۔
الحاد محض ایک عقلی نقطہ نظر کا نام ہی نہیں ، اگر اس کے دعوے کو سچ مان لیا جائے تو ہمیں چند بہت ہی ناگزیر لیکن مایوس کن وجودی نظریات کو ماننا پڑے گا۔ زندگی کے متعلق الحادی نظریہ یہ کہتا ہے کہ یہ صرف کھیل ہے۔ ہماری ایک ہی زندگی ہے اور ہمیں اس کا بھرپور فائدہ اُٹھانا چاہیئے۔ جب آپ ایک کھیل کھیلتے ہیں تو آپ یا جیتتے ہیں یا ہار جاتے ہیں، اور اس کے بعد آپ کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ اور پھر کھیل ختم!! لیکن کیا واقعی زندگی محض ایک کھیل ہے؟ ہماری یہ تحریر اس بات کو فوکس کرے گی کہ زندگی کو محض ایک کھیل قرار دینے کے نظریے کے وجودی مضمرات کیا ہیں، خدا کو اور خدا کے بنائے کسی احتسابی نظام کو نظر انداز کرنا یا اس کا یکسر انکار کر دینا کس طرح وجودی بربادی کی طرف لے جاتا ہے۔ خدائی مقصد اور نظامِ احتساب کو انکار کرنا کیسے ایک آخری اور قطعی امید اور سچی طمانیت کی ضِد ہے (اس کے علاوہ اور بھی کئی چیزیں یہاں آتی ہیں لیکن مجھے الفاظ کی حد میں رہنا ہے)۔یہ نتائج کوئی دقیانوسی مذہبی نعرے نہیں، بلکہ یہ اس نظریۂ حیات پر عقلی دلائل سے سوچے جانے کے بعد کے حاصل شدہ نتائج ہیں۔
کوئی امید نہیں :
کسی واقعے کے واقع ہونے کی خواہش یا احساس اور توقع کو امید کہا جاتا ہے۔ ہم سب اچھی زندگی، اچھی صحت اور اچھی ملازمت کی امید رکھتے ہیں۔ سب کچھ پا کر بھی ہم سب لافانی اور مسرت زدہ وجود چاہتے ہیں۔ زندگی ایک ایسا خوبصورت تحفہ ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی اس شعوری وجود کا خاتمہ نہیں چاہتا۔ اسی طرح ہر کوئی چاہتا ہے کہ ایک حتمی انصاف ہو جس سے سب بُرائیوں کو ٹھیک کیا جا ئے اور ایسے افراد کا احتساب کیا جا سکے۔ یہ بات نمایاں طور پر قابل ذکر ہے کہ اگر ہماری زندگیاں خستہ حال رہیں اور ہم دکھ اور تکالیفُ سہتے رہیں تو ہم امن، مسرت اور آسانی کی امید لگا لیتے ہیں۔ یہ انسانی جذبے کا اظہار ہے؛ ہم ایک اندھیری سرنگ کے دوسری جانب روشنی کی امید کرتے ہیں، اور اگر ہم پُرسکون اور خوش جی رہے ہوں تو ہماری خواہش ہوتی ہے کہ زندگی اسی طرز پر چلتی رہے۔
یہ نظریہ کہ زندگی محض ایک کھیل ہے، خُدائی احتسابی عمل کا انکار کرتا ہے، یہ نظریہ حیات بعد از موت یا موت کے بعد کی زندگی کا بھی منکر ہے۔اب جبکہ اس خدائی احتساب کے یقین کے بغیر زندگی میں سکھ اور مصیبت کاٹنے کے بعد مسرت کی بھی کوئی امید نہیں رکھی جا سکتی اس لیئے اس زندگی کے خاتمہ کے بعد کسی مثبت واقعے کی توقع بھی ختم ہو جاتی ہے۔ اس نظریے کے ساتھ ہم اپنے وجود کی اندھیری سرنگ کے دوسری طرف روشنی کی امید بھی نہیں رکھ سکتے۔ ذرا تصور کریں کہ آپ ایک غریب ملک میں پیدا ہوتے ہیں اور ساری زندگی غربت اور بھوک افلاس میں گذار دیں۔ اس نظریے کے مطابق آپ کی قسمت میں صرف اسی کسمپرسی کی حالت میں ختم ہو جانا لکھا ہے۔۔! اب اس کا اسلامی تصور سے موازنہ کریں۔ ہماری زندگیوں میں جو بھی اچھے برے حالات آتے ہیں ا ن میں ہمارا امتحان ہوتا ہے، وہ ایک بڑے فائدے کے لیئے آتے ہیں۔ اس طرح وسیع النظری میں کوئی بھی دکھ یا تکلیف بلا وجہ پیش نہیں آتی۔ خُدا ہمارے نامساعد حالات سے باخبر ہے ، اور وہ ان کا اجر اور ہمارے غم سے نجات ضرور دے گا۔
