بُغض کے بھرے عیسائی مبلغین لوگوں کے محمد کی جانب بڑھنے کی راہیں مسدود کردینے کیلئے چند گھسی پٹی باتوں سے بڑھ کر کیا کہہ سکتے ہیں؟ ’قتال‘؟
وہ تو بائبل میں مذکور انبیاءکے ہاں بھی مذکور ہے۔ کیا پھر یہ موسی اور سموئیل اور داود کو بھی ’تلوار‘ کو ہاتھ لگ جانے کے باعث نبی ماننے سے انکار کردیں گے؟
سلیمان کو نبی نہ مانیں مگر ’اَمثال‘ تو انکی بھی بائبل کا جزولاینفک ہیں۔ کیا ان سب نبیوں کو اور ان کے صحیفوں کو اور ان کے ذکر کو ’قتال‘ میں ملوث ہونے کے باعث بائبل کے عہدقدیم سے باہر کیا جاسکتا ہے؟ بلکہ عہد جدید کے بھی وہ حصے جن میں ’تلوار‘ کا ذکر ہے.. کیا بائبل کے عہدِ جدید کی ان نصوص کی آسمانی نسبت بھی مشکوک ٹھہرا دی جائے گی؟
ایک سے زیادہ شادیاں کرلینے کے باعث محمدﷺکو بطور نبی نہیں دیکھا جاسکتا؟ تو پھر ابراہیم، اسحاق، یعقوب اور داود کو بطور نبی دیکھنے پر بھی کیا یہ مبلغین اپنے چرچ میں پابندی عائد کردیں گے؟ ان انبیاءکی کئی کئی شادیوں کا ذکر اسی بائبل میں ہی تو ہے جسکی تقسیم ِ عام پر صبح شام محنت ہورہی ہے!
محمدﷺ نے عہدشکنی کے مرتکب بنو قریظہ کے سرقلم کروادئیے تھے! بنوقریظہ کے جنگی جرائم تو تاریخ کے ریکارڈ میں ہیں مگر موسی اور داود نے اپنے قابو آنے والے دشمنوں کے ساتھ جو خوفناک برتاؤ کیا، اپنی ’کتابِ مقدس‘ میں کیا انہوں نے وہ بھی دیکھا ہے؟ بائبل جو ’دکھی انسانیت کی فلاح کیلئے‘ افریقہ کے جنگلوں اور آسٹریلیاکے صحرؤں تک آج مفت پہنچائی جا رہی ہے،خود ہی ان سب سوالوں کا جواب ہے!
یاتو یہ کہہ دیں کہ خدا نے انسان کی ہدایت کے لئے آج تک کوئی نبی بھیجا ہی نہیں اور نہ ہی کبھی کوئی کتاب اتاری ہے۔ پھر اس صورت میں بائبل کی ترسیل کے دیوہیکل منصوبے بھی لپیٹ کر رکھ دیں اور عہد قدیم کے انبیاءکی بھی اسی طرح ڈٹ کر مخالفت کریں جس طرح یہ محمدﷺ کے ساتھ خدا واسطے کا بیر رکھے ہوئے ہیں .. بلکہ ’یسوع مسیح ‘ کو اور اس کے کلام کو بھی اسی صف میں کھڑا کریں اور سب پر ایمان کے لئے ایک سا ’علمی معیار‘ بنائیں …. اور اگر ان کے لئے ایسا ممکن نہیں تو پھر محمدﷺ کی طرف جانے والے عقل اور دلیل کے ان سب راستوں میں یہ کیونکر اور کب تک جم کر بیٹھ سکتے ہیں؟
اِن کا مقصد یہ تاثر دینا اور ثابت کرنے کی کوشش کرنا ہے کہ محمدﷺ اگر نبی ہوتے تو آپ کی بابت ایسی غلط غلط باتیں کہی ہی کیونکر جا سکتی تھیں! مستشرقین نے اسی لئے حضرت عائشہ اور حضرت زینب بنت حجش کی شادی وغیرہ وغیرہ ایسی باتوں پر بھی لامحدود اوراق سیاہ کئے ہیں۔
