شریعت اور عقل کا مسئلہ امت کی تاریخ میں بڑی مدت سے باعث نزاع رہا ہے۔ اس مسئلے میں ایک انتہا یہ رہی ہے کہ شرعی احکامات میں کسی حکمت کا قطعاً کوئی عمل دخل نہیں ہے اور یہ صرف ایک اضافی چیز ہے۔ جبکہ دوسرا طبقہ اس نظریہ کا حامل ہے کہ شریعت کا ہر ہر حکم واضح طور پر انسان کی جسمانی اور نفسیاتی فطرت اور اس کی عقل سے نہ صرف مطابقت رکھتا ہے بلکہ ایسا ثابت کر کے بھی دکھایا جاسکتا ہے۔ جبکہ ہم اہل علم کو بھی عمومی طور پر یہی کہتا ہوا پاتے ہیں کہ شرعی احکامات صرف آزمائش کے لیے ہی نہیں ہیں بلکہ اس پر عمل کرنے میں دنیاوی اعتبار سے بھی بہت بڑی خیر موجود ہے۔ تو پھر اِس موضوع پر میانہ روی کا منہج ہے کیا؟
موجودہ دور ایک اعتبارسے ذہنی آزادی کا دور ہے اور اطلاعات اور مواصلات کے ذرائع کی ارزانی و فراوانی کی وجہ سے یہ ذہنی آزادی ایک طرح قابو سے باہر ہے۔ حق تو یہ ہے کہ ایک بار کسی شخص نے محمدﷺ کو اللہ کا رسول مان لیا تو پھر اس کے لیے اسلام کے ہر ہر منصوص حکم کو بلا عقلی دلیل کے تسلیم کرتے چلے جانا لازمی ہے اور عین تقاضائے ایمان۔ لیکن دعوت کے سلسلے میں ایک چیلنج اس وقت نبیﷺ کی نبوت کو ثابت کرنا بھی ہے۔ نبوت کو ثابت کرنے کے لیے ایک طریقہ کاریہ اختیار کیا گیا ہے کہ شریعت کو عین انسانی فطرت اور عقل کے مطابق ثابت کرنے کی کوشش کی جائے۔ بہ الفاظ دیگر یہ ثابت کردیا جائے کہ اسلام اور موجودہ دور کی سائنسی دریافتوں میں کمال کی مطابقت پائی جاتی ہے۔ امت کے کچھ قابل قدر مبلغین نے قرآن کے بیان کردہ کائناتی حقائق اورجدید سائنسی دریافتوں کے درمیان مطابقت ثابت کرنے کی کافی حد تک کامیاب کوشش کی ہے۔ اصولی طور پر یہ بات غلط بھی نہیں ہے۔ اگرچہ سائنس قرآن کا اصل موضوع نہیں ہے لیکن جب خالق کائنات کے بیان میں کوئی چیز ضمناً ہی آ جائے تو وہ مطلق حق ہے جس میں غلطی ہو ہی نہیں سکتی۔ البتہ اس وقت یہ ہمارا موضوع نہیں ہے۔ یہاں پرہمارا مقصود ان کوششوں کو دیکھنا ہے جن میں شریعت کے احکامات کو انسانی عقل کی کسوٹی پر پرکھ کر دکھایا گیا ہے؛ جن کے اندر یہ ثابت کیا گیا ہے کہ شرعی احکامات پر عمل کرنے سے دنیاوی زندگی میں انسان کو کیا کیا فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اسلام ذہنی عمل کے معاملے میں- مخصوص حدود کے اندر رہتے ہوئے- انسانی آزادی کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور اپنے ماننے والوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ غور و فکر کرکے اسلام کو شعوری طور پر قبول کریں۔ نیز یہی چیز ایک غیر مسلم کے اسلام کو قبول کرنے میں مددگار ہوسکتی ہے۔ اسلام شعوری طور پر قبول کرنے میں اور اسلام ورثے میں پانے میں بڑا فرق ہے۔
