ایک سوال آج کل ملحدوں میں بڑا رائج ہے کہ جب خدا اپنے بندوں سے ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے تو تو انہیں جہنم میں کیوں کر ڈالے گا ؟ وہ بھی ہمیشہ کی جہنم ۔
جواب : سب سے پہلے تو اس نکتے کو اچھی طرح دل و دماغ میں بٹھا لیں کہ اس دنیا میں جیسی بھی زندگی آپ کو ملی ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے ۔ آپ بادشاہ ہوں یا فقیر ۔ صاحب اولاد ہو یا بے اولاد ۔ صحت مند ہوں یا معذور ۔ یہ فیصلہ اللہ کرتا ہے اور انسان اس فیصلے کو صرف قبول کرتا ہے ۔ مگر اس کے بعد آنے والی زندگی میں کون جنت میں جائے گا اور کون جہنم میں ۔ یہ فیصلہ اللہ نہیں کرتا بلکہ انسان خود کرتا ہے ۔ اپنے عمل کے ذریعے ۔ اللہ صرف انسان کے کیئے گئے اس فیصلے کو قبول کرتا ہے اور اس پہ عمل درآمد کرواتا ہے ۔ اب اس کو سمجھتے ہیں ۔
اس موضوع کو ہمیں انسانیت کے آغاز سے سمجھنا پڑے گا ۔قران میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔
اور جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کے آگے سجدہ کرو تو وہ سجدے میں گر پڑے مگر شیطان نے انکار کیا اور غرور میں آکر کافر بن گیا ﴿۳۴﴾ اور ہم نے کہا کہ اے آدم تم اور تمہاری بیوی بہشت میں رہو اور جہاں سے چاہو بے روک ٹوک کھاؤ (پیو) لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا نہیں تو ظالموں میں (داخل) ہو جاؤ گے ﴿۳۵﴾ پھر شیطان نے دونوں کو وہاں سے پھسلا دیا اور جس میں تھے، اس سے ان کو نکلوا دیا۔ تب ہم نے حکم دیا کہ (بہشت بریں سے) چلے جاؤ۔ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو، اور تمہارے لیے زمین میں ایک وقت تک ٹھکانا اور معاش (مقرر کر دیا گیا) ہے ﴿۳۶﴾ پھر آدم نے اپنے پروردگار سے کچھ کلمات سیکھے (اور معافی مانگی) تو اس نے ان کا قصور معاف کر دیا بے شک وہ معاف کرنے والا (اور) صاحبِ رحم ہے ﴿۳۷﴾( سورہ البقرہ 34 سے 37)
اب یہاں دو باتیں توجہ طلب ہیں ۔
ابلیس کو حکم ہوا کہ آدم کو سجدہ کرو ۔ اس نے نہیں کیا ۔ یہ اللہ کی حکم عدولی تھی ۔آدم علیہ السلام کو حکم ہوا کہ ایک درخت کا پھل نہیں کھانا ۔ انہوں نے کھا لیا ۔ یہ بھی حکم عدولی تھی ۔فرق کیا تھا ؟صرف توبہ اور تکبر کا ۔
ایک نے تسلیم کیا کہ غلطی میری ہے اور پھر اپنی غلطی کی معافی مانگ لی ۔ توبہ کر لی ۔دوسرے نے کہا غلطی میری نہیں خدا کی ہے ۔ اگر خدا نہ چاہتا تو میں یہ غلطی نہ کرتا ۔ یعنی بجائے اس کے کہ اپنی غلطی تسلیم کرتا ۔ الٹا الزام خدا پر ڈال دیا ۔ اسے کہتے ہیں تکبر ۔ یہ وہی عمل ہے جو ملحدین میں پایا جاتا ہے ۔
اس دن سے لے کر آج تک انسان کی اور شیطان کی ایک جنگ جاری ہے ۔ شیطان انسان کے دل میں یہ وسوسہ ڈالتا ہے کہ جو کچھ تم کرتے ہو اس میں قصور وار تم نہیں بلکہ خدا خود ہے ۔ اگر وہ نہ چاہتا تو تم گناہ گار نہ ہوتے ۔ مگر اللہ کے مومن بندے اس کے اس جال میں نہیں پھنستے اور توبہ کا راستہ اختیار کرتے ہیں ۔حدیث میں آتا ہے ۔حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اے آدم کے بیٹے جب تک تم مجھ سے دعا کرتے رہو گے اور مجھ سے امیدیں وابستہ رکھو گے میں تم کو معاف کرتا رہوں گا جو گناہ بھی تم نے کئے ہوں گے اور مجھے کچھ پرواہ نہیں (تم نے کتنے گناہ کئے)۔ اے آدم کے بیٹے، اگر تیرے گناہ آسمان تک پہنچ جائیں پھر تم مجھ سے معافی طلب کرو تو میں تمہیں معاف کردوں گا اور مجھے کچھ پرواہ نہیں۔ اے آدم کے بیٹے، اگر تم زمین کے برابر گناہوں کے ساتھ مجھ سے ملاقات کرو لیکن جب تیری مجھ سے ملاقات ہو تو میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو تو میں تیرے پاس ان گناہوں کے برابر بخشش کے ساتھ آؤں گا۔ (ترمذی)
