بہت سے مسلمان طالبعلم حیاتیاتی ارتقا ئی عمل کے مفروضے پر مبنی تشریح یعنی ”تھیوری آف ایوولیوشن“ کے بارے میں مخمصے کا شکار ہیں۔اس نظریہ کے مطابق کرۂ ارض پر بسنے والے تمام نوع کے جاندار دراصل ماضی میں پائے جانے والے کچھ دوسرے جانداروں کی نسل ہیں۔ اور یہ کہ آج ہم جانداروں میں جو رنگا رنگ تنوع دیکھتے ہیں وہ کئی نسلوں پر محیط تبدیلیوں کا نتیجہ ہے۔
اس مضمون کے آغاز ہی میں ہم یہ واضح کردینا چاہتے ہیں کہ ہمارا ارادہ ارتقائی عمل کے سائنسی جوانب پر بحث کرنا نہیں ہے۔ اِس مضمون میں ہم اس سائنسی مسئلے کا اسلامی تعلیمات کے پہلو سے مطالعہ کرنا چاہتے ہیں۔
بطور مسلمان ہمیں صرف یہ سوالات پوچھنے ہوں گے:
کیا حیاتیاتی ایولیوشن کانظریہ، اور اس کے طریقۂ کار کے طور پر نیچرل سلیکشن کا نظریہ ،اسلامی تعلیمات سے میل کھاتا ہے یا اسلامی تعلیمات سے ٹکراتا ہے؟
ایمانی بنیاد پر نہیں، تو کیا خالصتاً ایک سائنسی نظریے کے طور پر ایک مسلمان نظریۂ ارتقاءکو مان سکتا ہے؟ یعنی آدمی یہ اعتقاد رکھے کہ ایسا کوئی ارتقاءہوا ہے تو وہ خدائی تخلیق کی ہی ایک صورت ہوگی؟ بالفاظِ دیگر، خدائی تخلیق ہی ایک ارتقائی عمل کی صورت ظہور میں آگئی ہو، کیا ایک مسلمان کیلئے یہ مفروضہ رکھنا جائز ہے یا ناجائز؟
پھر، انسانی ارتقاءکے نظریے کو بھی کیا ایک مسلمان تسلیم کر سکتا ہے؟ اگر نہیں تو اُن فوسلز کی کیا توجیہ کی جائے گی جن کی دریافت سے بعض لوگوں نے نظریہ قائم کیا ہے کہ یہاں دو پیروں پر چلنے والے، آلات کے استعمال سے واقف، بڑے دماغ والے بن مانسوں کی آثار پائے گئے ہیں؟
ہم دوبارہ واضح کرنا چاہیں گے کہ ارتقاءکا سائنسی پہلو ہمارے مد نظر نہیں۔ ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اس بارے میں اسلام کی تعلیمات کیا ہونگی۔یہ نظریہ سائنسی اعتبار سے سچ ثابت ہوتا بھی ہے یا نہیں؟ ہمارے اِس مضمون کو اِس سے غرض نہیں۔
جب ہم قرآن و حدیث سے رجوع کرتے ہیں تو یہ ایک معلوم امر ہے کہ زمین پر آج تک رہنے والے تمام انسان حضرت آدمؑ اور حوا کی اولاد ہیں آدم ؑ مٹی سے تخلیق کئے گئے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے آدم ؑ کو بغیر والدین کے وسیلے کے پیدا کیا۔
کتاب اللہ واضح طور پر آدم اور حواعلیہما السلام کے بنفس نفیس اور براہِ راست وجود میں آنے کی گواہی دے رہی ہے۔آدم علیہ السلام کی تخلیق اپنی ذات میں ایک معجزہ تھی، ایک ایسی اٹل حقیقت جس کی، بذریعہ سائنسی ذرائع ، نہ تائید کی جا سکتی ہے اور نہ تردید۔ایمان بالغیب آخر اور کس چیز کا نام ہے؟ قرآن میں بیان کردہ معجزات اپنے اثبات کے واسطے بشری ذرائع کے محتاج نہیں؛کہ محدود انسانی عقل اسکا محاصرہ کرنے سے ہے ہی قاصر ہیں۔ نصوص سے البتہ یہی ظاہر ہے کہ آدم علیہ السلام کی تخلیق اپنی ذات میں ایک منفرد ترین واقعہ تھا، اور کائناتی عمل میں ایک یکتا قسم کی چیز۔
یہ بات البتہ ملحوظِ خاطر رہے کہ نباتات و جمادات جس کسی تخلیقی عمل سے گزرے ہوں گے، شرعی نصوص میں اس پر سیر حاصل تفصیل نہیں دی گئی ۔ نہ یہ ذکر ہے کہ آدم وحوا علیہما السلام کو عرصہ دارز پہلے جب کرۂ ارض پر بھیجا گیا تو وہ کس طرح بھیجا گیا تھا؟ اور آیا اُسوقت زمین پر دیگر جانداروں کی آبادکاری تھی یا نہیں؟ ’فانا‘ اُس وقت کس حالت میں تھا اور ’فلورا‘ کس حالت میں؟ وحی کے ذریعہ سے رب العالمین کا مقصود __ اِس حوالہ سے __ صرف اتنا ہے کہ ہم سمعنا و اطعنا کی صورت یہ ایمان رکھیں کہ اس نے تمام مخلوقات کو تخلیق کیا جیسا کہ اسکی شان ہے اور جیسا اس نے چاہا۔
’اللہ ہر چیز کا خالق ہے اور وہی ہر چیز پر نگہبان ہے‘ 39:62