تاہم زندگی کو کھیل سمجھنے والے نظریے کے مطابق ہماری خوشیاں بھی بے معنی ہیں اور ہمارے دکھ درد بھی۔ نیکو کار لوگوں کی عظیم قربانیاں اور پریشانیوں کے شکار لوگ بس گرتے مجسمے ہیں جن کی دنیا کو کوئی پرواہ نہیں۔ انکا نا کوئی عظیم مقصد ہے اور نا کوئی فائدہ ۔ موت کے بعد کسی زندگی کی حتمی امید ہے اور نہ کسی خوشی کا تصور۔ حتی کہ اگر ہم خوش باش اور لگژری سے بھری زندگی گزاریں تو ہم میں سے زیادہ تر لوگ ناگزیر طور پر کسی نہ کسی بُرائی یا لامتناہی خواہشوں کے حصول کی دوڑ کی طرف مائل ہو جائیں گے۔ قنویت پسند فلاسفر ARTHUR SCHOPENHAUER نے کمال ہوشیاری سے اس ناا امیدی اور بد قسمتی کا ذکر کیا ہے،جو ہماری منتظر ہے:
“ہم کھیت میں موجود ان بھیڑوں کی طرح ہیں جو بڑے مزے سے اپنے آپ میں مگن تو ہوتی ہیں لیکن قصائی کی نظروں کے عین سامنے رہتی ہیں۔ قصائی ان کو یکے بعد دیگرے اپنے شکار کے طور پر چُنتا رہتا ہے۔ بالکل اسی طرح ہم بھی اچھے وقتوں میں اس بات سے بے خبر ہوتے ہیں کہ قسمت ہمارے لیئے کیا کیا مصیبتیں لیئے تاک میں بیٹھی ہے۔ بیماری، غربت، چیر پھاڑ، نظر یا سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کا کھو جانا۔ ہستی کی اذّیت کا بڑا حصہ اسی میں موجود ہے، جو وقت مسلسل ہمارے اوپر مسلط کر رہا ہے، اور ہمیں سانس لینے کا بھی موقع نہیں دیتا، بلکہ ہمیشہ ایک سرکوب کی طرح ایک کوڑا لیئے ہمارے پیچھے پڑا رہتا ہے۔ اگر کبھی وقت اپنا ہاتھ روکتا ہے تو وہ صرف اس وقت جب ہمیں بوریت کے کرب کے حوالے کیا جاتا ہے۔ در حقیقت یہ رائے کہ اس دنیا اور انسان کو موجود ہی نہیں ہونا چاہیئے، ہمارے اندر ایک دوسرے کے لیئے برداشت پیدا کرتی ہے۔ بلکہ نہیں، اس نظریے کے تحت ہمیں ایک دوسرے کو جناب، سَر یا جنابِ عالی کے بجائے مظلوم ساتھی کہہ کر مخاطب کرنا چاہیئے۔”(2)
قرآن اس ناامیدی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ قرآن اس بات پر زور دیتا ہے کہ مسلمان کبھی مایوس نہیں ہوسکتا، امید ہمیشہ قائم رہتی ہے جو کہ خُدا کی رحمت سے پیوستہ ہے۔ اور خُدا کی رحمت اس دنیا اور اگلے جہان دونوں میں لازماً ظہور پذیر ہوگی۔ (3)
زندگی کو ایک کھیل قرار دینے والے نظریے کے تحت عدل و انصاف ایک ناقابلِ حصول چیز ہے، زندگی کے صحرا میں ایک سراب کی مانند۔ کیونکہ آخرت کی زندگی کے نظریہ کو نظر انداز یا انکار کیا جاتا ہے اس لیئے ایسی کوئی توقع رکھنا بیکار ہے کہ لوگوں کو کسی احتسابی عمل کا سامنا ہو گا۔ آپ ۱۹۴۰ کے جرمن نازیوں کی مثال لے لیں۔ ایک معصوم یہودی عورت جو اپنی باری پر گیس چیمبر میں ڈالے جانے کی منتظر ہے، جس نے ابھی اپنے شوہر اور بچوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے قتل ہوتے دیکھا، اس کو اس زندگی کے اختتام پر کسی انصاف کی امید نہیں۔ اگرچہ بالآخر نازیوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا لیکن یہ عدل اس عورت کی موت کے بعد ہوا۔ اس مضحکہ خیز نظریۂ حیات کے تحت اس عورت کی اوقات محض مادے کی ایک نئی تشکیل سے زیادہ کچھ نہیں، اور آپ کسی بے جان چیز کو تسکین نہیں پہنچا سکتے۔
