زمین پرزندگی کیسےشروع ہوئی؟رچرڈڈاکن

۔

رچرڈ ڈاکنز کی ایک ویڈیو پچھلے دنوں مشہورہوئی جس میں ان سے پوچھا گیا کہ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ زمین پر زندگی کیسے شروع ہوئی ہوگی؟ تو انہوں نے جواب دیا، ’’ایک سیل سے‘‘۔ اُن سے مکرر پوچھا گیا کہ وہ سیل کہاں سے آیا ہوگا؟ تو انہوں نے جواب دیا، ’’ممکن ہے کسی اور نظام ِ شمسی کے کسی اور سیارے پر زندگی کی ترقی ہماری ترقی سے لاکھوں سال پہلے ہوئی ہو اور وہ ارتقأ میں ہم سے لاکھوں سال آگے ہوں۔ ممکن ہے انہوں نے زندگی کی ایک ایسی شکل ڈیزائن کی ہو جیسی ہمارے سیارے پر ہے اور انہوں نے ہی ہمارے سیارے پر سیڈنگ یعنی زندگی کا بیج بویا ہو‘‘
رچرڈ ڈاکنز کو جدید ’’ماڈرن ویسٹرن کیپٹالسٹ ایتھزم‘‘ کا بابا آدم مانا جاتاہے۔ خدا کا انکار اُن کی زندگی کا سب سے بڑا مِشن رہاہے۔ لیکن مذکور بالا انٹرویو میں انہوں نے علی الاعلان تسلیم کیا ہے کہ ممکن ہے ہمارے سیارہ زمین پر موجود زندگی کسی ذہین مخلوق کے ذہن کی تخلیق ہو۔ اتنا تسلیم کرلیا تو گویا کمتر درجے کا سہی لیکن ہمارے لیے ایک ذہین خالق تسلیم کرلیا۔ ایسے ہی موقع پر کہا جاتاہے ، ’’کم ازکم‘‘۔ سو کم ازکم رچرڈ ڈاکنز یہ تسلیم کرتے ہیں کہ زمین پر موجود زندگی کا سارا پروگرام کسی ذہین خالق کا بنایا ہوا ہوسکتاہے۔
اب پیچھے رہ جاتاہے ، وہ خدا جسے کسی نے نہیں بنایا۔ جو خود سے ہے۔ جو ازل سے ہے اور ہمیشہ رہیگا۔ جو حی و قیوم ہے۔ جو سب سے بڑی عقل کا مالک ہے۔ سو اُس خدا کے وجود سے ہنوز رچرڈ ڈاکنز کو انکار ہے۔ مجھے یونہی خیال آرہا تھا کہ ٹیکنکلی رچرڈ ڈاکنز کے خیال اور مذہب کے خیال میں چنداں فرق نہیں۔
رچرڈ ڈاکنز اِس کائنات کے بارے میں یہ مانتے ہیں کہ اِسے کسی نے نہیں بنایا۔ یہ خود سے ہے۔ اور اسی کائنات نے سیارے پیدا کیے اور ان میں زندگی اور ذہانت پیدا کی۔ سٹرنگ تھیوری کے بعد رچرڈ ڈاکنز اس امکان کو بھی رد نہیں کرسکتے کائنات (عالمین) ایک نہیں کئی ہیں۔ نظریہ اضافیت کے بعد رچرڈ ڈاکنز اس بات سے انکار نہیں کرسکتے کہ کسی شخص کا ایک منٹ کسی اور شخص کے کئی سالوں کے برابر بھی ہوسکتاہے۔ ڈاکنز خود مائیکروبیالوجسٹ ہیں۔ وہ ڈی این اےکے انٹیلیجنٹ لینگوئج ہونے، اس میں تبدیلیوں کے امکان، میوٹیشن کے مافوق العقل وجود اور نئی نئی مخلوقات کی پیدائش سے کب انکار کرسکتےہیں؟ انسان کبھی مکمل طور پر نان وائلنٹ مخلوق بن کر کسی خوشنما باغ میں ایسے رہ رہا ہو کہ اُسے ہزاروں سال موت نہ آئے، اس امکان سے بھی ایک مائیکروبیالوجسٹ عہدِ حاضر میں انکار نہیں کرسکتا۔
اس سب پر مستزاد یہ ایک خاصی مشہور تھیوری بھی ہے کہ یہ کائنات سانس لیتاہوا ایک ذہین فطین جاندار ہے جو فورتھ ڈائمینشنل ہے۔ علاوہ بریں ’’پین سپرمیا‘‘ بھی ایک تھیوری ہے کہ کائنات حیات سے چھلک رہی ہے اور خلا میں اڑتے ہوئے پتھروں میں بھی ڈی این اے یا ابتدائی حیات کے امکانات مضمر ہیں۔
