ہمارا دور ابھی تک زمانۂ سائنس کی جمع کا دور ہے اور جوں جوں اُجالا بڑھتا جارہا ہے توں توں ایک ذہین خالق کے دست ِ قدرت کی نیرنگیوں کا زیادہ سے زیادہ انکشاف ہوتا جارہا ہے۔ ڈارون سے ۹۰برس بعد ہم حیرت انگیز انکشافات کرچکے ہیں۔ سائنس کی عاجزانہ اسپرٹ اور علم کی چکی میں پسے ہوئے ایمان کے ساتھ ہم اللہ کی معرفت کے مقام کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں۔ جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے تو اللہ پر میرے ایمان کی بنیاد سات باتوں پر ہے :
1۔ غیر متزلزل قوانین
ریاضی کے ’قانونِ غیر متزلزل ‘ کے ذریعے ہم ثابت کرسکتے ہیں کہ ہماری اس کائنات کے مدبر ومعمار اعلیٰ پائے کے ایک انجینئر کی ذہانت رکھنے والی ہستی ہے۔ فرض کیجئے کہ آپ دس پیسوں کو ایک سے دس تک کے نشانات لگا کر جیب میں ڈال لیتے ہیں اور اُن کو خوب ہلا جلاکر چھوڑ دیتے ہیں۔ اب اگر آپ کو یہ کہا جائے کہ ان پیسوں کو نشانات کی ترتیب کے مطابق جیب سے نکالیے اور پھر واپس ڈالتے جایئے اور ہر مرتبہ جیب میں ان کو ہلا جلا دیجئے تو ریاضی کی رُو سے ہمیں معلوم ہے کہ آپ کا پہلی مرتبہ صحیح نشان والے سکے کو نکال لینے کا امکان 1/10 ہے۔ پھر بالترتیب پہلے اور دوسرے نشانات والے پیسوں کے صحیح نکال لینے کا امکان 1/100 ہے۔ پہلے دوسرے اور تیسرے نشانات والے پیسوں کو بالترتیب صحیح نکال لینے کا امکان 1/1000 اور اسی طرح بڑھاتے چلے جائیے۔ یہاں تک کہ پہلے سے لے کر دسویں نمبر تک کے پیسوں کو اسی ترتیب کے ساتھ صحیح نکال لینے کا امکان ایک ناقابل یقین حد تک پہنچا ہوا حصہ یعنی 1/10,000,000,000 ہوگا۔
اس دلیل کے مطابق زمین پر زندگی بسر کرنے کے واسطے بہت سی لازمی شرائط کا ہونا ضروری ہے اور ان کا مناسب حد تک موجود ہونا کسی اتفاقی امر پر موقوف نہیں۔
زمین اپنے محور کے گرد ۱۰۰۰ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گردش کررہی ہے۔ اگریہ رفتار ۱۰۰ میل فی گھنٹہ رہ جائے تو ہمارے دن رات کی لمبائی آج کی نسبت سے ۱۰ گنا بڑھ جائے اور سورج کی گرمی اس طویل دن کے اندر سبزیوں اور دیگر نباتات کو جھلسا کر رکھ دے۔ اُدھر لمبی لمبی راتوں میں نئی نئی کونپلیں یخ بستہ ہوکر رہ جائیں۔
زمین کا ترچھا پن جسے ہم ۲۳ درجے کا زاویہ کہتے ہیں ہمارے موسموں کا باعث بنتا ہے۔ اگر اس کے اندر یہ ٹیڑھ نہ ہوتی تو سمندر کے بخارات شمال جنوب کی طرف چلے جاتے ہمارے لیے کئی برفانی براعظم تیار کرتے چلے جاتے۔
اگر ہمارا چاند فرض کیجئے کہ اپنے حقیقی فاصلے کے بجائے زمین سے ۵۰ ہزار میل دور ہوتا تو سمندر کی لہریں اتنی زیادہ ہوتیں کہ ہمارے تمام براعظم دن میں دو مرتبہ زیر آب آجایا کرتے۔ یہاں تک کہ پہاڑ بھی آہستہ آہستہ کٹ کٹ کر ریزہ ریزہ ہوجاتے۔
اگر سطح زمین اپنی موجودہ موٹائی سے صرف ۱۰ فٹ اور زیادہ موٹی ہوتی توآکسیجن پیدا ہی نہ ہوسکتی جس کے بغیر حیوانی زندگی کا خاتمہ ہوجاتا۔
