ادریس اسمٰعیل
مغربی تہذیب پوری دنیا پر اپنا تسلط قائم رکھنے کی جدوجہد میں مصروف عمل ہے چنانچہ اس تہذیب سے واقفیت ہمارے لیے غلبہ اسلام کی جدوجہد میں بالکل بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ مغربی تہذیب سے واقفیت کے ضمن میں بنیادی چیز جو ہمارے پیش نظر رہنی چاہئے وہ یہ کہ جو نظام عملی طور پر مغرب میں غالب ہے وہ سرمایہ دارانہ نظام ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام اپنی منہج میں ایک فکر اور نظریہ ہے جس کی بنیاد پر ایک سرمایہ دارانہ شخصیت کا قیام اور اس کا فروغ بھی ہوتا ہے اور اسی کے ساتھ ساتھ یہ تہذیب اس نظام کو قائم و دائم رکھنے کے لیے سیاسی صف بندی بھی فراہم کرتا ہے۔ ان مختلف سطحوں پر قوت کو مرتکز کرنے کے لیے سرمایہ درانہ نظام اداروں کا ایک ہمہ گیر ڈھانچہ کھڑا کرتا ہے جو اس نظام کو شخصی’ معاشرتی اور ریاستی سطح پر قوت فراہم کرتا ہے۔ لہٰذا اس نظام کو کہ جس کا بنیادی کلمہ ”لا الہ الا الانسان” ہے تباہ کرنے کے لئے اس نظام کی’ اس فکر اور اس کے اداروں کی اور اس کی پشتی بانی کرنے والی ریاست امریکہ کے بارے میں بھرپور تفہیم کی ضرورت ہے۔
سرمایہ درانہ نظام کے بارے میں سب سے پہلی بات یہ سمجھنی چاہئے کہ یہ نظام جس طرح کی فکر و شخصیت’ معاشرہ اور ادارے کی تشکیل کرتے ہیں وہ فطری نہیں بلکہ حادثاتی ہیں۔ یعنی تاریخ کے ایک خاص دور میں لوگوں نے الہامی تہذیب کو رد کرکے انسان کو خدا بنانے کا project اختیار کیا۔ دنیا پرستی اور انسان پرستی کی فکر تحریک تنویر کی بنیاد بنی جس نے مذہب کو (خواہ اس کی حیثیت کتنی ہی کمزور کیوں نہ تھی) اپنے انفرادی’ معاشرتی اور ریاستی دائروں سے باہر کر دیا اور زندگی کے تمام فیصلوں اور تمام شعبوں کی بنیاد تکاثر پر رکھی۔
چونکہ سرمایہ دارانہ نظام فطری نہیں بلکہ حادثاتی ہے اس لئے اس نظام کو قائم و دائم رکھنے کے لئے ایک زبردست ریاستی جبر کی ضرورت ہوتی ہے۔ اٹھارویں، انیسویں اور بیسویں صدی کے وسط تک یہ ریاستی جبر یورپی استعمار کی شکل میں متحرک نظر آتا ہے۔ اگر ہم برصغیر کے تناظر میں انگریزی استعمار کا مختصراً جائزہ لیں تو ہمیں وہ دور مسلمانوں کی شکست کا نظر آتا ہے۔ مجاہدین اور علماء کی بڑی تعداد میں شہادت کے باوجود بھی ہم اس استعمار کو تہذیبی شکست نہ دے سکے۔ مسلمانوں نے کافروں سے نفرت کا بھرپور اظہار تو کیا لیکن ہم نے انگریزی استعمار کو تاتاریوں کے غلبے کی طرح دیکھا۔ چونکہ ہندوستان ایک بڑا اور الگ تھلگ Isolated ملک تھا اور یہاں کے رہنے والوں کو کبھی مغربی تہذیب سے واسطہ نہیں پڑا تھا اس لئے انگریزی استعمار کے غلبے کو ہم نے محض ایک عسکری غلبے کے طور پر دیکھا اور اس کے علوم اور تہذیبی پہلو سے صرف نظر کیا چنانچہ مغربی استعمار سے جہاد کے باوجود مغربی علوم اور افکار کی ہیبت ان کی حقانیت اور مرعوبیت دل میں بیٹھ گئی۔ مغربی علوم و فکر سے ناواقفیت کی وجہ سے ہم اسلام اور کفر میں فرق کو واضح نہ کرسکے نتیجتاً ١٨٥٧ء کے جہاد سے ١٩٢٠ میں شیخ الہند حضرت محمود الحسن اسیر مالٹا کی وفات تک ایک طویل جدوجہد تھی کہ جس کی قیادت علمائ’ مجاہدین اور تحریکی لوگوں کے ہاتھوں میں رہی لیکن ١٩٢٠ کے بعد قیادت سیکولر لوگوں کے ہاتھوں میں چلی گئی۔ جدوجہد کا رنگ جمہوری ہو گیا۔ مغربی علوم’ افکار اور اداروں کو مسلمان فطری سمجھنے لگے اور غلبہ دین کی بجائے الگ الگ قوم اور ملک کی جدوجہد شروع ہو گئی۔
١٩٨٠ کی دہائی میں جہاد افغانستان نے مسلمانوں کے اندر غلبہ اسلام کو ایک ممکن حصول جدوجہد بنادیا چنانچہ آج سرمایہ دارانہ نظام کی پشتی بانی کا کام جو استعمار کر رہا ہے اس کو اچھی طرح سمجھ کر اور پھر حکمت عملی تیار کرکے ہی ہم ان خطرات سے بچ سکتے ہیں جن کا شکار ہم انگریزی استعمار کے وقت ہوئے تھے۔
آج کا استعمار پہلے کے مقابلے میں کمزور ہے:
آج کا استعمار پچھلی صدی کے استعمار کے مقابلے میں بہت سی کمزوریاں رکھتا ہے جس کا سمجھنا بہت ضروری ہے۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ آج خود مغرب میں اس کے بنیادی نظریات و افکار پر سے ایمان متزلزل ہورہا ہے۔ آج خود مغرب اپنے نظریات کی عقلی دلیل دینے سے قاصر ہے۔ پس جدیدیت (Post Modernity) اس کی واضح مثال ہے جو ان افکار اور نظریات کو اختیار کرنے کی وجہ ان نظریات کا مغربی تاریخ اور روایات کا حصہ ہونا قرار دیتا ہے۔ ظاہر ہے کہ مغرب کی یہ پوزیشن انگریزی استعمار کے دور کے مقابلے میں بہت کمزور ہے کہ جس وقت مغرب کو اپنے علوم اور نظریات کے آفاقی ہونے کا یقین تھا اور اس کے لیے ان کے پاس عقلی دلائل کی بہتات تھی۔
دوسری بنیادی بات یہ ہے کہ عملی طور پر سرمایہ دارانہ نظام عالمی(Global) ہو گیا ہے۔ پچھلی صدی میں سرمایہ قومی ریاستوں میں مرتکز ہوتا تھا یعنی جاپانی سرمایہ’ انگریزی سرمایہ’ فرنچ سرمایہ وغیرہ اس لئے سرمائے کی بڑھوتری کے لئے قومی ریاستوں کا نظام چلتا رہا۔ لیکن اب سرمایہ عالمی ہو گیا ہے اور عالمگیریت (Globalization) کا مطلب بھی یہی ہے کہ سرمایہ Global ہو گیا ہے اب وہ ریاستوں کے کنٹرول میں نہیں رہا بلکہ اب سرمایہ مرتکز ہوتا ہے بین الاقوامی کارپوریشن اور مالیاتی اداروں (Multi National Corporations and Financial Institutions) وغیرہ میں چونکہ سرمایہ Global ہو گیا ہے اس لئے اس نظام کو Global سطح پر جاری اور نافذ رکھنے کے لئے ایک عالمی ریاست) (Global State کی ضرورت ہے۔ لیکن سرمایہ دارانہ نظام کی ایک بڑی کمزوری یہ ہے کہ اس کا سیاسی نظام جمہوری ہے اور جمہوریت کے نتیجے میں کوئی Global State قائم کرنے سے مغرب قاصر ہے۔ چنانچہ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے جو ریاست وجود میں آئی وہ امریکہ ہے۔