تاہم اسلام ہم سب کو بے داغ خُدائی انصاف کی امید دلاتا ہے کہ کسی کے ساتھ زیادتی نہیں ہو گی، اور سب کو جواب دہ ٹھہرایا جائے گا۔
“اس دن لوگ الگ الگ جماعتوں میں آگے آئیں گے تاکہ ان کو ان کے اعمال دکھائے جائیں۔ جس نے ایک ذرہ برابر بھی نیکی کے ہو وہ اس کو دیکھ لے گا، اور جس نے ذرہ برابر بھی بُرائی کی ہو وہ بھی اس کو دیکھ لے گا۔” (4)
“اللہ نے زمین اور آسمانوں کو ایک ٹھیک مقصد کے لیئے پیدا کیا۔ تاکہ وہ ہر نفس کو اس کے اعمال کا بدلہ دے۔ ان کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہو گی”۔ (5)
زندگی کو ایک کھیل قرار دینے والا نظریہ ایسا ہی ہے جیسے ایک ماں اپنے بچے کو کھیلنے کے لیئے ایک کھلونا دے اور پھر بلا وجہ واپس لے لے! بلا شبہ زندگی ایک زبردست تحفہ ہے، تاہم اس زندگی کے دوران کوئی بھی خوشی، مسرت یا محبت ہم سے اچانک اور ہمیشہ کے لیئے لے لیا جائے گا۔۔۔! کیونکہ یہ نظریۂ حیات خُدائی اختیار اور زندگی کے بعد موت کا منکر ہے، اس کا مطلب ہے کوئی بھی خوشی جو ہمیں ملی ہمیشہ کے لیئے ختم ہو جائے گی۔ ایسی کوئی امید نہیں کہ اس زندگی میں ملنے والی خوشیاں، مسرتیں، یا محبت مرنے کے بعد بھی جاری و ساری رہ سکتی ہیں۔ اسلام کے نظریے کے تحت ایسے تمام مثبت مشاہدات کا دنیاوی زندگی سے بڑھ کر تسلسل نظر آتا ہے۔
“ان کےلیئے وہاں وہ سب ہو گا جس کی وہ آرزو کرتے ہیں، اور ہمارے پاس ان کے لیئے اس سے بھی زیادہ (نعمتیں) ہیں۔” (6)
“وہ لوگ جنہوں نے پرہیز گاری کی زندگی گزاری ان کے لیئے اچھا بدلہ ہے اور اس سے بڑھ کر ہے”(7)
“بیشک جنتی اس دن عیش میں ہوں گے ؛ (ان سے کہا جائے گا) سلامتی ہو، اللہ کی طرف سے، جو نہایت شفقت کرنے والا ہے”(8)
کوئی خوشی نہیں :
خوشی کی تلاش ھم سب انسانوں کی فطرت کا ضروری جزو ھے۔ ھم سب خوش رھنا چاھتے ھیں – حالانکہ کبھی کبھی ھمیں خود بھی اندازہ نہیں ہوتا کہ خوشی دراصل ہے کیا۔ اسی لیے اگر آپ کسی بھی عام آدمی سے پوچھیں گے کہ وہ اچھی ملازمت کا حصول کیوں چاھتے ہیں، تو شاید ان کا جواب یہ ہوگا کہ آرام دہ زندگی گزارنے کے لیے۔ تاہم اگر آپ ان سے مزید سوال کریں اور پوچھیں کہ آپ ایک آرام دہ زندگی کیوں گزارنا چاہتے ہیں تو غالباَ وہ یہ جواب دیں گے کہ خوش رہنے کے لیے۔ لیکن خوشی ایک مقصد ہے نا کہ ذریعہ۔ یہ منزل مقصود ہے نا کہ صرف اس طرف کیا جانے والا سفر۔ کیونکہ ہم سب خوش رہنا چاہتے ہیں اس لیے ہم ہمیشہ ایسے ذرایع کی تلاش میں رہتے ہیں جن سے ہم ہمیشگی والی خوشی حاصل کر سکیں۔
