مذہبی معاملات میں جدیدیت پسندی کا اظہار تین قسم کے رویوں میں ہوتا ہے؛
(الف) مغرب سے مرعوبیت کی بناء پر اسلامی تاریخ کی معتبر تعبیر چھوڑ کر ایک نئی تعبیر تلاش و پیش کرنا۔اس فکر کے حاملین اسلامی تاریخ اور علمیت کو مکمل طور پر رد نہیں کرتے، لیکن جدید دور میں پائے جانے والے تمام مغربی تصورات کو خیر تسلیم کرکے اسلامی تاریخ ہی کا تسلسل گردانتے ہیں۔ کبھی وہ کہتے ہیں کہ سائنس کے اصل موجد تو مسلمان تھے نیز یہ کہ سائنس اصل میں مسلمانوں کی کھوئی ہوئی میراث ہے، کبھی ملٹی کلچرازم (Multi-Culturalism) یعنی کثیر معاشرتی نظام کو مدنی معاشرے میں تلاش کیا جاتا ہے، امام ابوحنیفہؒ کی ذات میں موجودہ بینکاری نظام کا بانی دکھایا جاتا ہے، معتزلہ کو بھی اسلامی تاریخ کا ایک اہم گروہ بنا کر دکھایا جاتا ہے نیز ان کی شکست کو امتِ مسلمہ کے جمود کا شاخسانہ قراردیا جاتا ہے، جمہوریت کو بھی اسلام کا ہی عطیہ قرار دیا جاتا ہے،وغیرہ وغیرہ۔ المختصر دورِ جدید میں مقبولِ عام ہر جاہلانہ تصور کو کسی نہ کسی طرح اسلامی تاریخ سے جوڑ دینے میں ہی اسلام کی بقا سمجھی جاتی ہے۔ اس رویے کی سب سے بہترین عکاسی علامہ اقبالؒ کے خطبات میں ملتی ہے، اس طبقے کو ہم Revisionist طبقہ کہہ سکتے ہیں،جن کا اصل ہدف مغرب کی اسلام کاری (Islamization of West) ہے۔
(ب) جدیدیت زیادہ بگڑی ہوئی شکل میں اپنا اظہار اس دعوے کے ساتھ کرتی ہے کہ آج تک کوئی بھی شخص اسلام کو صحیح طور پر سمجھ نہیں سکا، اور میں وہ پہلا انسان ہوں جس پر اسلام کی اصل حقیقت کھل کر سامنے آئی ہئ،لہٰذا سب لوگوں پر لازم ہے کہ 1400 سال کے اجماعِ امت کو زمین بوس کرکے میری پیروی کریں۔ اس رویے کی ایک شکل یہ دعویٰ بھی کرتی ہے کہ اسلاف نے اپنے وقت کے تقاضوں کے مطابق اسلام کی ایسی تشریح کی تھی جو ان کی معاشرتی ضروریات پوری کرتی تھی،اور چونکہ اب حالات بدل گئے ہیں لہٰذا ہمیں اپنے دور کے مطابق اسلام کی نئی تعبیر و تشریح وضع کرنی چاہیے کیونکہ پرانی تعبیر اب قابلِ عمل نہیں رہی۔برصغیر میں اس فکر کے بانی سرسید احمدخان تھے۔ اس فکر نے اپنا اظہار مختلف النوع قسم کی گمراہیوں کی شکل میں کیا۔ یہ طبقہ جمہوریت سے مرعوبیت کی بناء پر کبھی ملوکیت کو تمام برائیوں کا منبع فرض کرکے پوری اسلامی تاریخ پر خطِ تنسیخ پھیر دیتا ہے، اور کبھی خلافت کو جمہوریت کے ہم معنیٰ قرار دے کر حضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر تعن و تشنیع کے تیر برساتا ہے۔ جب دلائل تلاش کرنے کی بات آئی تو اس کے لئے قرآنی آیات اور احادیث کی دور از کار تاویلات سے لے کر ہر گری پڑی تاریخی شہادت اور واقعے سے بھی گریز نہیں کیا گیا،کیونکہ جب معاملہ بے اصولی تاویلات کا ہی ٹھہرا،تو پھر جمہوریت ہی کیا کوئی بھی نظریہ قرآن سے ثابت کیا جاسکتا ہے۔ یار لوگوں نے تو ڈارون اور کائنات کی ابتداء کے سائنسی نظریات سے لے کر مارکسزم، کیپٹل ازم،لبرل ازم اور سیکولرازم جیسے مذہب دشمن معاشرتی نظریات نیز ہیومن رائٹس جیسے کافران تصورات تک اسی قرآن سے ثابت کر دکھائے ہیں۔ آج کل اس فکر کے سب سے بڑے ترجمان جاوید احمد غامدی ہیں۔ اس مکتبہء فکر کا مقصد اسلام کی مغرب کاری (Westernization of Islam ) ہے۔
(ج) جدیدیت کا بدترین اظہار سیکولرازم کی صورت میں ہوتا ہے جس کے مطابق مذہب فرد کا صرف ذاتی مسئلہ قرار پاتا ہے نیز معاشرتی تشکیل اور ادارتی و ریاستی صف بندی سے اسے بے دخل کردیا جاتا ہے۔ یہ طبقہ جمہوری اقدار اور ہیومن رائٹس کے بالادستی کا دعویدار ہے۔ اس طبقے نے عام مسلمانوں کو دھوکہ دینے اور ان کی توجہ حاصل کرنے کے لئے جمہوریت جیسے ابلیسی تصورِ حیات کے حق میں اسلامی علمیت سے جھوٹی دلیلیں تراش رکھیں ہیں حالانکہ اس طبقے کو مذہب سے اصلاََ کوئی دلچسپی نہیں۔آج کل مہدی حسن، ڈاکٹر منظور احمد، ڈاکٹر مبارک علی، ڈاکٹر جاوید اقبال اور ان کے ہمنوا اکثر ٹی وی پروگراموں میں اس فکر کا پرچار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
