جدیدیت کے مذھبی شعور پر چار سطح پر اثرات رونما ہوئے:
1) ریاست کی سطح پر
- بیسویں صدی میں ہم نے جتنی ریاستیں بنائیں وہ ان معنی میں “جدید “ریاستیں تھیں کہ
الف) وہ سب قومی ریاستیں تھیں، قومی ریاست شناخت کی تعمیر قوم کی بنیاد پر کرتی ہے، شناخت کی تعمیر کا اس سے بلند تر اس کے پاس فی الوقت کوئی قابل عمل تصور نہیں ۔ اس ریاست کا وظیفہ آزادی یعنی سرمائے میں اضافہ ہوتا ہے
ب) اس کی بیوروکریسی مارکیٹ نظم کے اصولوں کے تحت معاشرے میں مداخلت کرتی ہے، اس کے اصول و قواعد سوشل سائنسز بالخصوص علم معاشیات طے کرتا ہے
ج) اس میں سود اور سٹے کی (بینک اور فنانشل) مارکیٹس ہوتی ہیں جو عالمی فنانشل نظام سے متصل ہوتی ہیں اور یہ علم فنانس کے اصولوں کے تحت کام کرتی ہیں - یہاں یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے محض تیس سال بعد قائم ہونے والی ریاست کا نظام بناتے ہوئے ہم نے یہ سوال نہیں اٹھایا کہ “عثمانی خلافت کیسے کام کرتی تھی یا مثلا 1857 سے پہلے مغل سلطنت کیسے چلتی تھی”، اس کے برعکس ہم نے ایک “جدید” ریاست بنائی ۔ کیونکہ مسلمانوں کے لئے یہ ریاست ایک “جدید” چیز تھی جو ان کی اپنی تاریخ سے برآمد نہیں ہوئی تھی لہذا مذہبی شعور نے اس کے بارے میں مختلف طرز کے رویے اختیار کئے:
o مولانا مودودی کی اپروچ : مولانا مودودی اصلاح کے لئے Top to Bottom طریقے کے قائل ہیں، وہ مذہب اور ریاست کو لازم و ملزوم بلکہ ایک اکائی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اسی طرح مولانا جدید ریاستی سٹرکچرز “غیر اقداری” فرض کرتے ہیں، ان کے خیال میں انہی اداروں کے ذریعے اسلامی انقلاب برپا کیا جاسکتا ہے
o جہادی گروہ: یہ گروہ بذریعہ قوت اقتدار پر قابض ہونے کا قائل ہے مگر یہ اس امر کا شعور نہیں رکھتا کہ لڑائی “کس چیز” سے ہے، نیز ان کے پاس تخریب سے آگے تعمیر کا کوئی مثبت ایجنڈہ نہیں
o دعوت و تبلیغ : ان کے خیال میں ریاست اصولا لازم یا مطلوب ہی نہیں، ان کا مفروضہ ہے کہ فرد کی اصلاح کے نتیجے میں اسلامی ریاست خود بخود (اللہ کے انعام کے طور پر) حاصل ہو جاتی ہے، یعنی اسلامی انفرادیت کا سیاسی اظہار خود بخود ہوجاتا ہے، اس کے لئے کسی شعوری جدوجہد و صف بندی کی ضرورت نہیں
o مسلم سیکولرز : انکا مفروضہ ہے کہ ریاست و مذہب الگ الگ ہیں جبکہ یہ صرف ایک فریب ہے کیونکہ سیکولر ریاست مذہب کو اپنے پیمانوں پر ڈیفائن کرتی ہے ، علیحدگی کا کوئی مطلب نہیں
2) سماج کی سطح پر
- انگریز کی آمد کے بعد ریاست اگرچہ جدید بنا دی گئی مگر مسلم سماج بہت حد تک تاریخی ہی رہا۔ آزدی کے حصول کے بعد بھی ایک عرصے تک یہی حال رہا کہ سماج کی بنیاد خاندان (non self-interest institution) پر مبنی تھی۔ جدید ریاست سماج کو بھی جدید خطوط پر استوار کرتی ہے، لہذا وہ ایسے انسنٹو (incentive) میکینزم وضع کرتی ہے جو سماج کو “مارکیٹ” بنا سکے