اس سلسلے میں اس سے بھی بڑی پیچیدگی ایک اور ہے جو کہ دراصل اس وقت ہمارا موضوع ہے۔اس طرزِ تحقیق میں یہ مان کر چلا جاتا ہے کہ گویا پورا کا پورا انسانی فہم بس حیاتیات، علم طب، علم کیمیا یا فزکس تک محصور ہے، بلکہ یہ کہ پوری حقیقت ہی انسانی فہم و تحقیق کے اِن میدانوں کے اندر محصور ہے لہٰذا نماز کے فوائد بھی ہوں تو ان کی تلاش یا تو حیاتیات کے علم کے معیار پر ہو، یا کیمیا یا فیزکس یا ایسے ہی کسی اور میدان کے اندر…وہ چیزیں جوعبادات اور مناسک سے متعلق ہیں ان کی تحقیق کے لیے بھی نظریں انہی علوم کی طرف اٹھتی ہیں اور جو اس سلسلے میں اطمینان قلب کے حصول کا طالب ہے وہ بھی یہی سمجھتا ہے کہ اس سلسلے میں اطمینان قلب کے لیے اس کو طبی طور پر ثابت ہونا ضروری ہے۔ آئے روز اس طرح کے مضامین نظروں سے گزرتے رہتے ہیں کہ نماز، روزہ، وضو وغیرہ سے کیا کیا طبی فائدے حاصل ہوتے ہیں۔ قطع نظر اس سے کہ یہ تحقیق کتنی صحیح ہے۔ اس طرح کی تحقیق میں بعض اوقات بڑی پیچیدگی پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کی کچھ مثالیں یہاں پر دی جا رہی ہیں۔
(۱)انٹرنیٹ سے ایس ایم ایس تک ایسے چرچے سنے جائیں گے کہ مثلاً اسلامی طریقے پر ذبح کرنے سے جانور کا گوشت خون سے بالکل پاک اور صحت کے لیے انتہائی مفید ہوتاہے، جس میں بین السطور کہا گیا ہوتا ہے کہ: تو پھر اب تو طب نے بھی ثابت کر دیا کہ اسلام برحق ہے…!
ہمارے خیال میں یہ دعویٰ کہ اسلامی طریقے پر ذبح کرنے سے جانور کا گوشت خون سے بالکل پاک اور صحت کے لیے انتہائی مفید ہوتاہے اگر چہ نہایت قرین صواب ہے لیکن اس کے ساتھ کچھ سوالات ضرور پیدا ہوتے ہیں جس کا خالص طبی یا حیاتیاتی جواب ممکن نہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص ذبح کرنے کے لیے پوری کی پوری ٹیکنیک اسلامی اختیار کرے لیکن اللہ کے نام کے بغیر کسی اور نام پر ذبح کرے تو پھر وہ گوشت کیوں حرام ہوجاتاہے؟ اگر فیصلہ علم طب سے اور طبی معیاروں پر لیا جانا ہے تو غیر اللہ کے نام پر ذبح کیے جانے والے جانور کے حرام ہونے کی کچھ” طبی“ وجوہات کا بھی تو ذکر ہو…!
اس کی ایک مثال وضو کے” طبی فوائد“ بیان کرنے سے بھی دی جا سکتی ہے۔ اگر صحیح طریقے پر وضو کرنے کے طبی فوائد ہیں تو پھر ہر نماز کے لیے علیحدہ وضو کرنا کیوں ضروری ہے؟ یہ کیوں ہے کہ بیت الخلاء جاکر آنے سے وضو ٹوٹ جاتاہے؟ ایسا کیا ہے کہ جوطبی فائدہ موجود تھا وہ بیت الخلاء ہوکر آنے سے یا ہوا کے خارج ہو جانے سے ایک دم مفقود ہو گیا؟
یہ پورا مسئلہ اس لیے کھڑا ہوا ہے کہ کسی چیز کی”عقلی توجیہ“ کا مطلب ہی غلط سمجھ لیا گیا ہے۔ چونکہ موجودہ دور میں عقلی توجیہات کا علم ایجاد ہی اس لیے کیا گیا ہے کہ مغرب سے درآمد شدہ تنقید کا سامنا کیا جائے اس لیے اس طریقہٴ تحقیق میں بھی وہی کمزوریاں درآئی ہیں جو مغربی طرز تنقید میں موجودہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ عبادات اور مناسک میں صرف طبی توجیہات کی جستجو کرنا انتہا درجے کی کم نظری اور سطحیت ہے۔ کیا واقعی کسی چیز کی عقلی تائید کے لیے صرف علم طب میں اس کے فوائد ڈھونڈنا ایک صحیح معیار ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ سطحیت مغرب سے برآمد ہر چیز کی خاصیت ہے۔ چاہے وہ جمہوریت ہو، آزادی رائے ہو یا نظامِ سرمایہ داری۔(مقصود مغرب کی تحقیق یا ذہانت کی نفی نہیں ہے بلکہ مرادیہ ہے کہ عموماً جب کسی چیز کی اہمیت معلوم کی جاتی ہے تو اس طرح کا انداز اختیار کیا جاتا ہے کہ بس یہی ہے اور باقی کوئی بھی چیز اہمیت نہیں رکھتی۔ مارکس نے انسانی اجتماعیت پر معاشی اثرات کا مطالعہ کیا تو یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ہر چیز حتیٰ کہ مذہب بھی معاشی کشمکش اور تغیر کا نتیجہ ہے۔ گویا کہ معیشت کے علاوہ انسانی سماج پر اثرانداز ہونے والا اور کوئی عنصر ہے ہی نہیں۔ یہی حشر فرائڈ نے انسانی طبیعت میں کارفرما ”جنسی ترغیب“ کے ساتھ کیا)۔
کچھ اسی طرح کی غلطی اسلام کے ابتدائی دور میں-علمائے سلف کی تنبیہات کے علی الرغم- اُن مسلمانوں سے ہوئی تھی جنہوں نے یونانی علوم کا عربی میں ترجمہ کر کے یورپ سے درآمد کر کے مسلم دنیا میں پھیلایا۔ ان علوم میں ایک طرف علم طبعیات، حیاتیات اور علم ریاضی کو برآمد کیا گیا تو دوسری طرف اِلٰہیات بھی اس کے ساتھ ساتھ آگیا، جس کا”اسلامی ورژن“ بالآخر”علم الکلام“کہلایا۔ اُن مسلمانوں سے جو سلف صالحین کے اصولوں کو نظرانداز کر بیٹھے تھے، اس وقت بھی وہی غلطی ہوئی جو اب ہو رہی ہے۔ البتہ اُس و قت محققین کا ہدف چونکہ اسلامی ایمانیات اور اللہ کی صفات کا تھا اس لیے معاملہ زیادہ سنگین تھا۔
طبعی علوم و سماجی علوم میں فرق:
ایک قسم کا علم وہ ہوتا ہے جس کی تحقیق تجربات اور مشاہدات کے ذریعے سے ممکن ہو اور دوسری قسم کا علم وہ ہے جس میں اصل حصہ ظن و تخمین کا ہی ہوتا ہے۔ان دونوں قسم کے علوم میں فرق نہ کرنے کی وجہ سے مسلمانوں میں عقل اور نقل کے سلسلے میں ایک معرکہ برپاہو گیا۔ نتیجتاً مسلمانوں میں معتزلہ کا فرقہ پیدا ہوا جس کی وجہ سے علمائے اہل سنّت کو طرح طرح کی ابتلاء و آزمائش سے گزرنا پڑا۔
یہاں پر یہ بات واضح رہے کہ موجودہ دور میں سائنس کا لفظ تقریبا ً تحقیق یا علم کے ہم معنی ہے۔یہاں تک کہ انگریزی کے اسلامی لٹریچر میں جرح و تعدیل اور اسماء الرجال کے علم کو بھی سائنس سے تعبیر کیا جاتا ہے۔چونکہ مغرب میں یہ بات بہت پہلے ہی سمجھ لی گئی تھی کہ علمی تحقیق میں ہرچیز کا مطالعہ مشاہدات اور تجربات سے کرنا قطعاً ناممکن ہے اسی بنا پر سائنس کو دو انواع میں منقسم کیا گیا ہے:
1۔ طبعی سائنس (Natural science): اس سے مراد فطرت کے ان حقائق کا علم حاصل کرنا ہے جس کی تحقیق مشاہدات اور تجربات سے کی جاسکتی ہے۔اس سائنس کا تعلق ان فطری قواعد اور کلیوں سے ہے جس کے تحت مادہ (Matter) اور قوت (Energy) تعامل کرتے ہیں۔اس زمرے کے تحت طبعیات (Physics)، کیمیا(Chemistry)، حیاتیات (Biology) وغیرہ آتے ہیں۔