اگر سمندر چند فٹ اور گہرے ہوتے تو کاربن ڈائی آکسائڈ اور آکسیجن جذب ہوکر رہ جاتیں اور نباتات کا وجود باقی نہ رہتا۔ یا
اگر ہماری فضا لطیف تر ہوتی تو لاکھوں ٹوٹنے والے ستارے جو روزانہ خلا میں جل کر رہ جاتے ہیں، زمین کے ہر حصے سے ٹکراتے اور ہر جگہ آگ لگا دیتے۔ ان وجوہ سے اور ان جیسی کئی اور مثالوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایک کے کروڑویں حصے میں بھی اس امر کا امکان نہیں پایا جاتا کہ ہمارا سیارہ (زمین) محض ایک اتفاقی حادثہ کا نتیجہ ہے۔
2۔زندگی کیا ہے؟
حصولِ مقصد کے لیے زندگی کا پُر اَز وسائل ہونا ایک عقلِ کل کی شہادت دیتا ہے۔ زندگی بجائے خود ہے کیا؟ کسی نے اس بات کی گہرائی کا اندازہ نہیں لگایا۔زندگی نہ تو وزن رکھتی ہے نہ جسامت، البتہ یہ قوت رکھتی ہے۔ ایک اُبھرتی ہوئی جڑ چٹان میں شگاف کردیتی ہے۔ زندگی نے پانی، زمین اور ہوا کو مسخر کرلیا ہے۔ عناصر پر قابو پاکر اُنہیں پگھلنے اور اختلاط کی باہمی اصلاح پر مجبور کردیا ہے۔
اب ذرا چمک دار، بیلی نما، ہلنے والے پروٹوپلازم قطرے کو ملاحظہ کیجئے جو سورج سے قوت حاصل کرتا ہے اور جو تقریباً ناقابل دید ہوتا ہے۔ یہ ایک ننھی سی واحد اور ایک ذرا سی چمکدار یا دھندیالی بوند اپنے اندر زندگی کا ایک جرثومہ رکھتی ہے اور چھوٹی بڑی ہر جاندار شے تک زندگی کو پہنچا دینے کی طاقت بھی رکھتی ہے۔ اس ننھی سی بوند کی طاقتیں ہمارے نباتات، جانوروں اور انسانوں کی طاقتوں سے زیادہ ہیں۔ کیونکہ تمام زندگی اسی کی طرف سے آتی ہے۔ قدرت سے از خود زندگی پیدا نہیں ہوگئی۔ آگ سے جھلسی ہوئی چٹانیں اور بے نمک سمندر اِن پیچیدہ ضروریات کو پورا نہیں کرسکتے تھے۔ پھر وہ کون ہے جو اِنہیں یہاں لے آیا ہے؟
3۔پُراسرار ترکیبیں
عقل حیوانی بلا شبہ ایک بہترین خالق کی شہادت دیتی ہے جس نے اس بے سہارا مخلوق کی ذات کے اندر یہ مادہ ودیعت کیا ہے۔
سالمن نامی چھوٹی سی مچھلی کئی سال سمندر میں بسر کرنے کے بعد اپنے دریاؤں میں واپس آتی ہے اور دریا کی اُسی جانب کو سفر کرتی ہے جہاں وہ نالہ آکر گرتا ہے جس میں برسوں قبل اس کی پیدائش ہوئی تھی۔ کون ہے جو اُسے ٹھیک اسی مقام پر واپس لاتا ہے؟ اگر آپ اسے کسی دوسرے نالے میں منتقل کردیں تو اُسے فوراً پتہ چل جائے گا کہ وہ اپنے راستے سے دور جاپڑی ہے اور وہ واپس دریا کی طرف جاکر پھر اپنا راستہ تلاش کرنے کے لیے جدوجہد کرے گی اور ازسر نو بہاؤ کے خلاف تیر کر اپنی قسمت کو بہترین انجام تک پہنچائے گی۔
