میرے فیس بک پیج پر مختلف لوگ اپنے مسائل کے لیے وقتا فوقتاً مجھ سے رابطہ کرتے رہتے ہیں۔ دو روز پہلے ایک میسج آیا کہ “میں قرآن کو محفوظ نہیں مانتا اور اس تعلق سے آپ سے بات کرنا چاہتا ہوں”، مجھے جب یہ معلوم ہوا کہ سوال کرنے والا انڈیا سے تعلق رکھتا ہے تو میں نے اس سے فون پر بات کرنا مناسب سمجھا۔ میری حیرت کی اس وقت انتہا نہ رہی، جب مجھے یہ معلوم ہوا کہ سوال کرنے والا صرف 19 سال کا لڑکا ہے اور علیگڑھ کے ماحول میں رہتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس شخص نے انٹرنیٹ پر موجود بہت سی ویڈیوز دیکھی ہیں اور تھوڑا بہت مطالعہ بھی کیا ہے۔ ذیل میں، میرے اور اس شخص کے درمیان ہونے والا مکالمہ ملاحظہ فرمائیں۔
ملحد: آپنے ایک ویڈیو میں یہ دعوی کیا ہے کہ قرآن محفوظ ہے، جبکہ میرا دعوی یہ ہے کہ قرآن غیر محفوظ ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ (حضرت) عائشہ کی ایک روایت ہے جس کو مسلم نے اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے کہ 10رضعات کو پانچ رضاعت والی آیت نے منسوخ کردیا اور یہ آیت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت تک پڑھی جاتی رہی۔ مجھے بتائیے کہ قرآن میں وہ آیت کہاں ہے؟۔
مجیب: پہلی بات تو یہ ہے کہ اس حدیث میں یہ کہاں ہے کہ وفات کے بعد تک پڑھی جاتی رہی؟ وفات تک پڑھے جانے کا مطلب وفات کے بعد تک پڑھا جانا غلط خلاف واقعہ ترجمہ ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ “پڑھا جانا” عربی زبان کے قاعدے کے مطابق مجہول کا صیغہ ہے اور مجہول کا صیغہ کسی چیز کے کمزور ہونے کو بیان کرنے کے لیے آتا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس حدیث سے یہ بتانا چاہتی ہیں کہ چونکہ پانچ رضاعت والی آیت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کے آخر میں منسوخ ہوئی، اس لئے سب لوگوں کو اس کا علم نہیں ہوسکا اور کچھ لوگوں کو وفات کے بعد تک وہ آیت یاد تھی اور وہ با آسانی پڑھ سکتے تھے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر یہ آیت قرآن کا حصہ ہوتی تو حضرت عائشہ سب سے پہلے اپنے والد حضرت ابوبکر کے اوپر اعتراض کرتیں کہ انہوں نے جب قرآن کریم کو جمع کیا تو اس آیت کو شامل کیوں نہیں کیا اور اس کے بعد حضرت عثمان پر اعتراض کرتیں، جبکہ حضرت عائشہ کی وفات حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد ہوئی ہے۔
ملحد: یہ تو آپ تاویل کر رہے ہیں ورنہ تو شیخ البانی نے اس حدیث کو سلسلہ الاحادیث الصحیحہ میں ذکر کیا ہے۔
مجیب: اول تو میں نے اس حدیث کی صحت کا انکار نہیں کیا بلکہ اس کے وہ معنی بیان کیے جو درحقیقت درست ہیں، جبکہ آپ اس کے وہ معنی سمجھ رہے ہیں جو درست نہیں ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ میں یہ بھی بتا دوں کہ کسی حدیث کے سند کے اعتبار سے صحیح ہونے کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ وہ ہمیشہ قابل عمل بھی ہو گی۔ بہت سی احادیث ایسی ہیں جو سند کے اعتبار سے بہت مضبوط ہیں، لیکن وہ منسوخ ہیں اس لیے قابل عمل نہیں ہیں، بلکہ امام ترمذی نے ایک حدیث تو ایسی نقل کی ہے کہ جو ان کے نزدیک صحیح ہے۔ اس حدیث کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں رہتے ہوئے بغیر کسی عذر کے، ظہر اور عصر کی نماز جمع فرمائی۔ خود امام ترمذی کے مطابق یہ حدیث قابل عمل نہیں ہے جبکہ وہ اس کی صحت کے قائل ہیں۔
ملحد: لیکن مولانا زبیر علی زئی نے تو اپنی ویڈیو میں یہ کہا ہے کہ یہ حدیث بھی قابل عمل ہے۔
مجیب: ہم امام ترمذی کی بات مانیں یا مولانا زبیر علی زئی کی۔ دوسرے یہ کہ مجھے صرف یہ بات ثابت کرنی ہے کہ امام ترمذی کے زمانے تک اس حدیث پر عمل نہیں ہوا، جبکہ اس حدیث کی سند پر کوئی غبار نہیں ہے۔ اس سے میرا یہ پوائنٹ ثابت ہوتا ہے کہ سندا اگر کوئی حدیث صحیح ہو تو یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ ہر حال میں قابل عمل بھی ہو۔ رہی بات اس حدیث کی جس کا آپ حوالہ دے رہے ہیں وہ سندا صحیح بھی ہے اور قابل عمل بھی ہے البتہ اس کے وہ معنی ہیں جو میں نے بیان کیے۔ اگر آپ کے بیان کردہ معنی درست ہوتے تو ثابت کیجئے کہ حضرت عائشہ نے بعد میں حضرت ابوبکر یا حضرت عثمان پر بھی اعتراض کیا تھا۔