2۔ سماجی سائنس (Social science): اس سے مراد علم و تحقیق کا وہ میدان ہے جس میں انسان کے انفرادی اور اجتماعی مزاج اور برتاوٴ اور اُس سے منتج صورتحال کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس قسم کی تحقیقات میں ظن و تخمین اور قیاسات کے بغیر ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھا جاسکتا۔ یہاں پر اگر آپ تجربات کرنا چاہیں تو کئی نسلوں کے بعد مشکل سے کوئی نتیجہ اخذ ہوسکتا ہے۔ ان علوم میں علم نفسیات (Psychology)، عمرانیات (Sociology)، معاشیات (Economy) ، علم بشریات (Anthropology) وغیرہ آتے ہیں۔
اب ظاہر ہے کہ سائنسی تحقیق کو ان دو حصوں میں تقسیم کرنے کا مقصد یہی تو ہے کہ سماجی سائنس کے معاملے میں دو اور دو چار کے طرح اصول وضع کرنا ناممکن ہے۔ یہ علوم ایک طرح سے سائنس میں استثناء کی حیثیت رکھتے ہیں۔اور یہ علوم ہیں بھی درحقیقت استثناء کے لیے۔ ان علوم میں جو بھی اصول وضع کیے جائیں گے اس کی حیثیت بہرحال تجرباتی ہوگی۔ دراصل یہ علوم انسان کی کم علمی اور بے بسی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ انسانی فطرت انتہائی پیچیدہ ہے اور اس پیچیدہ فطرت کے انسان کے لیے خوداپنی فطرت کا مکمل ادراک کرنا قطعاً ممکن نہیں ہے۔ موجودہ دور کی نسبت سے آپ یہ کہہ سکتے ہیں اس دنیا میں سرمایہ داری کا جو تجربہ کیا گیا تھا اب جا کر اس کا کچھ کچھ نتیجہ معلوم پڑ رہا ہے اور وہ بھی بالکل واضح نہیں ہے۔جو اس تجربے کو غلط کہہ رہے ہیں وہ بھی اس میں اصل غلطی کی نشاندہی کرنے سے قاصر ہیں اور آ جا کر اس وحی کی حامل امت بچی جو اس سلسلے میں کچھ کہنے کی پوزیشن میں ہے لیکن یہ امت بھی اگر سنانے سے زیادہ سننے لگ گئی ہو اور سننے بھی وحی کو نہیں(الذین یستمعون القول فیتبعون اَحسنہ) بلکہ وحی سے جاہل قوموں کو، تو پھر باقی کیا رہ جاتا ہے؟ ہاں سنانے والے ہیں مگر سننے والوں نے اگر کانوں میں انگلیاں ٹھونس رکھی ہوں تو کوئی کیا کرسکتا ہے۔
شریعت میں جو اسلامی احکام دیے جاتے ہیں وہ ظاہرہے کہ انسانوں کے لیے ہی دیے جاتے ہیں اور انسان کوئی مشین یا بے جان چیز تو نہیں۔ جب کسی شرعی احکام کی حکمت معلوم کرنے کی کوشش کی جاتی تو یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ انسان صرف گوشت اور ہڈیوں کا مجموعہ ہی نہیں بلکہ ایک روحانی مخلوق بھی ہے اور نفسیاتی لحاظ سے دنیا کی پیچیدہ ترین ہستی بھی۔
ان محققین کے سلسلے میں یہ ایک عجیب معمہ ہے کہ مغرب جس کو مطمئن کرنے کے لیے یہ سب تحقیق کی جاتی ہے وہ تو ہار مان کر سماجی سائنس (social science) کو کب کا منظوری دے چکا ہے بلکہ اس کا داعی بن چکا ہے اور ہمارے مسلمان محققین ابھی تک شرعی احکامات کی تشریح طبعی سائنس(Natural science) میں تلاش کر تے پھر رہے ہیں!!!