مذہبی جدیدیت پسندوں کے اہم خصائص:
یہ تینوں طبقات درحقیقت ایک دوسرے کے مؤید و مددگار کی حیثیت سے کام کرتے ہیں اور ان سب کا اصل مسئلہ عقل کو وحی سے بالاتر یا کم از کم اس کے برابر ذریعہء علم سمجھنا ہے، اور امتِ مسلمہ کی پوری تاریخ میں اس گمراہی کے نشانات سوائے معتزلہ کے اور کسی گروہ کے ہاں نہیں ملتے۔ بغور دیکھا جائے تو جدیدیت پسندی کے تمام رویوں میں چند مشترک امور نظر آتے ہیں،مثلاََ:
1)نقلی دلائل کو اہمیت دینے کے بجائے رائے پرستی اور عقلی قیاسات کی بنیاد پر بڑے بڑے مفروضے قائم کرنا۔
2) عوام الناس میں یہ گمراہی پھیلانا کہ قرآن کی تشریح ہر شخص کرسکتا ہے،اس کے لئے کسی خاص قسم کی علمی لیاقت اور مہارت کی ضرورت نہیں۔
3)کسی نہ کسی درجہ میں حدیث کی حجیت کا انکار کرنا یا اس کی تشریعی حیثیت کم کرنا۔ سارا زور اکیلے قرآن کی طرف توجہ دلانے پر صرف کرنا۔
4) مختلف درجوں میں اسلاف پر طعن و تشنیع کے تیر برسانا اور اجماعِ امت یہاں تک کہ تعاملِ صحابہ رض کو پسِ پشت ڈال کر اسلام فہمی کا شوق رکھنا۔
5)چونکہ عوام الناس قطعی طور پر ان کے نظریات سے اباء کرتی ہے،لہٰذا اپنے نظریات کے پرچار اور تسلط کے لئے ریاست کی سرپرستی میں کام کرنا (معتزلہ کی پوری تاریخ اس کا منہ بولتا ثبوت ہے،اسی طرح جدید ترکی کی تاریخ اور آج کل پاکستان کے جدیدیت پسند طبقے کے حالات بھی سب لوگوں کے سامنے ہیں۔)
6)اسلام کے خود ساختہ فلسفے پر محض خوش نما تقاریر کرنے کا شوق رکھنا،لیکن احکاماتِ شریعت کی دائمی پابندی، تقویٰ،عشقِ رسول ﷺ اور عزیمت جیسی صفاتِ عالیہ سے کوسوں دور ہونا۔
مذہبی جدیدیت پسندوں کے مقاصد:
درحقیقت جدیدیت پسندوں کے نظریات مان لینے کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ پوری امتِ مسلمہ چودہ سو سال تک اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی شریعت کے ایک ایسے حکم کی خلاف ورزی کرتے رہے جس پر عمل کرنا اس کا اجتماعی فریضہ تھا۔ نتیجتاََ امتِ مسلمہ کا فریضہ قرار پایا کہ نہ صرف یہ کہ وہ فوراََ اپنی اس غلطی کا اعتراف کرکے اس خاص نوع کے نظامِ حکومت کی حقانیت پر قرآن و سنت سے دلائل جمع کردے،بلکہ ساتھ ہی ساتھ امتِ مسلمہ کے تمام آئمہ مفسرین،محدثین، مجتہدین اور اولیاء کرام کی مغفرت کی دعا بھی کرے کہ جن کے غلط طرزِ عمل اور سستی کی وجہ سے امتِ مسلمہ ایک عظیم الشان دینی فریضے کی ادائیگی سے غافل پڑی رہی۔یہ تمام رویے مرعوبیت اور انگریز کی ذہنی و فکری غلامی کا شاخسانہ ہیں جو برصغیر کے مسلمانوں کو ورثے میں ملی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فقہاء کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے جنہوں نے کسی بیرونی نظام ہائے علم سے متاثر ہوئے بغیر ہی فقہ اسلامی کی وہ بلند وبالا اور عظیم الشان عمارت تعمیر کردی کہ جسے دیکھ کر آج بھی گردنیں فخر سے بلند ہوجاتی ہے۔ جب یہ لوگ دیکھتے ہیں کہ امتِ مسلمہ ان کے باطل نظریات کو تسلیم کرنے سے گریزاں ہے تو بجائے اپنی اصلاح کرنے کے آئمہ اور اکابرینِ امت پر الزام تراشی کرنے لگتے ہیں۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ فقہ کا عظیم الشان ذخیرہ یونانیوں اور رومیوں سے مستعار ہے، کبھی یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ ساری فقہ دورِ ملوکیت کی پیداوار اور غلام ہے۔اور اگر اس سے بھی دل کا غبار نہ نکلے تو کہہ دیا جاتا ہے کہ اسلام کی اصل تعلیمات عجمی سازش کی آمیزش کا شکار ہو کر رہ گئیں (نعوذ باللہ من تلک الھفوات)۔ ان تمام دعوؤں کے لئے نہ تو کسی عقلی دلیل اور نہ ہی کسی نقلی شہادت کی ضرورت پڑی،بس ادھر ادھر کے چند واقعات کو توڑ موڑ کر نیتجےنکال لئے گئے ہیں۔ حق بات یہ ہے کہ یہ گروہ جتنے بھی دعوے اور تاویلات پیش کرتا ہے وہ دلیل سے زیادہ محربی اور اسلامی فکر سے لاعلمی کی عکاسی کرتے ہیں۔
ڈاکٹر زاہد مغل