مغرب ومشرق کے عروج وزوال کے فلسفے کی راکھ سے اٹھارہویں اور انیسویں صدی کی مسلم جدیدیت کا آغاز ہوا۔ مسلم جدیدیت کے نقطہ نظر کے پس پشت خلافت ارضی کے زوال کا زیر لب مرثیہ ہے، زوال کی موج خوں سر سے گزر گئی اور مسلمان قوت، طاقت اور حاکمیت سے محروم کر دیے گئے لہٰذا عروج کیلئے طاقت، علم، قوت، سائنس، مغرب کا طریقہء علم وزندگی، مغربی آدرش، اقتدار اور استخلاف فی الارض ہی اصل اہداف ٹھہرے۔
حیرت انگیز طور پر تمام قوم پرست، بنیاد پرست، احیائی تحریکوں، جدیدیت پسند طبقات اور روایت پسند مفکرین کے یہاں عروج اور اقتدار کی زیریں لہریں مشترک ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ مسلمانوں کا زوال اس وجہ سے ہوا کہ وہ علم وہنر وفنون میں اور تسخیر کائنات میں پیچھے رہ گئے، مغرب نے ان میدانوں میں سبقت حاصل کی۔ عروج وزوال سے متعلق گزشتہ دو سو برس کے تجزیوں میں متفقہ تجزیہ یہی ہے کہ جدید علوم کے ذریعے ہی اسلام کا غلبہ قائم ہوگا، اس کے سوا کامیابی اور کامرانی کا کوئی راستہ نہیں ہے، یہ رویہ خالصتاً غلامانہ سوچ کا آئینہ دار ہے۔ اگر مغرب کے راستے کو کاملاً اختیار کر لیا جائے تو مشرق مغرب بن جائے گا مگر روحانی اخلاقی طور پر مغرب سے بدتر ہوگا۔ غلبے کی تشخیص وتجزیے میں تبلیغ اور دعوت دین کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ مسلمانوں نے اندلس میں زبردست مادی ترقی کی لیکن روحانی طور پر وہ غیر مسلموں کو متاثر نہ کر سکے لہٰذا ہمیشہ اقلیت میں رہے۔ اندلس یورپ میں اسلام کی اشاعت نہ کر سکا۔ خلافت عثمانیہ اور مغلیہ سلطنت نے اپنے زیر تسلط علاقوں میں اسلام کی دعوت کو عام کرنے اور دائرہ اسلام کو وسیع کرنے پر کوئی توجہ نہ دی۔ یہ تمام سلطنتیں مادی طور پر بہت مستحکم سلطنتیں رہیں۔ لیکن رعایا پر یہ روحانی برتری قائم نہ کر سکے۔ انہوں نے زمین مسخر کرلی، دل مسخر نہ کر سکے۔ دعوت سے اغماض ہی ان کی ناکامی تھا لیکن عروج وزوال کی تمام قدیم وجدید بحثوں میں اس بحث کا ذکر نہیں۔
عروج وزوال کی بحث کرنے والے مفکرین اپنے تجزیوں میں یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ خلافت عباسیہ جوٹیکنالوجی میں منگولوں اور تاتاریوں سے برتر تھی اور تہذیب وتمدن میں اس کا ان سے مقابلہ نہ تھا، آخر کیسے شکست کھا گئی؟ ایک غالب اور برتر تہذیب وحشیوں کی یلغار کا سامنا کیوں نہ کر سکی؟
یہ مفکرین یہ بھی نہیں بتا سکتے کہ شکست خوردہ اسلامی تہذیب صرف پچاس سال کے عرصے میں بغیر کسی مادی ترقی کے دوبارہ کیسے غالب آگئی اور وہ کون سی سائنس ٹیکنالوجی، علوم اور فلسفے تھے جس نے چنگیز کے پوتے برقے کو قبولیت اسلام کیلئے آمادہ کیا اور طاقت کا توازن آناً فاناً تبدیل ہو گیا۔؟
اس سوال پر بھی غور نہیں کیا جاتا کہ ترکوں کا سیلاب ویانا میں کیوں داخل نہ ہو سکا جبکہ یورپی حکمران ٹیکنالوجی اور سائنس میں خلافت عثمانیہ کے مقابلے میں برتری کے حامل نہیں تھے۔؟