سرمایہ درانہ نظام کے بارے میں تیسری بنیادی بات اس کی عدم مساوات کی خصوصیت ہے۔ اصولاً سرمایہ داری مساوات کا دعویٰ کرتی ہے لیکن عملاً چونکہ مارکیٹ کی سطح پر سرمایہ مختلف مقدار میں ہوتا ہے اس لئے معاہدات (Contract) برابری کی سطح پر نہیں ہوتے۔ سرمایہ مسلسل ارتکاز کے عمل سے گزرتا رہتا ہے اس لئے مارکیٹ میں عدم مساوات میں مستقل اضافہ ہوتا رہتا ہے مارکیٹ کے اس رحجان (Frustration) کو پورا کرنے کی اور عدم مساوات کو جواز فراہم کرنے کے لئے ریاست کی سطح پر جمہوریت ایک کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ ریاستی سطح پر جمہوری نظام اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ مارکیٹ کی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام آپ کے ساتھ جو ناانصافی کرتا ہے اس کی تلافی ریاست کی سطح پر آپ کا ووٹ کرتا ہے۔ ریاست کی سطح پر آپ کا ووٹ بش’ پرویز یا بل گیٹس کے برابر ہے اور ریاستی سطح پر تمام لوگ برابر ہیں۔ اسی کا نام ہیتی مساوات (Formal equaily) ہے اس لئے ہئیتی مساوات کو وسعت اور فروغ دینا سرمایہ دارانہ نظام کی بقا کے لئے ناگزیر ضرورت رہتی ہے۔
سرمایہ دارانہ ریاست اپنی توسیع کے لئے دو طریقے اختیار کرتی ہے پہلا اور بنیادی طریقہ جبر و استبداد کا ہے اور دوسرا برضاء و رغبت کاہے۔ جہاں تک قوت و جبر کا تعلق ہے امریکی ریاست کا وجود ہی ڈیڑھ کروڑ سرخ ھندی (Red Indian) کے دو صدیوں کے منظم نسل کشی پر قائم ہوا۔ ان کی زمینیں چھینی گئیں ان میں مختلف اقسام کی بیماریاں پھیلائی گئیں، یہی رویہ امریکی ریاست اسرائیل کا ہے جو وہ فلسطین کے ساتھ کر رہا ہے یہی تاریخ سرخ ھندیوں کے بعد سے آج تک جاری ہے۔ کیوبا’ کوریا’ میکسیکو’ ویتنام’ چین’ سوڈان’ لبنان’ بوسنیا’ افغانستان عراق غرض ایک طویل سلسلہ ہے جو صرف سرمایہ دارانہ نظام کی مکمل بربادی پر ہی رک سکتا ہے۔
ریاستی جبر کا خاص تعلق سرمایہ دارانہ نظام جہاں قائم ہوگا وہاں افراد’ معاشرہ’ ادارے اور ریاست میں سفاکی’ ظلم’ بربریت ایک لازمی صفت کے طور پر کام کرے گی اس کی شکل ریاست کے اند اور ریاست کے باہر مختلف ہوگی۔
سرمایہ دارانہ ریاست کی بنیادی اقدار حقوق انسانی’ رواداری اور برداشت کا نظریہ، جمہوریت، Freedom (آزادی) کو اگر کوئی معاشرہ یا ریاست برضا و رغبت اختیار کرلیتی ہے اور اس ریاست میں ضمیر کی آزادی کا حق اور سرمایہ درانہ ملکیت کا حق عوام کو دیا جاتا ہے’ نتیجتاً ایک دستوری ریاست وجود میں آجاتی ہے اور زندگی سرمایہ دارانہ خطوط پر مرتب ہوجاتی ہے تو پھر اس ریاست کو دوستی کا درجہ دیا جاسکتا ہے اور اگر یہ اقدار برضا و رغبت قبول نہ کئے جائیں تو پھر جبر و قوت کا استعمال ناگزیر ہوجاتا ہے خواہ وہ ریاست افغانستان و عراق ہو یا شمالی کوریا۔
مغرب کے حوالے سے مغالطہ آمیز گفتگو