لیکن قبل اس کے کہ ہم آگے بڑھیں، میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ ملحد کیسے بنے؟ وہ کون سا سوال تھا کہ جس نے آپ کو مذہب کے بارے میں تردد اور شک میں ڈال دیا۔
ملحد: مجھے اس سوال کا آج تک کوئی جواب نہیں ملا کہ اگر اس کائنات کو اللہ نے بنایا تو پھر اللہ کو کس نے بنایا۔
مجیب: مجھے حیرت ہے کہ آپ نے قرآن اور حدیث اور اسی طریقے سے تاریخ کا تھوڑا بہت مطالعہ کیا ہے، لیکن آپ اتنے بنیادی سوال میں اٹک گئے۔ اس کا جواب تو بہت آسان ہے۔
ملحد: آسان جواب ہے تو آپ دیجیے۔
مجیب: میں ایک مثال سے آپ کو سمجھاتا ہوں۔ تصور کیجیے کہ آپ ایک لڑکی سے اس کا ہاتھ مانگنے گئے اور اس سے کہا کہ کیا تم مجھ سے شادی کروگی؟ اس لڑکی نے جواب دیا کہ میں اپنی والدہ سے پوچھ کر بتاؤں گی۔ تو گویا کہ اس لڑکی کا ہاں کرنا اس کی والدہ کے جواب دینے پر منحصر ہوا۔ مگر والدہ نے کہا کہ وہ اپنی ماں سے پوچھ کر بتائے گی اور اس کی ماں نے کہا کہ وہ اپنی ماں سے پوچھ کر بتائے گی اور اس کی ماں نے کہا کہ وہ اپنی ماں سے پوچھ کر بتائے گی اور یوں یہ سلسلہ چلتا رہا، تو مجھے بتائیے کہ کیا آپ کی کبھی شادی ہو پائے گی؟ اسی طرح اگر اس کائنات کو اللہ نے بنایا ہے اور سامنے والا یہ سوال کرے کہ اللہ کو کس نے بنایا اور جواب ہوں کہ فلاں نے بنایا، تو فلاں کے بارے میں بھی یہی سوال ہوگا کہ اس کو کس نے بنایا اور یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا اور کائنات کبھی بھی وجود میں نہیں آئے گی جب کہ کائنات موجود ہے۔ اسی چیز کو عربی میں تسلسل اور انگریزی میں infinite regress کہتے ہیں۔
ملحد: تسلسل کا یہ فارمولا صرف وہاں لاگو ہوتا ہے جہاں دو چیزیں کسی جگہ اور مکان میں موجود ہوں۔ تو کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ اللہ بھی کسی جگہ پر موجود ہے کائنات اس کے مقابلے میں دوسری جگہ پر؟
مجیب: اول تو آپ کا یہ دعویٰ بلا دلیل ہے۔ پھر آپ نے یہ دعویٰ اس لیے کیا کیونکہ آپ نے اس فارمولے کو علم ریاضی میں پڑھا ہے۔ علم ریاضی میں انہی چیزوں پر گفتگو ہوتی ہے جو معدودات کے قبیل سے ہوں جب کہ اللہ تعالی معدودات کے قبیل سے نہیں ہے اور نہی اللہ کی ذات علم ریاضی کا موضوع ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جب آپ نے خود اللہ کو مخلوق مان لیا تو وہ بھی معدودات کے قبیل سے ہو گیا اور اب اس پر بھی تسلسل کا یہ فارمولا نافذ ہوگا اور تسلسل غیر منطقی اور باطل ہے۔
ملحد: ٹھیک ہے میں نے مان لیا۔ میرا دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر یہ کائنات مخلوق ہے اور ایک خاص وقت میں اللہ نے اس کائنات کو پیدا کیا ہے، تو اس کائنات کو پیدا کرنے سے پہلے اللہ کیا کر رہا تھا۔
مجیب: ہمیں تو اللہ کی ذات کا بھی تفصیلی علم نہیں اور نہ ہی تفصیلا یہ معلوم کہ کائنات کو پیدا کرنے کے بعد سے اللہ تعالی کیا کر رہا ہے، چہ جائے کہ ہمیں یہ معلوم ہو کہ پیدا کرنے سے پہلے وہ کیا کر رہا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ “اللہ کیا کیا کرتا ہے” کا جاننا غیر محدود علم ہے اور انسان اپنی ذات اور اپنے علم کے اعتبار سے محدود ہے تو ایک محدود چیز غیر محدود علم کیسے رکھ سکتی ہے۔
ملحد: ٹھیک ہے میں آپ کی بات مانتا ہوں، لیکن آپ نے ایک ویڈیو میں یہ کہا ہے کہ قرآن کو شروع سے لے کر آج تک کسی نے بھی غلط قرار نہیں دیا، جبکہ آپ ہی کی حدیثوں کی کتابوں میں لکھا ہوا ہے کہ دو لوگ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قرآن کی کتابت کیا کرتے تھے مرتد ہوگئے تھے اور انہوں نے یہ کہا تھا کہ محمد پر کوئی وحی نہیں آتی، بلکہ وہ اپنی طرف سے قرآن لکھواتے ہیں. آپ اس کا کیا جواب دیں گے؟