ہندوستان میں مغلیہ سلطنت اور ریاستیں انگریزوں سے کیوں شکست کھا گئیں جبکہ اس وقت عسکری سطح پر دونوں گروہوں کے پاس کم وبیش توازن طاقت برابر تھا۔؟ پورے ہندوستان کو فتح کرنے والی انگریزی فوج کی تعداد صرف چند ہزار تھی لیکن ہندوستان کیونکر سرنگوں ہو گیا۔؟
لہٰذا مسئلہ صرف فنون علم، سائنس اور ٹیکنالوجی کا نہیں ہے، مسئلہ اس سے بڑھ کر گھمبیر ہے۔ افسوس یہ ہے کہ ان اہم تاریخی مباحث کو یہ مفکرین نظر انداز کرکے زوال کے سطحی تجزیے پیش کرتے ہیں جس کے نتیجے میں زوال گھمبیر ہوتا جا رہا ہے۔ ترکی، مصر، ملیشیا نے مغربی تہذیب اور تعلیم کو اختیار کرلیا تو وہاں کیا انقلاب برپا ہوا؟
سرسید کی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا خواب پورا ہو گیا لیکن اس جامعہ کے ذریعے کیا عروج کا وہ سفر طے ہو گیا جس کی آرزو کی گئی تھی اس جامعہ سے شائع ہونے والی کتنی کتابیں آج دنیا بھر کی جامعات میں پڑھائی جا رہی ہیں؟
جدیدیت پسندوں کے یہاں ایک لہر مغربی علوم کو عروج کا ذریعہ سمجھتی ہے دوسری لہر صرف سائنس کو ترقی اور تیسری لہر مغربی علوم کے ساتھ مغربی ثقافت کو۔ ان تینوں لہروں میں ایک اندرونی غیر محسوس ادغام دنیا پر غلبے اور بالادستی کا تصور ہے۔ جدیدیت پسندوں کے یہاں یہ بالادستی دعوت ایمان، قلوب کی تسخیر، دین کے لئے محنت، پیغام محبت، عمل صالح، اتحاد، اجماع اور جہاد کے مراحل کے فلسفے کے بغیر صرف سائنسی علوم اور معیشت کی طاقت پر اصرار کرتی ہے۔ طاقت کے مختلف مظاہر اسی حکمت عملی کا شاخسانہ ہیں۔
کیا عروج صرف سائنس کے ذریعے اور مادی ترقیات کے بغیر نہیں مل سکتا؟
کیا فتح کا واحد راستہ جنگ، پیسہ، علم ہے؟
کیا فریق مخالف کو سرنگوں کیے بغیر فتح کا کوئی امکان نہیں؟
اس تاریخی مغالطے کی تشریح جدیدیت پسندوں اور احیائی تحریکوں میں بنیادی نوعیت کے نظریاتی فرق کے باوجود یکساں ہے۔ دونوں کے یہاں اقتدار حکومت، طاقت علم، سائنسی ترقی کے بغیر مسلمانوں کے غلبے کا واضح شعور اور تصور نہیں ملتا۔ غلبے کے تمام ذرائع صرف مادیت پر انحصار کرتے ہیں۔
قدیم اور جدید راسخ العقیدہ اور جدیدیت پسند مفکرین کے یہاں اس بات کا کوئی ادراک نہیں ہے کہ سلطنت روما کو عیسائیت نے ٹیکنالوجی کے بل پر شکست نہیں دی، روما جیسی عظیم الشان سلطنت فتح کرنے والے گدھوں پر سوار تھے، حملہ آوروں کی دعوت نے قلوب مسخر کر لیے تھے۔ روس کو امریکا نے عسکری میدان میں شکست نہیں دی بلکہ روسی عوام کا نظریہ زندگی بدل دیا۔ انہیں لبرل بنا دیا گیا۔ یہ جنگ میدان جنگ میں نہیں عقیدہ اور نظریہ کی تبدیلی کے ذریعے کی گئی۔ یہی صورتحال چین کے ساتھ درپیش ہے، سرمایہ دارانہ نظام کے باعث چین کا تشخص ختم ہو گیا ہے وہ نظریاتی اساس کھو بیٹھا ہے۔
عروج و زوال کی بحثوں میں جدیدیت پسند طبقات دین پرنقد کرتے ہیں بعض حدیث کا انکار کرتے ہیں بعض اسلامی اقدار کا استہزا اور تمسخر اڑاتے ہیں، بعض دین کو ہی زوال کا سبب سمجھتے ہیں، بعض اس زوال کی وجہ سائنس اور عقل سے انحراف کو قرار دیتے ہیں، بعض روحانیت کے ساتھ مادی ترقی کی ضرورت کو لازمی سمجھتے ہیں، بعض زوال کا سبب تصوف کو گردانتے ہیں، بعض مظاہر کائنات سے عدم دلچسپی کو زوال کی وجہ بتاتے ہیں لیکن تنقید کرنے والے تمام طبقات مادیت کے ذریعے ہی عروج وزوال کی تشریح کرتے ہیں۔