یہ سفر جس کی ہر کسی کو جستجو ہوتی ہے ہر انسان کے لیے مختلف ہوتا ہے۔ اور اس کی کوئی انتہا نہیں۔ تاہم جو لوگ زندگی کو صرف ایک کھیل سمجھ کر گزار رہےہوتے ہیں وہ زندگی میں راحت و لذت کے متلاشی رہتے ہیں۔ اس سے ایک بہت بڑا سوال جنم لیتا ہے: حقیقی خوشی کیا ہے؟
ان سوالات کے جواب جاننے کے لیے دی گئی صورت حال کا تصور کریں: یہ تحریر پڑھتے ہوئے آپ اپنی خواہش کے بر عکس نیم مدہوش ہیں۔ اچانک آپ کی آنکھ کھلتی ہے اور آپ خود کو ایک ہوائی جہاز میں پاتے ہیں۔ آپ فرسٹ کلاس میں موجود ہیں جہاں انتہائی پُرتعیش کھانے دستیاب ہیں۔ آپ کی سیٹ ایک آرام دہ بیڈ ہے جسے انتہائی آرام دہ اور پُرتعیش سفر کے لئے بنایا گیا ہے۔ یہاں آپ کی تفریح اور مہمان نوازی کا بے انتہا سامان دستیاب ہے۔ عملے کی خدمت گزاری بے مثال ہے۔ آپ ان سب نفیس اور عمدہ سہولیات سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔ اب آپ ایک لمحے کے لئے سوچیئے اور خود سے پوچھیں کیا آپ اس وقت واقعی خوش ہوں گے؟
آپ کیسے خوش ہو سکتے ہیں؟ آپ پہلے کچھ سوالات کے جوابات جاننا چاہیں گے۔ آپ کو مدہوش کس نے کیا؟ آپ جہاز پر کیسے پہنچے؟ آپ کے اس سفر کا مقصد کیا ہے؟ آپ کہاں جا رہے ہیں؟ اگر ان سوالات کے جوابات نہیں ملتے تو آپ کیسے خوش ہو سکتے ہیں؟ خواہ آپ ان سب سہولیات سے لطف اندوز ہونا بھی شروع کر دیں تو بھی آپکو سچی خوشی نصیب نہیں ہو گی۔ کیا ایک کف دار بیلجیئن چاکلیٹ والی مٹھائی کی آپ کی کھانے کی ٹرے پر موجودگی سے یہ سب سوالات ختم ہو جائیں گے؟ یہ سب محض ایک فریب، ایک عارضی اور دھوکے والی خوشی ہو گی جو ان سب انتہائی اہم سوالات کو نظر انداز کرنے سے حاصل ہو گی۔
اب اس اصول کو اپنی زندگی پر لاگو کر کے دیکھیں اورخود سے پوچھیں، کیا میں خوش ہوں؟ ہمارا وجود میں آنا جہاز پر موجود ہونے اور مدہوش ہونے سے مختلف نہیں، ہم اپنی پیدائش کا، اپنے ماں باپ کا خود انتخاب نہیں کر سکتے، ہم نہیں جانتے ہم کہاں سے آئے کہاں جانا ہے۔ لیکن ہم میں سے بہت سے لوگ یہ سوالات نہیں پوچھتے، یا ان سوالات کے جوابات تلاش نہیں کرتے جن سے ہم ایک دائمی خوشی حاصل کر سکتے ہیں ۔
سچی خوشی کہاں پائی جاتی ہے؟ لامحالہ طور پر اگر ہم پچھلی مثال پر غور کریں تو حقیقی مسرت ہمارے وجود کے بارے میں اہم سوالات کے جوابات میں پوشیدہ ہے۔ ایسے سوالات جیسے کہ، “زندگی کا مقصد کیا ہے؟” اور یہ کہ “میں مرنے کے بعد کہاں جاؤں گا؟” اس لحاظ سے ہماری خوشی، ہمارے اندرونی تفکر میں اورہمارے اپنے بارے میں جاننے میں ، اور ان سوالات کے جوابات کی تلاش میں پوشیدہ ہے ۔
جانوروں کی جبلت کے برعکس ہم محض اپنی فطرت پر ردِ عمل ظاہرکر کے زندہ نہیں رہ سکتے۔ صرف اپنے ہارمونز کی اطاعت اور دیگر جسمانی ضروریات پوری کرنے سے ہم حقیقی خوشی حاصل نہیں کر سکتے۔ اس کو سمجھےکے لیئے ایک اور مثال پر غور کریں:
