ہمارے جدیدیت پسندوں کا ایک مسئلہ ہر مغربی تصور کو بغیر سمجھے ہی اسے اسلامی تاریخ میں تلاش کرنے اور اسلام پر چسپاں کرنے کا جنون ہے، چاہے اس جنون کی تسکین کے لئے انہیں کتنی لغو تاویلات کیوں نہ کرنا پڑے۔ یہ بات ہر ذی علم شخص جانتا ہے کہ کسی علمیت سے نکلنے والی اصطلاحات کا نہ تو ترجمہ ممکن ہوتا ہے اور نہ ہی اس اصطلاح کو اس کے تاریخی اور علمی پس منظر کے بغیر سمجھنا ممکن ہوتا ہے۔ بہت ظلم کرتا ہے وہ شخص جو اصطلاحات کو اس کے اصل پسِ منظر سے ہٹا کر اسے اپنے من مانے مفہوم پہنا کر استعمال کرتا ہے۔ مثلا جب لفظ Enlightenment کی بات نکلی تو بعض ‘اہلِ علم’ نے کہا کہ جناب یہ تو بہت اچھی چیز ہے۔ جب پوچھا گیا کیسے، تو جواب ملا کہ دیکھئے اس لفظ کا مطلب ہے ‘روشن خیالی’ اور لفظ ‘روشن’ اور ‘خیال’ دونوں ہی اچھے معنوں میں استعمال ہوتے ہیں، لہٰذا ثابت ہو کہ Enlightenment اچھی چیز ہے۔ اس قسم کے افکار کی بہترین عکاسی دیکھنا مقصود ہو تو ڈاکٹر فاروق خان صاحب ( غامدی مکتبہ فکر کے مبلغ) کی کتب (مثلاََ ‘جدید ذہن کے شبہات اور اسلام کا جواب’) ملاحظہ فرمائیں جنہیں پڑھ کر ندازہ ہوتا ہے کہ موصوف کو جدید ذہن کی مبادیات سے واقفیت ہوئے بغیر ہی ان کے سوالات کے جوابات دینے کی فکر انہیں دامن گیر ہو چلی ہے۔ اس طرح لفظ روشن خیالی پر ڈاکٹرشکیل اوج کا ایک ‘فکری و تحقیقی’ مضمون نظر سے گزرا، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس کے چند اقتباسات یہاں تقل کرکے قارئین کو دکھایا جائے کہ ہمارے مفکرین ( جو اسلاف پر تنقید کرنے میں کوئی دقیقہ نہیں اٹھا چھوڑتے) مغربی اصطلاحات کو اسلامیانے کے لئے کیسا غیر علمی طرزِ عمل اختیار کرتے ہیں۔ چنانچہ موصوف اپنے مضمون کی ابتداء اس بلند و بانگ دعوے سے فرماتے ہیں: “یہ حقیقت ہے کہ جو معاشرہ وحی الہٰی کی روشنی میں تشکیل پاتا ہے وہ ایک روشن خیال اور اعتدال پسند معاشرہ ہوتا ہے۔ حضورِ ختمی مرتبت ﷺ نے اپنے کردار و عمل کے ذریعے اتباعِ وحی میں بالفعل ایسا ہی معاشرہ تشکیل دیا تھا”۔ اب اس روشن خیالی کی تشریح بھی موصوف کی اپنی ہی زبانی سنیے، ذرا آگے چل کر روشن خیالی کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
” روشن خیال فارسی زبان کا لفظ ہے، روشن کے معنی ہیں تاباں، منور، درخشاں، نیز صاف واضح اور عیاں ( علمی لغت) اور خیال کے ساتھ ‘روشن’ کی اضافت کے ساتھ اس کا مطلب ہوا واضح، صاف اور منور خیال”۔ (التفسیر سہ ماہی، اپریل/مئی/جون، 2005ء، ص3-4)
اب اس تحقیق کو لطیفہ نہ کہیں تو اور کیا کہیں؟ ایسا ہی ایک اور علمی شگوفہ وحیدالدین خان صاحب کے اعلیٰ افکار سے بھی سنتے چلیے ۔ موصوف لکھتے ہیں:
“موجودہ زمانے کے اسلام پسند لوگ سیکولرازم کو اسلام دشمن نظریہ سمجھتے ہیں اور غیر ضروری طور پر اس کی مخالفت کرتے ہیں، حالانکہ یہ عین صلحِ حدیبیہ کے مثل ایک واقعہ ہے ۔ یہ صورتِ حال گویا ابدی صلحِ حدیبیہ ہے۔” (الرسالہ، فروری 1990؛ ص 41)
ہم کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص لفظ ‘سنت’ کے اسلامی تصور کے بجائے فرض کریں کہ اس کے لغوی معنیٰ کو بنیاد بنا کر اپنی طرف سے کوئی مفہوم متعین کرکے عام گفتگو میں اسے استعمال کرنے لگے تو کیا یہ بات علمی دیانت کے خلاف نہ ہوگی؟ اسی طرح فرض کریں کہ کوئی شخص اسلامی اصطلاح ‘اصول فقہ’ کا ترجمہ سمجھ بوجھ کے اصول (کیونکہ اردو میں فقہ کا لغوی معنیٰ سمجھ بوجھ وغیرہ ہیں) یا انگریزی میں Rules of Understanding کرلے اور پھر اسے سائنس کے طریقہء علم پر یہ کہہ کر چسپاں کرنے لگے کہ دیکھو اس کے بھی تو Rules of Understanding یعنی سمجھ بوجھ کے اصول ہیں تو کیسا رہے گا؟ اس رویے کی سب سے واضح مثال دیکھنا ہو تو بیجارے لفظ “جہاد” کے ساتھ ہونے والے سلوک کو دیکھئے۔ اس لفظ کو ( جو درحقیقت ایک خاص اسلامی اصطلاح ہے) اس کے اصطلاحی مفہوم سے ہٹا کر اس کے لغوی معنی (جدوجہد کرنا) کی بنیاد پر کہاں کہاں استعمال نہیں کیا جاتا: مہنگائی کے خلاف جہاد، بیروزگاری کے خلاف جہاد، جہالت کے خلاف جہاد، یہاں تک کہ مچھر، ملیریا اور پولیو کے خلاف بھی جہاد وغیرہ۔ اور تو اور آج کل تو گانے بجانے والے میراثیوں کی کمائی سے بیماریوں اور غربت وغیرہ کے خلاف جہاد شروع کررکھا ہے۔
ہر ایک شخص سمجھ سکتا ہے کہ یہ ایک انتہائی غیر علمی اور خطرناک حرکت ہے، مگر یہی وہ حرکت ہے جسے ہمارے مفکرین حضرات ایک عرصے سے دہراتے چلے آرہے ہیں۔ کسی اصطلاح کی تاریخی اور علمی تحقیق کیے بغیر ہی اس کا ترجمہ کرکے اس کے بارے میں ایک خود ساختہ تصور قائم کرلیتے ہیں اور پھر اس فرضی مفہوم کو بنیاد بنا کر کسی نہ کسی طرح سے اسے اسلام سے ثابت کر دکھایا جاتا ہے، اور ایسا کرتے وقت یہ سوچنے کی بھی زحمت گوارا نہیں کی جاتی کہ اسلام میں اس مغربی پیوند کاری کی ضرب اسلام کی کن کن تعلیمات کو کالعدم قرار دے گی۔ یہ بات جتنی اہم ہے ہمارا اہلِ علم طبقہ اس سے اتنی ہی غفلت برتتا ہے، لہٰذا ہم اس نقطے کی اہمیت واضح کرنے کے لئے پہلے لفظ ‘فقہ’ کی مثال لیتے ہیں ۔ ‘فقہ’ اور ‘اصولِ فقہ’ محض عربی بان کے الفاظ ہی نہیں بلکہ اسلامی علمیت سے نکلنے والی اصطلاحات ہیں اور کسی بھی دوسری زبا ن میں ان کا ترجمہ کرنے سے ان کے معنیٰ کی وہ وسعت و جامعیت جاتی رہتی ہے جو ان الفاظ میں پائی جاتی ہے۔ مثلاََ عام طور پر فقہ کی تعبیر اردو زبان میں لفظ ‘قانون’ اور انگریزی میں (Law) کے لفظ سے کی جاتی ہے۔ مگر یہ تعبیر انتہائی ناقص ہے کیونکہ عام طور پر قانون اس ضابطے کو کہتے ہیں جو کسی حکمران نے مقرر کیا ہو اور عدالتیں اپنے مقدمات کا فیصلہ ان ضوابط کے مطابق کرتی ہوں۔ دوسرے لفظوں میں ایسے سرکاری ضابطے کو قانون کہتے ہیں جو عدالت کے ذریعے حکومت کی منظوری سے نافذ ہو۔ اس کے مقابلے میں فقہ کا تعلق انسانی زندگی کی پیدائش سے لیکر موت تک کی جانے والی ہر ارادی سرگرمی سے ہے، جس میں طہارت اور بستر پر آرام کرنے سے لے کر جرم و سزا نیز ریاست و جہاد کے مسائل شامل ہیں۔ الغرض یہ کہ انسانی ندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جو فقہ کے دائرہء عمل میں نہ آتا ہو، اس کے مقابلے میں قانون کے دائرے میں ہماری روزمرہ زندگیوں کا بہت تھوڑا سا حصہ آتا ہے ( اور وہ بھی تب کہ جب عدالتوں اور کچہریوں میں جانے کی نوبت آئے) ، جس سے معلوم ہوا کہ جس چیز کو قانون یا Law کہتے ہیں وہ درحقیقت فقہ کے کثیر ابواب میں سے ایک چھوٹا باب ہے۔ چنانچہ فقہ کے لئے قانون یا Law کا لفظ استعمال کرنا ایک محدود شے کو ایک لامحدود پر منطبق کرنے کے مترادف ہے (مزید تفصیل کے لئے دیکھئے، ڈاکٹر محمود احمد غازی؛ محاضرات فقہ؛ ص 39، 40)۔
اس مثال سے یہ واضح کرنا مقصود تھا کہ ایک اصطلاح کا کسی دوسری زبان میں میں لغوی ترجمہ کرکے اس کا مفہوم متعین کرنا تو ایک طرف، کسی دوسری زبان میں اس کے اصطلاحی مفہوم کا ترجمہ اور تعبیر بیان کرنا بھی ایک غیر دانشمندانہ علمی رویہ ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی اصطلاح کے معنی ایک تہذیب کی علمی تاریخ گزرنے کے بعد متعین ہوتے ہیں اور کسی د وسری زبان میں اس کا ترجمہ یا مفہوم بیان کرنے سے اس کی علمی تاریخ و معنی، نیز اس تہذیب میں اس کا کردار وغیرہ پسِ پردہ چلے جاتے ہیں ۔
ڈاکٹر زاہد مغل