اجتہاد کی تعریف بلکہ اس کا نام ہی سے واضح ہے کہ یہ ایک بڑا نازک اور اہم کام ہے،
صحابہ کرامؓ چونکہ براہ راست چشمہ نبوت سے فیض یاب تھے اور جناب نبی اکرم ﷺ کے مزاج اور سنت
مسلم ممالک میں شریعت اسلامیہ کے نفاذ اور اسلامی احکام وقوانین کی عمل داری کا مسئلہ جہاں اپنی نوعیت واہمیت
صحیح بخاری میں ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
روایت پسندوں پر ‘اکابر پرستی’ کا طعنہ : گروہ متجدیدین اور انکے پیروکاروں کی ایک عمومی جھانسہ دینے کی نوعیت
. اسلاف سے اختلاف رکھنا کوئ شجر ممنوعہ نہیں: جب کبھی کسی مفکر (سرسید سے لیکر غامدی صاحب اور ان
ماڈرنسٹوں کا ایک اور دفاعی وار ۔۔۔۔۔ ”کیا قرآن و حدیث مقدم ہیں یا اسلاف کا فہم اسلام؟” ماڈرنسٹ حضرات
موجودہ دور میں نظر آنے والے بے شمار پروفیشنل خیراتی اداروں اور این جی اوز کا مارکیٹ (لبرل سرمایہ دارانہ)
‘مسلم ماڈرنسٹ حضرات خود کو اسلامی تاریخ کا حصہ قرار دینے (درحقیقت اپنی مغربی بنیادیں چھپانے) کیلئے ایک کے بعد
ہر دور کے کچھ مخصوص نعرے ہوتے ہیں، جن کا چلن آہستہ آہستہ بڑھتا چلا جاتا ہے، حتیٰ کہ وہ
انسانی فکر زمان و مکان کی حدود میں مقید ہے۔ وہ ماضی، حال اور مستقبل کے تمام حقائق
اسلامی نقطۂ نظرسے قانون کا اصل سرچشمہ اللہ تعالیٰ کی ذاتِ پاک ہے، اس لیے تمام قوانین کا رشتہ بہرحال
٭فقہ :٭ لغت میں لفظ فقہ کو کسی چیز کے جاننے اور سمجھنے کے معنی میں استعمال کیاجاتا تھا، بعد
ہرعلم وفن کی تدوین اور اس کے ارتقاء بتدریج پایہ کمال کو پہونچتا ہے ،فقہ اسلامی پر بھی تدوین کے
آٹھویں قسم :ابواب فقہیہ پر تفصیلی کتب عصر حاضر اختصاص و تخصص کا دور ہے،پورے فن کی بجائے فن کے
فقہ اسلامی زمانہٴ تدوین سے لے کر عصرِ حاضر تک مختلف مراحل سے گزری،اس پر متنوع انقلابات آئے،فقہ اسلامی کے
اسلام کا نظامِ قانون بنیادی طور پر جن پاکیزہ عناصر سے مرکب ہے وہ کتاب اللہ اور سنتِ رسول ہے،
اختلاف کی تعریف : خلاف کی لغوی تعریف ہے ، الاختلاف والمخالفة ، یعنی ایک شخص حال یا قول میں
۔ [سلیم احمد مرحوم مشہور مفکر و شاعر گزرے ہیں، موجودہ تحریری سلسلے کی مناسبت سے انکی ایک تقریر جو
اسلامی قانون یافقہ اسلامی قانون فطرت کے ان ازلی، ابدی اور انقلابی اصولوں کے مجموعہ کا نام ہے جس کے
مستشرقین کا اعتراض: بعض مستشرقین نے یہ لکھا کہ فقہ اسلامی براہِ راست قرآنِ حکیم سے اخذ نہیں کیا گیا
یہ اسلامی قانون کے متعلق ان stereotypes میں سے ہے جو ہمارے “اجتہاد کے علم بردار اردوخوان طبقے “میں پچھلی
آج فقہ اسلامی کا شمار دنیا کے چند قدیم ترین نظام ہائے قوانین میں ہوتا ھے۔ فقہ اسلامی جس دور
مستشرقین کومشرق اور خصوصیت سے اسلام کی کوئی خوبی ایک نظر نہیں بھاتی، اگرہنرکو عیب بنانے میں کامیاب نہ ہوں
مستشرقین کا فقہی کتابوں کے مسائل اور رومی قوانین کے کچھ مسائل میں یکسانیت ثابت کرنا اسی طرح مسائل کی
اسلامی قانون پر کام کرنے والے مستشرقین کے ائمۂ اربعہ : “استشراق” ایک مخصوص پس منظر کے ساتھ ، اور
مستشرقین کی طرف سے اسلامی شریعت پر عام اعتراض یہ رہاہے کہ یہ نظام قانون رومی قانون سے ماخوذ یا
یہ مضمون اس حیثیت سے بہت اہم ہے کہ اس میں خود ایک یورپین محقق نے اس مشہور اعتراض کہ
قانون کا اصل اور حتمی ماخذ کیا ہونا چاہیے؟ ایک بنیادی سوال کا جواب نا گزیر ھے جس سے فقہ
ایک فیس بکی مفکر قاری ڈار صاحب کچھ عرصے سے تواتر کے ساتھ احادیث کے خلاف پروپیگنڈہ کرتے آرہے ہیں.