تصور کریں کہ آپ ان پچاس لوگوں میں سے ہیں جن کو ایک ایسے کمرے میں بند کیا گیا یے جس میں سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں۔ اس کمرے میں صرف 10 روٹیاں ہیں اور اگلے 100 دن کے لئے کھانے کا کوئی اور بندوبست نہیں۔ آپ کیا کریں گے؟ اگر آپ اپنی حیوانی جبلت پر عمل کریں گے تواس کا انجام خون خرابہ ہو گا۔ لیکن اگر آپ اس بات پر توجہ دیں اور سوچیں “ہم سب کس طرح زندہ رہ سکتے ہیں؟” تو اس بات کاقوی امکان ہے کہ آپ سب زندہ رہ سکتے ہیں کیونکہ آپ اس کی کوئی تدبیر کر لیں گے۔
اب اس مثال کو اپنی اس زندگی میں بھی لاگو کریں۔ آپ کی زندگی میں بہت سے تغیرات وقوع پذیر ہوتے ہیں جن کا نتیجہ لانتناہی صورتوں میں نکل سکتا ہے۔ تاہم ہم میں سے بہت سے افراد صرف اپنی جسمانی ضروریات کی پیروی کرتے ہیں۔ ہماری ملازمت کے لئے پی ایچ ڈی یا دوسری ڈگریاں درکار ہوسکتی ہیں، اورشاید ہم اپنی زندگی میں اپنے دوستوں کے ساتھ شراب و کباب سے لطف اندوز بھی ہوتے رہیں، لیکن یہ سب صرف افزائش تک محدود ہے۔ حقیقی خوشی اسوقت تک حاصل نہیں کی جاسکتی جب تک ہم یہ نا جان لیں کہ ہم حقیقت میں کیا ہیں ؟
تاہم زندگی محض ایک کھیل تماشا قرار دینے والے نظریے (الحاد) کے تحت ان سب سوالات کا کوئی جواب نہیں۔ ہم یہاں کیوں ہیں؟صرف ایک کھیل تماشے کے لئے، کسی گہرے مقصد کے بغیر۔ ہم سب کہاں جا رہے ہیں؟ کہیں نہیں!! ہم ایسے ہی مر جائیں گے؛ اور یہ کھیل جلد ہی ختم ہو جائے گا۔۔۔ حتیٰ کہ کچھ فلسفی حضرات بھی یہ سمجھتے ہیں کہ زندگی ایک کھیل نہیں۔ مثال کے طورپرلڈوگ وٹجنسٹائن LUDWIG WITTGENSTEIN ایک جگہ کہتا ہے، “میں نہیں جانتا کہ ہم یہاں کیوں ہیں، لیکن مجھے یقین ہے کہ ہم یہاں عیش کرنے لئے موجودنہیں ہیں”
خُدا کی بندگی
حقیقی مسرت حاصل کرنے کے لئے ہم سب کو اس بنیادی سوال کا جواب دینے کی ضرورت ہے کہ ہماری یہاں کیوں موجود ہیں ۔ اسلام میں اس کا جواب بہت سادہ لیکن گہرا ہے، ہم یہاں خدا کی اطاعت و بندگی کے لیے موجود ہیں۔”اور ہم نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا”۔ (10)
لیکن اسلام میں عبادت یا بندگی کا تصور اس لفظ کے مشہورِ عام مطلب سے کافی مختلف ہے۔ عبادت ہمارے ہر ہر عمل سے عیاں ہو سکتی ہے۔ ہمارے ایک دوسرے سے روزمرہ معاملات میں بات چیت کرتے وقت، یا دوسروں کے ساتھ ہمدردانہ رویہ اختیار کر کے۔ اگر ہم اپنے خُدا کو اپنے اعمال سے خوش کرنے پر توجہ دیں تو ہمارے عام معمولاتِ زندگی بھی عبادت بن جائیں گے۔
اسلام میں عبادت ایک جامع تصور ہے۔ اس سے مراد ہے اللہ سےمحبت، اس کی خوشنودی، اس کی معرفت، اور سب امور میں صرف اس اکیلی ذات کی تعظیم و اطاعت جیسا کہ دعا و التجا کرنا۔ خُدا کی عبادت ہمارے وجود کا بنیادی اور قطعی مقصد ہے۔ یہ ہمیں تمام غلامیوں سے آزاد کرتی ہے۔ اللہ قرآن میں ہمیں ایک طاقتور مثال سے سمجھاتا ہے:
” الله نے ایک مثال بیان کی ہے ایک غلام ہے جس میں کئی ضدی شریک ہیں اور ایک سالم ایک ہی شخص کا غلام ہے کیا دونوں کی حالت برابر ہے ؟سب تعریف الله ہی کے لیے ہے مگر ان میں سے اکثر نہیں سمجھتے۔” (11)