اسی طرح اِیل (Eel)نامی مچھلی کے راز کو سمجھنا اور بھی مشکل ہے۔ یہ حیرت ناک مخلوق بلوغت کی عمر کو پہنچتے ہی ہر جوہڑ، تالاب اور دریا وغیرہ ہر جگہ سے یورپ کے ہزار ہا میل کے سمندر کا سفر طے کرکے برمودہ کے قریب اَتھاہ سمندری گہرائیوں میں پہنچ جاتی ہے۔ وہاں یہ کھاتی پیتی اور مرجاتی ہے۔ اس کے بچے جن کے پاس بظاہر کسی بات کے جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں ہوتا، سوائے اس کے کہ وہ پانی کی بے پناہ وسعتوں میں ہیں، اس کے باوجود واپس چل پڑتے ہیں اور نہ صرف اسی ساحل کا راستہ اختیار کرتے ہیں جہاں سے ان کے والدین آئے تھے بلکہ وہاں سے وہ ان آبائی دریاؤں، جھیلوں اور چھوٹے چھوٹے جوہڑوں میں پہنچ جاتے ہیں اور یوں پانی کا ہر خطہ ہمیشہ اِیل مچھلی سے بھرا رہتا ہے۔
ایک بھِڑ ایک پتنگے کو بے بس کرلیتی ہے۔ پھر زمین میں ایک سو سوراخ کھودتی ہے۔ پھر پتنگے کو ٹھیک ایسی جگہ پر ڈنک مارتی ہے تاکہ وہ مرنہ جائے بلکہ صرف بے ہوش ہو اور محفوظ گوشت کی صورت میں زندہ رہے۔ پھر بھِڑ سلیقے کے ساتھ انڈے دیتی ہے تاکہ اس کے بچے جب انڈوں سے نکل آئیں تو پتنگے کو مارے بغیر اسے کھاسکیں۔ کیونکہ ان کے واسطے مرے ہوئے پتنگے کا گوشت مہلک ہوتا ہے۔ پھر ماں وہاں سے اُڑ جاتی ہے اور باہر جاکر مرجاتی ہے اور واپس آکر کبھی اپنے بچوں کو نہیں دیکھتی۔ یہ پُراسرار ترکیبیں سیکھنے سکھانے سے نہیں آتیں بلکہ یہ فطرت میں سمو دی جاتی ہیں، جس فطرت کو کسی عظیم الشان خالق نے تخلیق کیا ہے۔
4۔روشنی کی کرن
انسان کو عقل حیوانی سے بڑھ کر قوتِ استدلال بھی عطاہوئی ہے۔ کسی دوسرے حیوان نے اپنی قابلیت کا کبھی اتنا ریکارڈ بھی نہیں چھوڑا ہے کہ وہ دس تک گن سکا ہو یا دس کے معنی ہی جانتا ہو،لیکن اس کے مقابلہ میں انسانی دماغ کی استعداد حیران کن ہے۔اس چوتھے نکتے کی زیادہ وضاحت کی ضرورت نہیں ہے۔ انسانی استدلال کی بدولت ہم اس بات کے امکان کو جان سکتے ہیں کہ ہم وہی کچھ ہیں جو کچھ کہ ہم ہیں، کیونکہ ہمیں اس عقل سے ہی تو روشنی کی ہر کرن حاصل ہوئی ہے۔
5۔جینز کی حکمرانی
تمام جانداروں کے وجود کے انتظار کا انکشاف ایک فطری اُصول کے ذریعے ہوا ہے۔ جیسے ڈارون نہیں جانتا تھا،لیکن جسے آج ہم جانتے ہیں مثلاً جینز(Genes) کی حیرت ناکیاں۔ یہ چیز اتنی ننھی سی مخلوق ہے کہ اگر دنیا کے تمام ذی حیات انسانوں کے جینز کو ایک جگہ جمع کرلیا جائے تو وہ سب زیادہ سے زیادہ درزی کی انگشتری میں سما جائیں گے۔ تاہم یہ صرف خوردبین سے نظر آنے والی مخلوق اور ان کے ساتھی کروموسومز(Chromosomes) ہر زندہ جسم میں وجود رکھتے ہیں اور تمام انسانی، حیوانی اور نباتاتی مخلوق کی اَصل ہیں۔
یہ جینز ان تمام مختلف آباؤ اجداد کی وراثت کو کیونکر محفوظ کرلیتے ہیں اور ہر ایک کی تفصیلات کو اتنی بے حقیقت جگہ میں کیسے سمو لیتے ہیں؟ حقیقتاً ارتقا یہیں سے شروع ہوتا ہے؛ جسم کے اس خانہ کے اندر سے جو جینز کو لیے ہوئے چلتا ہے۔ لاکھوں ایٹم خوردبینی جینز کی صورت میں بند ہوکر قطعی طور پر کرۂ ارض کی پوری زندگی پر کیسے حکمرانی کرتے ہیں؟ یہ ایک مثال ہے۔ اکمل ترین ہوشیاری کی اور ایک ایسا نظام ہے کہ جو فقط ایک خالق ذہن ہی کرسکتا ہے۔ یہاں دوسرا کوئی قیاس کام نہیں دے سکتا۔