مجیب: میں نے اپنی کسی ویڈیو میں یہ دعوی نہیں کیا کہ قرآن کو شروع سے لے کر آج تک کسی نے غلط نہیں کہا ہے۔ میں یہ دعویٰ کیسے کرسکتا ہوں جبکہ مجھے معلوم ہے کہ خود نزول قرآن کے دور میں مشرکین قرآن کو غلط کہا کرتے تھے۔ میرا دعوی یہ ہے کہ قرآن کی جو معجزانہ فصاحت و بلاغت ہے اس کا جواب آج تک کوئی نہیں دے سکا ہے۔ رہی بات دو تین لوگوں کا مرتد ہوجانا اور یہ دعوی کرنا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی وحی نازل نہیں ہوتی، بلکہ وہ اپنی طرف سے قرآن لکھواتے ہیں تو اس میں کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ ایسی بات تو آپ بھی کہہ رہے ہیں۔ رہی بات کہ وحی لکھنے والوں میں ایک شخص مرتد ہوا، تو دراصل وہ اسلام لایا ہی تھا کسی لالچ میں اور جب اس کی مراد پوری نہیں ہوئی تو وہ اپنے مذہب پر لوٹ گیا، لیکن اپنے اس عمل کو صحیح قرار دینے کے لیے اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹا الزام لگایا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے اس الزام کو ثابت نہیں کر سکا اور یہ دعویٰ محض دعویٰ ہی رہا۔ اس لیے کسی کے مرتد ہونے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔
ملحد: لیکن میرا ماننا یہ ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نبی نہیں تھے بلکہ (العیاذ باللہ) ایک جنگجو تھے۔ کیونکہ انہوں نے مختلف قبیلوں کو جمع کرکے حکومت پر قبضہ کیا اور پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ان کی تیارکردہ جماعت نے حکومت کے لیے آپس میں جنگیں کی اور پڑوسی حکومتوں پر بھی قبضہ کر لیا۔
مجیب: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں گفتگو بعد میں ہوگی۔ پہلے آپ یہ ثابت کیجیے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب کی کس حکومت کو ختم کیا تھا۔
ملحد: لیکن صحابہ نے تو پڑوسی حکومتوں کو ختم کیا۔
مجیب: میں نے پہلے ہی کہا کہ صحابہ کے بارے میں گفتگو بعد میں ہوگی۔ آپ نے یہ دعوی کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم العیاذ اللہ جنگجو تھے اور انہوں نے عرب کی حکومت کو ختم کیا، تو مجھے اس حکومت کا نام بتائیے جس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ختم کیا تھا۔
ملحد: قبیلوں کو اس مقصد سے جمع تو کیا؟
مجیب: مختلف قبائل کو حکومت قائم کرنے کیلئے جمع ضرور کیا، لیکن کسی حکومت کو ختم کرنے کے لیے نہیں، کیونکہ اس دور میں عرب میں کوئی حکومت تھی ہی نہیں۔
ملحد: چلیے مان لیا کہ حکومت قائم کرنے کے لیے ہی قبیلوں کو جمع کیا، لیکن آپ کے صحابہ نے پڑوسی ممالک پر حملہ کیوں کیا؟
مجیب: پہلے آپ اس بات کو تسلیم کریں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی حکومت پر قبضہ نہیں کیا، بلکہ ایک حکومت قائم کی۔
ملحد: تسلیم کرلیا۔
مجیب: یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ جو حکومت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم کی وہ نبوت ملنے کے تیرہ سال بعد قائم کی۔ پہلے ہی سال قائم نہیں کی تھی۔
ملحد: وہ اس لئے قائم نہیں کی تھی کیوں کہ مکہ میں حالات ساز گار نہیں تھے۔
مجیب: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مشرکین کی طرف سے سرداری کی آفر تھی، نیز اگرآپ چاہتے تو ابتدا میں ہی حبشہ ہجرت فرما دیتے یا وہاں کے بادشاہ سے کہتے اور حبشہ کے کچھ فوجی مکہ کے مشرکین کے خلاف چڑھائی کر دیتے۔ یہ بھی نہ ہوتا تو کم ازکم اتنا ہی کرسکتے تھے کہ مدینہ کے وہ انصار جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لا چکے تھے، آپ علیہ الصلاۃ والسلام ان سے کہتے کہ وہ اپنے قبیلے کو مکہ لاکر مشرکین پر حملہ کردیں۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی گوارا نہیں کیا، بلکہ خود ہجرت فرمائی اور مدینہ جاکر جہاں کوئی حکومت نہیں تھی ایک حکومت قائم فرمائی۔
ملحد: چلیے مانتا ہوں لیکن پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ نے پڑوسی ملکوں پر حملہ کیوں کیا؟