مصنفہ: ڈاکٹر خالد جامعی بشکریہ ”جریدہ“ شعبہ تصنیف وتالیف و ترجمہ جامعہ کراچی
حیرت انگیز طور پر تمام قوم پرست، بنیاد پرست، احیائی تحریکوں، جدیدیت پسند طبقات اور روایت پسند مفکرین کے یہاں عروج اور اقتدار کی زیریں لہریں مشترک ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ مسلمانوں کا زوال اس وجہ سے ہوا کہ وہ علم وہنر وفنون میں اور تسخیر کائنات میں پیچھے رہ گئے، مغرب نے ان میدانوں میں سبقت حاصل کی۔ عروج وزوال سے متعلق گزشتہ دو سو برس کے تجزیوں میں متفقہ تجزیہ یہی ہے کہ جدید علوم کے ذریعے ہی اسلام کا غلبہ قائم ہوگا، اس کے سوا کامیابی اور کامرانی کا کوئی راستہ نہیں ہے، یہ رویہ خالصتاً غلامانہ سوچ کا آئینہ دار ہے۔ اگر مغرب کے راستے کو کاملاً اختیار کر لیا جائے تو مشرق مغرب بن جائے گا مگر روحانی اخلاقی طور پر مغرب سے بدتر ہوگا۔ غلبے کی تشخیص وتجزیے میں تبلیغ اور دعوت دین کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ مسلمانوں نے اندلس میں زبردست مادی ترقی کی لیکن روحانی طور پر وہ غیر مسلموں کو متاثر نہ کر سکے لہٰذا ہمیشہ اقلیت میں رہے۔ اندلس یورپ میں اسلام کی اشاعت نہ کر سکا۔ خلافت عثمانیہ اور مغلیہ سلطنت نے اپنے زیر تسلط علاقوں میں اسلام کی دعوت کو عام کرنے اور دائرہ اسلام کو وسیع کرنے پر کوئی توجہ نہ دی۔ یہ تمام سلطنتیں مادی طور پر بہت مستحکم سلطنتیں رہیں۔ لیکن رعایا پر یہ روحانی برتری قائم نہ کر سکے۔ انہوں نے زمین مسخر کرلی، دل مسخر نہ کر سکے۔ دعوت سے اغماض ہی ان کی ناکامی تھا لیکن عروج وزوال کی تمام قدیم وجدید بحثوں میں اس بحث کا ذکر نہیں۔
عروج وزوال کی بحث کرنے والے مفکرین اپنے تجزیوں میں یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ خلافت عباسیہ جوٹیکنالوجی میں منگولوں اور تاتاریوں سے برتر تھی اور تہذیب وتمدن میں اس کا ان سے مقابلہ نہ تھا، آخر کیسے شکست کھا گئی؟ ایک غالب اور برتر تہذیب وحشیوں کی یلغار کا سامنا کیوں نہ کر سکی؟
یہ مفکرین یہ بھی نہیں بتا سکتے کہ شکست خوردہ اسلامی تہذیب صرف پچاس سال کے عرصے میں بغیر کسی مادی ترقی کے دوبارہ کیسے غالب آگئی اور وہ کون سی سائنس ٹیکنالوجی، علوم اور فلسفے تھے جس نے چنگیز کے پوتے برقے کو قبولیت اسلام کیلئے آمادہ کیا اور طاقت کا توازن آناً فاناً تبدیل ہو گیا۔؟
اس سوال پر بھی غور نہیں کیا جاتا کہ ترکوں کا سیلاب ویانا میں کیوں داخل نہ ہو سکا جبکہ یورپی حکمران ٹیکنالوجی اور سائنس میں خلافت عثمانیہ کے مقابلے میں برتری کے حامل نہیں تھے۔؟
ہندوستان میں مغلیہ سلطنت اور ریاستیں انگریزوں سے کیوں شکست کھا گئیں جبکہ اس وقت عسکری سطح پر دونوں گروہوں کے پاس کم وبیش توازن طاقت برابر تھا۔؟ پورے ہندوستان کو فتح کرنے والی انگریزی فوج کی تعداد صرف چند ہزار تھی لیکن ہندوستان کیونکر سرنگوں ہو گیا۔؟
