زینب کیس کے تناظر میں ایک نئی بحث کا آغاز ہو گیا ہے کہ ہمیں اپنے بچوں کو سیکس ایجوکیشن دینی چاہیے یا نہیں۔ کچھ لوگ اس کے حق میں لکھ رہے ہیں اور ان کے پاس کچھ دلائل ہیں اور کچھ اس کے خلاف ہیں اور ان کے پاس بھی کچھ دلائل ہیں۔ میری رائے میں یہ دونوں قسم کے گروہ اس مسئلے کو اپنے اپنے تناظر میں صحیح دیکھ رہے ہیں لیکن دوسرے کے تناطر سے دیکھنے کی کوشش نہیں کر رہے ہیں۔
یہ بات درست ہے کہ این۔جی۔اوز اور سول سوسائٹی جس قسم کی سیکس ایجوکیشن کی بات کرتی ہے، اس کا آغاز بچوں کو ان کے جنسی اعضاء کے بارے تعلیم سے ہوتا ہے اور انتہا اس پر ہوتی ہے کہ آپ نے محفوظ طریقے سے سیکس کیسے کرنا ہے یعنی اس طرح سے حمل بھی نہ ٹھہرے اور بیماریاں بھی منتقل نہ ہوں۔ تو یہ تو بے حیائی، فحاشی اور زنا کو سیکس ایجوکیشن کے نام پر رواج دینے والی بات ہے۔
البتہ سیکس ایجوکیشن کے نام پر جو کام کرنے کی ضرورت ہے، اسے چائلڈ ابیوز ایجوکیشن یعنی جنسی تشدد کے بارے آگاہی کے نام سے کیا جا سکتا ہے۔ بچوں کو صرف اس قسم کی تعلیم دی جائے کہ جس میں انہیں جنسی تشدد سے متعلق آگاہی دی جائے کہ وہ کسی جنسی تشدد کا شکار نہ ہوں، یا اگر ہو جائیں تو اپنے والدین سے کمیونیکیٹ کر سکیں۔اور والدین کو اس قسم کی آگاہی دی جائے کہ وہ یہ جان سکیں کہ چائلڈ اےبیوز کے حوالے سے ہمارا معاشرہ الارمنگ سچوئیشن پر کھڑا ہے۔ اور اس میں بہت بڑی کوتاہی والدین کی ہے کہ ان کے پاس اس قدر وقت نہیں ہے کہ اولاد کے ساتھ بیٹھ سکیں یا ان کے مسائل سن سکیں یا ان سے کمیونیکیٹ کر سکیں۔ ایک ریسرچ کے مطابق میں پاکستان میں تقریبا ہر چوتھی بچی اور ہر دسواں بچہ کسی نہ کسی قسم کے جنسی تشدد کا نشانہ بنتا ہے۔
ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ علماء واسکالرز اور دینی ومذہبی ذہن رکھنے والے ماہرین تعلیم، ماہرین نفسیات اور این۔جی۔اوز کا ایک گروپ مل کر کوئی ایسا نصاب تعلیم تحریری یا ویڈیو صورت میں مرتب کر دے کہ جس سے بچوں، والدین، اساتذہ اور اسکولز کے لیے جنسی تشدد کے حوالے سے آگاہی کی مہم چلانا آسان ہو سکے۔اس سلسلے میں کچھ ماہر ین نفسیات نے اپنے طور پر کچھ ویڈیوز بنائی ہوئی ہیں ۔ ڈاکٹر یوسف رضا صاحب کی چائلڈ ایبیوز پر ایک چینل پر انٹرویو کا لنک بھی پیش ہے اس میں انہوں نے تفصیلا اس مسئلے پر بات کی ہے ۔
بشکریہ ڈاکٹر زبیر