شرعی احکامات کی درست عقلی توجیہہ:
اسلام میں شرعی احکامات کے کئی مقاصد ہیں جن کا مکمل احاطہ کرنا عقلِ انسانی کے دائرہ سے باہر ہے۔اسلام صرف ایک عقیدہ و نظریہ ہی نہیں ہے جس سے صرف انفرادی عمل یا اصلاح مقصود ہو۔اسلام کا مقصدصرف ایک انسان یا کئی انسانوں کو مسلمان بنانا ہی نہیں ہے۔ بلکہ ایک امّت بنانا بھی اسلام کا ایک اہم مشن ہے۔جن معنوں ہم مسلمانوں کو ایک امّت قرار دے رہے ہیں وہ موجودہ دور کی کسی بھی اصطلاح پر بھاری ہے۔ اسلام ایک ایسی امت بنانا چاہتا ہے بلکہ بنا چکا ہے جس کا ہر اعتبارسے اپنا ایک نظریہ ہو، جو ایک قوم تو ہو لیکن اپنی مقامی تاریخ اور جغرافیائی قید سے آزاد ہو، جس کے اپنے مربوط اور منضبط اصول اور اقدار امت کے ہر اجتماعی اور انفرادی پہلوو ں کا احاطہ کئے ہوئے ہوں۔اس لیے حق یہ ہے کہ اسلام بحیثیت امت کے لیے تمدن(civilization) کا لفظ بھی ہلکا پڑجاتا ہے۔ یہ بھی ایک بڑی حقیقت کہ اسلام کا ایک تمدن کے طور پر بعثت محمدیﷺ سے لے کر آج تک ایک تسلسل کے ساتھ ہونا کسی شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ اگرچہ اسلام جزوی طور پر مقامی روایات پر عمل کرنے کے معاملے میں کافی لچک رکھتا ہے لیکن یہ ایک قطعی الگ بحث ہے اور اس سے اسلام کے ایک مربوط،منظم، مسلسل ، دائمی اور عالمی تمدن ہونے پر کوئی حرف نہیں آتا۔
یہ تفصیل اس لیے بیان کی گئی ہے تا کہ شرعی احکامات کو عقلی توجیہ کرتے ہوئے یہ بات بھی پیش نظر ہو کہ اسلام کو ایک امت بمعنی ایک دائمی تمدن کے بنانے میں ان کا کیا رول رہا ہے۔
اگرچہ شرعی احکامات کی حکمت معلوم کرنا سماجی سائنس کے ذیل میں ہی آتا ہے لیکن اس میں ہمیں دوسرے سماجی سائنس کے مقابلہ میں ایک سہولت حاصل ہے۔ کوئی ڈیڑھ ہزار سال سے جغرافیائی حدود سے آزاد اسلامی تمدن کا وجود تاریخ کی ایک روشن ترین حقیقت ہے ۔ اس تمدن کا وجود کوئی مفروضہ، منصوبہ یا نظریہ نہیں ہے، بلکہ حال کے ساتھ ساتھ یہ اپنی ایک تاریخ بھی رکھتی ہے۔ یہ ڈیڑھ ہزار سال کی تاریخ ہمیں شریعت کی حکمتوں کو سمجھنے میں بہت کچھ معاون ہوسکتی ہے۔ اس لیے اس امت بمعنی تمدن کی تشکیل اور بنیادیں استور کرنے میں شرعی احکامات کا کیا رول رہا ہے اب اس کی تحقیق دوسرے سماجی علوم کے مقابلے میں قدرے آسان ہے۔ ہا ں یہ ضرور ہے کہ ان احکامات کے اثرات کا ہم اتنا ہی ادراک کرسکتے ہیں جتنی کہ ہمارے ذہن کی پرواز ہے۔
معاشرے میں جو بھی عبادت عملاً نافذ ہوگی اس کا طویل المیعاد اثر(Long term implication) اس تمدن پر ہوگا جس کا ادراک صرف اس شرعی مسئلے کے سطحی سائنسی مطالعے سے نہیں ہوسکتا۔جب ایک حکم نافذ ہوتا ہے اس کی کئی سماجی، نفسیاتی اور روحانی جہتیں ہوتی ہیں جن کا مکمل ادراک انسان کے لیے تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔ اس لیے اسلام کے ہر ہر احکام کی معنویت کو پوری طرح سمجھنے کے لیے اس کے اثرات کو بہت گہرائیوں سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔کیا جب کوئی حکم دیا جاتا ہے تو بات صرف اس حکم پر عمل کرنے تک رہتی ہے؟ اس خدائی حکم پر عمل کرنے کی عملی تدبیر بہرحال اس عمل کرنے والے خاکی انسان کو ہی طے کرنا پڑتی ہے۔ پھر جب معاشرے کا ایک بڑا عنصر اس پر عمل کرتا ہے تو یہ معاشرتی قدروں کی شکل ڈھال لیتا ہے۔ پھر اس پر عمل کرنے کے انسانی ذہن اور معاشرے میں کثیر الجہت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔یہ عمل جب معاشرے میں وجود پاتا ہے تو آپ سے آپ اپنے کچھ لوازمات بھی پیدا کرتا ہے جو کہ تمدن کے ہر ہر پہلو پر کسی نہ کسی طور پر اثر انداز ہوتا ہے۔
اپنی اس بات کو ہم کچھ مثالوں سے سمجھاتے ہیں۔ وضو کی حکمت معلوم کرنے کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ آپ یہ پتہ کریں کہ روزانہ پانچ بار جسم کچھ اعضاء پر پانی بہانے سے انسانی صحت اور نشونما پر کیا اثر پڑ تا ہے۔ اب ظاہر بات ہے کہ ایسا کوئی فائدہ اگر ثابت بھی کیا جائے تو وہ کتنا محدود ہوتا ہے اور اس پر کیا اعتراضات ہوسکتے ہیں۔ اب اسی وضو کے حکم کوذرا دوسرے زاوئیے سے دیکھا جائے:
ایک شخص اپنے رب کے حضور حاضر ہو رہا ہے۔وہ بے دھڑک مسجد میں جاکر نماز کے لیے کھڑا نہیں ہو رہا ہے۔ بلکہ پہلے تمام حاجتوں سے فارغ ہو کرذہنی یک سوئی حاصل کرتاہے۔ اس ذمہ داری سے عہدہ برآ ہو نے میں اس کو روزانہ کئی باراپنے آپ کو انتہائی احتیاط سے نجاست سے بچانے کی ضرورت پڑتی ہے جس کو وہ صرف اللہ کے لیے کرتا ہے لطف کی بات یہ ہے کہ مومن کا حالت طہارت میں ہونے کا راز وہ اور اُس کا خدا جانتا ہے جو بندگی کی اعلیٰ ترین کیفیت ہے۔وضو کا عمل بھی صرف اس بات سے عبارت نہیں ہے کہ بدن کو گیلا کرنا ہے، نماز کی ادائیگی کے لیے مومن اپنے آپ کو پاک کرنے کی نیت سے کچھ اعضاء پر مخصوص انداز میں پانی بہاتا ہے۔ اس پانی کے بہانے میں اس بات کا خاص خیال کرتا ہے کہ کوئی بھی حصہ جس کو ترکرنا ضروری ہے وہ خشک نہ رہنے پائے۔ اس معاملے میں اس کو چوری کرنے کے کئی مواقع ملتے ہیں جس کو صرف اللہ کے خوف کی وجہ سے نظر انداز کر دیتا ہے۔پھر جب وضوء اور نماز کا درمیانی وقفہ ہوتا ہے تو اس میں ایسے کسی بھی عمل سے اپنے کوآپ کو بچاتا ہے جس میں وضو ٹوٹ جائے۔ اس وضو کے ناقص ہونے اور نہ ہونے میں بھی صرف اللہ رب العزت اس کا رازدار ہو تا ہے۔یہ وضو کا عمل ہی ہے جس سے مسلمانوں میں پاکی اور صفائی کی نہایت اعلیٰ قدریں کتنی گہرائی سے پائی جاتی ہیں۔ مسلمان اگر نماز کا پابند ہو تو وہ اپنے آپ کو نجاستوں اور آلائشوں سے پاک رکھنے کا کتنا اہتمام کرتا ہے۔ اس کے مقابلے میں آپ مغربی تہذیب کی طرف نظر کریں،یہاں پر ناپاکی کا مطلب ہی ایسا کوئی داغ ہے جو نظر آتا ہو یا ایسی بدبو ہے جو محسوس کی جاتی ہو۔ باقی کوئی بھی چیز جو اندر ہی اندر ہو وہ پاکی ہی تصور کی جاتی ہے۔ان کے یہاں کسی انسان کا جھوٹا تو ناپاک سمجھا جاتا ہے لیکن انسان کی غلاظت بلکہ کتے کی غلاظت بھی پاک ہی ہے جب تک کہ وہ کسی معیوب صورت میں سامنے نہ آئے!
