تخریب کارجہادیوں کی فقہ
۔ جیسا کہ ہم گزشتہ کچھ تحاریر میں تفصیل پیش کرچکے ہیں کہ جو بھی ان مسلم تشدد پسند تکفیری
مسلمان اہلِ علم کااس بات پر اصولاََ اتفاق ہےکہ غیر مقاتلین کو جنگ میں نشانہ نہیں بنایاجائےگا۔اس بات پر بھی
عموما جنگ میں براہ راست حصہ لینے والوں کو مقاتلین شمار کیا جاتا ہے ، یہاں یہ سوال پیدا ہوتاہے
شریعت نے مباشراورمتسبب کے حکم میں فرق کیاہے اور یہ کہ شریعت کے قواعد کی رو سے فعل مباشر ہی
اسلامی شریعت كی رو سے امر بالمعروف اور نہی عن المنكر انفرادی طور پر ہر مسلمان كا بھی فریضہ ہے
شرعاً یہ جائز نہیں ہے کہ کوئی غیرمسلم مسلمانوں کا حاکم ہو۔ اس کی قانونی وجوہات بالکل واضح ہیں۔ اسلامی
پاکستان دارالسلام ہے! پاکستان میں شامل علاقے یقیناًدارالاسلام کی تعریف پر پورا اترتے ہیں ۔یہاں کی آبادی کی غالب اکثریت
کچھ عرصہ پہلے بعض عسکریت پسند گروہوں کی طرف سے اس مضمون کے بیانات اخبارات میں شائع ہوئے کہ حکومت
کچھ عرصہ پہلے ایک فیس بک مفکر قاری حنیف ڈار صاحب نے اپنی ایک پوسٹ میں یہ دعوی کیا کہ
تکفیری سوچ سے مزاحمت کیسے کی جائے ؟کچھ عرصہ پہلے ایک عالم مولانا طلحہ السیف( جوپاکستان کی ایک مستند و
عصر حاضر میں اس موضوع پر کام کرنے والے اہل علم (الا ما شاء اللہ) بالعموم دو گروہوں میں تقسیم
اگر حالت ِجنگ میں خود کش حملوں میں تین شرائط پوری کی جائیں تو ان کو بین الاقوامی قانون کی
جاوید احمد غامدی صاحب کے نزدیک جہاد کا اعلان ہر حال میں صرف ایک مسلم حکومت ہی کر سکتی ہے،
جہاد ایک اجتماعی عمل ہے نہ کہ انفرادی فریضہ۔ یہ ’فرد‘ پر واجب ضرور ہے مگر ایک ’اجتماعی صورت‘ میں
یہ بہرحال انصاف نہیں کہ یہاں کے سرکاری کارندوں کو مسلم مفاد اور مسلم خون کی حرمت سے متعلق خبردار
آج کا موضوع ہمارے لیے ایک تقدیری اہمیت کا حامل ہے۔ یعنی اس موضوع کے جو گوشے اور جو پہلو
٭مفہومات کی جنگ war of concepts: تسمیات labels کا معاملہ سیاسی پہلوؤں سے حد درجہ حساس ہے۔ بڑے بڑے دوررس