یہ بات ناگزیر ہے کہ جب ہم ایک اللہ کی عبادت نہیں کرتے، ہم دوسرے “خُداؤں” کی پرستش میں لگ جاتے ہیں۔ ذرا سوچیں: ہمارے کاروباری شراکت دار، افسران، اساتذہ، احباب، ہمارا معاشرہ، حتیٰ کہ ہماری خواہشات ہمیں کسی نا کسی طرح اپنا “غلام” بنا لیتی ہیں۔ مثال کے طور پر ہماری سماجی رسوم و رواج لے لیں۔ ہم میں سے بہت سے لوگ خوبصورتی کی تعریف اپنے سماجی دباؤ کو مدِنظر رکھ کر کرتے ہیں۔ ہو سکتاہے ہماری بہت سی پسند ناپسند ہوں لیکن وہ سب دوسروں کے خیالات کی پابند ہوتی ہیں۔ ذرا اپنے آپ سے پوچھیے: میں نے یہ پتلون یا یہ سکرٹ کیوں پہن رکھی ہے؟ یہ کہہ دینا کہ مجھے یہ پسند ہے بہت سطحی سا جواب ہے۔ سوال یہ ہے کہ آپ کو یہ کیوں پسند ہے؟ اگر ہم اس طرح چھان بین کریں تو ہم میں سے بہت سے لوگ یہ اقرار کرنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ “کیونکہ دوسرے لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ اچھا لگتا ہے” بدقسمتی سے ہم سب ایسے ہی بہت سے اشتہارات سے متاثر ہو جاتے ہیں جو ہمیں ہر وقت اپنا نشانہ بناتے رہتے ہیں۔
اس لحاظ سے ہمارے بہت سے “آقا” ہیں اور وہ سب ہم سے کچھ نا کچھ چاہتے ہیں۔ وہ سب ایک دوسرے سے اُلجھے رہتے ہیں۔ اور نتیجتا ہماری زندگیاں پریشان اور تشنگی سے بھری رہتی ہیں۔ اللہ جو ہمیں ہم سے بہتر جانتا ہے، جو ہماری ماؤں سے زیادہ شفیق ہے، ہمیں بتا رہا ہے کہ وہ ہمارا سچا مالک ہے۔ اور صرف اس کی عبادت و اطاعت کر کے ہم حقیقی معنوں میں آزاد ہو سکتے ہیں۔ مسلمان مصنف یاسمین موگاحد(YASMIN MOGAHED) اپنی کتاب RECLAIM YOUR HEART میں بیان کرتی ہیں کہ خدا کے علاوہ ہر شے کمزور اور ناتواں ہے، اور یہ کہ اصل آزادی خدا کی عبادت سے ہی حاصل ہوتی ہے:
“جب بھی آپ کسی کمزور اور ناتواں چیز کے پیچھے جاتے ہیں یا اس سے مدد مانگتے ہیں تو درحقیقت آپ خود کمزور ہو جاتے ہیں۔ بے شک آپ جو حاصل کرنا چاہ رہے تھے وہ مل بھی جائے تو بھی آپ کے لئے ہمیشہ ناکافی رہے گی۔ جلد ہی آپ کو کسی اور چیز کی طلب ہو جائے گی۔ آپ کو کبھی بھی حقیقی قناعت یا اطمینان نصیب نہیں ہو گا۔ اسی لئیے ہماری زندگیوں میں اشیاء کے تبادلے اور حیثیت و سہولت میں مزید سے مزید بہتری واقع ہوتے ہیں۔ آپ کا فون آپ کی کار آپ کا کمپیوٹر آپ کی بیوی آپ کا شوہر، یہ سب ہمیشہ ایک نئے اور بہتر ماڈل کے ساتھ تبدیل کئے جا سکتے ہیں۔ تاہم اس غلامی سے نجات کا ایک طریقہ بھی ہے۔ جب ایک ایسی چیز مل جائے جو غیر متزلزل ہو، مضبوط، ناقابلِ شکست اور دائمی ہو، جس پر آپ مکمل دارومدار کرسکیں، تو آپ کبھی گِر نہیں سکتے” (12)
وجودیت کے نقطہ نظر سے تنہا خدا کی بندگی حقیقی آزادی ہے۔ اگر عبادت علم و دانش، محبت اور خدا کی اطاعت سے مشروط ہے تو در حقیقت ہم میں سے بہت سے لوگوں کی زندگیوں میں دوسرے خدا بھی موجود ہیں۔ مثال کے طور پر ہم میں سے کئی افراد اپنی انا اور خواہشات سے محبت کرتے ہیں اور ان کی پیروی یا اطاعت کرتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں ہم ہمیشہ صحیح ہوتے ہیں، ہم کبھی غلطی پر نہیں ہو سکتے اور ہم ہمیشہ اپنی سوچ کو دوسروں پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ اس نقطہ نظر سے ہم اپنی ذات کے ہی غلام ہوتے ہیں۔ قرآن اس بے قدر روحانی حالت کی نشاندہی کرتا ہے اور ایسے شخص کو موازنہ میں جانور سے بھی بدتر قرار دیتا ہے جو اپنی خواہشات، ہوائے نفس اور ذہنی خیالات کو ہی خدا بنا لیتا ہے۔
