۔
پاکستان میں جب بھی شرم و حیا اور اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کی بات کی جاتی ہے تو لبرل و سیکولر لابی کی جانب سے بالعموم اعتراض نما طعنہ دیا جاتا ہے کہ مسئلہ شرم و حیا یا لباس کا نہیں، گندی نظر اور گندی سوچ کا ہے جو عورت کو دیکھتے ہی ابنارمل ہوجاتی ہے۔ اگلی ہی سانس میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اصلا یہ معاشرے کی جکڑبندی کی وجہ سے ہے، پابندیاں ختم ہوں گی، آزادانہ میل جول میں اضافہ ہوگا تو پیمانے بدلتے جائیں گے اور نظر کی ہوس کیا جنس کی کشش بھی ختم ہوتی چلی جائے گی۔
سوچا کہ کیوں نہ یورپ اور امریکہ و برطانیہ کے معاشروں کا جائزہ لیا جائے جن کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ لبرل ہیں، سیکولر ہیں، خواتین کا احترام ہے، بچوں کے حقوق ہیں، سیکس کی آزادی کیا، فراوانی ہے، اور کسی پابندی کے نہ ہونے کی وجہ سے سے گندی سوچ اور گندی نظر کا گزر کیا، وہاں تو آنکھ ایسی پاکباز ہوئی ہے کہ اسکرٹ کیا کسی کو بکنی میں بھی دیکھ لے تو بھی جذبات مشتعل نہیں ہوتے، جنس کی ارزانی سے وہاں کی نظر اور سوچ ایسی ”پاک“ ہوئی ہے کہ فرشتے بھی ”شرمانے“ لگے ہیں۔ سوچا کہ کیوں اس جکڑ بندی و تنگ نظری کا شکار رہا جائے، سائیڈ بدل کر کیوں نہ کسی این جی او کے ذریعے معاشرے کو بدلنے کی ”فرشتانہ“ جدوجہد کا ساتھ دیا جائے۔ ڈالر بھی ملیں گے اور لگے ہاتھوں معاشرے کی اصلاح بھی ہو جائے گی.
سوچا کہ جائزے کے لیے جسارت یا اسلام جیسے اسلامی طبقے کے اخبارات سے رجوع نہ کیا جائے کہ اسلامی طبقے نے روایتی تنگ نظری اور مغرب سے نفرت کے جذبے سے مغلوب ہو کر کچھ غلط سلط ہی لکھا ہوگا، سیکولر لابی کے ہاں ڈان اور ٹربیون معتبر ہیں مگر خیال آیا کہ ہیں تو پاکستانی نا، کسی اندر سے چھپے اسلامسٹ نے ہی بازیگری نہ دکھائی ہو، اور بات اگر یورپ کی ہونی ہے تو پاکستانی ماخذ تو ویسے ہی ناقابل قبول ٹھہرے گا۔ بی بی سی برطانوی ادارہ ہے مگر امریکہ و یورپ میں اس کی ساکھ مسلم ہے، پاکستان میں بھی معتبر سمجھا جاتا ہے، مسلمانوں کے حوالے سے ڈنڈی اگرچہ مار لیتا ہے مگر اپنے بارے میں تو سچ ہی لکھتا ہے اور لکھے گا۔ تو آئیے بی بی سی پر آنے والی رپورٹس میں سے چند جھلکیاں ملاحظہ کرتے ہیں۔
سب سے پہلے یورپ کا مجموعی ذکر؛ 2014 میں یورپی یونین کے بنیادی حقوق کے ادارے کے سروے نتائج کے مطابق یونین میں شامل ممالک کی تقریباً ایک تہائی خواتین 15 برس کی عمر سے جسمانی یا جنسی تشدد کا شکار رہی ہیں۔ یہ تعداد چھ کروڑ 20 لاکھ کے لگ بھگ بنتی ہے۔ سروے میں کہا گیا ہے کہ یہ اس موضوع پر لیا جانے والا اب تک کا سب سے بڑا جائزہ ہے اور اس کے لیے 42 ہزار خواتین کے انٹرویو کیے گئے۔ رواروی میں آپ نے اعداد و شمار پڑھ لیے ہوں گے اور گزر رہے ہوں گے، مگر ذرا رکیے اور پھر پڑھیے کہ یہ کل آبادی کی ایک تہائی خواتین کی بات ہو رہی ہے، جی ہاں ایک تہائی، مبلغ 6 کروڑ 20 لاکھ۔ اور یہ وہاں ہو رہا ہے جہاں شراب، شباب، کباب سب ارزاں ہیں، سوچ و نظر کی جکڑبندی نہیں ہے، اس کے باوجود بھی یہ ”فرشتہ صفت“ باز نہیں آئے۔ مطلب یہ کہ نظر جتنی بھی خیرہ ہو، پیاس اتنی بڑھتی جاتی ہے. یہ پہلو بھی ذہن میں رہے کہ ایک تہائی تو وہ ہیں جو زبردستی نشانہ بنتی ہیں، باہمی رضامندی والے اعداد و شمار ابھی دستیاب نہیں ہیں ۔رپورٹ کا لنک