پچھلی قرآنی آیت اور اس حدیث میں یہ بات واضح کی جا رہی ہے کہ جہنم میں جانے والوں کا اصل جرم گناہ کرنا نہیں ہے بلکہ اس گناہ پر ڈھٹائی اختیار کر لینا ہے ۔
اسی طرح جنتیوں کی اصل خصوصیت یہ نہیں کہ وہ گناہ نہیں کرتے ۔ بلکہ ان کی اصل خصوصیت گناہ کے بعد توبہ کر لینا ہے ۔اب اس میں جنت کا حصول کتنا آسان ہے ۔انسان خطاکار ہے یہ بات اس کے خالق سے بڑھ کر کون جان سکتا ہے ؟ اسی لئے پکڑ خطاؤں کے بجائے اس ڈھٹائی پر رکھی گئی ہے جو ان گناہوں کے بعد اختیار کی جا رہی ہے ۔پھر مزید یہ کہ ہر گناہ کی معافی رکھی گئی ہے سوائے دو گناہوں کے ۔
ایک کفر دوسرا شرک ۔کفر کیا ہے ؟خدا کو ماننے سے انکار کر دینا کفر کے زمرے میں آتا ہے ۔پہلے تو اس بات کو سمجھ لیں کہ کیا خدا کا انکار خدا کے وجود کا بھی انکار ہے ؟جی نہیں ۔خدا کے وجود کا انکار کرنا انسان کے بس کی بات ہی نہیں ۔ آپ سوچ سکتے ہیں کہ شائد ملحد وہ مخلوق ہے جو خدا کے وجود کا انکار کرتی ہے تو یقین جانیئے ایسا نہیں ہے ۔ یہ صرف ایک دھوکہ ہے جو انسان اپنے آپ کو دیتا ہے ۔ ملحد کا خدا کو نہ ماننا بس ایسا ہی ہے کہ جیسے کوئی بیٹا اپنے باپ سے کار کی فرمائش کرے اور پوری نہ ہونے کی صورت میں کہہ دے کہ تُو تو میرا باپ ہی نہیں ۔ ملحد خدا کے منکر نہیں ہوتے بلکہ اپنی محرومیوں کی وجہ سے خدا سے نفرت کر بیٹھتے ہیں ۔ بالکل شیطان کی طرح ۔
جس انسان کو اللہ نے عقل دے کر اس دنیا میں بھیجا وہ ازل سے گواہ ہے کہ یہ پوری کائنات کسی خدا کی کاریگری کے بغیر بننا ممکن ہی نہیں ۔ اور قیامت تک اس بات پر گواہ رہے گا ۔ ازل سے لے کر قیامت تک اس کی زندگی میں کوئی ایسا دن نہیں آنے والا جس دن اس کے پاس ایسی کوئی دلیل آجائے جو ثابت کرے کہ خدا نہیں ہے ۔ جس خدا کی تسبیحات بے جان چیزیں تک کرتی ہوں ان کا انکار صاحبِ عقل انسان کیسے کر سکتا ہے ؟ عقل رکھتے ہوئے خدا کے وجود کا انکار ناممکنات میں سے ہے ۔ وقتی طور پر کوئی بغیر سوچے سمجھے کسی کی باتوں میں آکر بھٹک ضرور سکتا ہے ۔ مگر جب اس کو تھوڑا وقت ملے گا سوچنے کا تو وہ واپس خدا ہی کی طرف لوٹے گا اور ان کو اس کا موقع خدا کی طرف سے ہی دیا جاتا ہے ۔
زیادہ تعداد ان ملحدوں کی ہوتی ہے جو جانتے بوجھتے شیطان کے نقشِ قدم پر چلتے ہیں ۔ میرا کئی ملحدوں سے خدا کی ذات کے موضوع پر مکالمہ ہو چکا ہے ۔ مگر آج تک کوئی ایک بھی ایسا نہیں ملا جس نے شکست کھانے کے بعد خدا کو مان لیا ہو ۔ دلیل میں شکست کھا جانے کے باوجود یہ بھاگنا تو پسند کر لیتے ہیں مگر مانتے نہیں ۔ یہ رویہ ہی اس بات کا سب سے بڑا ثبوت ہے کہ معاملہ عقل کا نہیں ڈھٹائی ہے ۔ زیادہ تر ملحد خدا کا انکار کسی آزمائش میں فیل ہو جانے کی وجہ سے کرتے ہیں ۔ایاز نظامی کا دس سالہ بچہ مرگیا تو وہ ملحد ہو گیا ۔ سوال یہ ہے کہ جس خدا کو وہ کل تک مانتا تھا اس کو آج اچانک ماننا کس دلیل پر چھوڑا ؟ بیٹے کے مرنے پر ؟ تو کیا بحیثئیت مسلمان یہ معلوم نہیں تھا کہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بیٹا ابراہیم بھی کم عمری میں وفات پا گیا تھا ؟ اللہ نبیوں کو آزما سکتا ہے تو عام بندے کو کیوں نہیں ؟
