ملحدین کی جانب سے کچھ ایسے سوالات اٹھائے جاتے ہیں جو سننے والے کو منطقی الجھاؤ میں مبتلا کردیتے ہیں. سوالات درج ذیل ہیں
١. کیا خدا شر کو روکنا چاہتا ہے مگر روک نہیں سکتا؟ اگر ایسا ہے تو خدا ہر چیز پر قادر نہیں
٢. کیا خدا قابل تو ہے مگر روکنا نہیں چاہتا؟ اگر ایسا ہے تو وہ شر پسند ہے
٣. کیا خدا شر کو روکنا چاہتا ہے اور روکنے کے قابل بھی ہے ؟ اگر ایسا ہے تو شر آتا کہاں سے ہے ؟
٤. اگر وہ نہ شر کو روکنا چاہتا ہے اور نہ ہی اس پر قادر ہے تو اسے خدا کیوں کہیں؟
ان سوالات کے سیدھے اور سادے جوابات پیش ہیں
١. کیا خدا شر کو روکنا چاہتا ہے مگر روک نہیں سکتا؟ اگر ایسا ہے تو خدا ہر چیز پر قادر نہیں
ج. خدا جو چاہتا ہے وہ صرف یہ ہے کہ انسان کو اس زندگی میں ارادہ و اختیار کی آزادی دی جائے. وہ چاہے تو خیر کو چنے اور چاہے تو شر اختیار کرے. اس رویہ کی بنیاد پر وہ ہر شخص کو اس کا اجر یا سزا دے. اس سے الله کی قدرت پر کوئی سوال نہیں پیدا ہوتا
٢. کیا خدا قابل تو ہے مگر روکنا نہیں چاہتا؟ اگر ایسا ہے تو وہ شر پسند ہے
ج. خدا نے اس دنیا کو امتحان کے اصول پر بنایا ہے اور یہی مقدمہ الہامی کتابیں پیش کرتی ہیں. وہ آپ سے آپکا آزادی ارادہ و اختیار نہیں چھیننا چاہتا. لہٰذا برائی سے وہ زبردستی نہیں روکتا بلکہ ترغیب و دعوت سے سمجھاتا ہے اور ساتھ ہی وعدہ کرتا ہے مکمل انصاف کا. اگر وہ شر پسند ہوتا تو کبھی پیغمبروں اور الہامی صحائف سے تلقین و تنبیہہ کا مسلسل سلسلہ جاری نہ کرتا. آپ کی یہ چاہت کہ خدا زبردستی برائی کو روک دے ، دراصل انسان کے ارادہ و اختیار کو سلب کرنے کے مترادف ہے. یہ راہ متعین کرنے کی آزادی ہی تو انسانیت کا اعجاز ہے، آپ انسان کو اس سے کیوں محروم کرنا چاہتے ہیں؟
٣. کیا خدا شر کو روکنا چاہتا ہے اور روکنے کے قابل بھی ہے ؟ اگر ایسا ہے تو شر آتا کہاں سے ہے ؟
ج. اس سوال کے جواب میں میرے کچھ سوالات کا جواب دیں. کیا اندھیرے کا کوئی حقیقی وجود ہے ؟ اگر ہاں تو ہم اسے کیسے بیان کر سکتے ہیں؟ آج سائنس کی رو سے ہم سب روشنی کی رفتار سے واقف ہیں مگر اندھیرے کی رفتار کیا ہے ؟ کیا آپ بتا سکتے ہیں؟ اگر اندھیرا واقعی ایک حقیقی وجود رکھتا ہے تو ہم اسکی رفتار کا حساب کیوں نہیں لگا سکتے؟