مجیب: جب ایک حکومت قائم ہو گئی تو اب اس حکومت کے تحفظ کی ذمہ داری بھی حکومت کے سربراہ پر عائد ہوتی ہے۔ اگر سربراہ کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ حکومت اور اس کے تحت بسنے والی رعایا کے جان ومال خطرے میں ہیں، تو سربراہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس خطرے سے نمٹے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جتنی جنگیں ہوئی وہ سب اسی فلسفے کے تحت ہوئی ہیں۔ فارس و روم پر اگرچہ اقدامی حملے ہوئے ہیں لیکن وہ مستقبل کے خطرے کو سامنے رکھ کر ہوئے ہیں۔ اگر ان دونوں سپرپاورز پر حملے نہ ہوتے تو عرب کی یہ حکومت نیست ونابود کر دی جاتی اور یہاں کے لوگ بڑی تعداد میں قتل کیے جاتے۔
ملحد: ابوبکر کے زمانے میں خود ان مسلمانوں پر جنہوں نے زکوۃ دینے سے منع کردیا تھا فوج نے حملہ کیا، کیا وہ جنگجو ذہنیت کا عکاس نہیں ہے۔
مجیب: جب مدینہ کی ریاست ایک قانونی ریاست مان لی گئی، تو اب ریاست کے خلاف کسی بھی اجتماعی عمل کو بعض مرتبہ طاقت سے کچلنا پڑتا ہے۔ کیا آپ انڈیا کی سطح پر نکسلیوں کا ساتھ دیں گے یا حکومت ہند کا؟
ملحد: اور صحابہ کے درمیان آپس میں جو جنگیں ہوئی ہیں؟
مجیب: ہم نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ صحابہ انبیاء تھے جن سے کبھی کوئی غلط فیصلہ صادر نہیں ہوسکتا۔ اگر صحابہ سے کبھی بھی کوئی غلطی نہ ہوتی، تو اللہ تعالی کا قائم کردہ نبوت کا نظام مشکوک ہوجاتا۔ کیونکہ جب نبی اور غیر نبی دونوں میں سے کوئی بھی غلطی نہیں کرسکتا تو نبی کی کیا فضیلت رہی؟ اس لیے صحابہ کے یہ اختلافات اپنے تمام تر خلوص کے باوجود اللہ کے تکوینی نظام کا حصہ ہیں۔ نیز صحابہ کے درمیان جو اختلافات ہوئے وہ حکومت حاصل کرنے کے لئے نہیں، بلکہ اس بنیاد پر ہوئے کہ حکومت کس طرح چلانی ہے اور کس طرح نہیں۔
لیکن آپ کو ان سب معاملات میں پڑنے کی اس لیے ضرورت نہیں کیونکہ آپ تو خدا کے وجود کے ہی منکر ہیں۔ نبوت اور صحابیت تو بعد میں آتے ہیں۔ پہلے تو خدا کے وجود پر بات ہونی چاہیے۔
ملحد: جی نہیں۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلے گفتگو اس لیے ہوگی کیونکہ آپ نے اللہ کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہی جانا ہے۔
مجیب: ہم نے اللہ کے احکام کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ جانا ہے۔ اگر خدا کی معرفت مطلقا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر موقوف ہوتی، تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کوئی بھی خدا کو نہ جان پاتا۔ اس سے ثابت ہوا کہ اصل خدا ہے، نبوت کا درجہ بعد کا ہے اور صحابیت کا درجہ اس کے بھی بعد۔ لہذا آپ جب بھی گفتگو کریں تو خدا تعالی کے وجود کے تعلق سے گفتگو کیجیے۔ آگے کی گفتگو کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے اپنے ذہن میں اسلام کے غلط ہونے کا ایک مفروضہ قائم کر لیا۔ اب اس مفروضے کو ثابت کرنے کے لئے آپ مختلف دلائل حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
ملحد: چلیے ٹھیک ہے میں آپ کے اس مشورے پر عمل کروں گا لیکن اب بقیہ گفتگو اگلی نشست میں ہوگی۔
اس طرح یہ طویل گفتگو ختم ہوئی اور میں یہ سوچنے لگا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حدیث مبارکہ میں جو بات فرمائی تھی وہ کتنی سچ تھی۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ “آخر زمانے میں کچھ لوگ آپس میں گفتگو کریں گے۔ ان میں سے ایک شخص یہ کہے گا کہ اگر اللہ نے کائنات کو پیدا کیا تو پھر اللہ کو کس نے پیدا کیا۔ اگر کسی کے ذہن میں شیطان یہ وسوسہ ڈالے تو وہ شخص فورا سورہ اخلاص پڑھے اور بائیں طرف تھوکے”۔ حدیث میں اس شیطانی وسوسے کا علاج اس لیے بتایا گیا، کیونکہ یہیں سے الحاد اور ارتداد کی راہ ہموار ہوتی ہے۔
علی گڑھ کے اس انیس سالہ لڑکے کے ذہن میں بھی یہی سوال سب سے پہلے آیا تھا کہ اگر اللہ نے اس کائنات کو پیدا کیا ہے تو اللہ کو کس نے پیدا کیا۔ سوال کے غلط ہونے کے باوجود اس شخص نے اس سوال کو منطقی تسلیم کر لیا اور جب جواب نہیں مل پایا تو اپنے ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔
میں اپنی اس تحریر کے پڑھنے والے ہر قاری سے درخواست کروں گا کہ وہ اس لڑکے کے ایمان کے لیے دعا کریں۔ ہم دلائل کے ذریعہ سامنے والے کو خاموش تو کرسکتے ہیں، لیکن ہدایت دینے والا صرف اللہ ہی ہے۔ میں جب بھی کسی ملحد سے گفتگو کرتا ہوں تو بہت دیر تک اضطرابی کیفیت رہتی ہے اور دل میں یہ سوال بار بار آتا ہے کہ آخر کب ہم اجتماعی سطح پر اس تعلق سے سنجیدہ ہوں گے اور نوجوان لڑکے لڑکیاں جو علما سے بے تعلق ہوکر انٹرنیٹ پر اسلام مخالف مواد پڑھ اور دیکھ رہے ہیں اور دین سے بیزار ہورہے ہیں، اس زہریلے اور جھوٹے مواد کے مقابلے ہمارا صداقت پر مبنی مواد اسی انداز اور زبان میں کب آئے گا۔
گزشتہ مکالمے کا اختتام ملحد کے اس وعدے پر ہوا تھا کہ وہ بقیہ گفتگو اگلی کسی نشست میں کرے گا۔ اس دوران دو تین مرتبہ اس کے ساتھ مختصرا گفتگو ہوئی جس میں، میں نے اس سے یہ مطالبہ کیا کہ میری طرف سے اللہ کے وجود پر عقلی دلیل آ چکی ہے۔ اب اس کی باری ہے کہ وہ اللہ تعالی کے وجود کے ناممکن ہونے پر کوئی عقلی دلیل پیش کرے۔ ڈارونزم وغیرہ جیسے نظریات پیش نہ کرے، کیونکہ یہ محض احتمالات ہیں جو کہ کچھ لوگوں کے نزدیک اعتبار حاصل کرگئے، بلکہ خود ان لوگوں کے نزدیک بھی یہ احتمالات حقائق کا درجہ حاصل نہیں کر پائے ہیں۔ لہذا میرا مطالبہ ایسی دلیل کا ہے کہ جو اہل عقل کے نزدیک متفقہ اصولوں پر مبنی ہو اور اس دلیل کی رو سے وہ اللہ کے وجود کے ناممکن ہونے کو ثابت کرے۔ میرے مخاطب نے تین سے چار دن کا وقت مانگا اور آخر کار یہ اعتراف کیا کہ میں کوئی ایسی دلیل پیش نہیں کرسکتا۔ درحقیقت ملحدین خواہ وہ امام غزالی کے دور کے ہوں یا آج کے دور کے، وہ آج تک خدا کے وجود کے ناممکن ہونے کو مضبوط عقلی دلیل سے ثابت نہیں کر پائے۔
جن حضرات نے اس مکالمے کی پہلی قسط پڑھی ہے، انہیں یاد ہوگا کہ اس میں وجود باری پر ایک دلیل دی گئی تھی کہ یہ سوال کہ خدا کو کس نے بنایا ہے اس لیے غلط ہے، کہ اگر اس سوال کو درست مان لیا جائے تو تسلسل لازم آئے گا۔ دوسرے الفاظ میں اگر یہ سوال درست ہو تو یہ کائنات کبھی بھی موجود نہیں ہو سکتی۔ ملحد کے ساتھ گفتگو کی دوسری باقاعدہ نشست کا آغاز دراصل اسی دلیل سے ہوا۔ اس نے عہد حاضر کے ملحدوں کے امام برطانوی نژاد رچرڈ ڈاکنز کی کتاب سے ایک اقتباس مجھے بھیجا، جس میں میری ذکر کردہ دلیل پر سوالات اٹھائے گئے تھے۔ رچرڈ ڈاکنز نے سب سے پہلے تو یہ بات لکھی کہ تسلسل کا باطل ہونا خود قابل بحث چیز ہے۔ گویا کہ کچھ لوگوں کے نزدیک تسلسل باطل نہیں ہے۔ دوسرا اعتراض رچرڈ ڈاکنز نے یہ کیا کہ اگر کائنات میں ایک چیز دوسرے کا سبب ہے اور یوں خدا پوری کائنات کا سبب ہے تو آخر خدا کا بھی کوئی نہ کوئی سبب ہوگا، ورنہ کیا وجہ ہے کہ سبب و مسبب کے اس عمومی ضابطے سے خدا کو بلا کسی دلیل کے باہر رکھا گیا ہے، کیونکہ کسی بھی عمومی ضابطہ سے مستثنی ہونے کے لئے دلیل کی ضرورت ہوتی ہے، تو آخر کس بنیاد پر خدا کو اس ضابطے سے مستثنی قرار دیا گیا ہے؟ اس اقتباس کو پڑھنے کے بعد ملحد کے ساتھ گفتگو کچھ یوں ہوئی۔
مجیب: رچرڈ ڈاکنز کا یہ کہنا کہ تسلسل باطل نہیں ہے دراصل ایک بدیہی چیز کا انکار ہے۔ کیونکہ اگر الف کا وجود ب پر موقوف ہو اور ب کا وجود ت پر موقوف ہو اورت کا وجود ث پر موقوف ہو اور یہ سلسلہ ہمیشہ یونہی چلتا رہے تو الف کا وجود کبھی نہیں ہوسکتا۔ یہ چیز اتنی واضح ہے کہ تھوڑی بہت محنت کے بعد، بچوں کے بھی سمجھ میں آ سکتی ہے، لیکن اس کی ایک دوسری دلیل بھی سنیے۔ اگر ہم اس کائنات میں ممکنات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ تصور کرلیں، تو یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ممکنات کے اس نہ ختم ہونے والے سلسلے کے مجموعے کا سبب کیا ہے۔ اس تعلق سے صرف دو ہی احتمالات ہیں۔ پہلا احتمال تو یہ ہے کہ مجموعہ خود ہی سبب ہو۔ یہ احتمال اس لیے باطل ہے کہ کوئی بھی چیز خود اپنی ذات کا سبب نہیں بن سکتی۔ ارباب عقل کے نزدیک یہ ایک متفقہ اصول ہے۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ اس مجموعے کا کوئی ایک جزو پورے مجموعے کا سبب ہو۔ یہ احتمال بھی اس لیے غلط ہے کیونکہ وہ جزو مجموعہ کا حصہ ہے اور جزو اگر کل کا سبب ہو تو گویا کہ شئ کا اپنا ہی سبب بننا لازم آیا اور یہ ناممکن ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسا کہ کوئی یہ کہے کہ بارش کا سبب خود بارش ہے یا بارش کا ایک قطرہ ہے۔ لہذا جب یہ دونوں احتمالات باطل ٹھہرے تو تسلسل infinite regress یعنی ممکنات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ بھی باطل ٹھہرا۔