اس لئے امریکی جبر و قوت کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمیں سب سے پہلے اس قوت کے پیچھے کار فرما نظریات اور ان اصطلاحات کو سمجھنا ہوگا جنہیں مغرب نافذ کرنا چاہتا ہے آج بھی ہمارے مفکرین کا اعتراض مغرب پر یہ ہوتا ہے کہ امریکہ حقوق انسانی اور آزادی کی بات کرتا ہے بہت اچھی بات ہے لیکن خود اس پر عمل نہیں کرتا۔ اس اعتراض کو کرنے سے پہلے ہمیں اپنے دینی اصطلاحات نماز′ تقویٰ’ صبر’ نیکی ‘ گناہ وغیرہ کو دیکھنا ہوگا جس طرح اسلامی اصطلاحات کی کسی قادیانی یا پرویزی تفسیر کو ہم نہیں مان سکتے خواہ وہ کتنی ہی نیک نیتی سے کی گئی ہو بالکل اسی طرح مغربی اصطلاحات کی اسلامی تفسیر سوائے اپنے آپ کو خوش فہمی میں مبتلا کرنے کے اور کوئی حیثیت نہیں رکھی چنانچہ مغربی اصلاحات کو مغرب ہی کی تفسیر کے مطابق سمجھنا اور اس کا اسلامی محاکمہ کرنے کی ضرورت ہے۔
اس سلسلے میں اگر ہم رواداری کو لیں تو رواداری کے معنی یہ ہیں کہ Public سطح پر یعنی معاشرتی اور ریاستی سطح پر تو سرمایہ درانہ نظام ہی چلے گا ہاں (Private) ذاتی سطح پر آپ کی جو مرضی آئے آپ چاہ سکتے ہیں۔ ذاتی سطح پر آپ اسلام چاہیں یا عیسائیت’ نماز پڑھیں یا شراب پئیں۔ زنا کریں یا اس سے نفرت کریں آپ کو کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا ہے ہاں معاشرتی یا ریاستی سطح پر قوت یا قانون کے ذریعہ اس کا اظہار کرنے کی قطعاً گنجائش نہیں ہے ریاستی اور معاشرتی سطح پر قدر بڑھوتری برائے بڑھوتری ہی ہوگی یہی Toleration یا رواداری ہے۔
امریکی دستور اور حقوق انسانی کا منشور کتاب اللہ کارد ہے
امریکا کی خاص حیثیت سرمایہ دارانہ نظام میں یہی ہے کہ امریکا وہ پہلی اور واحد ریاست ہے جس کے قیام کا مقصد حقوق انسانی اور رواداری کو قائم کرنا ہے اس کے علاوہ امریکی قومیت کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ امریکہ کا اعلان آزادی Decleration of Independace جو 1776 میں ہوا’ Fedralist Papers (وہ بنیادی مسودہ جس کی بنیاد پر امریکی دستور بنا) اور امریکی دستور تینوں اسی فلسفے کی غماز ہیں۔ امریکی ریاست سرمائے کے لئے تعمیر شدہ دستوری ریاست ہے اور اس کے بعد جتنے بھی دساتیر بنے وہ سب امریکی دستور ہی کی تفسیر و تعبیر ہیں خود UNO کا Decleration Of Human rights (چارٹر آف انسانی حقوق) امریکی صدر روز ویلٹ کی بیوی نے لکھا ہے جو امریکی دستور ہی سے ماخوذ ہے۔ اسی دستور نے امریکا میں انجیل کی جگہ لی اور اسی دستور نے اسلامی دنیا میں قرآن کو بے دخل کیا۔ جس طرح مغرب نے کتاب اﷲ کو رد کرکے کوئی اور کتاب اﷲ نہیں رکھی بلکہ دستور کو بنیاد بنایا۔ بالکل اسی طرح مسلمان بھی دستور کی حیثیت کو تبدیل نہیں کرسکتے خواہ وہ کتنا ہی اسلامی دستور بنالیں۔
اس لئے امریکی ریاست کی ابتداء دستور بننے کے بعد کی ہے اس سے قبل کی تاریخ کو وہ رد کرتے ہیں بالکل اسی طرح جس طرح نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی بعثت اور ہجرت کو ہم اپنی تاریخ شمار کرتے ہیں۔
دستوری ریاست کو جاننے کے بعد امریکی ریاست کی دو متضاد حیثیتیوں کو جاننا بھی ضروری ہے پہلی حیثیت سرمائے کی عالمی ریاست کی ہے اور دوسری حیثیت قومی جمہوری ریاست کی ہے۔
امریکا: عالمی سرمایہ داری کا محافظ
