ایک ملحد کی طرف سے یہ سوال پوچھا گیا کہ کائنات کو بنانے سے پہلے اللہ تعالی کیا کر رہا تھا۔اس سے پہلے کہ میں اس سوال کا جواب دوں سوال میں پائی جانے والی کچھ غلطیوں کی طرف اشارہ کردوں۔
اس سوال میں یہ مفروضہ چھپا ہوا ہے کہ اللہ جو کچھ کرتا ہے ہمیں اس سب کے بارے میں معلوم ہے یا معلوم ہونا چاہئے۔ ایسا کچھ نہیں ہے۔ مسلمانوں نے کبھی بھی یہ دعوی نہیں کیا کہ ہمیں اللہ کے ہر ہر عمل کے بارے میں معلوم ہے۔سوال میں چونکہ خاص طور پر یہ پوچھا گیا ہے کہ کائنات کو بنانے سے “پہلے” اللہ کیا کرتا تھا، اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ گویا سوال پوچھنے والے موصوف کو پتہ ہے کہ کائنات بنانے کے بعد اللہ کیا کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمیں یہ بھی پتہ نہیں ہے کہ کائنات بنانے کے بعد اللہ کیا کرتا ہے۔غالبا سوال پوچھنے والا یہ سمجھتا ہے کہ کائنات بنانے کے بعد اللہ کائنات کو سنبھالنے میں مصروف ہے اور مزید کچھ کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ یہ بات صحیح ہے کہ اللہ رب العالمین ہے اور کائنات کو وہی چلا رہا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کائنات کی پالنہاری اللہ کے لئے کچھ ایسی مشغولیت ہے کہ وہ اس میں مصروف ہوجائے اور کچھ اور نہ کر پائے۔
اس سوال میں ایک اور مفروضہ یہ ہے کہ اللہ کو “کچھ کرتے” بھی رہنا ہے، یا کچھ کرنا اللہ کی ایسی مجبوری ہے جیسے انسان کی۔ انسان دنیا میں رہتا ہے اور اپنی زندگی، آرام اور سہولت کے لئے اسے “کچھ کرنے” کی مجبوری لاحق ہے۔ یہ اللہ کی مجبوری نہیں ہے۔
ملاحظہ فرمائیے کہ اس سوال میں ایک ملحد کتنے مفروضے ساتھ لئے پھر رہا ہے۔ یہ سب مفروضات مخلوق کی کمزوریاں ہیں نہ کہ رب العالمین کی۔اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ سوال پوچھنے والے کی دماغی کیفیت کیا ہے۔ شاید ایک ملحدانہ دماغ مخلوقانہ کمزوری سے آگے سوچنے کے قابل نہیں رہ پاتا۔چلئے اب سوال کے جواب پر بھی آتے ہیں۔
اللہ نے جو کائنات بنائی ہے، زمان و مکان اس کائنات کا حصہ ہے۔ سائنسی اعتبار سے بھی بگ بینگ کے ساتھ ہی وقت اور خلا کا وجود ہوا۔ تو کائنات بننے سے پہلے نہ خلا کا وجود تھا اور نہ ہی وقت کا۔انسانی شعور کسی عمل اور شئے کے ادراک کے لئے خلا اور وقت کا محتاج ہے۔ انسانی شعور بغیر وقت کے کسی بھی چیز کو سمجھ نہیں سکتا۔ اور کائنات بننے سے پہلے وقت کا وجود ہی نہیں تھا۔ ایسے میں ایک انسان کے لئے یہ سمجھنا ناممکن ہے کہ وقت کے فریم کے باہر کیا ہوتا ہے اور کیسے ہوتا ہے۔ اس لئے کم از کم یہ بات اس دنیا کے انسانی شعور کے ادراک کے باہر ہے۔
