عقل و نقل کے درمیان ٹکراؤ کاآغاز کیسے ہوا؟

11067514_1611055345797758_1811700382793301231_n

عقل اور نقل کا معرکہ اسلامی عقائد کی تاریخ کا ایک مشہور معرکہ ہے۔
بنیادی طور پر یہ ایک خوامخواہ کا معرکہ تھا۔ اس کی ضرورت غیر ادیان کو ضرور رہی ہے۔ اسلام کے اندر نہ صرف یہ درست نہیں، سرے سے غیر ضروری ہے اور خدا کی ایک بڑی نعمت کا کفران۔
عقل خدا کی تخلیق اور نقل خدا کی تنزیل۔ دونوں ہی خدا کی بے بہا نعمتیں، جو کہ انسان کو دراصل انسان بنانے کیلئے پائی گئیں، تاآنکہ انسان زندگی کے اس بحر ظلمات کے پار لگے اور دُنیا وآخرت کی تاریکیوں سے نجات پائے، ان دونوں کی ضرورت مسلم ہے۔
معتزلہ بطور فرقہ ضرور ایک خاص دور کا واقعہ ہوں گے البتہ بطورِ ذہنیت ہر دور اور ہر جگہ پائے گئے۔ یہ ذہنیت ہمیشہ اس بات کی آرزو مند رہی کہ عقل اور نقل میں کسی طرح ٹھن جائے اور پھر یہ لوگ ‘عقل’ کے لشکر میں شامل ہو کر ‘نقل’ پر چڑھائی کریں جہاں یہ خود چونکہ ‘لشکرِ عقل’ کے شہسوار نظر آئیں گے لہٰذا ان کے مدمقابل وہ لوگ جو نقل (نصوصِ شریعت) کو عقل پر ترجیح دیں گے یہ ان کو خودبخود ‘عقل کے دشمن’ قرار دے لیا کریں گے!!!
بلاشبہہ فکر اعتزال کے شروع کردہ اس معرکہ نے ایک دوسری انتہا کو جنم دیا بھی جس نے کہ ‘عقل پر ستوں’ کو واقعتا پھر وہ موقعہ دیا جس کا فائدہ اٹھا کر یہ لوگ اپنے مخالفین کو ‘عقل’ اور ‘خرد’ کے ہی مخالف ثابت کر لیا کریں۔
عقل کی ‘تقدیس’ ایک انتہا تھی تو عقل کی ‘تحقیر’ ایک دوسری انتہا۔
اللہ تعالیٰ نے جو دین اتارا وہ انسان کے قلب اور عقل کو ہی خطاب کرتا تھا۔ اس میں اللہ کے ساتھ اور رسولوں کے ساتھ ایمان لے آنے کا ‘حکم’ بھی تھا مگر ساتھ میں اس کی ‘توجیہ’ بھی تھی۔ اس دین کا ایک بڑا حصہ اس دین کی معقولیت (Rationale)ہی بیان کرنے اترا تھا۔ یہ خالی ‘منوانا’ نہ تھا۔ یہ قلب اور ذہن کی تسکین تھی۔ یہ فوجی احکامات نہ تھے بلکہ حکمت کے اصول تھے جو کہ حق پر مبنی تھے اور ان کا حق پر مبنی ہونا اس کا واضح ترین خاصہ تھا۔
جس دن خدا نے اپنا دین اتارا اور اپنے نبیؐ کو اسے دے کر مبعوث کیا اس دن کرہئ ارض پر کوئی شخص ایسا نہ تھا جو اس پر ایمان پر لے آنے کو محض خدا کا حکم جانے اور قائل ہوئے بغیر ہی اس کو تسلیم کرنا اپنا مذہب مانے۔ اس کو ‘خدا کا حکم’ ماننے سے پہلے لوگوں کو عقلی شواہد درکار تھے جو ان پر واضح کر سکیں کہ واقعتاً یہ خدا کی تنزیل ہے اور یہ کہ واقعی یہ خدا کا رسول ہے۔
قرآنی مقدمات پس سب کے سب عقلی مقدمات ہیں۔ یہ محض عذاب کا ڈراوا نہیں یہ حقیقت کا بہترین اثبات ہے اور یہ آیاتِ آفاق اور آیاتِ انفس سے ایمان کشید کرنے کا ایک زبردست انداز ۔ یہ حق اور باطل کا بہترین موازنہ ہے اور ضلالت کا مدلل ترین رد۔
قرآن سے یہ سب خوبصورت اسباق لینا اس مسلمان کیلئے بھی ہے جو اس پر پیشگی ایمان رکھتا ہو۔ عقل اور نقل کا یہ تفاعل جو کہ اصل ‘اسلامی ذہن’ کو جنم دیتا ہے، کسی وقت رکنے کا نہیں۔ دین میں نقل کی حیثیت مسلم ہے تو عقل کا کردار کسی وقت بھی حاشیائی ہو جانے والا نہیں۔