امریکا کی عالمی سرمایہ درانہ نظام کے محافظ کی حیثیت سے کچھ خصوصی فرائض ہیں جن کا تعلق سرمائے کے عالمی مفاد سے متعلق ہے لیکن ان فرائض کو ادا کرنے کے لئے امریکی ریاست کو امریکی عوام سے مسلسل صاد لینی پڑتی ہے۔ عوام الناس کا محرک اغراض ہوتی ہے اس لئے ریاست کو سرمائے کے عالمی مفاد کا خیال اس طریقہ سے رکھنا پڑتا ہے کہ جس سے امریکی عوام کے مفادات متاثر نہ ہو۔ امریکی عوام اور ریاست کے درمیان مختلف اختلافات کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہئے مثلاًافغانستان اور عراق کی جنگ کو عالمی سرمائے کے تحفظ کے لئے ناگزیر سمجھا گیا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ قومی نقصانات کے پیش نظر عوامی حلقوں میں جنگ کی مخالفت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ یہ رویہ بھی امریکا کی محدودیت پر دلیل ہے کہ چونکہ عملاً Global State کی حیثیت میں بڑا تضاد ہے اس لئے آج یہ فیصلہ کرنا کہ سرمایہ داری کے فروغ اور اس کے تحفظ کے لئے کون سا قدم زیادہ بہتر ہے امریکہ کے لئے بہت مشکل ہے سرمایہ دارانہ ممالک کے درمیان پالیسیوں کا اختلاف بھی اسی تناظر میں دیکھنا چاہئے۔
سرمایہ دار ریاستوں کی اہم کمزوری
سرمایہ دارانہ ریاست کی ایک اہم کمزوری اس کے نظریے کے لئے قربانی دینے کی صلاحیت ہے اسی کے دو اجزاء ہیں پہلا جز خود مغرب کی عددی قوت ہے جو کہ وقت کے ساتھ ساتھ اپنے نظریات (انسان پرستی’ جمہوریت اور انسانی حقوق پر عمل پیرا ہونے کے نتیجے میں اس معاشرے میں روبہ زوال ہے۔ عورتیں بچے پیدا کرنے اور ان کی پرورش سے انکاری ہیں چنانچہ سرمایہ درانہ ریاستیں عددی طور پر خودکشی کی طرف تیزی سے بڑھ رہی ہیں دوسرا جز دنیا پرستی اور موت کا خوف ہے ان دو وجوہات سے اپنے نظریے کے لئے قربانی دینے کی صلاحیت ان ریاستوں میں تیزی سے کم ہورہی ہے عراق کی شکست اس بات کا بین ثبوت ہے کہ مغرب کوئی ایسی لڑائی لڑنے سے قاصر ہے جو وہ کم مدت اور کم قربانی سے جیت نہ سکے۔چنانچہ اس کمی کو دور کرنے کے لئے روبوٹ ک تیاری’ Space War Program انسانی کلوننگ اور اعضاء کی کلوننگ پر زبردست تحقیق جاری ہے۔ لیکن ان تمام کوششوں کے باوجود جس نوعیت کی الوالعزمی استعماریت کی بالادستی کو قائم رکھنے کے لئے چاہئے وہ امریکہ کے بس کی بات نہیں۔اس کمی کو دور کرنے کی سیاسی کوشش Bureaucratization of high politics یعنی اعلیٰ سیاست کو بیورو کریسی کے حوالے کردینا ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد اقوام متحدہ کے ماتحت ایسے ادارے قائم کئے گئے ہیں جن کی نوعیت Technical Agency کی ہے۔ جو فیصلے ریاستیں سیاسی اجتماع کی بنیاد پر کرتی ہیں فنی ادارے یہ فیصلے سرمایہ دارانہ فنی بنیادوں پر کرتے ہیں اور ان فیصلوں کو ایک عقلانہ فیصلے کے طور پر پوری دنیا کے ممالک میں نافذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں یہ ایک مستقل عمل ہے جو بڑی تیزی سے غیر سرمایہ درانہ ممالک میں بڑھ رہا ہے چنانچہ مغرب کے جمہوری عمل کے غیر سرمایہ دارانہ ممالک میں پھیلائو