ابن انشاء نے ایک سکول ماسٹر کی کہانی لکھی۔ بدقسمتی سے اس سکول ماسٹر نے ریاست میں مثالی استاد کا ٹائٹل جیت لیا تھا۔ اپنی بے مثل محنت ، اپنے پیشے سے بے مثال لگاؤ اور اپنی کبھی نہ ٹوٹنے والی باقاعدگی کے باعث پوری ریاست کے ماسٹروں میں یہ شخص اول رہا تھا۔ اس شخص کی حسنِ کارکردگی سے ریاست کا بادشاہ بہت خوش ہوا ۔ وہ چاہتا تھا کہ اس شخص کو کسی سکول میں ہیڈ ماسٹر کے عہدے پر ترقی دے دی جائے۔ اتفاق سے پورے شہر میں کوئی سکول ایسا نہ ملا ، جہاں ہیڈ ماسٹر کی سیٹ خالی ہو۔ پورے صوبے اور پھر پوری ریاست میں بھی تلاش کرکے دیکھ لیا گیا۔ افسوس مگر پورا ملک بھی اس بے چارے نئے ہیڈ ماسٹر کو جگہ دینے کیلئے تیار نہ ہوا۔ بادشاہ بھی اپنی دھن کا پکا تھا، اس نے کہا ، اسے کسی نہ کسی شعبے کا ہیڈ تو اب میں بنا کے ہی رہوں گا، لہذا اس نے ٹاسک ذرا سا وسیع کر دیا اور حکم صادر فرمایا کہ سکول تک محدود رہنے کی ضرورت نہیں، اب کوئی سا بھی ایسا شعبہ چلے گا، جہاں ہیڈ کی سیٹ خالی ہو۔ اب نئے سرے سے جامع تلاش شروع ہوئی تو بالآخر ایک شعبے میں کامیابی نصیب ہو گئی۔ شہر کے سرکاری ہسپتال کے زچہ و بچہ ڈیپارٹمنٹ میں ہیڈ نرس کی سیٹ خالی مل گئی۔ یہ سیٹ خالی بھی تھی اور تھی بھی ہیڈ کی، چنانچہ بادشاہ نے فی الفور آرڈر جاری فرما دئیے کہ اس مثالی سکول ماسٹر کو اسی شعبے میں ہیڈ نرس کے عہدے پر ترقی دے دی جائے۔گو سکول ماسٹر بہت سٹپٹایا کہ وہ صرف تعلیمی خدمات سر انجام دے سکتا ہے ،زچہ و بچہ ڈیپارٹمنٹ میں ہیڈ نرس کی سروسز دینے کے تو وہ بالکل قابل نہیں۔ مگر بادشاہ نے اسے کارِ سرکار میں مداخلت سے باز رہنے کی تنبیہ کرتے ہوئے اگلے دن متعلقہ شعبے میں حاضر ہونے کی خوشخبری سنا دی۔
ممکن ہے یہ لطیفہ ہی ہو۔ ہمارے ہاں مگر اس لطیفے کو سچ کرنے کی کوشش بہت پڑھے لکھے لوگوں کی طرف سے کی جاتی ہے۔ رواج سا چل نکلا ہے کہ جب بھی کوئی مشہور شخص فوت ہو جائے تو اس کی تعلیمی قابلیت دیکھے بغیر اسے کسی نہ کسی ڈیپارٹمنٹ کا ہیڈ بنانے کی سر توڑ کوشش شروع ہو جاتی ہے۔ یہی کچھ سٹیفن ہاکنگ کی وفات کے موقع پر بھی دیکھنے میں آیا۔ ایک طرف ہمیں اپنے بعض مذہب پسند دوستوں سے شکوہ رہتا ہے کہ وہ کسی گنہگار مسلمان کی وفات پر اس کے بارے میں حتمی بات کہنے سے گریز نہیں کرتے تو دوسری طرف ہمارے غیر مذہبی دوست بھی حد ہی کر گزرتے ہیں۔ ایک طرف یہ احباب زور لگاتے رہتے ہیں کہ مذہب اور خدا کوئی وجود نہیں رکھتے ، یہ نادانوں کے تراشے ہوئے تخیل ہیں تو دوسری طرف کسی بھی مشہور شخص کے فوت ہونے پر فورا اس کے لیے مذہبی جنت الاٹ کروانے پر بھی ٹوٹ پڑتے ہیں۔ان لوگوں کی کاوش اور خواہش دیکھ کر واصف علی واصف یاد آتے ہیں، جن کا مقولہ مشہور ہے ، زندگی ہم فرعون کی اور عاقبت ہم سیدنا موسیٰؑ کی پانا چاہتے ہیں۔ سوچنے پر پابندی نہیں ، ایسا مگر ہوا نہیں کرتا۔ باقی باتیں چھوڑیئے ،میں تو یہ سوچ کے پریشان ہو جاتا ہوں کہ آخر اس موقع پر لادینیت اور الحاد سے آپ جیسے اصول پرستوں کا ایمان کیسے ہٹ جاتاہے؟ دیکھئے جنت اور دوزخ کے معاملات پوشیدہ ہیں ، مگر ان کے راستے بالکل پوشیدہ نہیں۔ سوائے ان لوگوں کے جن کو زبانِ نبوت سے جنت کی نوید یا جہنم کی وعید سنائی جا چکی ، ہم صرف امید کر سکتے ہیں ،کسی کو حتمی جنتی یا جہنمی نہیں کہہ سکتے۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ہم مکمل اندھیرے میں ہوں یا اندھیر مچا دینے کا پروانہ بھی حاصل کر چکے ہوں۔ یقینا ہم راستے بھی بخوبی پہچانتے ہیں اور راستوں کی منزلیں بھی جانتے ہیں۔