البتہ عقل اور نقل کے تفاعل کا وہی نسبت تناسب درست ہو سکتا ہے جو کہ ہر حال میں انسان کیلئے ایمان اور بصیرت ہی برآمد کرے بلکہ ایمان اور بصیرت کی بہتر سے بہتر افزائش ہی کرتا رہے۔ اب یہ نسبت تناسب کیا ہے؟ اس بات سے لاعلم رہنا یا اس سے صرف نظر کر رکھنا ہی وہ اصل بحران ہے جو ہمیں تاریخ اسلام کے اندر ‘عقل’ اور ‘نقل’ کے مابین ایک خواہ مخواہ کھڑا کردیئے گئے معرکہ کی صورت میں نظر آتا ہے۔
عقل اور نقل کے تفاعل کا یہ بہترین اور صحت مندترین نسبت تناسب ہمیں جہاں ملتا ہے وہ سلف کا منہج ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو ایک خاص انداز سے قرآن پڑھنا سکھایا تھا۔ قرآنی حقائق سے تعامل کرنا اور قرآنی مقدمات کو بہترین انداز میں ایمان، اذعان، تسلیم، یقین اور بصیرت کے اندر ڈھال دینا اور یہاں سے ایک اور ہی انداز کا انسان برآمد کرلانا جو دنیا کی تمام روایتی انداز کی دیندارانہ روشوں سے مختلف اور مذہبی جکڑبندیوں سے یکسر منفرد انداز تفکیر رکھتا ہے، ایک جدا طرز استدلال رکھتا ہے ایک اسی منہج کا خاصہ ہے جہاںایک منفرد انداز میں خدا کو، خدا کے حقوق کو، خدا کے پیغام اور پیغام بر کو ایک حقیقتِ واقعہ دکھایا جاتا ہے اور خدا سے ملاقات کے دن کو انسان کے قلب وذہن میں جاگزیں کرایا جاتا ہے۔ اور اس سے پھر ‘عمل’ کا جو ایک تصور اس انسان کے اندر ابھرتا ہے اوربندگی اور جہاد کا جو ایک مفہوم اس کی شخصیت کا حصہ بنتا ہے یہ بھی قدیم اور جدید میں پائی جانے والی سب ‘مذہبی’ روشوں سے یکسر جداگانہ ہے۔
اس منہج کی بنیاد دراصل یہی وحی کا، انسان کی فطرت اور اس کی عقل اور اس کے خیالات و احساسات سے، ایک سادہ مگر گہرے انداز کا تفاعل کرنا تھا۔۔۔۔۔۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کی ضرورت ہر دور میں ہے اور اس کی ضرورت ہر انسان کو ہے۔
سلف کے اس منہج کو جس سے عقل اور نقل دو متحارب عناصر نہیں رہتے بلکہ کمال خوبصورتی سے یکجا ہو جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔ یہ انسان کے حق میں دو آنکھیں بن جاتی ہیں جن سے پھر وہ صحیح دیکھتا ہے اور بہت دور تک دیکھتا ہے اور پورے اعتماد سے دیکھتا ہے۔۔۔۔۔۔ سلف کے اس منہج کو جس میں عقل اور نقل دونوں کا کردار بے حد اہم ہے اور جس کی رو سے عقل، نقل کے بغیر درماندہ و بے نور ہے اور نقل عقل کے بغیر کام دینے سے معطل رہتی ہے۔۔۔۔۔۔ سلف کے اس منہج کو منہج وسط کہا گیا ہے۔ منہج وسط جس میں کہ اعتدال پایا جاتا ہے اور جس کی ہر چیز اپنی جگہ پر پائی جاتی ہے۔۔۔۔۔۔ لہٰذا ہر چیز یہاں وہ کام دیتی ہے جس کیلئے کہ وہ ہے۔