تو گویا نبی ہونے کے لئے ضروری ہے کہ اس کی بابت کبھی کوئی غلط بات نہ کی گئی ہو اور اس کی کسی بات کو کبھی کوئی غلط رنگ نہ پہنایا گیا ہو!!! کیا اس بات کا اطلاق یہ ان نبیوں پر بھی کریں گے جن پر یہ خود بھی ایمان رکھتے ہیں۔۔۔۔!!؟
محمدﷺ کی نبوت کا ’ثبوت‘ چاہیے تو پھر موسیٰ اور عیسیٰ علیہما السلام کی نبوت کا بھی ’ثبوت‘ چاہیے اور عین انہی معیاروں پر جن کو ’تحقیق‘ کی بنیاد بنا کر تم محمدﷺ کی نبوت پر اعتراضات کی بوچھاڑ کردیتے رہے ہو!۔۔۔۔ اور پھر دیکھتے ہیں ’دلیل‘ کس کے پاس ہے!!!!!؟
وہ اعتراضات جو تم محمدﷺ اور قرآن پر کرتے ہو، ’جدید انسان‘ کو ایسے ہی اعتراضات کرنے کا حق اپنے نبیوں اور اپنے صحیفوں پر بھی تو دو! تمہارے پاس تو کچھ بچے گا ہی نہیں!!! خود موسیٰ اور عیسیٰ علیہما السلام کی نبوت کے ثبوت بھی خدا کے فضل سے آج ہم رکھتے ہیں نہ کہ تم!!!
انبیاءکا آنا اگر سچ ہے تو پھر ایک اسی نبی کا ہی انکار کیوں جس کی نبوت کے دلائل سب سے مضبوط ہیں ؟ جس کی زندگی کے حالات اور جس کی تعلیمات مستند ترین صورت میں آج کے انسان کو سب سے زیادہ اور سب سے وافر اور سب سے روشن صورت دستیاب ہیں ؟
جس کا انسانی زندگی پر کسی بھی انسان سے بڑھ کر اثر انداز ہونا تاریخ کا ایک واضح معلوم محسوس واقعہ ہے؟؟؟
کسی مستشرق نے کیا سچ کہا ہے کہ محمد ہی ایک وہ نبی ہے جو تاریخ کے نصف النہار میں پیدا ہوا اور سورج کی روشنی میں دیکھا گیا! پچھلے نبیوں کے تو حالات ہی مستند طور پرآج دستیاب نہیں۔
شام کے ایک مصنف نے حال ہی میں مغرب کے کچھ اہم اہم نومسلم مفکروں کے قبول اسلام کے تجربات و محسوسات ایک کتاب میں قلم بند کئے ہیں جس کا عنوان بہت خوبصورت رکھا ہے: ربحتُ محمداً (ﷺ) ولم اخسر المسیح
یعنی”میں نے محمد ﷺ کو پایا مگر مسیح کو بھی نہ کھویا“
وہ تو بائبل میں مذکور انبیاءکے ہاں بھی مذکور ہے۔ کیا پھر یہ موسی اور سموئیل اور داود کو بھی ’تلوار‘ کو ہاتھ لگ جانے کے باعث نبی ماننے سے انکار کردیں گے؟
سلیمان کو نبی نہ مانیں مگر ’اَمثال‘ تو انکی بھی بائبل کا جزولاینفک ہیں۔ کیا ان سب نبیوں کو اور ان کے صحیفوں کو اور ان کے ذکر کو ’قتال‘ میں ملوث ہونے کے باعث بائبل کے عہدقدیم سے باہر کیا جاسکتا ہے؟ بلکہ عہد جدید کے بھی وہ حصے جن میں ’تلوار‘ کا ذکر ہے.. کیا بائبل کے عہدِ جدید کی ان نصوص کی آسمانی نسبت بھی مشکوک ٹھہرا دی جائے گی؟
ایک سے زیادہ شادیاں کرلینے کے باعث محمدﷺکو بطور نبی نہیں دیکھا جاسکتا؟ تو پھر ابراہیم، اسحاق، یعقوب اور داود کو بطور نبی دیکھنے پر بھی کیا یہ مبلغین اپنے چرچ میں پابندی عائد کردیں گے؟ ان انبیاءکی کئی کئی شادیوں کا ذکر اسی بائبل میں ہی تو ہے جسکی تقسیم ِ عام پر صبح شام محنت ہورہی ہے!