کی راہ میں ایک رکاوٹ اور عام طور پر جمہوری عمل سے لوگوں کی غیر وابستگی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پہلے جو فیصلے سیاسی جماعتیں پارلیمنٹ کے اندر بحث و مباحثے کرتی تھیں اب وہ تمام فیصلے یہ Technical Agencies کرتی ہیں اور اس بات کی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ جب ترقی یا سرمائے کی بڑھوتری برائے بڑھوتری ہی ریاستی عمل کا مقصد ہے تو یہ مسئلہ کوئی سیاسی نہیں بلکہ فنی مسئلہ ہے اور کسی خاص ملک میں ترقی کیسے ہوگی اسکا جواب Techinical ماہرین دیں گے۔ اس کا جواب World BankIMF
WTO اور دیگر Technical ا دارے دیں گے۔
اس عمل کے نتیجے میں آہستہ آہستہ سیاسی اور مذہبی ایشوز غیر سیاسی اور Technical بنیادوں پر طے کئے جاتے ہیں اور یہ عمل بڑھ کر تمام شعبوں پر حاوی ہوجاتا ہے چنانچہ دفاع′ صحت اور پاپولیشن’ ماحول (Environment) وسائل کا استعمال’ سمندری قوانین’ معدنیات کے قوانین غرض سرمایہ درانہ اداروں اور ان کے قوانین کا ایک سیلاب ہے جو ہر طرح کے قومی اور مذہبی اقدار کو تہس نہس کردیتا ہے اس لئے ان اداروں اور قوانین کو الگ الگ نہیں دیکھنا چاہئے بلکہ ان کی اچھائی اور برائی پر گفتگو کرنے کی بجائے ان کو سرمایہ درانہ نظام کے ایک جز کے طور پر دیکھنا چاہئے کہ یہ قوانین اور ادارے کس طرح سرمایہ درانہ نظام کو مضبوط کرنے کا انتظام کرتی ہے۔
سرمایہ درانہ نظام کو جو عالمی سطح پر تنظیم فراہم کرتی ہے وہ UNO ہے مگر قوانین کے نفاذ کے لئے جو ریاست قوت فراہم کرتی ہے وہ امریکا ہے Iso 9000-9002 International Accountancy Bodiesماحول ، کوالٹی ، تجارت کے معیارات’ غرض یہ تمام معیارات اور قوانین امریکی جبر کے نتیجے میں نافذ ہوتے ہیں اور یہ بھی ایک متضاد صورتحال ہے کہ سرمایہ تمام ریاستوں کو کمزور کرتا ہے لیکن امریکی ریاست کی قوت میں اضافہ اس کی ناگزیر ضرورت ہے۔ چنانچہ اس بات کو اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جب تک امریکی قوت کو بے دخل نہیں کیا جائے گا اور اس کی شان و شوکت کو توڑا نہیں جائے گا سرمایہ دارانہ نظام کو ختم کرنا ممکن نہیں لہٰذا سرمایہ درانہ نظام اور مغربی تہذیب سے مقابلہ دراصل امریکہ سے مقابلہ ہے۔
اس لئے امریکہ سے ہماری دشمنی کسی نسلی تعصب یا امریکی عوام سے نفرت کی بنیاد پر نہیں بلکہ عالمی سرمایہ درانہ نظام کے پشتی بان کی حیثیت سے ہے اور اگر وہ سرمایہ درانہ نظام کی پشت پناہی چھوڑ کر اسلام قبول کرلے تو وہ اسی طرح ہمارے بھائی ہوں گے جس طرح قریش مکہ کی حیثیت اسلام قبول کرلینے کے بعد تھی۔
سرمایہ دارانہ نظام کو تباہ کرنے کی حکمت عملی
