کی یونیورسٹیوں میں تعلیم کیوں حاصل کرتے ہیں ؟ علماء کے بچے تعلیم حاصل کرنے باہر کیوں جاتے ہیں ؟ مسلمان علاج کی غرض سے کفار کی طبی سہولیات سے استفادہ کیوں حاصل کرتے ہیں ؟ یہ غیر منطقی اعتراضات ہیں ۔ جن کا نہ کوئی سر ہے نہ کوئی پیر ۔ گویا کفار کے تعلیمی ادارے اور ہسپتال مسلمانوں کو فی سبیل للہ سہولیات فراہم کرتے ہوں ۔ یہ ایک سادہ کاروباری نکتہ ہے جس کی اسلام میں اجازت ہے ۔ آپ کسی کافر کو وہ مال یا سہولت دیتے ہیں جو آپ کے پاس موجود ہے اور اس کے عوض اس سے وہ سہولت لے لیتے ہیں جو اس کے پاس موجود ہو ۔ چاہے وہ علمی ہو یا طبی ۔
٥ ۔ انہیں غلام بنا کر رکھا جائے اور ان سے فائدہ اٹھایا جائے ۔یہ وہ آخری نکتہ ہے جس پر اعتراض ہے ۔ سوال یہ ہے کہ اگر دشمن کے پاس اوپر درج کی گئی سہولیات میں سے دینے کو کچھ بھی نہ ہو تو کیا کیا جائے ؟ میں پہلے درج کر چکا کہ مسلمان احمق نہیں ہوتے کہ غیر مشروط طور پر غلام (قیدی)آزاد کر دیا جائے ۔ اگر دشمن کے پاس دینے کو کچھ نہ ہو تو پھر قیدی کو غلام بنا کو انتظار کیا جائے گا کہ یا تو دشمن کے پاس ہمارے فائدے کی کوئی چیز یا ہمارا کوئی مسلمان بھائی قید ہو کر چلا جائے تو اس کو اس سے بدل لیا جائے ۔ ورنہ قران و حدیث میں ایسے اصول بھی موجود ہیں جن میں کئی کبیرہ گناہوں کا کفارہ غلام آزاد کرنا ہے ۔ ثواب حاصل کرنے کی غرض سے بھی غلام اچھے سلوک اور دوبارہ مسلمانوں سے مخاذ آرائی نہ کرنے کے وعدے پر آزاد کر دیئے جاتے ہیں ۔
امید ہے بات سمجھ آگئی ہو گی ۔
تحریر محمد سلیم