جنت کا راستہ ایمان کے دروازے سے شروع ہوتا ہے۔ اگر آپ کے خیال میں ایمان کی کوئی قدر ہی نہیں تو پھر اس سارے سلسلے کی آخر ضرورت ہی کیا تھی، جو آدم کی آفرینش سے لے کر حضرت عبدالمطلب کے پوتے نبی محترمؐ تک آن پہنچا۔اگر ایمان ایک اضافی چیز ہے تو پھر سیدنا موسیٰ ؑکے فرعون ، سیدنا عیسیٰ ؑکے اپنے مخالفوں ، جنابِ ابراہیم ؑکے نمرود اور نبیٔ رحمت کے کفارِ قریش کے خلاف ڈٹ جانے کا کیا مطلب رہ جاتاہے؟ ایک تواتر سے کچھ دوست سائنس کی خدمات سر انجام دینے والوں کو انسانیت کامسیحا قرار دینے لگے ہیں۔ بعض احباب تو لکھ چکے کہ اللہ کے ولی بھی دراصل یہی ہیں، جو انسانیت کے لیے راحت کشید کرتے ہیں۔ میں ان سے پوچھتا ہوں، تب ایوب خان کے ملک کو قرض میں ڈبو دینے کو آپ کیوں برا سمجھتے ہیں، اس لیے ہی نا کہ انھوں نے وقتی آسودگی کے لیے ملک کا مستقبل قرض تلے دبا دیا۔ فرض کریں کوئی شخص سکول کے بچے کو کتابوں کی مشقت سے ہٹا کر کھیل کے میدان میں لے جائے ، بیٹ پکڑائے اور کھلانے لگے؟ بچہ اس سے خوش ہو سکتا ہے ، مگر کیا دانا و بینا اور با شعور لوگ بھی اصلی مقصد کی تکمیل کی جگہ کھیل کود پسند کرنے لگیں گے؟ اور کیا کھیل کے میدان میں سال گزار دینے والا طالب علم پاس بھی ہو جائے گا؟ فرض کریں ایک شخص ہر روز آپ کر دفتر جانے نہ دے اور گاڑی میں گھمانے لے جائے؟ اور کیا سارا مہینہ دفتر کو شکل نہ دکھانے والا شخص تنخواہ بھی پا لے گا؟ تو کیا بچے کا کھیل اور گاڑی انجوائے کرنے کی سہولیات دونوں کے بہتر مستقبل کی ضامن بھی ہوں گی؟ قبرستان ہمیں بتاتے ہیں کہ اس جہاں کی راحت اصلی راحت نہیں۔ بھلا اس مسافر سے زیادہ بد قسمت کون ہو گا، جو مسافر خانے کی سہولیات دیکھ کر اپنی منزل ہی بھلا بیٹھے؟ تو کیا راہ کی خوبی و خوبصورتی پر ریجھ جانے والا شخص منزل بھی پا لیتا ہے؟ حق یہ ہے کہ یہ دنیا ایک سواری ہے ، کامیابی اس سواری کو سہولتوں اور آسائشوں سے بھر دینے کی نہیں ، بات اسے درست راہ پر لگا دینے کی ہے۔
بات پھر وہی کہ جب آپ اس نظام کو ماننا نہیں چاہتے تو اس کی اصطلاح پر کیوں حق جمانا چاہتے ہیں؟ یہ سب کچھ اسی مذہب کا دیا ہے جو آپ کو پسند نہیں آتا۔ بہرحال خدا کی جنت پانے کے لیے خدا پر ایمان لانا پڑتا ہے، اور اس کے قاصدوں کو اور اس کے بھیجے ہوئے آئین کو مشعلِ راہ بنانا پڑتاہے۔ ایمان ہی سے دراصل آخرت میں آپ کا اکاونٹ کھلتا ہے۔ کیا کبھی آپ نے ایسا بھی کیا کہ جس بینک میں آپ کا اکاؤنٹ ہی نہ ہو ، وہاں سے آپ روپے نکلوانے بھی جا پہنچے ہوں؟ جس سوسائٹی کی آپ کے پاس فائل ہی نہ ہو ، وہاں آپ پلاٹ پانے بھی جا دھمکے ہوں؟ ایمان کا اکاؤنٹ ہونا پہلی بات ہے، اس میں نیکیوں کا بیلنس بھرنا اگلی بات ہے۔ اکاؤنٹ اگر موجود ہو تو ممکن ہے کسی سکیم سے آپ پھر بھی کچھ فائدہ اٹھا لیں ، اکاؤنٹ ہی اگر موجود نہیں اور آپ حصہ دار بننے پر بھی مصر ہیں تو پھر آپ یقینا ہمارے ہاں کے لبر ل کہلانے کے مستحق ہیں ، یعنی خود کو اور دوسروں کو دھوکا دینے کے خبط میں مبتلا۔ یہ دھوکا مگر آپ کو کیا دے سکے گا؟
تحریر یوسف سراج