لہٰذا مسئلہ صرف فنون علم، سائنس اور ٹیکنالوجی کا نہیں ہے، مسئلہ اس سے بڑھ کر گھمبیر ہے۔ افسوس یہ ہے کہ ان اہم تاریخی مباحث کو یہ مفکرین نظر انداز کرکے زوال کے سطحی تجزیے پیش کرتے ہیں جس کے نتیجے میں زوال گھمبیر ہوتا جا رہا ہے۔ ترکی، مصر، ملیشیا نے مغربی تہذیب اور تعلیم کو اختیار کرلیا تو وہاں کیا انقلاب برپا ہوا؟
سرسید کی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا خواب پورا ہو گیا لیکن اس جامعہ کے ذریعے کیا عروج کا وہ سفر طے ہو گیا جس کی آرزو کی گئی تھی اس جامعہ سے شائع ہونے والی کتنی کتابیں آج دنیا بھر کی جامعات میں پڑھائی جا رہی ہیں؟
جدیدیت پسندوں کے یہاں ایک لہر مغربی علوم کو عروج کا ذریعہ سمجھتی ہے دوسری لہر صرف سائنس کو ترقی اور تیسری لہر مغربی علوم کے ساتھ مغربی ثقافت کو۔ ان تینوں لہروں میں ایک اندرونی غیر محسوس ادغام دنیا پر غلبے اور بالادستی کا تصور ہے۔ جدیدیت پسندوں کے یہاں یہ بالادستی دعوت ایمان، قلوب کی تسخیر، دین کے لئے محنت، پیغام محبت، عمل صالح، اتحاد، اجماع اور جہاد کے مراحل کے فلسفے کے بغیر صرف سائنسی علوم اور معیشت کی طاقت پر اصرار کرتی ہے۔ طاقت کے مختلف مظاہر اسی حکمت عملی کا شاخسانہ ہیں۔
کیا عروج صرف سائنس کے ذریعے اور مادی ترقیات کے بغیر نہیں مل سکتا؟
کیا فتح کا واحد راستہ جنگ، پیسہ، علم ہے؟
کیا فریق مخالف کو سرنگوں کیے بغیر فتح کا کوئی امکان نہیں؟
اس تاریخی مغالطے کی تشریح جدیدیت پسندوں اور احیائی تحریکوں میں بنیادی نوعیت کے نظریاتی فرق کے باوجود یکساں ہے۔ دونوں کے یہاں اقتدار حکومت، طاقت علم، سائنسی ترقی کے بغیر مسلمانوں کے غلبے کا واضح شعور اور تصور نہیں ملتا۔ غلبے کے تمام ذرائع صرف مادیت پر انحصار کرتے ہیں۔
قدیم اور جدید راسخ العقیدہ اور جدیدیت پسند مفکرین کے یہاں اس بات کا کوئی ادراک نہیں ہے کہ سلطنت روما کو عیسائیت نے ٹیکنالوجی کے بل پر شکست نہیں دی، روما جیسی عظیم الشان سلطنت فتح کرنے والے گدھوں پر سوار تھے، حملہ آوروں کی دعوت نے قلوب مسخر کر لیے تھے۔ روس کو امریکا نے عسکری میدان میں شکست نہیں دی بلکہ روسی عوام کا نظریہ زندگی بدل دیا۔ انہیں لبرل بنا دیا گیا۔ یہ جنگ میدان جنگ میں نہیں عقیدہ اور نظریہ کی تبدیلی کے ذریعے کی گئی۔ یہی صورتحال چین کے ساتھ درپیش ہے، سرمایہ دارانہ نظام کے باعث چین کا تشخص ختم ہو گیا ہے وہ نظریاتی اساس کھو بیٹھا ہے۔
عروج و زوال کی بحثوں میں جدیدیت پسند طبقات دین پرنقد کرتے ہیں بعض حدیث کا انکار کرتے ہیں بعض اسلامی اقدار کا استہزا اور تمسخر اڑاتے ہیں، بعض دین کو ہی زوال کا سبب سمجھتے ہیں، بعض اس زوال کی وجہ سائنس اور عقل سے انحراف کو قرار دیتے ہیں، بعض روحانیت کے ساتھ مادی ترقی کی ضرورت کو لازمی سمجھتے ہیں، بعض زوال کا سبب تصوف کو گردانتے ہیں، بعض مظاہر کائنات سے عدم دلچسپی کو زوال کی وجہ بتاتے ہیں لیکن تنقید کرنے والے تمام طبقات مادیت کے ذریعے ہی عروج وزوال کی تشریح کرتے ہیں۔
مصنفہ: ڈاکٹر خالد جامعی بشکریہ ”جریدہ“ شعبہ تصنیف وتالیف و ترجمہ جامعہ کراچی