جہاں تک سرمایہ دراانہ نظام اور امریکہ سے مقابلہ کی حکمت عملی کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں یہ بات اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ نظام کسی جز کا نام نہیں بلکہ یہ ایک ہمہ گیر تہذیب کی حیثیت رکھتا ہے جس کی علمیت’ اس کے ادارے اور اس کی عسکری قوت ایک اکائی کی حیثیت سے پوری دنیا پر غلبے کے لئے کوشاں ہے چنانچہ ایک لا الہ الا انسان کا عقیدہ رکھنے والی تہذیب سے مصالحت’ مکالمے اور افہام و تفہیم کی حکمت عملی کا سوائے اسلام کو ایک شکست خورہ تہذیب بنانے کے کوئی دوسرا نتیجہ نہیں نکل سکتا۔ ایسے معذرت خواہانہ انداز رکھنے والے مسلم مفکرین دراصل سرمایہ درانہ نظام کے بارے میں غلط فہمیوں کا شکار ہیں ایک توہ وہ مغرب کی عسکری طاقت سے خوفزدہ ہیں اور دوسرا وہ سرمایہ درانہ نظام کو دو حصوں میں تقسیم کرکے دیکھتے ہیں۔
اس نظام کے مطابق ایک حصہ خبیث ہے جس کا تعلق زنا ‘ شراب’ بے حیائی’ جرائم اور ظلم وغیرہ سے ہے جبکہ دوسرا حصہ جو کہ قابل رشک اور قابل تقلید ہے وہ علوم و فنون (سائنس و ٹیکنالوجی وغیرہ) حقوق انسانی’ قانون کی حکمرانی’ دولت کی فراوانی وغیرہ ہے چنانچہ مغربی تہذیب کی علمیت اور اس کے اقدار کو سمجھنا اور جو خباثت اس علمیت اور اقدار پر عمل کرنے کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں اس کو اسی تہذیب کے ایک جز کی حیثیت سے پہچاننا اور اس کے اقدار اور اداروں کو اقداری) (Value looded سمجھ کر اسے بالکلیہ رد کرنا ہی سرمایہ داری سے مقابلہ کرنا ہے۔
آج کے دور میں افغان طالبان اور عرب مجاہدین نے جس عسکری جدوجہد کی بنیاد ڈالی ہے اسی جدوجہد کو معاشرتی’ معاشی’ سیاسی اور علمی بنیادوں پر منظم کرنے کی ضرورت ہے۔
آج جبکہ مغرب خود اپنی آفاقیت کے دعوے سے دستبردار ہوچکا ہے اور اس کے اقدار خود اس کے گڑھ میں متزلل ہورہے ہیں۔ اسلامی علوم اور اقدار کی آفاقیت پر اصرار کرنا ناگزیر ہوچکا ہے چنانچہ مغربی استعمار کو فنا کرکے اسلامی تہذیب کے غلبے کی جدوجہد کو ممکن بنانے کے لئے درج ذیل بنیادی سوالات کا جواب تلاش کرنا ہے۔
(١) علوم کی سطح پر مغربی سرمایہ دارانہ علوم کا امام غزالی کے طریقے کار کے مطابق تہافہ کس طرح ممکن ہے؟
(٢) معاشرتی سطح پر خاندان’ برادرباں اور قبائل’ محلہ اور بازار’ مساجد اور مدارس اور دیگر معاشرتی اداروں کو کن خطوط پر منظم کریں تاکہ یہ ادارے نہ صرف عام مسلمانوں کو دنیا پرستی ترک کرکے آخرت کی طرف راغب کرنے کا کام کریں بلکہ کافر ریاست کے خلاف اسلام کے مضبوط قلعے ثابت ہوں۔
(٣) معاشی طور پر کیا پالیسیاں بنانی چاہیں کہ سرمایہ درانہ نظام کے Globalization کے نتیجے میں جو حلال کاروبار مشکل سے مشکل ہوتا جارہا ہے اس حلال کاروبار کو وسعت دے کر زیادہ سے زیادہ افراد کو اس میں شامل کیا جائے تاکہ ہماری جدوجہد اور ہمارا پیسہ سرمایہ درانہ نظام اور اس کے اداروں میں ضم نہ ہوجائے بلکہ اس نظام کو اس کے اداروں سمیت دیس نکالا دیا جائے۔
(٤) سیاست کو کن خطوط پر منظم کیا جائے تاکہ قوت تھانوں’ بیورو کریسی’ پارلیمنٹ اور فوج سے منتقل ہو کر علماء اور مجاہدین کے ہاتھوں میں آجائے۔
مقالہ کتاب سرمایہ دارانہ نظام -ایک تنقیدی جائزہ از ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری