ایک مقام ایسا ہے کہ جہاں پہنچ کر مذہب اور سائنس دونوں سوال کو پسند نہیں کرتے۔ لہٰذا ملحدین کا اہل مذہب کو اس کا طعنہ دینا درست نہیں ہے کہ وہ بعض مقامات پر سوال کو شیطان کا وسوسہ قرار دیتے ہیں کہ یہی ملحد بعض مقام پر سوال کو لایعنی قرار دے رہے ہوتے ہیں۔ مذہب اور سائنس دونوں کا فکری قالب(paradigm) اگرچہ مختلف ہے لیکن اس کے باوجود سوال کے بارے میں ایک مقام پر جا کر دونوں کی روش(approach) یکساں ہوجاتی ہے۔
اللہ کے رسول ﷺ کا فرمان ہے کہ شیطان تم میں سے کسی کے پاس آکر کہتاہے کہ اس کو کس نے پیدا کیا، اس کو کس پیدا کیا؟ یہاں تک کہ وہ تم سے یہ بھی کہتاہے کہ خدا کو کس نے پیدا کیا؟ تو جب تم میں سے کوئی شخص اس مقام پر پہنچے تو فوراً اللہ کی پناہ مانگے اور اس میں غور کرنے سے باز رہے۔( صحیح مسلم ، کتاب الایمان، باب بیان الوسوسۃ فی الایمان وما یقولہ من وجدھا، دار احیاء التراث العربی۔ بیروت 1/120)
اسی طرح اکیسویں صدی عیسوی کے نامور سائنسدان اسٹیون ہاکنگ یہ کہتے ہیں کہ بگ بینگ سے پہلے کیا تھا، یہ ایک لایعنی سوال ہے۔((The Grand Design;p.109))
یعنی یہ سوال کرنا ہی غیر ضروری ہے کہ جب وقت اور مکان (time and space) کا آغاز ہی بگ بینگ سے ہوا تو اس سے پہلے کیاتھا؟ کا سوال لایعنی قرار پاتاہے۔ لیکن یہی روش مذہبی لوگ جب خدا کے بارے میں سوال کے جواب میں اختیار کرتے ہیں تو اسے غیر سائنسی رویہ قرار دیا جاتاہے۔
ملحدین دراصل اس ایک بنیادی نکتے کو سمجھنے سے گریزاں ہیں یا یوں کہیے کہ یہ بات ان کےلیےقابل فہم نہیں کہ مذھب نے خُدا کےوجود کےلیے ثبوت نہیں بلکہ دلائل پیش کیے ہیں. اور یہ دلائل فطرت و وجدان کی انمٹ گواہی سے لےکر آفاق میں پھیلے بےمثل نظم کی صورت پُکار پُکار کر خدائے بُزرگ و برتر کی عظمت و بڑائی کو مبرہن کررہےہیں.یہ ذہن دراصل فزیکل سائنسز سے متاثر ہونےکےسبب بنا ہے کہ انہیں وجود باری کےاثبات کےلیے بھی Empirical evidence درکار ھے.ایمپیریکل ایویڈینس کیا ہے ؟ یعنی کسی چیز کو تسلیم کرنے کےلیے ٹھوس حسی ثبوت کا ہونا, جبکہ خدائے بزرگ و برتر کی ذات کی دلیل صرف اور صرف استنباط inference ہے,
استنباط یعنی ظاہر کو دیکھ کر مخفی تک پہنچنا، معلوم باتوں کی بنیاد پر نامعلوم دنیا تک رسائی حاصل کرنا، نیوٹن نے درخت سے سیب گرنےکے واقعے سے ” استنباط ” یعنی infer کیا کہ ، یہاں کوئی کشش ثقل جیسی قوت موجود ہے جو چیزوں کو اپنی جانب کھینچتی ہے،حالانکہ کشش ثقل ایسی چیز نہیں کہ جِسے برہنہ آنکھ سے دیکھا جاسکے، لیکن اِس کے اثرات اس قدر نمایاں اور حقیقی ہیں کہ اِس ان دیکھی قوت کو بھی بن دیکھے (ایمان باالغیب کی مانند) تسلیم کیا جاتا ہے،آج کی سائنس محسوسات کے قفس سے بہت آگے نکل چکی ہے۔اب سائنس بھی انرجی ، اضافت، اور ویو میکانکس (Wave Mechanicss) جیسے بے شمار ناقابل مشاہدہ امور کو تسلیم کرکے اسی ایمان بالغیب (بن دیکھے ماننے)کے قفس میں ہے،سائنسی حلقوں میں آج جتنے بھی نظریات قائم کیے گئے ہیں وہ سب اسی طرح بالواسطہ استنباط پرمبنی ہیں۔