ملحد: ٹھیک ہے میں نے مانا کے تسلسل ناممکن ہے۔ لیکن رچرڈ ڈاکنز کا یہ بھی تو کہنا ہے کہ اگر ہر چیز کا کوئی نہ کوئی سبب موجود ہے تو خدا کا بھی سبب ہوگا آخر کس وجہ سے اس عمومی ضابطے سے آپ خدا کو الگ کرتے ہیں؟
مجیب: کیا آپ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ کائنات اور اس میں موجود تمام چیزیں، موجود ہونے اور موجود نہ ہونے دونوں کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ یعنی جس طریقے سے یہ ممکن ہے کہ کائنات موجود ہو یہ بھی ممکن ہے کہ موجود نہ ہو؟
ملحد: جی ہاں کائنات کا موجود ہونا اور نہ ہونا دونوں ممکن ہیں۔
مجیب: دونوں باتوں کے امکان کے باوجود کائنات موجود ہے۔ یقینا کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہوگی کہ کائنات موجود ہونے اور نہ ہونے میں برابر ہونے کے باوجود موجود ہوئی۔ ترازو کے دونوں پلڑے اگر خالی ہوں، تو برابر ہوں گے لیکن اگر ایک پلڑا جھکا ہوا ہے، تو یقینا کوئی وزن دار چیز اس پر رکھی ہوئی ہے جو دوسرے پلڑے پر نہیں ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ وجہ کیا ہے جس کی بنیاد پر کائنات وجود میں آئی۔
ملحد: کائنات بغیر کسی کے ارادے کے خود سے وجود میں آسکتی ہے.
مجیب: گویا کہ آپ یہ مانتے ہیں کہ ایک چیز خود اپنی ذات کا سبب ہو سکتی ہے۔ اگر آپ کے نزدیک یہ اصول درست ہے تو پھر بارش بادلوں کے بجائے خود بارش کا سبب ہوگی، گرمی آگ یا سورج کے بجائے خود گرمی کا سبب ہو گی اور بچہ اپنے والدین کے بجائے خود اپنی پیدائش کا سبب ہو گا؟
ملحد: یعنی آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ کائنات جو کہ اپنے موجود ہونے اور نہ ہونے میں برابر ہے وہ خدا کے ارادہ کرنے سے وجود میں آئی؟
مجیب: بالکل درست! نیز یہ میرا صرف دعوی ہی نہیں ہے، بلکہ میرے پاس اس کی دلیل بھی ہے۔ میں چاہوں گا کہ آپ توجہ سے میری یہ دلیل سنیں۔ آپ نے خود تسلیم کر لیا ہے کہ کائنات اپنے موجود ہونے اور نہ ہونے میں برابر ہے، لیکن اس کے باوجود وہ وجود میں آئی ہے، تو یقینا اس کے وجود میں آنے کا کوئی نہ کوئی سبب ہوگا۔ اس سبب کے تعلق سے تین احتمالات ہیں۔ پہلا احتمال تو یہ ہے کہ وہ سبب کہ جس کی وجہ سے کائنات وجود میں آئی ہے خود اس کا وجود ممکن نہ ہو۔ یہ احتمال اس لیے درست نہیں ہے کہ جو چیز خود موجود نہیں ہے، بھلا وہ دوسری چیز کو کیسے موجود کر سکتی ہے۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ اس سبب کا بھی موجود ہونا اور نہ ہونا برابر ہو۔ یہ احتمال اس لیے غلط ہے کہ اگر وہ سب بھی ایسا ہی ہوگا جیسا کہ بقیہ کائنات تو وہ بھی کائنات کا حصہ ہوگا اور اس سے شئ کا اپنا ہی سبب بننا لازم آئے گا۔ گویا کہ پھر بات وہی ہوئی کہ بارش کا سبب خود بارش ہوئی۔ تیسرا اور آخری احتمال یہ ہے کہ اس سبب کا موجود ہونا اتنا ضروری ہو کہ اس پر کبھی عدم طاری نہ ہوسکتا ہو۔ اسی کو ہم علم کلام میں واجب الوجود کہتے ہیں، جو کہ اللہ تعالی کی ایک صفت ہے۔ اب رچرڈ ڈاکنزکے سوال کا جواب یہ ہوا کہ سبب اور مسبب کے ضابطے سے خدا اس لیے مستثنی ہے، کیونکہ وہ واجب الوجود ہے اور یہ ضابطہ صرف ممکنات میں نافذ ہوتا ہے۔
ملحد: ٹھیک ہے میں نے آپ کی اس تشریح کو قبول کر لیا ہے۔ اب میں خدا کے تعلق سے ہی آپ سے دوسرا سوال کرتا ہوں۔ وجود خدا کا تصور انسان کے پاس کہاں سے آیا ہے؟
مجیب: یہ کوئی تصور نہیں ہے، بلکہ پہلے انسان یعنی حضرت آدم علیہ السلام کو معرفت کی بنیاد پر حاصل ہونے والا ایک عقیدہ ہے جو نسل در نسل ان کی اولاد میں بھی چلتا رہا۔ یہ الگ بات ہے کہ آگے چل کر کچھ لوگوں نے اس واضح اور صاف عقیدے میں دوسری چیزوں کی بھی آمیزش کردی۔