اور اب امریکہ پر ایک نظر؛ 2010 کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ میں ایک منٹ کے دوران 25 لوگ جنسی زیادتی اور تشدد کا نشانہ بنتے ہیں۔ اس سروے کے نتائج کے مطابق 12 ماہ کے عرصے کے دوران 10 لاکھ عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات سامنے آئے، 60 لاکھ سے زائد مرد اور خواتین کا تعاقب کیا گیا جبکہ 1 لاکھ 20 ہزار مرد و خواتین نے اپنے ہی ساتھی کی جانب سے جنسی زیادتی، جسمانی تشدد یا تعاقب کیے جانے کی شکایت کی۔ ایک اور سروے کے مطابق ہر 5 میں سے ایک عورت زندگی میں کبھی نہ کبھی جنسی تشدد کا نشانہ بنتی ہے۔ ایک دوسرے سروے کے مطابق یونیورسٹی کی تعلیم دوران بھی ہر 5 میں سے ایک طالبہ جنسی تشدد کا شکار ہوتی ہے۔ ایک بات دلچسپ ہے اور جس کا پاکستان کے تناظر میں شکوہ کیا جاتا ہے کہ خوف کے ماحول کی وجہ سے کیسز رپورٹ ہی نہیں ہوتے مگر یہ بات امریکہ کی ہے اور رپورٹ کے مطابق اب بھی جنسی تشدد کے واقعات کو وہاں بہت کم رپورٹ کیا جاتا ہے۔ کالج اور یونیورسٹی میں جنسی تشدد کا شکار ہونے والی صرف 12 فیصد خواتین کا مقدمہ پولیس تک پہنچ پاتا ہے۔
طرفہ تماشا یہ ہے کہ جس معاشرے کی اس حوالے سے مثال دی جاتی ہے کہ عورت کو کوئی نظر اٹھا کر نہیں دیکھتا وہاں کی عورت کی مثال تو رپورٹس میں آ ہی گئی مگر ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ میں ہر 7 میں سے 1 مرد بھی اپنے ساتھی کے ہاتھوں شدید نوعیت کے جنسی و جسمانی تشدد کا شکار ہوتا ہے۔ اور 25 فیصد مردوں کو تو 10 سال سے کم کی عمر میں جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔۔ (رپورٹ کا لنک کمنٹس میں دیکھیے)
فوج کو ہر جگہ ڈسپلنڈ ادارہ سمجھا جاتا ہے مگر اس کی صورتحال بھی کچھ مختلف نہیں ہے۔ 2006ء سے امریکی فوج میں جنسی جرائم میں 30 فیصد اور بچوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں میں 43 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ 2003ء میں ریٹائرڈ فوجی عورتوں سے انٹرویو پر مبنی سروے میں انکشاف کیا گیا کہ 500 میں سے کوئی 30 فیصد عورتوں کا دوران ملازمت ریپ ہوا۔ جی ریپ ہوا، رضامندی والا معاملہ تو الگ رہا۔ وزارتِ دفاع کے سال 2009ء میں ہونے والے سروے کے مطابق فوج کے اندر ہونے والے جنسی زیادتی کے کوئی 90 فیصد واقعات رپورٹ ہی نہیں ہو پاتے۔ جی یہ 90 فیصد واقعات رپورٹ نہ ہونے کی بات امریکہ سے متعلق ہے، پاکستان کی نہیں ۔(رپورٹ کا لنک کمنٹس میں دیکھیے)
اب برطانیہ کی صورتحال ملاحظہ کیجیے۔ 2009 میں برطانوی خیراتی ادارے چائلڈ لائن کے مطابق ان کے پاس ایسی شکایات میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے جن میں بچوں نے خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ چائلڈ لائن کے مطابق 2004ء سے 2009ء کے درمیان موصول ہونے والی ایسی شکایات کی تعداد میں مردوں کی جانب سے بچوں کو ہراساں کرنے کے واقعات کے مقابلے میں پانچ گنا اضافہ ہوا ہے۔ صرف 2008ء میں 16 ہزار سے زائد بچوں نے ادارے کی ہیلپ لائن پر فون کیا، ان میں سے 2 ہزار 142 نے کسی خاتون کو اس عمل کا ذمہ دار ٹھہرایا اور یہ تعداد 2004ء کے مقابلے میں 132 فیصد زیادہ ہے۔ ملاحظہ کیجیے گا کہ ایسی آزادی ملی ہے کہ مرد ایک طرف، خواتین بھی بچوں کو اپنی مشق ستم کا نشانہ بناتی ہیں۔ 2013ء میں آکسفورڈ میں ایک جنسی سیکنڈل منظر عام پر آیا اور انکشاف ہوا کہ شہر میں سرگرم جنسی گروہ نے 16 برس میں کم از کم 273 لڑکیوں کا جنسی استحصال کیا۔۔ (رپورٹ کا لنک کمنٹس میں دیکھیے)
ایک طعنہ یہاں یہ دیا جاتا ہے کہ پاکستانی معاشرہ اس طرح کے واقعات کی مذمت میں ناکام ہے مگر صدر براک اوباما نے سٹینفورڈ یونیورسٹی میں نشے میں مدہوش طالبہ کا ریپ ہونے پر کہا کہ کیمپسز کے اندر کسی کو جنسی طور پر ہراساں کرنا دراصل انسانیت کی توہین ہے، اور امریکہ معاشرہ اب بھی جنسی زیادتی کی اتنی شدت سے مذمت نہیں کرتا جتنی کرنی چاہیے۔ وجہ اس کی ایک اور رپورٹ میں بیان کی گئی ہے۔ امریکی وزارتِ دفاع کے جنسی حملوں سے روک تھام کی شعبے کی ڈائریکٹر ڈاکٹر کے وائیٹ لی کا کہنا ہے کہ کسی بھی عورت کے لیے ریپ رپورٹ کرنا انسانی اور جذباتی سطح پر انتہائی مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ مطلب انسانی و جذباتی سطح یکساں ہوتی ہے اور اس میں امریکہ و پاکستان میں کوئی فرق نہیں ہے۔ بنیادی طور یہ بھی شرم والا معاملہ ہی ہے جسے سیکولر لابی کی طرف سے طعن و تشنیع میں اڑا دیا جاتا ہے۔
امریکہ و برطانیہ اور یورپ کی تصویر تو سامنے آ گئی ہے، اس پر مزید کیا کہا جائے کہ الفاظ بھی شرما رہے ہیں، یہ اور بات ہے کہ یہاں پر آزادی نسواں کے وکیلوں اور ڈیٹ پر جانے کے خواہشمندوں کے ذہنوں کو کوئی شرمندگی محسوس نہیں ہوتی، اور ”شرم تم کو مگر نہیں آتی“ کا مصرع بھی ان کے سامنے اپنے معنی کھو چکا ہے۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ اصلا سیکولر لابی یورپی طرز کا معاشرہ چاہتی ہے جس میں نہ صرف عورت تک پہنچنے کی آزادی ہو بلکہ ریپ اور ہراساں کرنے کی بھی، اسے عورت کی آزادی نہیں بلکہ اس کے جسم تک پہنچنے کی آزادی مطلوب ہے تو ان رپورٹس کی روشنی میں آپ خود دیکھ سکتے ہیں کہ یہ کہنا کچھ ایسا غلط بھی نہیں ہے۔ یہ گندی نظر یا گندی سوچ یا کسی گھٹن اور جکڑبندی کا مسئلہ نہیں ہے، انسانی فطرت کا معاملہ ہے، جتنی آزادی نصیب ہوگی، اتنی وحشت بڑھتی جائے گی.
اور ہاں، اب آپ مشورہ دیجیے کہ کسی این جی او کا حصہ بن کر اس جدوجہد کا حصہ بنا جائے کہ پاکستانی معاشرہ بھی یورپ کی نظیر پیش کرنے لگے یا تنگ نظری کا طعنہ قبول کرکے معاشرے کو اسلامی تعلیمات کے مطابق شرم و حیا کا گہوارہ بنانے کی جدوجہد جاری رکھی جائے؟
شمس الدین امجد