خدا کے عقیدے پر استدلال کی نوعیت بھی یہی ہے، اگر آفاق و انفس کی نشانیاں خدا کے عقیدے کی تائید کررہی ہیں اور ان مشاہدات سے جائز طور پر خدا کے وجود کا استنباط ہورہا ہو تو یہ عین جدید سائنسی منطق کے مطابق درست اور قابل تسلیم قرار پائے گا۔مذہبی نقطہ نظر سے سمجھنے کی اھم بات یہ ھے کہ اس دنیا میں خُدا نے جو امتحان برپا کیا ھے وہ بِن دیکھے محض دلیل کی بنیاد پر ایمان لانے کا ھے ناکہ کسی حسی ثبوت کی بنیاد پر یقین کرنا,
زرا سوچئیے!خداکو اپنے ہونےکا اگر ثبوت ہی پیش کرنا ہے تو اس تکلُّف کی بھی کیا ضرورت وہ چاہے تو ثبوت پیش کیےبغیر برہنہ آنکھ سے ہی دکھائی دینے کا انتظام فرمادے.لیکن اس صورت میں امتحان کیسا اور آزمائش کس کی؟(سید اسرار احمد)
شبہ کا عنصر (element of doubt):
خالق نے مخلوق کے لیے ہرمعاملے میں شبہ کا ایک عنصر باقی رکھا ہے اور عنصر کے باقی رکھنے کا مقصد آزمائش اور اختیار ہے۔ اگر شبہ ختم ہوجائے تو انسان کی آزمائش اور اختیار ختم ہوجائے، اور انسان جب تک اس دنیا میں ہے، آزمائش اور اختیار میں رہنا اس کا مقدر ہے۔ انسان کی آزمائش اور امتحانی اختیار اسی صورت ختم ہوگا جبکہ اس دنیا کا خاتمہ ہوجائے ۔ شبہ کا یہ عنصر اس قدر عام ہے کہ خود خالق نے اپنے بارے میں بھی اس کو برقرار رکھا ہے کہ اسی میں انسان کا امتحان اور اختیار ہے۔ پس کسی انسان کو اللہ، رسول ، کتاب اور آخرت کے بارے میں کوئی شبہ اور وسوسہ لاحق ہوسکتاہے۔ انسان کے اختیار کا امتحان اس میں ہے کہ وہ اس شبہے کے عنصر کو رد کرکے دنیا کی آزمائش میں کیسے کامیاب ہوتاہے؟ جو اس شبے کے امتحان میں کامیاب ہوجائے تو وہ مومن کہلاتاہے اور جو ناکام ہوجائے تو ملحد بن جاتاہے۔
اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ اللہ عزوجل نے مجھ سے یہ کہا کہ اے نبیﷺ آپ کی امت میں سے ہمیشہ لوگ یہ کہتے رہیں گے کہ اسے تو اللہ نے پیدا کیا اور اللہ کو کس نے پیدا کیا؟( صحیح مسلم،کتاب الایمان، باب بیان الوسوسۃ فی الایمان وما یقولہ من وجدھا، 1/121) ایک اور روایت کے الفاظ ہیں کہ حضرت ابوہریرہ ؓ سے اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا کہ اے ابوہریرہ ! تم سے لوگ ہمیشہ یہ سوال کرتے ہیں رہیں گے کہ فلاں کو اللہ نے پیدا کیا اور اللہ کو کس نے پیدا کیا؟( ایضاً)
اور شبہے یا وسوسے کا پیدا ہونا ایمان کے لیے مضر نہیں ہے بلکہ یہ تو عین ایمان ہے اور صحابہ بھی اس سے بری نہیں تھے۔ کچھ صحابہ ؓ اللہ کے رسولﷺ کے پاس آئے اور انہوں نے کہا : اے نبیﷺ ! ہمیں ایسے ایسے خیالات آتے ہیں کہ ہم انہیں زبان پر لانا بھی مناسب نہیں سمجھتے۔ آپؐ نے پوچھا:”کیا واقعتاً ایسا ہے؟” تو انہوں نے کہا: جی ہاں، آپؐ نے فرمایا: ” یہ تو صریح ایمان ہے”( سنن ابی داؤد ، ابواب النوم، باب رد الوسوسۃ، المکتبۃ العصریۃ، صیدا۔ بیروت، 4/329)۔ اور ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے اس تابعی کے سوال پر ہنستے ہوئے کہا کہ اس وسوسے سے تو کوئی بھی بچ نہیں پایا ہے۔( ایضاً)