بعد ازاں لوگ اگر اسی سلف کے منہج پر چلتے تو وہ بھی قرآن سے اسی طرح ایمان اور بصیرت اور یقین کا ثمر لیتے اور اس ثمر سے اپنی جھولیاں بھر بھر کر اس دُنیا سے جاتے مگر وہ اس درست اور متوازن نسبت تناسب سے غافل ہو گئے جو کہ عقل اور نقل سے استفادہ کے معاملہ میں برقرار رکھا جانا تھا۔ اس توازن کا ہاتھ سے جانا تھا کہ معاملہ ایک بڑے خلجان کا شکار ہوا۔ جس کے ہاتھ میں جو تھا وہی رہ گیا البتہ ‘ترازو’ ہاتھ سے جاتا رہا۔ اب لازمی تھا کہ کسی کا معاملہ ایک طرف کو لڑھک جاتا تو کسی کا دوسری طرف کو۔۔۔۔۔۔ سوائے ان کے جو سلف کے منہج پر واقعتا قائم ہوں۔
اس معرکہ کی مختصر تاریخ ہم کسی اور موقعہ پر ذکر کریں گے البتہ اس معاملہ کا ایک افسوسناک پہلو یہ رہا ہے کہ چونکہ خدا کی اتاری ہوئی تنزیل کا درجہ انسان کی عقل وتفکیر پر مقدم ہے اور چونکہ اس وجہ سے مذہب سلف پہ چلنے والوں کو فکر اعتزال کے اس عقل پرست منہج کے آڑے آنا تھا جو عقل کو نقل پر مقدم ٹھہراتا ہے۔۔۔۔۔۔ تو اس کے باعث مذہب سلف سے منسوب بعض حلقوں کے اندر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک ‘ردعمل’ کا انداز پروان چڑھا۔ یوں اس سے ایک دوسری انتہا سامنے آئی اور وہ ‘عقل’ کو حقیر جاننے، شریعت کی تلقی کے معاملہ میں عقل کو بڑی حد تک معطل کردینے اور یوں دین کے معاملہ میں ‘عقل’ کو کسی شمار قطار میں ہی نہ لانے سے عبارت تھا۔ اس سے لازم تھا کہ، نصوص کے فہم میں ایک جمود آتا۔ یہ انداز فکر ایک طرف فقہی معاملات میں اجتہاد کو معطل کر دینے پر منتج ہوا تو دوسری طرف عقیدہ کی ایک خشک انداز کی ترجمانی کرنے لگا اور تیسری طرف دعوت میں ایک فوجداری کی سی صورت اپنانے لگا اور دین کے حقائق کی بجائے دین کے مظاہر پر ہی زیادہ تر زور اور توجہ صرف کرنے لگا اور چوتھی طرف شریعت اور سماج میں ایک خلیج پیدا کردینے کا باعث بنا۔
اس صورتحال کا سبب یہی تھا کہ عقل کا وہ کردار جو اس کو شریعت کی اپنی ہی جانب سے عطا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔ عقل کا وہ کردار جو اس کو شریعت کی نصوص کے ساتھ ایک فطری تفاعل کی صورت میں ادا کرنا تھا اور ایک بھرپور انداز میں ادا کرنا تھا۔۔۔۔۔۔ عقل کے اس کردار کو معطل کردیا گیا اور یہ باور کرلیا گیا کہ عقل کا خدا کے دین میں بس یہی مقام ہے جو یہ حضرات اسے دے رہے ہیں۔
بنیادی طور پر، جیسا کہ ہم نے کہا، یہ ایک ردعمل تھا جو کچھ طبقوں کے ہاں اس انداز کے تشدد کو ایک منہج کے طور پر اپنا لینے کا آخرکار سبب بنا۔
البتہ معاملہ یہ ہوگیا، اور اسی وجہ سے ہم نے اسے بدقسمتی کہا ہے، کہ یہ طرز فکر اور یہ اسلوب یہاں اب منہِجِ سلف کی پہچان سمجھا جانے لگا ہے۔ جبکہ اس کا منہج سلف سے کچھ واسطہ ہی نہ تھا۔
اس کا آپ سے آپ نتیجہ یہ ہوتا کہ فکر وفہم، سوچ اور تفکیر اور طرز تعامل میں آدمی کا انتہائی پرانی وضع کا نظر آنا اور اپنے دور سے اور اپنے دور کے فکری رجحانات سے یکسر بیگانہ رہنا بلکہ کسی حد تک ان سے آزردہ خاطر رہنا، انسان کے ‘سلفی’ ہونے کا ایک لازمی حصہ سمجھا جانے لگے!!