6۔جسمانی تحدید و بندش
قدرت کی کفایت شعاری سے ہم یہ سمجھنے پر مجبور ہیں کہ صرف ایک لامحدود عقل ہی اس کی پیش بینی کرسکتی ہے اور ایسی تیز فہمی کے ساتھ کفایت شعاری سے کام لے سکتی ہے۔ کئی سال پہلے کی بات ہے کہ آسٹریلیا میں تھوہر کا ایک پودا لگایا گیا۔ چونکہ آسٹریلیا میں اس کے دشمن کیڑے موجود نہیں تھے، اس لیے وہ وہاں پر جلد ہی غیر معمولی طور پر بڑھنے لگا۔ اس کی چونکا دینے والی کثرت نے یہاں تک طول کھینچا کہ اس پودے نے انگلستان جتنا لمبا چوڑا رقبہ گھیر لیا اور یہاں کے باشندے شہروں اور دیہاتوں سے نکلنے پر مجبور ہوگئے۔ ان کے کھیت برباد ہوگئے۔ یہاں تک کہ کیڑوں مکوڑوں کے ماہرین دنیا میں اس کا علاج دریافت کرنے کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ بالآخر اُنہوں نے ایک کیڑا پا ہی لیا کہ جس کی زندگی کا انحصار فقط تھوہر کے کھانے پر ہے اور وہ دوسری کوئی چیز نہیں کھاتا۔ وہ آسٹریلیا میں آزادی کے ساتھ تھوہر کھا سکتا تھا جہاں اس کا کوئی دشمن بھی نہیں تھا۔ پس حیوان نے نباتات پر فتح پائی اور آج تھوہر کی بیماری کو ختم کردیا گیا ہے اور اس کے ساتھ ہی اس کیڑے کو بھی صرف اس کی تھوڑی سی تعداد کو رکھ لیا گیا ہے تاکہ وہ ہمیشہ کے لیے تھوہر کو قابو میں رکھ سکے۔ اس قسم کی روک اور توازن کے انتظامات عالمی اور آفاقی درجے میں کیے گئے ہیں۔
جلد جلد پیدا ہونے والے کیڑے مکوڑے روئے زمین کو بھر کیوں نہیں دیتے؟ اس لیے کہ ان کے پھیپھڑے نہیں ہوتے جیسے کہ آدمی کے ہوتے ہیں۔ وہ نالیوں کے ذریعے سانس لیتے ہیں۔ لیکن جب کیڑے بڑے ہوجاتے ہیں تو ان کی نالیاں ان کی جسامت کے مطابق نہیں بڑھتیں۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی کیڑا بڑے قد کا نہیں ہوتا۔ نشوونما کی اس تحدید نے اِنہیں محدود کررکھا ہے۔ اگر جسمانی تحدید و بندش کا یہ انتظام نہ ہوتاتو انسان ہرگز زندہ نہ رہ سکتا۔
7۔عظیم آسمانی سچائی
یہ حقیقت کہ اللہ کا تصور انسان کے قیاس میں آسکتا ہے؛ بجائے خود ایک بے نظیر ثبوت ہے۔ خدا کا تصور انسان کی ایک روحانی قوتِ ذہنی میں سے اُبھرتا ہے: وہ قوت جسے ہم قیاس کہتے ہیں۔ اس کی طاقت سے انسان اور صرف انسان ہی اَن دیکھی اشیا کا ثبوت پاسکتا ہے۔ یہ طاقت جس راستے کی طرف رہنمائی کرتی ہے، وہ لامحدود ہے۔ بلا شبہ انسان کا تکمیل یافتہ تصور ایک روحانی حقیقت بن جاتا ہے۔پھر وہ اس تدبیر اور مقصد کے حق میں تمام شہادتوں کو شناخت کرسکتا ہے اور ہر جگہ اور ہر شے میں اس عظیم آسمانی سچائی کو دیکھ سکتا ہے اور یہ کہ اللہ ہر جگہ ہے اور ہر شے میں اس کی کاری گری جھلکتی ہے۔ لیکن کہیں بھی وہ ہم سے اتنا قریب نہیں ہے جتنا اس کا تصور ہمارے دل میں پائے جانے سے ہے۔
ترجمہ تحریر آباد شاہ پوری