’اور ہم نے پانی سے ہر زندہ چیز پیدا کی‘ 21:30چنانچہ جہاں تک دیگر مخلوقات کا تعلق ہے تو قرآن مجید نہ تو اُن کے حیاتیاتی ارتقاءکا اثبات کرتا ہے اور نہ انکار۔ نہ نیچرل سلیکشن کے نظریہ کا اثبات کرتا ہے اور نہ انکار۔ (نیچرل سلیکشن یعنی دوام صرف ’طاقتور‘ کو حاصل ہوتا ہے اور کمزور کے مقدر میں مغلوب ہو کر مٹ جانا لکھا ہے)۔پس یہ خالصتاً ایک سائنسی سوال رہ جاتا ہے۔ یہاں؛ نظریۂ ارتقاءکو سائنسی بنیادوں پر ہی کھڑا ہو کر دکھانا ہوگا۔ اور اگر اس نظریہ کو کوئی معتمد سائنسی بنیاد میسر نہیں آتی تو یہ بے بنیاد رہے گا۔ مگر اِسکا سب سیاق سائنسی رہے گا۔ وحی اس کو ماننے کی ہدایت کر رہی ہے اور نہ جھٹلانے کی۔ جبکہ ہماری بحث یہاں صرف اِس بات سے ہے کہ اس بابت وحی کی دلالت کیا ہے؟ صاف سی بات ہے، وحی اگر کسی سائنسی مسئلہ کی بابت خاموش ہے تو وہ سائنس کا دردِ سر ہے؛ سائنس اس سے خود نمٹے۔
سائنس کا رول بس اتنا ہے کہ مظاہراتِ کائنات کا مطالعہ کرے، اس میں پنہاں اللہ کی قدرتوں کا مشاہدہ وانکشاف کرے اور اسے تقویتِ ایمانی کا ذریعہ اور منفعت انسانی کا وسیلہ بنائے۔اگر کوئی ایسے فوسلز جو یہاں دو پیروں پر چلنے والے، آلات کے استعمال سے واقف، بڑے دماغ والے بن مانسوں کے آثار پر دلالت کرتے ہوں، واقعتا کہیں دریافت ہوئے ہیں تو بھی اسلامی تعلیمات کو ان کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں۔
(انسانی مخلوق کو چھوڑ کر) جانداروں کے حوالہ سے اگر یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ یہ ارتقائی مراحل واقعتا ان کے اندر وقوع پذیر ہوتے رہے ہیں تو یہ اسلامی تعلیمات سے متصادم نہیں۔ اگر ایسا ہوا ہے (بشرطیکہ یہ ثابت ہوتا ہو) تو عین ممکن ہے کہ انکا ظہور آدم علیہ السلام کی دنیا میں آمد سے پہلے ہوا ہو؟ ہمارے لیے وحی اور نصوص کی روشنی میں بس اتنا ایمان لانا کافی ہے کہ وہ بہر حال آدم علیہ السلام کے آباء واجداد نہیں تھے!
یہ ایک عام مغالطہ ہے کہ نظریۂ ارتقا کو ماننے سے خدا کی نفی لازم آتی ہے۔ حالانکہ نظریۂ ارتقا جانداروں کے وجود میں آنے کا بتدریج طریقہ بتاتا ہے۔ خدا کے وجود کا ثبوت یا عدم کا ثبوت نظریۂ ارتقا کا موضوع ہی نہیں ہے۔ یہ تو ایک سادہ سائنسی موضوع ہے جس میں مادی اسباب کے تحت مختلف جانداروں کے وقوع پذیر ہونے کا طریقہ سمجھایا گیا ہے۔ در حقیقت سائنس کا موضوع ہی یہ ہے کہ فطرت میں موجود کسی بھی مظہر کے وقوع پذیر ہونے کا طریقہ سمجھائے۔ اس سے خدا کی ذات کی نفی ہرگز ہرگز لازم نہیں آتی۔مذہب اور خصوصاً الہامی کتابوں کو بھی اس بات کی ضرورت نہیں کہ اپنے آپ کو کسی بھی طور سے سائنس سے ہم آہنگ بنانے کی کوششیں کرے یا کوئی سائنسی نظریہ جو مذہب سے بظاہر متصادم نظر آتا ہو اسی غلط ثابت کرنے پر اپنی توانائی خرچ کرے۔ اس کی وجہ مذہب کا موضوع ہے جو سائنسی نظریات سے کسی طرح متاثر نہیں ہوتا۔ ۔ بہتر یہ ہے کہ ایسے معاملات میں خاموشی اختیار کی جائے اور سائنس کو اپنا کام کرنے دیا جائے۔ اور مذہب کو اپنا ۔
سائنس کا موضوع کبھی بھی مذہب نہیں ہوتا اور نا مذہب کا موضوع سائنس۔ ملحدین جو دعوے کرتے نظر آتے ہیں ان میں سائنس کا کوئی قصور نہیں بلکہ وہ انکا ذاتی نقطہ نظر ہے جسکی حقانیت کے لیے وہ سائنس کا سہارا لیتے ہیں ۔ گزشتہ تحاریر میں ہم اسکی کئی مثالیں بھی پیش کرچکے ہیں۔
(عرب کے جید عالم شیخ عبد الوہاب الطریری کے زیر نگرانی کام کرنے والی ایک تحقیقاتی کمیٹی کے طرف سے شائع ہونے والا ایک مختصر مقالہ )
استفادہ: مریم عزیز، بشکریہ ایقاظ