یہ ایک بڑا ظلم تھا جو کہ یہاں سلف کے منہج کے ساتھ ہوا۔ اس سے بڑی زیادتی ہمارے خیال میں دین اسلام کی اس سچی اور خالص تعبیر کے ساتھ اس دور میں کوئی نہ ہو سکی تھی۔ البتہ اس تاثر کے بن جانے میں طرفین کو کچھ نہ کچھ دخل حاصل رہا ہے۔
اس کا پھر یہ نتیجہ بھی لازمی تھا کہ ‘سلف کی دعوت’ کچھ خاص موضوعات میں محصور ہو جاتی اور اپنے دور کے موضوعات سے پہلو تہی برتتی۔ اور یہ کہ اپنے دور کے ساتھ بھی ہمیشہ وہی پرانے موضوعات ہی چھیڑتی۔ اپنے دور میں اترتی تو یہ اپنے دور کو اپنے روایتی موضوعات پہ لے آنے کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ یہ کرتی کہ اپنے دور کو ایک عمومی معنی میں ‘دیندار’ بنا لینے کیلئے کوشاں ہوتی۔ البتہ ہر دور کے افکار کا جو ایک ‘آپریشن’ کیا جانا ہوتا ہے اور ہردور کے علمی وفکری وثقافتی رجحانات کے عین بیچ سے گزر کر حق کیلئے جو ایک راستہ بنانا ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔ وہ فرض بالکل متروک ہو رہا کیونکہ اس کی یہی ایک صورت ہے کہ ہر دور کی عقل اور ہر دور کا فکر خدا کی اس ازلی وحی کے ساتھ ایک بہترین انداز کا تفاعل کرے اور اس عمل سے عین وہ چیز برآمد ہو جو کہ اس دور کی ایک صحیح شرعی ضرورت ہے اور جو کہ اس دور کے انسان کی درماندگی کا اصل مداوا ہے۔
چنانچہ ‘عقل’ کو حساب سے خارج کر دینا سلف کا منہج نہ تھا۔ خود قرآنی استدلالات بھی سب سے پہلے اس مفروضہ کو غلط ٹھہراتے ہیں۔ البتہ عقل کو خدا کی تنزیل پر ___ جو کہ خدا کی کتاب اور اس کے رسولؐ کی سنت ہے___ حَکَمarbiter بھی نہیں بننا۔ یہ اس کا غلط مقام ہے اور ایک غلط مقام پر رہنا خود اس کا یعنی عقل کا اپنا بھی تقاضا نہیں۔
مگر چونکہ عقل پرست رجحانات نے شروع میں اس توازن کو خراب کیا جو کہ منہج سلف میں نقل اور عقل کے مابین ایک بہترین انداز میں قائم کروا دیاگیا تھا۔۔۔۔۔۔ اور چونکہ یہ عقل پرست رجحانات آج تک اس تاک میں ہیں کہ ‘حقیقت’ کے ادراک کے ان دو ذرائع کو ___ جو کہ انسان پر خدا کی عظیم ترین نعمت ہیں___ کسی نہ کسی طرح آپس میں بھڑوا دیں اور ان دونوں کی اس فرضی جنگ میں خود یہ ‘عقل’ کے خودساختہ ترجمان اور ‘خرد’ کے من مانے حمایتی بن بیٹھیں۔۔۔۔۔۔ لہٰذا ان لوگوں کے اس توازن کو خراب کردینے نے بالواسطہ طور پر اپنے مدمقابل کچھ اور طبقوں کو بھی اس توازن سے دور کردیا۔ یہ ایک تنگ نظر ردعمل تھا جس نے عقل پرستوں کو اپنی گمراہی میں پھر اور بھی آگے بڑھتا رہنے اور اپنی اس گمراہی کو معاشرے کے اندر ___خصوصاً پڑھے لکھے طبقے کے ہاں___ ایک معقول روپ دے لینے کا موقعہ دیا۔
اب چونکہ نقل کو عقل پر مقدم جاننے کا عقیدہ سلف کا متفقہ عقیدہ ہے اور جس کے حق ہونے کی شہادت خود ‘عقل’ بھی دیتی ہے لہٰذا اس معرکہ میں جو کہ ‘عقل’ اور ‘نقل’ کے مابین فرضی طور پر کئی صدیوں تک کروایا گیا کچھ لوگ ایک دوسری انتہا پر بھی چلے گئے جو کہ دینی حقیقت کے ادراک کے معاملہ میں عقل کا کردار تقریباً ختم کر دیتی تھی۔۔۔۔۔۔ اور جو کہ سلف کے منہج کی ہرگز کوئی ترجمانی نہ تھی مگر دونوں میں (سلف کے منہج اور اِس جامد منہج کے مابین) مشترک بات یہ تھی کہ سلف کا منہج بھی نقل کو عقل پر مقدم ٹھہراتا تھا اور اس انتہا پر چلے جانے والوں کا منہج بھی۔۔۔۔۔۔ لہٰذا محض اس ‘قدرِ مشترک’ کے باعث ان دونوں کو ایک ہی شمار کر لیا گیا جس سے سارا نقصان منہج سلف کو پہنچا اور جس کا سارا فائدہ اس ‘عقل پرست’ منہج کو گیا جو کہ دراصل ‘ھویٰ پرستی’ کا ایک پرتو تھا۔