اے پیغمبر آپ نے اس شحض کی حالت بھی دیکھی جس نے اپنا خدا اپنی خواہش نفسانی کو بنا رکھا ہے سو کیا آپ اس کی نگرانی کر سکتے ہیں۔ يا آپ خیال کرتے ہیں کہ ان میں اکثر سنتے یا سمجھتے ہیں یہ تو محض چوپایوں کی طرح ہیں (کہ وہ بات کو نہ سنتے ہیں نہ سمجھتے ہیں) بلکہ ان سے بھی زیادہ بے راہ ہیں۔ (13)
خود پرستی کی وجہ سے بعض اوقات ہم سماجی دباؤ، خیالات، رسم و رواج اور کلچر کو پوجنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ سب ہمارا بنیادی ریفرینس بن جاتے ہیں اور ہم ان سے محبت کا شکار ہو کر ان کے بارے میں مزید جاننےکی جستجو میں ان کی پیروی شروع کر دیتے ہیں۔ اس کی بہت سی مثالیں ہیں۔ آپ مادہ پرستی ہی کو لیجیئے۔ ہم پیسے اور مادی ضروریات میں مکمل گُم ہو چکے ہیں۔ ظاہر ہے پیسے اور اپنی ضروریات کی خواہش رکھنا ہمیشہ بری بات نہیں، تاہم ہم نے ان ضروریات کو اپنی شناخت بنا لیا ہے۔ ہماری سب توانائی، وقت اور کوششیں دولت جمع کرنے میں وقف ہو چکی ہیں اور اس ہیولاہی کامیابی کا دکھاوا ہماری زندگیوں کا بنیادی مقصد بن گیا ہے۔ اس نقطہ نظرسے مادی اشیاء ہمیں کنٹرول کرنا شروع کر دیتی ہیں جس سے خدا پرستی کے بجائے مادہ پرستی کا کلچرہم پرحاوی ہو جاتا ہے۔ میں اس سے واقف ہوں کہ ایسا ہم سب کے ساتھ نہیں ہوتا، تاہم اس طرح کی بے حساب مادہ پرستی بہت عام ہے۔
ایسا لازمی ہو گا کہ اگر ہم خدا کی اطاعت نہیں کر رہے تو کسی اور شے کی ضرور کر رہے ہیں۔ یہ ہماری اپنی انا یا خواہش بھی ہو سکتی ہے، یا پھر کچھ عارضی اور مادی مال و اسباب بھی ہو سکتے ہیں۔ اسلامی روایت میں خدا کی اطاعت ہماری پہچان بنتی ہے، کیونکہ یہ ہماری فطرت کا ہی ایک جزو ہے۔ اگر ہم خدا کو بھول جائیں اور ان چیزوں کی پرستش شروع کر دیں جو اس کی مستحق نہیں ہیں تو ہم رفتہ رفتہ اپنی ذات کو ہی فراموش کر دیں گے۔
” اور ان کی طرح نہ ہوں جنہوں نے الله کو بھلا دیاپھر الله نے بھی ان کو (ایسا کر دیا) کہ وہ اپنے آپ ہی کو بھول گئے یہی لوگ نافرمان ہیں ” (14)
ہمارا اپنی ذات کے متعلق علم اللہ کے ساتھ ہمارے تعلق پرمنحصر ہے، اور یہ تعلق ہماری بندگی اور عبادت سے بنتا ہے۔ اس لحاظ سے جب ہم اللہ کی عبادت کرتے ہیں (ہم صرف وہی کرتے ہیں جو اللہ چاہتا)تو ہم دوسرے جھوٹے خداؤں کی پیروی اور ان کی غلامی سے آزاد ہو جاتے ہیں۔چاہے وہ ہماری اپنی ذات کے بُت ہوں یا ان چیزوں کے جو ہماری ملکیت ہیں۔
اگلا سوال ہے، ہم کہاں جا رہے ہیں؟ ہمارے پاس چوائس ہے، اللہ کی دائمی، لامحدود رحمت کو قبول کر لیں یا اس سے دور بھاگ جائیں۔