اس مستقل عمل سے انسان کے اندر پاکی کا اورناپاکی کا ایک تصور منقش ہو جاتا ہے۔ یہ ناپاکی اور پاکی کا تصور چونکہ ایک مقدس اور مقتدر ہستی کی عبادت سے جڑا ہوا ہے اس لیے انسان کی فطرت کے اندر جو تقدس کے معنی ودیعت ہیں ان کو جلا بخشتا ہے۔ اور جب نسلوں کی نسلیں اس عمل سے گذرتی ہیں تو اندازہ لگائیے کہ تقدس کا یہ احساس اس امّت کے اندر کس قدر مستحکم ہوجاتا ہے۔یہ عمل انسان کے اندر دین اور دین کے شعائر کا انتہائی احترام پیدا کرتا ہے جس کی وجہ سے وہ دین کی کسی بھی علامت کو مذاق بنانا کبھی برداشت نہیں کرسکتا۔ اور چونکہ یہ عمل نماز پڑھنے کے لیے خصوصی طور پر کیا جاتا ہے اس لیے نماز اور نماز کے متعلقات کا بھی انتہائی احترام پیدا کردیتا ہے۔
اس بات کا اندازہ لگانے کے لیے موجودہ دور کے مغربی تمدن کی طرف ایک نظر دوڑائیے، جب ان کے ہاں مذہب پر زوال آیا تو کیا کیا نہ کیا گیا؟ انہوں نے تو آزادی کا مطلب ہی یہ سمجھا کہ مذہنی شعائر کی توہین کی جائے اور اس کا مذاق اڑایا جائے۔اور اب جبکہ انہوں نے ادراک کرلیا کہ اسلام ہی ان کے لیے ایک بڑے چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے تو ان سب کی افتراء اور بد گوئیوں کا رخ اسلام کی طرف ہوگیا ہے جس کی وجہ سے عیسائیت نے یک گونہ راحت کی سانس لی ہے۔اس کے مقابلے میں دیکھیں کہ مسلمانوں پر بھی ایسا وقت گزرا ہے کہ ایک عام مسلمان اپنے دین کی عقلی توجیہہ کرنے سے قاصر رہا اس کے باوجود اس طرح کا وقت اسلام پر اپنے بد ترین دورِ زوال میں بھی نہیں گزرا۔
اسی طرح پنج وقتہ نمازوں کے بارے میں غور کیا جائے تو پتہ چلے گا کہ نماز کے اوقات کے ذریعے سے کس طرح سے مسلمانوں کی اجتماعی اور انفرادی زندگی کو مربوط اور منضبط کیا گیا ہے۔رمضان کے روزوں کے بارے میں غور کریں تو پتہ چلے گا کہ ہر سال مخصوص انداز میں ایک بے ساختہ اور غیر محسوس طریقے سے جس طرح ایک دینی ماحول قائم کیا جاتا ہے اسی سے دراصل یہ امت آج تک امت چلی آرہی ہے۔ اندازہ لگائیے کہ اگر ہر سال رمضان میں روزوں اور تراویح کی باد بہاری سے ہمارے ایمان کو تازگی بخشی نہ جاتی تو یہ روایتی مسلمان زوال کے اس دور میں کیا اپنی شناخت باقی رکھ سکتا تھا؟اگر ہر سال امت کے انفرادی اور اجتماعی انداز میں ایمان اور امت کے ساتھ وابستگی کے احساس کا احیاء نہ ہوتا تو پھر پتہ نہیں یہ امّت کیسے ہوتی۔یہ ایک ایسی عبادت ہے جونہ صرف اپنا ایک خاص بیرونی اثررکھتی ہے بلکہ ایک مو من کے اندر بھی اپنا ایک طاقتور وجود رکھتی ہے۔
