ایساسوال اگرحصول معرفت کے سواکسی اورمقصدکے لیے پوچھاجائے تو پوچھنے والا گناہ گار ہوگا۔ اگرکوئی شخص تنگی میں مبتلاہو تواسے شکوہ کرنے کی اجازت نہیں،لیکن وہ سمجھنے کی غرض سے یہ سوال پوچھ سکتاہے ۔
اللہ تعالیٰ جسے چاہتے ہیں مال و دولت ،گھر بار اور سواریاں عطافرماتے ہیں اورجسے چاہتے ہیں فقروفاقہ اورتنگی میں مبتلافرماتے ہیں،لیکن اس کے باوجود بعض اسباب مثلاًخاندانی حالات وغیرہ کے اثرات کو نظراندازنہیں کیاجاسکتاہے،نیزبعض لوگوں کی مال کمانے اوربڑھانے کی صلاحیتوں،سمجھ بوجھ اورقابلیت کاانکارکیا جاسکتاہے اور نہ ہی ان کے اپنے ماحول اورحالات سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت کی تاثیر کو جھٹلایاجاسکتاہے،لیکن اس کے باوجودبسااوقات اللہ تعالیٰ اعلیٰ قابلیت کے حامل لوگوں کو مال کی فراوانی نہیں دیتے۔ہمارے موضوع سے متعلق ایک ضعیف حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ مال جسے چاہتے ہیں عطافرماتے ہیں،لیکن علم صرف اسے عطافرماتے ہیں جواسے اللہ تعالیٰ سے مانگتاہے۔
مال و جاہ کوہرحال میں اچھی چیزسمجھنا غلط ہے۔جوشخص اللہ تعالیٰ سے مال،خوشحالی اور دنیوی آسائش مانگتاہے اللہ تعالیٰ اسے بعض اوقات یہ چیزیں عطافردیتے ہیں اوربعض اوقات نہیں دیتے اوردونوں صورتوں میں بہتری ہی ہوتی ہے،کیونکہ اگروہ شخص اچھاہوا اوراس نے مال کو بھلائی کے کاموں میں خرچ کیاتومال اس کے لیے بہترہوگا، لیکن اگروہ شخص برا اور راہِ راست سے بھٹکاہوا ہو ا تو اللہ تعالیٰ اسے مال دیں یانہ دیں حالات اس کے حق میں برے ہی رہیں گے۔ اگر وہ شخص براہوا تو اس کے لیے فقرکفرکاسبب بن سکتاہے،کیونکہ وہ اسے اپنے رب کے خلاف علم بغاوت بلندکرنے پر ابھارے گا،نیزاستقامت سے دوری کا مطلب قلبی زندگی اورصحیح روحانیت سے محرومی ہے، لہٰذاایسی صورت میں مالداری الٹامصیبت وآزمائش بن جاتی ہے۔﴿إِنَّمَا أَمْوَالُکُمْ وَأَوْلَادُکُمْ فِتْنَۃٌ﴾(التغابن:۱۵) ‘‘تمہارا مال اور تمہاری اولاد توآزمائش ہیں۔ ‘‘
آج بہت سے لوگ اس امتحان میں ناکام ہوچکے ہیں۔کتنے ہی مالداربہت زیادہ ثروت کے مالک ہیں، لیکن کفرکے سبب ان کے دل میں روشنی کی ادنی چمک بھی نہیں ہے، لہٰذا اللہ تعالیٰ کاایسے لوگوں کو مال وجاہ عطاکرنا استدراج (استدراج سے مرادبعض لوگوں کااللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے محظوظ ہونے کے باوجود کفرونافرمانی پرقائم رہنااورنتیجتاًاللہ تعالیٰ کے غضب اور ناراضگی سے قریب ہوناہے)اور ان کی گمراہی کاسبب قراردیاجاسکتا ہے۔ چونکہ انہوں نے اپنی قلبی اورروحانی زندگی کاخاتمہ اوراللہ تعالیٰ کی عطاکردہ فطری صلاحیتوں کو برباد کر دیا ہے، اس لیے وہ اس سزا کے مستحق قرارپائے۔ ایک حدیث نبوی میں ہے:’’اللہ تعالیٰ کے بعض بندے ایسے ہیں کہ اگر وہ اللہ کی قسم اٹھالیں تواللہ تعالیٰ ان کی قسم کوپورافرما دیتے ہیں۔ ایسے لوگوں میں سے ایک براء بن مالک رضی اللہ عنہ بھی ہیں۔ (البخاری، الصلح؛ مسلم، القیامۃ و المحاربین و القصاص والدیات)لیکن اس کے باوجود حضرت انس رضی اللہ عنہ کے حقیقی بھائی حضرت براء رضی اللہ عنہ کو کھانے کے لیے کھانااوررہنے کے لیے ٹھکانہ میسرنہ تھا۔ وہ بقدرضرورت روزی پراکتفاکرتے تھے۔ حضرت براء رضی اللہ عنہ ایسے کتنے ہی پراگندہ بالوں اورغبارآلودکپڑوں والوں کی عظیم ہستیوں جیسی عزت و توقیر کی جاتی تھی اوران کی روحانی وسعت، گہرائی اورعظمت اوران کی قلبی نورانیت کے مطابق انہیں مقام و مرتبہ دیاجاتاتھا،یہی وجہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ان کے بارے میں فرمایاہے کہ اگروہ اللہ کی قسم اٹھا لیں تو اللہ تعالیٰ ان کی قسم کوپورافرمادیتے ہیں۔
اس تفصیل سے ثابت ہوا کہ فقر اور مالداری میں سے کوئی بھی اپنی ذات کے اعتبار سے مصیبت یا نعمت نہیں۔ بعض اوقات موقع کی مناسبت سے فقراللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت بن جاتی ہے۔ رسول اللہﷺنے اپنی مرضی سے فقر کواختیارفرمایااوررسول ﷺکے فقروفاقہ کو دیکھ کر غمزدہ ہونے پرآپﷺنے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ارشادفرمایاتھا:‘‘کیاتمہیں یہ پسندنہیں کہ ان (کافروں) کے لئے دنیا ہوا ور ہمارے لیے آخرت۔’( البخاری، تفسیر، ۶۶؍۲؛ المسند، ۳؍۱۷۶) نیز باوجود اس کے کہ دنیاکے خزانے بیت المال میں امڈکر آ رہے تھے، خلیفہ ثانی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فقرکی زندگی بسرکی اوربیت المال سے صرف اتنی تنخواہ وصول کی، جس سے جسم اورجان کارشتہ قائم رہ سکے اوراس سے زیادہ کاکبھی مطالبہ نہ کیا۔
لیکن خداحفاظت فرمائے! فقرکی ایک قسم کفراورگمراہی بھی ہے،مثلاًاگریہی سوال حصول معرفت کی بجائے ناراضگی کے اظہار کے لئے کسی ناشکرے انسان کی زبان سے نکلے تو یہ نہ صرف اللہ تعالی کی نعمتوں کی ناشکری، اللہ سے شکوہ اور اس کی نافرمانی قرارپائے گا،بلکہ کفرسمجھا جائے گا، لہٰذا فقرکبھی نعمت ہوتاہے اورکبھی مصیبت ، دوسرے لفظوں میں اصل چیزدل سے نکلنے والی صداہے ۔کسی شاعرنے کہا ہے :
یارب!کل مایأتی منک مقبول ان کان خلعۃ … أو کان کفناً
ان کان وردۃ … أو شوکاً نعمتک ومحنتک … کلاھماحسن
’’اے پروردگار! آپ کی طرف سے آنے والی ہر چیز قبول ہے وہ خلعت ہو یا کفن، پھول ہویاکانٹا۔آپ کی نعمت اورآزمائش دونوں اچھی ہیں۔‘‘
مشرقی اناطولیہ میں ایک ضرب المثل مشہورہے:‘‘کل ما جاء منک جمیل سواء أکان ھذا أم ذاک’’(آپ کی طرف سے آنے والی ہرچیزاچھی ہے، یہ ہویاوہ۔)انسان کا تعلق اگر اللہ تعالیٰ سے مضبوط ہو تو اسے مالداری اورفاخرانہ لباس سے کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ایساشخص شیخ عبدالقادرجیلانی کی مانند ہوتاہے، جن کا پاؤں اولیائے کرام کے کندھوں پرتھااور سررسول اللہﷺکے دامن سے چھورہاتھا،لیکن اگرانسان کارشتہ خدا سے ٹوٹ جائے تواس کا فقر دنیا و آخرت میں اس کے لیے خسارے کاباعث بنتاہے، اسی طرح اگرمالدارشخص خداسے غافل ہو تو دنیامیں اگرچہ وہ خوش بخت دکھائی دیتاہے،لیکن آخرت میں بہت بڑاخسارا اس کا منتظرہوتاہے۔
فتح اللہ گولن