اس کی رحمت کو مان کر، اس کے پیغام کا جواب دے کر، اس کی اطاعت و عبادت کر کے اور اس ہستی سے محبت کر کے ہم جنت میں ہمیشہ والی زندگی حاصل کر سکتے ہیں۔ جبکہ اس کا انکار اور اس کی رحمت سے دوری اس امر کو ضروری بنا دیتی ہے کہ ہم اس کی رحمت اور خوشنودی سے خالی مقام یعنی جہنم میں ڈالے جائیں۔ اس طرح ہمیں اختیار دیا گیا ہے کہ یا تو ہم اللہ کی رحمت کو پسند کر لیں یا اس سے دور بھاگ جائیں۔ اس بات کی ہمیں آزادی اللہ نے عطا کی ہے۔ بے شک اللہ ہمارے ساتھ بھلائی چاہتا ہے لیکن پھر بھی وہ ہمیں ٹھیک راستہ اختیار کرنے پر مجبور نہیں کرتا۔ اس زندگی میں ہماری ترجیحات ہماری اگلی زندگی کے بنانے سنوارنے کا باعث ہیں:
جب وہ ِدن آئے گا تو کوئی شخص الله کی اجازت کے سِوا بات بھی نہ کر سکے گا سو ان میں سے بعض بدبخت ہیں اوربعض نیک بخت”۔(15)
“۔۔۔یہی لوگ ہیں جنہیں ان کے صبر کے بدلہ میں جنت کے بالا خانے دیے جائیں گے اور ان کا وہاں دعا اور سلام سے استقبال کیا جائے گا”۔ (16)
کیونکہ ہمارا مطلقی مقصد اللہ کی عبادت کرنا ہے اس لئے ہمیں اپنا قدرتی توازن قائم کرنے کی اور اپنی ذات کو جاننے کی ضرورت ہے۔ جب ہم اللہ کی عبادت کرتے ہیں تو ہم خود کو آزاد کر کے اپنی ذات تک پہنچ پاتے ہیں۔ اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو ہم اپنی انسانی حقیقت کو فراموش کر رہے ہیں۔
” اور ان کی طرح نہ ہوں جنہوں نے الله کو بھلا دیاپھر الله نے بھی ان کو (ایسا کر دیا) کہ وہ اپنے آپ ہی کو بھول گئے یہی لوگ نافرمان ہیں ” (17)
خلاصہ یہ کہ زندگی کو محض ایک کھیل سمجھ لینا ہمارے شعوری احساس کی حتمی اور قطعی بنیاد فراہم نہیں کرتا۔ یہ نظریہ ہمارے وجود کے متعلق موجود بہت سے سوالات کے جوابات نہیں دیتا، اور اس طرح ہم حقیقی مسرت کبھی حاصل نہیں کر سکتے۔ اگر کوئی شخص کہتا ہے کہ وہ اس نظریے کے ساتھ واقعی خوش ہے تو میں کہوں گا کہ یہ ایک مخموری قسم کی خوشی ہے۔ ان کو ہوش اسی وقت آتا ہے جب وہ اپنی ذات کے متعلق گہرائی سے سوچنا شروع کرتے ہیں۔
، تحریرکتاب ‘ دی ڈیوائن ریلٹی” از حمزہ اینڈرئیس، ترجمہ محمد نعیم
حوالہ جات
[1] THE QUR’AN, CHAPTER 44, VERSE 38
[2] ARTHUR SCHOPENHAUER, ON THE SUFFERINGS OF THE WORLD. HTTP://EN.WIKISOURCE.ORG/WIKI/ON_THE_SUFFERINGS_OF_THE_WORLD.
[3] THE QUR’AN CHAPTER 12, VERSE 87
[4] THE QUR’AN, CHAPTER 99, VERSES 6 TO 8
[5] THE QUR’AN, CHAPTER 45, VERSE 22
[6] THE QUR’AN, CHAPTER 50, VERSE 35
[7] THE QUR’AN, CHAPTER 10, VERSE 26
[8] THE QUR’AN, CHAPTER 36, VERSES 55 TO 58
[9] THE QUR’AN, CHAPTER 7, VERSE 128
[10] THE QUR’AN, CHAPTER 51, VERSE 56
[11] THE QUR’AN, CHAPTER 39, VERSE 29
[12] YASMIN MOGAHED. RECLAIM YOUR HEART. FB PUBLISHING. 2012, P. 55.
[13] THE QUR’AN, CHAPTER 25, VERSES 43 TO 44
[14] THE QUR’AN, CHAPTER 59, VERSE 19
[15] THE QUR’AN, CHAPTER 11, VERSE 105
[16] THE QUR’AN, CHAPTER 25, VERSE 75
[17] THE QUR’AN, CHAPTER 59, VERSE 19