اس بات سے واضح ہوجاتا ہے کہ یہ سوال دراصل اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ سوال پوچھنے والا خدا کو مخلوق کی کمزوریوں سے متصف سمجھتا ہے۔ اور دوسری بات جو واضح ہے وہ یہ ہے کہ وہ خود انسان ہوتے ہوئے اپنے شعوری ادراک کی کمزوری سے ناواقف ہے۔آسان زبان میں اس سوال کا جواب یوں بنتا ہے۔
۱۔ ہمیں پتہ نہیں،
۲۔ ہمیں پتہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں
۳۔ اور رب العالمین نے ہمیں بتانے کی ضرورت نہیں سمجھی۔
۴۔ ہمیں وہی چیزیں بتائی گئیں ہیں جس کی ہمیں ضرورت ہے۔
۵۔ ہماری نجات کے لئے اس سوال کا جواب معلوم ہونا ضروری نہیں ہے۔
۶۔ اس سوال کا جواب سمجھنا انسانی شعور کے ادراک سے باہر ہے۔
اس سلسلے میں ایک اور اعتراض یہ اٹھایا جاتا ہے کہ خدا اگر کائنات میں تصرف کرتا ہے تو اسے زمان و مکان میں شرکت کرنا ہوگی کیونکہ کائنات ان میں مقید ہے، لہذا زمان و مکان سے ماوراء خدا کا مذھبی تصور غلط ہے۔
اس اعتراض میں یہ خیال نہیں رکھا گیا کہ زمان و مکان اس کائنات سے متعلق تصورات ہیں، چنانچہ جب یہ کہا جاتا ہے کہ کائنات مخلوق ہے تو اس کا معنی یہ بھی ہوتا ہے کہ زمان و مکان بھی خدا کی مخلوق ہیں۔ اور یہ بات واضح ہے کہ مخلوق میں تصرف کرنے کے لئے مخلوق بننا لازم نہیں، جیسے انسان اپنی مخلوقات میں مخلوق کے اجزاء بنے بغیر اس میں تصرف کرلیتا ہے۔
رہ گیا یہ سوال کہ خدا کے اس تصرف کرنے کی کیفیت کیا ہے تو اس کے معلوم ہونے کے اہل مذھب مدعی ہی نہیں کہ ان سے یہ سوال کیا جائے۔ اس بارے میں اصولی پوزیشن یہ ہے کہ انسان اپنے تمام تر وجود کے ساتھ چونکہ زمان و مکان میں مقید ہے لہذا وہ زمان و مکان سے ماوراء رہتے ہوئے اس میں تصرف کی “کیفیت” کو سمجھ نہیں سکتا۔
خدا وہ نہیں ہوتا جسے کوئی اپنی مرضی، علم، عقل اور نفس کی طرف سے بنا کر کہے کہ “خدا ایسا ہے یا ویسا ہے”۔ خدا وہ ہے جس کا تعارف محمد رسول اللہﷺ نے کروایا، اس کے سواء کی جانے والی سب باتیں لم ٹٹول ہیں۔ خدا کے بارے میں مشرکین عرب کے بھی اپنی طرف سے بنائے ہوئے بہت سے تصورات تھے مگر قرآن نے انہیں رد کیا۔ اسی طرح اگر آج کوئی اپنی سائنسی تحقیقات سے کسی ایسے خدا کو تراش لے(جیسے بعض فلسفیوں نے “کلاک میکر گاڈ” تراش لیا تھا کہ جو گھڑی ساز کی طرح گھڑی بنا کر ایک طرف ہوکر بیٹھ گیا یا جیسے بعض فلسفیوں نے بس “علت اولی” کا نام خدا رکھ لیا) جو نبی آخر الزمان کی خبر کے مطابق نہ ہو تو یہ وہ خدا نہیں ہے جس نے انسان کو بنایا بلکہ یہ وہ خدا ہے جسے انسان نے بنایا۔
خدا کی ذات، وجود انسانی اور کائنات کے باہمی تعلّق پر ایک نئے اور منفرد زاویے سے بحث ۔
تحریر ذیشان وڑائچ ، زاہد مغل
محمد شاہ میر احمد وانی
April 11, 2020 at 2:29 amماشاء اللہ جزاک اللہ