اپنے عمل کرنے والے کو ایک ایسی آزمائش سے گذارتی ہے جس میں فیصد لوگ کامیاب بھی ہوتے ہیں اور اسکے روحانی اثرات سے فیضیاب بھی ہوجاتے ہیں۔ اگر یہی روزے پورے سال میں پھیلے ہوتے تو کیا یہ نتیجہ پیدا کرسکتے تھے؟ حقیقت یہ ہے مسلمانوں میں جب سے نماز کے معاملے میں غفلت آئی ہے یہ رمضان کے روزے ہی ہیں جس نے اس امّت کو ایک جٹ رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ایک باطل نظام کے اندر رہتے ہوئے نماز کا اہتمام خصوصاً انتہائی مشکل کا م ہے اس لیے امت کی پہلے سرحد نماز پر تو بہت رخنے پڑگئے لیکن یہ رمضان کے روزے ہی ہیں جس نے امت کی حفاظت میں دوسری سرحد کا کردار اداکیا۔
حج کے بارے میں غور کریں کہ ایک عالمی امت جو کہ جغرافیائی اعتبار سے پھیلی ہوئی اگر اس کا عالمی مرکز نہ ہوتا اور مسلمانوں میں اس مرکز کی طرف رجوع کرنے کا اتنا شدید داعیہ نہ ہوتا تو پھر یہ امّت کس طرح پراگندگی کا شکار ہوجاتی۔ڈیڑھ ہزار سال سے رمضان اور حج کے اہتمام کی وجہ سے اسلامی تمدن پر کیا کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں؟ ہر سال رمضان کا آنا اور جانا، روزے اور اسکا اہتمام اور اس کے لوازمات کے سماجی اثرات اور اس کو عالم اسلام میں بیک وقت منانا اپنے اعتبار سے کئی اثرات و جہتیں رکھتا ہے۔ آج اگر دنیاکے باطل نظام ”عالم اسلام“ کے وجود کو تسلیم کرتے ہیں تو بھی یہ رمضان اور حج کی ہی وجہ سے ۔
یہ جتنی بھی عبادات ہیں وہ جب معاشرے میں پائی جائیں تو وہ اپنے حد تک نہیں رہتیں بلکہ اپنے کئی لوازمات خود بخود پیدا کرتی چلی جاتی ہیں جس کی وجہ سے دین ایک محسوس اور زوردار انداز میں معاشرے میں اپنا وجود منواتا ہے۔ اور اسی وجہ سے آج یہ امّت ناقابل تردید انداز میں ایک عالمی امّت کے طور پر اپنا وجود رکھتی ہے۔
شرعی احکامات کی حکمتوں کو معلوم کرنے کا رواج آج ہی شروع نہیں ہوا ہے بلکہ بہت پہلے سے علماء اسلام اس کی طرف متوجہ ہوئے تھے کہ اسلام اپنے مزاج کے اعتبار سے ایک شعور ی ایمان کی دعوت دیتا ہے۔علمائے متاخرین میں اس حوالے سے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے حجة اللہ البالغہ میں نہایت قابل قدر کام کیا ہے۔ مسئلہ تب پیدا ہو تا ہے جب ہر حکم کی توجیہ natural science کے ذریعے سے معلوم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔جس کے نتیجے میں عجیب قسم کی توجیہات سامنے آتی ہیں جس کا نقص بعد میں ظاہر ہو تو پھر غیر ضروری مایوسی بھی ہوسکتی ہے۔ضرورت اس بات کی ہے ہم اس بات کا ادراک کر لیں کہ جدید ذہن کو ہر وہ چیز دینا ضروری نہیں ہے جس کا وہ مطالبہ کر رہا ہے۔ بلکہ ہمیں پہلے اس ذہن کو سمجھ کر اس کو صحیح رخ پر غور و فکر کرنے پر آمادہ کرنا ہوگا۔
تحریر ابو زید