اس معاملہ میں پورا اُترنے کا درست طریقہ جو ہو سکتا تھا اور جو کہ ہمیں ترجمانِ اہلسنت شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے منہج میں جلی طور پر نظر آتا ہے۔۔۔۔۔۔ وہ یہ کہ عقل اور نقل کی جنگ میں خوامخواہ کود پڑنے کی بجائے خود اس جنگ کو ہی عقل پرستوں کا ایک وہم قرار دیا جاتا اور یوں اس جنگ کا فرضی اور وہمی ہونا ہی سب سے پہلے لوگوں پر واضح کیا جاتا۔ اس کے بعد پھر اس جنگ کی طرف آیا جاتا جو کہ عقل پرستوں نے عقل کے نام پر شریعت کے بعض حقائق کے خلاف شروع کر رکھی تھی۔ جب عقلِ صریح اور نقلِ صحیح کے مابین سرے سے کوئی تعارض نہیں تو پھر اس جنگ کا عنوان یوں ٹھہرایا جاتا کہ یہ جنگ عقل اور نقل کے مابین نہیں بلکہ اس جنگ میں خود عقل بھی دراصل نقل ہی کے ساتھ ہے اور وہ ہمیشہ نقل ہی کے ساتھ ہو سکتی ہے لہٰذا یہ دراصل ‘نقل’ کے خلاف ‘عقل’ کی جنگ نہیں بلکہ یہ ‘نقل’ کے خلاف ‘بے عقلی’ کی جنگ ہے!
یہ عین وہ کام ہے جو اللہ تعالیٰ نے امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھوں کرایا۔ آپ نے اس موضوع پر تاریخِ اہلسنت کی ایک یادگار ترین کتاب ”درء التعارض بین صریح المعقول وصحیح المنقول” تصنیف کی اور اس جنگ کا سارا نقشہ ہی تبدیل کرکے رکھ دیا۔ اس کتاب نے دین کے اندر لائے جانے والے عقل پرست رجحانات کو عین وہاں کھڑا کردیا جہاں عقل بھی ان کا ساتھ چھوڑ دیتی ہوئی نظر آئے۔اب جو میدان جنگ کی صورت بدلی تو عقل عین شریعت کے پہلو میں کھڑی نظر آئی اور عقل پرست اس جنگ میں تنہا رہ گئے! ان کا اپنا معبود بھی ان کا ساتھ چھوڑ گیا!
امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کی یہ کتاب فکر اہلسنت کی توضیح اور منہج سلف کی ترجمانی کے موضوع پر ایک مستند ترین کتاب مانی گئی ہے۔
‘عقل پسندی’ ایک چیز ہے اور جو کہ ہمارے دین میں بدرجہئ اتم موجود ہے البتہ ‘عقل پرستی’ ایک اور چیز ہے۔ اس کو بہرحال ہم ایک فتنہ جانتے ہیں۔ جس طرح خدا کی ہر مخلوق خدا کے مقابلہ میں اپنی پرستش کرانے سے بیزاری کرتی ہے اسی طرح ‘عقل’ بھی خدا کا ہمسر بننے سے صاف بیزار ہے۔ یہ صرف کچھ نادان انسان ہیں جو خدا کی کسی مخلوق کو خداکی ہمسری کے مرتبہ پر فائز کر آتے ہیں۔
یہ ہے وہ طرز عمل جو ہمیں اس موضوع پر مذہبِ سلف کے حقیقی ترجمانوں کے ہاں ملتاہے۔ اس منہج پر آجانے سے آج بھی اس جنگ کا نقشہ تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ سلف کے نام لیوا کئی ایک طبقوں کو بھی ہمارے خیال میں، ایک بڑی تبدیلی سے گزرنا ہے۔ اس سے وہ تبدیلی خودبخود آئے گی جو ہمارے اس ماحول میں لائی جانا ہے۔
تحریر حامد کمال الدین

Leave Your Comment

Your email address will not be published.*

Forgot Password