ملحد: ایسا نہیں ہے، بلکہ قدیم زمانے میں یونانیوں نے سمندری طوفان کو خدا کی ناراضی سے جوڑا، اسی طریقے سے رومیوں نے مختلف آفات کو مختلف خداؤں سے منسوب کیا۔ لیکن آج ہمیں پتہ چل چکا ہے کہ سمندر میں طوفان کیوں آتا ہے، دنیا میں مختلف آفتیں کیوں آتی ہیں، لہذا ان کا جو تصور خدا تھا وہ نیست و نابود ہوگیا، تو آپ کا تصور خدا بھی نیست ونابود ہوسکتا ہے۔
مجیب: یونانیوں اور رومیوں نے اگر ان واقعات کو اپنے گڑھے ہوئے خداؤں کی طرف منسوب کیا تھا، تو اس تصور کو نیست و نابود ہونا ہی تھا۔ البتہ ہم مسلمان آسمانی آفتوں کو خدا کی ناراضی کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ اب آپ یہ کہیں گے کہ سائنس نے ہمیں بتا دیا ہے کہ آفتیں کیسے آتی ہیں۔ تو میں یہ جواب دوں گا کہ سائنس نے ہمیں یہ بتلایا ہے کہ آفت کیسے آتی ہے، یہ نہیں بتلایا ہے کہ کیوں آتی ہے اور ناہی سائنس کبھی بھی “کیوں” کا جواب دے پائے گی۔
ملحد: اچھا یہ بتائیے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا سلسلہ کیوں رک گیا؟
مجیب: پہلے آپ یہ بتائیے کہ خدا کے وجود کے تعلق سے آپ کے تمام شکوک دور ہوگئے ہیں یا نہیں؟
ملحد: جی ہاں ابھی تک تو ایسا ہی ہے، لیکن اگر میرے ذہن میں کوئی سوال آیا تو میں یقینا آپ کو میسج کروں گا۔
مجیب: اب آئیے آپ کے اس سوال کی طرف کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت اور رسالت کا سلسلہ کیوں رک گیا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ہدایت کا اعلی ترین پیمانہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل میں انسانیت کو دے دیا گیا۔ اب اگر کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا دعوی کرے تو یہ ایسا ہی ہوا جیسا کہ کوئی شخص یہ کہے کہ میں نے ماؤنٹ ایورسٹ سے اونچی ایک چوٹی دریافت کر لی ہے۔ کیونکہ جس طرح پہاڑوں میں اونچائی کے پیمانے کی کہیں نہ کہیں انتہا ماننی پڑتی ہے، اسی طرح انبیاء میں اچھائی کے پیمانے کی کسی ایک جگہ آکر انتہا ماننی پڑے گی۔
ملحد: اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم اچھائی کا سب سے اونچا پیمانہ ہیں، تو آپ نے اپنے قبیلے کو حکومت میں برتری دیتے ہوئے یہ کیوں کہا کہ الائمة من قريش. اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کا مقصد اپنے قبیلے کو مستحکم کرنا تھا۔
مجیب: یہ حدیث انشاء نہیں بلکہ خبر ہے.
ملحد: کیا مطلب؟
مجیب: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خبر دی ہے کہ آنے والے دور میں قیادت قریش کے پاس ہوگی، آپ علیہ السلام نے اس کا حکم نہیں دیا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اسی لیے اپنی خلافت پر اس حدیث سے استدلال کیا تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر غلط نہیں ہوسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ خلافت عثمانیہ جب قائم ہوئی تو مسلمانوں نے، باوجودیکہ عثمانی خلفاء قریش سے نہیں تھے، اس خلافت کو قبول کیا بلکہ اس کے بقاء کے لیے جد وجہد بھی کی۔
ملحد: لیکن مولانا مودودی نے تو اپنی کتاب خلافت و ملوکیت میں یہ لکھا ہے کہ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ خلیفہ وہی معتبر ہوگا جو قریش سے ہو۔
مجیب: مولانا مودودی یا ان کے علاوہ دیگر نے کیا کہا ہے اور کیا نہیں اس کا میں ذمہ دار نہیں ہوں اور نہ ہی مجھے اس کا دفاع کرنا ہے۔ اس حدیث کی حد تک مجھے اس بات کا اعتراف ہے کہ مختلف لوگوں نے اس حدیث کو مختلف انداز سے سمجھا ہے۔ لیکن علماء کے ایک بڑے طبقے نے اس حدیث کی وہی تشریح کی ہے جو میں نے آپ کو بتلائی ہے۔ اس حدیث کی ایک تشریح ابن خلدون نے بھی کی ہے۔ ان کے مطابق حدیث کی رو سے خلیفہ کو قریش کی قائدانہ صفات کے مطابق ہونا چاہیے۔ کیونکہ اس زمانے میں قریش میں قیادت کی صلاحیت بدرجہ اتم موجود تھی۔
ملحد: آپ کے نزدیک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی عقلی دلیل کیا ہے؟