یعنی یہ بحث خدا کے وجود اور عدم وجود کی نہیں ہے بلکہ بدلے کی ہے ۔
ایک ابلیس تھا جس نے عہد کیا تھا کہ ایک آزمائش میں مبتلا کر کے مجھے بھٹکنے کا جواز مہیا کیا گیا ۔ لہٰذا میں ہر شخص کی آزمائش کو مشکل سے مشکل ترین بناتا چلا جاؤں گا ۔ایاز نظامی کا عمل بھی وہی تھا ۔ انہوں نے بھی اللہ کی طرف سے عائد کردہ آزمائش کو اللہ کا ظلم سمجھا اور عہد کیا کہ اب وہ بھی باقیوں کو بھٹکائیں گے ۔ یعنی ہم ڈوبے تو سب کو ڈبو دیں گے ۔
اللہ کسی پر ظلم نہیں کرتا ۔ ظلم انسان خود کرتا ہے اپنے آپ پر ۔وَلَا تَقرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَکُونَا مِنَ الظّٰلِمِينَ۔اور اس درخت کے پاس مت جانا ورنہ ظالموں میں سے ہو جاؤ گے ۔اس آیت میں ظالموں میں سے ہو جاؤ گے سے مراد اپنے آپ پر ظلم کرنے والوں میں سے ہو جاؤ گے ۔ اللہ کا ہر ہر حکم انسان کی ذاتی, معاشرتی اور دینی زندگی کے فائدے کے لئے ہوتا ہے اور اللہ کی ہر نافرمانی انسان کی ذاتی, معاشرتی یا دینی زندگی میں بگاڑ ضرور پیدا کرتی ہے چاہے اس بگاڑ کی مقدار بہت معمولی سی ہو ۔
کسی شخص کے گناہ کے بعد توبہ کر لینے پر اس کی اخروی سزا کو معاف کر دینا اللہ کی پالیسی میں شامل ہے مگر اس گناہ سے دنیا میں جو بگاڑ پیدا ہوتا ہے اسے بدلنا اللہ کی پالیسی میں شامل نہیں ۔ مثلاً اگر کوئی اپنا سر زور سے دیوار پر دے مارے اور زخمی ہو جائے تو یہ گناہ ہے ۔ پھر وہ توبہ کر لے تو توبہ بھی قبول ہو جائے گی ۔ مگر زخم اپنے وقت پر ہی بھریں گے ۔ یعنی توبہ سے اخروی سزا معاف ہو سکتی ہے مگر دنیاوی سزا ساقط نہیں ہوتی ۔ کسی شخص سے قتل ہو جائے تو وہ اس پر توبہ کر سکتا ہے ۔ اللہ اسے معاف بھی کر سکتا ہے مگر اس کی دنیاوی سزا اسے پھر بھی دی جائے گی ۔ کیوں کہ اس عمل میں جو ایک جان ضائع ہو گئی توبہ سے وہ واپس نہیں آرہی ۔
اس بحث سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اس دنیا میں دو طرح کے لوگ بستے ہیں ۔ ایک خیر پھیلانے والے اور دوسرے شر پھیلانے والے ۔اللہ جب یہ کہتا ہے کہ وہ اپنے بندوں سے ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے تو اس سے مراد خیر پھیلانے والے بندے ہوتے ہیں نہ کہ شر پھیلانے والے ۔جن بدبختوں کو اللہ کے وجود کا ہی انکار ہے ان کے نزدیک جہنم کیا چیز ہے ؟ اگر خدا کا کوئی وجود ہی نہ ہو تو کونسی جنت اور کونسی جہنم ؟کیا مجھے کوئی سمجھائے گا کہ ملحد لوگوں کو یہ یقین کیوں دلانا چاہتا ہے کہ خدا نہیں ہے ؟اسے کون سی جنت ملنی ہے اس تبلیغ سے ؟جان جوکھم میں ڈال کر لوگوں کو یہ سمجھانا کہ خدا اپنے بندوں سے ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا تو انہیں جہنم میں کیوں ڈالتا ؟اگر خدا کا وجود ہی نہ ہو تو ڈر کس بات کا ہے ؟
حقیقت یہ ہے کہ اللہ منصف ہے ۔ اتنی زیادہ آسانیوں اور سہولتوں کے باوجود کوئی محض دنیاداری کی بناء پر شرک یا کفر میں مبتلا ہو جاتا ہے تو ظالم وہ خود ہے ۔ اپنے جہنم میں جانے کا وہ خود ذمہ دار ہے ۔چند روزہ یہ زندگی محض کچھ محرومیوں یا آزمائشوں کی بناء پر برباد نہ کریں ۔ جو کچھ اللہ نے دیا ہے اس پر اللہ کا شکر ادا کریں اور جس سے محروم رکھا اس پر صبر کریں ۔ یہی جنت میں جانے کا راستہ ہے ۔
تحریر محمد سلیم