پھر سوچتاہوں ڈاکنز کا اصل مسئلہ خدا نہیں ہے۔ نہ ہی مذہب ہے اور نہ ہی مذہبی ہونا ہے۔ ڈاکنز اور اس کے ماننے والوں کا اصل مسئلہ وہ ’’سیٹ آف رُولز‘‘ ہے جسے نظامِ حیات کہتے ہیں۔ مذہب بھی ایک سیٹ آف رُولز پیش کرتاہے۔ جسے کمانڈمنٹس کہا جاتاہے۔ ڈاکنز اور اس کے ماننے والوں کو اُس سیٹ آف رُولز کے ساتھ اختلاف ہے۔ مزید باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو یہ اختلاف بنیادی طور پر نظریۂ علم کا اختلاف ہے یعنی ایپسٹمالوجی کا۔ مذہب کے نزدیک ’’وحی‘‘ ایک برتر سورس آف نالج یعنی ایک ایسا ذریعۂ علم ہے جو ہمارے کمتر شعور کے لیے ہمیشہ رہنمأ کا کام دے سکتاہے۔ دہریت کو یہ خیال مکمل طور پر نان اکیڈمک لگتاہے۔ یہ بات بھی غلط نہیں کہ یہ سارا خیال حسی علوم کی ترقی کے بعد اکیڈمک محسوس ہونے لگا یہی کوئی سترھویں صدی عیسویں سے لے کر اب تک۔ اس سے قبل چونکہ حسی علوم کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا تو دنیا کا ٹوٹل وِژن ہی مختلف تھا۔
غرض یہ مذہب نہیں جس کے پاس بھاگ نکلنے کا کوئی راستہ نہیں بچا۔ بلکہ یہ دہریت ہے جس کے پاس بھاگ نکلنے کا کوئی راستہ نہیں بچا۔ کیونکہ اب اس تھیوریز کے رَش کے دور میں کہ جب ’’لاز آف سائنس‘‘ کی پیدائش کا زمانہ گزرچکاہے اور ’’تھیوریزآف سائنس‘‘ کی شدت کا زمانہ چل رہاہے کون انکار کرسکتاہے کہ حسی سائنس چند دہائیاں بھی مزید اپنے پیروں پر کھڑی رہ سکتی ہے۔ سائنس پر عقلیت (ریشنلزم) پوری طرح غلبہ پانے کے قریب ہے اور وہ دن دُور نہیں جب حسیّت (امپرسزم) کے مقابلے میں دوبارہ عقلیت دنیا پر راج کرنے لگے۔ تب پھر سےایک بار دنیا بدل جائے گی۔ دہریت کا نام و نشان تک نظر نہ آئے گا۔ اور وحی کی مابعدالطبیعات کو ایک بار پھر ریاضیاتی عقیدت کا درجہ حاصل ہوجائیگا۔ یہ الگ بات ہے کہ تب وحی کس شئے کو سمجھا جائے گا، کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ ممکن ہے بولتی ہوئی فطرت کو ہی کُل وحی سمجھ کر ایک دہریت زدہ نیا مذہب سامنے آجائے۔
اگر سوچیں تو برکلے، ہیگل، کانٹ جیسے لوگ آئن سٹائن سے کم دماغ نہ تھے۔ خود آئن سٹائن کے ہی دور میں نیلز بوھر جیسے سائنسدانوں کا اعتقاد حسیت سے اُٹھ چکا تھا۔ اقبال نے تشکیل کے دیباچے میں لکھاہے کہ ’’وہ دن دُور نہیں جب مذہب اور جدید سائنس میں ایسی ایسی مفاہمتیں دریافت ہونے لگیں گی کہ جو ہماری سوچ سے بھی ماروأ ہیں، کیونکہ جدید فزکس نے اپنی ہی بنیادوں کی تدوین شروع کردی ہے‘‘(مفہوم)۔
ادریس آزاد

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password