ایک صاحب نے سوال نما دعوی فرمایا ہے کہ اگر آج کے دور میں نبی آتا تو وہ لوگوں کو وہ تعلیمات پیش نہ کرتا جسے مولوی پیش کرتا ہے کیونکہ وہ تعلیمات تو اٹھارویں صدی تک کے انسان کو اپیل کرتی تھیں، آج کا نبی اگر ہوتا تو مثلا عورتوں کو پردہ کرنے یا گھروں پر بیٹھنے کا حکم نہ دیتا، غلامی کی بات نہ کرتا وغیرہ وغیرہ۔ کئی اہل علم نے اس سوال نما دعوے کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اس پر سوچنے و جواب کی ضرورت ہے۔
اس پر ہمارا مختصر تبصرہ یہ ہے۔
- دعوی کرنے والے صاحب کا مفروضہ ہے کہ اٹھارویں صدی کے بعد چونکہ انسان نے حق و عدل کے حقیقی پیمانے جان لئے ہیں لہذا اگر اس دور میں نبی آتا تو وہ اسی حق کے مطابق وحی پیش کرتا نیز ان کا یہ بھی مفروضہ ہے کہ وحی حالات کی پیداوار ہوتی ہے، اسی لئے لازم ہے کہ آج کی وحی آج کے حالات کے مطابق اور اس کی تصویب کرنے والے فیصلے سناتی
- صاحب دعوی کی طرح ادعایت کے گھوڑے پر سوار ہوکر کوئی یہ کیوں نہیں کہہ سکتا کہ اگر آج نبی آتا تو وہ عورتوں کو مارکیٹ میں یوں گھومتا دیکھ کر ان کو گھروں پر لوٹ جانے کا حکم دیتا، سود کھانے والوں پر لعنت بھیجتا وغیرہ؟ اس مفروضے میں کیا منطقی و علمی خرابی ہے کوئی مجھے سمجھائے گا؟
- پھر ان صاحب کے استدلال کا حال یہ ہے کہ انہوں نے نبی کی مفروضہ وحی کو اسی حد تک آگے پیچھے جانے کی اجازت دی ہے جو انکے اپنے تجربات و خیالات سے ھم آھنگ ہو۔ مثلا ان صاحب سے سوال پوچھئے کہ اب جو نبی آتا کیا وہ مثلا ناروے و سویڈن والوں کو یہ حکم دیتا کہ تم زنا مت کرو اور جو ایسا کرے اسے کوڑے مارو؟ اگر ہاں تو کیوں، اس لئے کہ یہ صاحب دعوی کے شعور کو قابل قبول ہے یا اس لئے کہ اہل ناروے و سویڈن بھی اس بارے میں ایسا ہی سوچتے ہیں؟ اگر وہ ایسا نہیں سوچتے تو پھر سوال یہ ہے کہ صاحب دعوی کے مفروضات میں ایسا کیا کمال ہے کہ وحی انکے مطابق تو آتی مگر اہل ناروے کے احساسات کا خیال نہ رکھتی؟ تو جس چیز کا الزام یہ مولوی کو دے رہے ہیں خود پوری طرح سے اسی کا شکار ہیں فرق صرف دائرے کے سائز کا ہے۔ اور اگر اس سوال کے جواب میں ان کا جواب یہ ہے کہ نبی انہیں ایسا کوئی حکم نہیں دیتا تو بھائی پھر مجھے یہ بتائیے کہ آخر تمہیں نیا نبی چاہئے کس لئے؟ اپنے خیالات و عمل کی مذھبی تصویب کے لئے؟ جب تم نے وحی کو وہی بنانا ہے جو تمہارا دل کرتا ہے تو وحی و نبی کس لئے؟ آخر ایسے غیر منطقی سوال کا مقصد کیا ہے؟
- بات یہ ہے کہ اگر بالفرض آج وحی آتی تو وہ بھی وہی کہتی جو اس نے پہلے کہہ دیا، بات تبدیل کرنے کی کوئی وجہ موجود نہیں۔ نبی انسانوں کی اصلاح و تزکئے کے لئے بھیجے جاتے ہیں نہ کہ ان کے پسندیدہ خیالات و اعمال کی تصویب کے لئے۔ یہ اٹھاریوں صدی کے مابعد جس جدید انسان و معاشرت کو آپ حوالہ بنا رہے ہیں یہ انسان و معاشرت اصلاح کا موضوع ہے نہ کہ وحی کے لئے معیار بن جانے کا۔
-آج کے نئے نبی کی وحی کے آج کے انسان کے تقاضوں کے مطابق ہونے کے دعوے کے پس پشت یہ غلط در غلط مفروضہ بھی کار فرما ہے گویا نبی وہی بات کہتا ہے جو کسی مخصوص دور کی اکثریت انسانوں کے لئے قابل قبول اور ان کے خیال میں قابل عمل ہو۔ بھائی اگر ایسا ہوتا تو کیا لوگ انبیاء کو قتل کرتے؟ کیا نوح علیہ السلام کو 950 سال تک لوگ یونہی بلا وجہ جھٹلاتے رہے تھے؟ آخر یہ وہم تمہیں کس دلیل سے ہوگیا ہے کہ اگر آج نبی آتا تو ایسی ہی بات کرتا جو تمہارے دل کی آوار ہے؟ اور اس بات کی آپ کے پاس کیا دلیل ہے کہ مغربی تاریخ سے برآمد ہونے والی جس آواز کو آپ نے اپنے دل کی آواز بنا لیا ہے وہی آواز حق و عدل کا پیمانہ بھی ہے، وہ بھی اس قدر اعلی و ارفع کہ خدا کا نبی بھی اپنی وحی میں اسی کی پیروی کرنے کا پابند ہوتا؟
دلیل قائم کرتے ہوئے کچھ تو عقل سے کام لینا چاہئے۔اس قسم کے استدلال کو ہمارے یہ لوگ بڑے “منطقی و علمی” سمجھ کر پیش کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کا نہ تو منطق سے کچھ لینا دینا ہے اور نہ ہی علم سے، یہ اوھام ہیں۔