بعض ملحدین یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ حق ان کے لیے ایسے واضح ہوجائے کہ اس میں سے شبہے کا عنصر ختم ہو جائے۔ تو یہ اس دنیا میں ممکن نہیں ہے، البتہ آخرت میں ممکن ہے، بلکہ آخرت میں ایسا ہی ہوگا۔ فرشتوں کے لیے شبے کا عنصر نہیں ہے، لہٰذا ان کے لیے امتحان اور اختیار بھی نہیں ہے۔ اگر انسانوں کے لیے بھی شبہے کا عنصر ختم ہوجائے ان کا امتحان اور اختیار دونوں ختم ہوجائے۔ اگر انسان اللہ کو اس طرح سامنے دیکھ لے جیسا کہ آخرت میں دیکھے گا یا جنت وجہنم کا اس دنیا میں اس طرح نظارا کرلے جیسا کہ آخرت میں کرے گا تو اب اس سے ایمان کے مطالبے میں کیا امتحان باقی رہ جائے گا؟قرآن مجید نے جا بجا یہ واضح کیا ہے کہ کافر جہنم کو دیکھیں گے تو اپنے ایمان کا اظہار کریں گے لیکن ان کا وہ ایمان مقبول نہ ہوگا، کیونکہ ایمان وہی قابل قبول ہے جو کہ شبہے کے عنصر کے ساتھ ہوکہ یہی ایمان، امتحان کہلانے کے لائق ہے۔ (صحیح البخاری، کتاب الایمان، باب من کرہ یعود فی الکفر کمایکرہ ان یلقی فی الناردارطوق النجاۃ،الاول 1422ھ ، 1/13)
اسی طرح سورۃ الانعام میں ہے کہ مشرکین مکہ باربار آپﷺ سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ آپ ہمیں فلاں معجزہ دکھا دیں تو ہم ایمان لے آئیں گے۔ مشرکین کا یہ مطالبہ اصرار کے ساتھ کئی سال جاری رہا لیکن اللہ عزوجل نے ہربار اپنے نبیﷺ سے یہی کہا کہ اللہ نے انہیں وہ معجزہ نہیں دکھانا کہ جس کا یہ مطالبہ کررہے ہیں۔انہیں معجزہ چاہیے تو وہ یہی کلام، قرآن مجید ہے۔ مشرکین نے آپ ﷺ سے مطالبہ کیا کہ ہمارے سامنے آپ پر فرشتہ نازل ہوتو ہم ایمان لے آئیں گے تو اللہ تعالیٰ نے جواب دیا کہ فرشتہ جب نازل ہوگا تو وہ عذاب لے کر ہی آئے گا۔۔ یعنی میں فرشتہ تو تمہیں دکھا دوں گا لیکن اس کے بعد تمہارے ایمان کا فائدہ؟
ایک اور جگہ قرآن مجید میں کہا کہ یہ ملحد اس کے انتظار میں ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں یا ان کا رب ان کے پاس آئے یا ان کے رب کی نشانیاں ان کے پاس آئیں، لیکن کافر یہ جان لیں کہ جس دن ان کے رب کی بعض نشانیاں ان کے سامنے آجائیں گی تو اس دن انہیں ان کے ایمان لانے کا کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ ایک اور جگہ قرآن مجید میں کہا کہ اگر اللہ چاہے تو ان کافروں کے لیے آسمان سے ایسی نشانی نازل کردے کہ ان کی گردنیں اس کے سامنے جھک جائیں لیکن اللہ ایسا نہیں کرتا، کیونکہ اس صورت میں انسان کا اختیار اور امتحان دونوں ختم ہوجاتے ہیں۔