مجیب: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے کئی عقلی دلائل ہیں۔ ان میں ایک دلیل یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو کہ نہ صرف قرآن کے مطابق امی تھے، بلکہ تاریخی روایات کے مطابق بھی امی تھے (تاریخی روایات کا میں نے اس لیے ذکر کیا کیونکہ آپ قرآن کے منکر ہیں ورنہ ہمارے لیے قرآن کی شہادت کافی ہے)۔ اپنی امیّت کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگلوں اور پچھلوں کے علوم کا جامع ہونے کا درست دعویٰ فرمایا۔ لہذا تمام اسباب علم کے منقطع ہونے کے باوجود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اولین و آخرین کے علوم کا حامل ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی معمولی شخصیت نہیں ہیں اور یہ کہ آپ کے پاس جو علم ہے وہ براہ راست وحی کی صورت میں اللہ کی طرف سے آیا ہے۔
ملحد: اگر یہی بات ہے تو وہ علم یقینا ایسا ہونا چاہیے جس میں غلطی یا کسی بھی قسم کے ظلم کا احتمال نہ ہو۔ جب کہ سنن ابی داؤد میں ایک حدیث آتی ہے، جس کے مطابق زندہ درگور کرنے والی عورت اور زندہ درگور ہونے والی بچی دونوں جہنم میں جائیں گے۔ تو کیا زندہ درگور ہونے والی بچی پر یہ ظلم نہیں ہے؟
مجیب: اس حدیث کے تعلق سے آپ کے ذہن میں جو اشکال آیا ہے اس کی بنیاد عربی زبان نہ جاننا ہے۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں: الوائدة و الموؤودة في النار. اس حدیث میں وائدہ اور موؤودہ پر داخل ہونے والے “الف لام” سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اس سے مراد ایک خاص کیس ہے۔ زمانہ جاہلیت میں ایک خاتون تھی جس کا نام ام سلمہ بنت یزید تھا۔ اس نے اپنی بیٹی کو زندہ درگور کر دیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جب اس عورت کا تذکرہ آیا تو آپ نے فرمایا کہ زندہ درگور کرنے والی یہ عورت تو جہنم میں جائے گی ہی، اگر اس کی بیٹی زندہ درگور نہ ہوتی تو بڑے ہوکر اپنے کفر کی وجہ سے جہنم میں جاتی۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ قرآن میں حضرت موسی اور خضر کے قصے میں حضرت خضر نے ایک بچے کو اللہ کی جانب سے حکم ملنے کے بعد اس لیے قتل کر دیا تھا، کہ وہ بڑے ہو کر کافر بنتا اور دوسروں کو بھی کفر کے دلدل میں دھکیلتا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس بچی کے (زندہ رہنے کی صورت میں) مستقبل کے بارے میں علم دے دیا گیا تھا۔
ملحد: بہت بہت شکریہ کہ آپ نے میرے لیے اتنا وقت نکالا۔ مجھے اچھا لگا کہ آپ اس پوری گفتگو کے درمیان نہ مجھ پر چیخے نہ چلائے۔
یوں یہ گفتگو اس انیس سالہ نوجوان کے ساتھ اس وعدے پر اختتام پذیر ہوئی، کہ اس کے ذہن میں اگر کوئی بھی شبہ آئے گا تو وہ مجھ سے رابطہ کر سکتا ہے۔
آخر میں، میں مدارس کے فضلاء اور طلبہ کی توجہ اس جانب مبذول کرانا چاہتا ہوں، کہ اس پورے مکالمے کے درمیان، وجود باری پر “تسلسل” کے بطلان کو سامنے رکھ کر جو دلیل دی گئی ہے، اس کی بنیاد درس نظامی میں شامل شرح عقائد نسفی ہے۔ نیز رچرڈ ڈاکنز نے تسلسل کے بطلان کو جو مشکوک قرار دیا ہے، اس کا جواب بھی علامہ تفتازانی شرح عقائد میں دے چکے ہیں۔ کسی شئی کا اپنے ہی لیے سبب بننے کا نظریہ باطل ہے، یہ بھی اسی کتاب سے ماخوذ ہے۔ اسی طرح کائنات (جو کہ ممکنات کا مجموعہ ہے) کی علت صرف واجب الوجود ہوسکتی ہے، یہ مبحث بھی اسی کتاب میں ہے۔ بہت سے طلبہ اور فضلاء مدارس کے نصاب میں شامل معقولات کی کتابوں کو مفید نہیں سمجھتے ہیں، جب کہ شرح عقائد میں شامل مباحث اور ان کے عقلی دلائل آج بھی اتنے مضبوط ہیں کہ جدید دور میں رچرڈ ڈاکنز جیسے مشہور ملحدین کو ان دلائل کی بنیاد پر آپ جواب دے سکتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ شرح عقائد کے دلائل آخری درجے کے ہیں، لیکن اگر کوئی پہلے درجے تک ہی نہ پہنچ پائے تو اس کا آخری درجے پر پہنچنا کیسے ممکن ہے۔ اس گفتگو میں حضرت نانوتوی کے بیان کردہ دلائل ذکر نہیں کئے گئے، کیونکہ ان کا درجہ شرح عقائد میں مذکور دلائل کے بعد کا ہے۔
جوابات مولانا یاسر ندیم الواجدی
ریحان انس میرٹھ
January 15, 2021 at 11:30 amماشاءاللہ
حضرت مفتی صاحب
اللہ آپ کو سلامت رکھے
آپکے علم وعمل میں اضافہ فرمائے
اللہ ہمیں بھی دفاع اسلام کی فکر و صلاحیت سے نوازے۔
darulifta tadhkeshwar
February 14, 2022 at 3:46 pmماشاءاللہ اللّہ آپ کے علم و عمل میں برکت عطا فرمائے