- مارکیٹ سوسائٹی “سول سوسائٹی” کو بھی کہتے ہیں۔ سول سوسائٹی ذاتی اغراض پر مبنی گروہوں (مثلا استادوں کا گروہ، ڈاکٹروں کے حقوق کی تنظیم وغیرہ) کی عمومیت سے تشکیل پاتی ہے
- مارکیٹ کی کامیابی کا راز فرد کے اکیلے ہونے میں ہے، مارکیٹ سے مراد تعلقات کی وہ ترتیب ہے جس کا مقصد حصول اغراض ہوتا ہے۔ مارکیٹ اپنی وضع میں “اخراج” (exclusion) کا نظام ہے، یہ صرف ان لوگوں کو اپنے اندر سموتی ہے جو بطور صارف اور آجر “ایفیشنٹ ” ہوں اور یہ معاشرے کا ایک قلیل حصہ ہوا کرتے ہیں
- اب جنہیں مارکیٹ نے نکال باھر پھینکا ان کا والی وارث کون ہے؟ جواب ہے سرمایہ دارانہ ریاست (مگر اس کے پاس بڑی آبادیوں کو سنبھالنے کے وسائل نہیں ہوتے) اور این جی اوز۔ این جی اوز کا کام مارکیٹ کے گند کی صفائی ہے تاکہ فرد کو محسوس ہو کہ چلو اگر سسٹم میں ظلم ہورہا ہے تو کوئی اسے سمیٹ بھی رہا ہے
- مارکیٹ نظم میں ذاتی اغراض پر مبنی گروہوں کے سواء کوئی دوسری اجتماعیت (مثلا ھندومت، اسلام پر مبنی معاشرت) پنپ نہیں سکتی، اس کی وجہ یہ ہے کہ مارکیٹ “سیلف انٹرسٹ” (آزادی یعنی سرمائے کی جدوجہد) کو فروغ دے کر قائم کی جاتی ہے اور سیلف انٹرسٹ کا فروغ ہر قسم کے مقصد کے فروغ کا ذریعہ نہیں بن سکتا۔ ہر وہ رکاوٹ جو سیلف انٹرسٹ کی مخصوص تشریح کے خلاف ہو، سرمایہ دارانہ ریاست بذریعہ قوت اسے ختم کرتی چلی جاتی ہے
- تو اب ہمارے یہاں بھی یہ سب کچھ آرہا ہے، ڈے کئیر سینٹر، اولڈ ھاؤس، ھسپتالوں میں خودکار مریض مینیجمنٹ سسٹم، ریسکیو وغیرہ کے ادارے
3) ذات کی سطح پر
- ذات کی سطح پر اثرات کا سب سے بڑا ذریعہ “شناخت” کی تبدیلی ہے، یعنی یہ کہ میں خود کو “مسلمان” کے بجائے “ھیومن” سمجھوں
- شاخت کی اس تبدیلی کے لئے لازم ہے ہے کہ علمیاتی تناظر کو تبدیل کیا جائے، جس کا اظہار ہمارے یہاں متعدد صورتوں میں ہورہا ہے۔ مثلا یہ کہ شریعت پر گفتگو کرتے ہوئے “دوسری” اصطلاح (“عدل”، “فطرت”، “عقل”) کا استعمال۔ اس علمیاتی تناظر میں حق کے معاملے میں اسلام ایک فریق ٹھرتا ہے جسے اسلام سے باھر موجود منصفی کے کسی پیمانے پر جانچا جاتا ہے۔ اسکی ایک اور مثال ہر جدید چیز کی “اسلامائزیشن” کا فروغ ہے
- شناخت کی تبدیلی کی دوسری صورت جسے فروغ دیا جارہا ہے وہ ہے “جنس” (اپنی روٹی خود پکاؤ”)۔ اس مقصد کے لئے لوگوں کو دو الفاظ سکھا دئیے گئے ہیں، ایک “پدرانہ معاشرہ” اور دوسرا “سوشل کنسٹرکٹ” (یعنی ہر شے کا معنی معاشرتی روابط سے متعین ہوتا ہے)۔ ان دو چیزوں کا نتیجہ یہ کہ قرآن و سنت سے ماخوذ ہر شرعی حکم ایک تاریخی چیز ٹھرتا ہے
خلاصہ یہ کہ ریاست کی سطح پر اثرات کا معنی ہے جبری تعلقات کی بنیاد و مقصد میں تبدیلی (مقاصد شرع کے حصول کے بجائے آزادی یعنی سرمائے کا حصول)، سماج کی سطح پر اثرات کا معنی بلا جبر و اکراہ قائم کئے جانے والے معاشرتی روابط کی بنیاد میں تبدیلی (محبت و صلہ رحمی کے بجائے ذاتی اغراض) اور ذات کی سطح پر اثرات کا معنی ہے عقیدے و اخلاق کی بنیاد تبدیل ہونا۔
ڈاکٹر زاہد مغل