قوموں نے رسولوں کی زندگی میں ان کا انکار کیا اور آج کل ملحدوں نے تو رسولوں کو دیکھا بھی نہیں، لہٰذا مومنوں کو اس پر حسرت نہیں کرنی چاہیے کہ ہمارے پاس کوئی ایسی نشانی کیوں نہیں ہے کہ جس کے سامنے ایک ملحد بے بس ہوجائے۔اور جو کچھ دین اسلام کی تعلیمات موجود ہیں اور ان میں کچھ شبہ وغیرہ کبھی محسوس ہوتو اس گھبرانا نہیں چاہیے کہ یہی تو عین امتحان ہے۔
شیخ بن باز ؒ کے پاس ایک دہریہ آیا اور ان سے کافی دیر تک خدا کے وجود کے بارے میں سوالات کرتارہا اور شیخ اس کے سوالات کے جوابات دیتے رہے، یہاں تک کہ اس نے تنگ آ کر کہا : کیا آپ کو کبھی خدا کے وجود کے بارے میں شک نہیں ہوا؟ شیخ نے کہا: نہیں، اور یہ تمہاری بدبختی ہے کہ تمہیں خدا کے وجود کے بارے میں شک پیدا ہوا ہے۔ اسی لیے تو قرآن مجید نے مشرکین کے انکار پر حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تمہیں اللہ کے بارے میں شک ہوگیاہے؟ اَفِى اللّـٰهِ شَكٌّ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ(سورہ ابراھیم آیت 10) شیخ کے اس جواب میں کوئی بناوٹ یا مصنوعیت نہیں تھی۔ آپ آج بھی پاکستان کے کسی بھی گاؤں کی مسجد میں پنچ وقتہ نمازی اَن پڑھ بوڑھے بابا جی سے سوال کرلیں کہ انہیں اپنی زندگی میں کبھی خدا کے نہ ہونے کے بارے میں سوال پیدا ہوا تو جواب نفی میں ہوگا۔ دنیا میں لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں لوگ جنہیں زندگی بھر میں نہ تو کبھی شک ہوا اور نہ ہی کوئی سوال پیدا ہوا۔ یہ کیا ہے؟ یہ ایمان کا تجربہ ہے جو ہر ” مخلص” بندہءمومن کو حاصل ہوتاہے جبکہ “مداری” اس سے محروم رہتاہے۔
علاوہ ازیں خالق کے وجود پر اس کی مخلوق ہی دلالت کرنے کے لیے کافی ہے، جیسا کہ فن پارے کا وجود فنکار artist، عالیشان عمارت کاوجود اپنے معمار اور جیٹ انجن کا وجود اپنے انجینئر کے حسن تخلیق کی دلیل ہے۔ قرآن مجید میں جابجا یہ ارشادات ملتے ہیں کہ اللہ نے انسان کے وجود اور زمین وآسمان میں ایسی واضح نشانیاں رکھ چھوڑی ہیں جو خالق پر اشارہ کررہی ہیں۔ عرب کے بدو جسے سمجھتے تھے، اسے فلسفی اور سائنسدان سمجھنے سے قاصر رہے۔ عرب کے بدوؤں میں یہ معروف تھا کہ جس طرح اونٹ کی مینگنی اونٹ کے راستے سے گزرنے اور قدموں کے نشانات انسان کے گزرنے پر دلالت کرتے ہیں، اسی طرح یہ وسیع وعریض آسمان اور زمین اپنے خالق پر کیسے دلالت نہیں کرے گی؟
اہلِ مغرب نے اپنے ہر علم، خواہ وہ سائنسی ہو سماجی ،تاریخی ہویا لسانی، کو نظریہ ارتقاء کی روشنی میں مرتب کرکے دکھادیاہے۔ اور اہلِ مشرق کا یہ فریضہ ہے کہ وہ ہر علم کو، چاہے وہ تاریخ ہو یا سائنس،نظریہ تخلیق کی روشنی میں مرتب کر کے دکھا دیں۔ اور جب تک ہمارے محققین فلسفہ،سائیکالوجی،بیالوجی،نظریاتی فزکس،عمرانیات،لسانیات اور تاریخ کے مضامین میں نظریہ تخلیق کی روشنی میں بحث وتحقیق کی بنیاد نہیں رکھ دیتے، اس وقت تک دنیاوی علوم سے مذہب کامقدمہ ثابت کرنا ممکن نہیں ہے۔
تحریر ڈاکٹر زبیر