جواب یہ ہے کہ اندھیرے کا فی الواقع کوئی حقیقی وجود نہیں ہے. اندھیرا تو نام ہے روشنی کی عدم موجودگی کا ! حقیقی وجود تو صرف روشنی کا ہے ، اسکی ضد یعنی اندھیرے کا تصور محض تصوراتی ہے یہ تو بس ایک نام ہے جو ہم نے روشنی کے نہ ہونے والی صورتحال کو بیان کرنے کیلئے اختیار کرلیا ہے. اسی طرح ٹھنڈک کا تصور حقیقی نہیں خیالی و تصوراتی ہے، حقیقی وجود تو گرمی یا حرارت کا ہے. سائنس بس یہی بتاتی ہے کہ ایک شے زیادہ گرم ہے، بہت زیادہ گرم ہے، کم گرم ہے یا بہت کم گرم ہے. وہ ہمیں حرارت یعنی ٹمپریچر بیان کرتی ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں. ٹھنڈک تو بس ایک لفظ ہے جو ہم نے کم حرارت والی کیفیت کو بیان کرنے کیلئے اختیار کرلیا ہے. اسی اصول پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ شر کا کوئی حقیقی وجود نہیں ، یہ بس خیر کی عدم موجودگی کا نام ہے. الله نے کبھی شر کو تخلیق نہیں کیا، اس نے تو صرف خیر کو پیدا فرمایا لیکن ساتھ ہی انسان کو آزمانے کے لئے اختیار کی آزادی دی کہ وہ چاہے تو خیر کو اپنا لے یا نہ اپنائے. یہ ہمارا خیر کو نہ اپنانا ہے جو شر کو جنم دیتا ہے، ہمارے اردگرد پھیلا ہوا شر ہمارا اپنے ہاتھوں سے لایا ہوا ہے ، خدا نے تو خیر پیدا کیا اور اسی کو اپنانے کا حکم دیا. مثال کے طور پر اس نے زمین میں ہر مخلوق کیلئے رزق بکثرت رکھ دیا لیکن یہ انسان کی غیرمنصفانہ تقسیم ہے جس نے بھوک و افلاس کو جنم دیا. ہاں یہ ضرور ہے کہ ایک مخلوق کی ضرورت دوسری مخلوق کے لئے شر بن جائے. جیسے شیر کی بھوک بکری کے لئے بظاہرشر بن سکتی ہے یا بکری کا چرنا گھاس پھونس کیلئے شر کہلاسکتا ہے. یہ فطرت کے اصول ہیں جو اس نظم کائنات کو برقرار رکھنے کیلئے الله رب العزت نے مختص کئے ہیں مگر اس سے یہ نتیجہ ہرگز نہیں نکالا جاسکتا کہ اس نے شر کو پیدا کیا جیسا کہ قتل ، چوری، فاقہ وغیرہ یہ انسان کا اپنا ارادے کا سوئے استمعال ہے جو شر وجود میں لاتا ہےابلیس کو بھی ملعون الله نے پیدا نہیں کیا بلکہ اسکے ارادے کے غلط استمعال نے بنایا
سوال کا جواب یہ بنا کہ خدا کو مکمل اختیار ہے روکنے کا، مگر چونکہ اس نے یہ دنیا امتحان کے اصول پر تخلیق کی ہے اور وہ اس دنیا میں ہماری اختیار کی آزادی کو قائم رکھنا چاہتا ہے لہٰذا وہ زبردستی جبر سے برائی نہیں روکتا بلکہ تلقین و ترغیب کا رویہ اپناتا ہے. اب یہ نقطہ کہ شر آتا کہاں سے ہے؟ یہ اپر درج کردیا گیا ہے کہ یہ انسان کا اپنے ہاتھوں سے لایا ہوا ہوتا ہے. خدا کو مورد الزام نہیں ٹہرایا جا سکتا
٤. اگر وہ نہ شر کو روکنا چاہتا ہے اور نہ ہی اس پر قادر ہے تو اسے خدا کیوں کہیں؟
ج. وہ اس دنیا میں ہماری اختیار کی آزادی کو قائم رکھنا چاہتا ہے لہٰذا باوجود قدرت رکھنے کے وہ شر روکنے کیلئے محض تلقین و تعلیم کا طریق اختیار کرتا ہے اور ساتھ ہی اس روز حساب کی خبر دیتا ہے جب ہر شخص اپنے اعمال کا نتیجہ بھگتے گا. ایسی بااختیار اور منصف ہستی کو کوئی کیوں نہ خدا تسلیم کرے؟
تحریر عظیم الرحمان عثمانی