محمدﷺ نے عہدشکنی کے مرتکب بنو قریظہ کے سرقلم کروادئیے تھے! بنوقریظہ کے جنگی جرائم تو تاریخ کے ریکارڈ میں ہیں مگر موسی اور داود نے اپنے قابو آنے والے دشمنوں کے ساتھ جو خوفناک برتاؤ کیا، اپنی ’کتابِ مقدس‘ میں کیا انہوں نے وہ بھی دیکھا ہے؟ بائبل جو ’دکھی انسانیت کی فلاح کیلئے‘ افریقہ کے جنگلوں اور آسٹریلیاکے صحرؤں تک آج مفت پہنچائی جا رہی ہے،خود ہی ان سب سوالوں کا جواب ہے!
یاتو یہ کہہ دیں کہ خدا نے انسان کی ہدایت کے لئے آج تک کوئی نبی بھیجا ہی نہیں اور نہ ہی کبھی کوئی کتاب اتاری ہے۔ پھر اس صورت میں بائبل کی ترسیل کے دیوہیکل منصوبے بھی لپیٹ کر رکھ دیں اور عہد قدیم کے انبیاءکی بھی اسی طرح ڈٹ کر مخالفت کریں جس طرح یہ محمدﷺ کے ساتھ خدا واسطے کا بیر رکھے ہوئے ہیں .. بلکہ ’یسوع مسیح ‘ کو اور اس کے کلام کو بھی اسی صف میں کھڑا کریں اور سب پر ایمان کے لئے ایک سا ’علمی معیار‘ بنائیں …. اور اگر ان کے لئے ایسا ممکن نہیں تو پھر محمدﷺ کی طرف جانے والے عقل اور دلیل کے ان سب راستوں میں یہ کیونکر اور کب تک جم کر بیٹھ سکتے ہیں؟
اِن کا مقصد یہ تاثر دینا اور ثابت کرنے کی کوشش کرنا ہے کہ محمدﷺ اگر نبی ہوتے تو آپ کی بابت ایسی غلط غلط باتیں کہی ہی کیونکر جا سکتی تھیں! مستشرقین نے اسی لئے حضرت عائشہ اور حضرت زینب بنت حجش کی شادی وغیرہ وغیرہ ایسی باتوں پر بھی لامحدود اوراق سیاہ کئے ہیں۔
تو گویا نبی ہونے کے لئے ضروری ہے کہ اس کی بابت کبھی کوئی غلط بات نہ کی گئی ہو اور اس کی کسی بات کو کبھی کوئی غلط رنگ نہ پہنایا گیا ہو!!! کیا اس بات کا اطلاق یہ ان نبیوں پر بھی کریں گے جن پر یہ خود بھی ایمان رکھتے ہیں۔۔۔۔!!؟
محمدﷺ کی نبوت کا ’ثبوت‘ چاہیے تو پھر موسیٰ اور عیسیٰ علیہما السلام کی نبوت کا بھی ’ثبوت‘ چاہیے اور عین انہی معیاروں پر جن کو ’تحقیق‘ کی بنیاد بنا کر تم محمدﷺ کی نبوت پر اعتراضات کی بوچھاڑ کردیتے رہے ہو!۔۔۔۔ اور پھر دیکھتے ہیں ’دلیل‘ کس کے پاس ہے!!!!!؟
وہ اعتراضات جو تم محمدﷺ اور قرآن پر کرتے ہو، ’جدید انسان‘ کو ایسے ہی اعتراضات کرنے کا حق اپنے نبیوں اور اپنے صحیفوں پر بھی تو دو! تمہارے پاس تو کچھ بچے گا ہی نہیں!!! خود موسیٰ اور عیسیٰ علیہما السلام کی نبوت کے ثبوت بھی خدا کے فضل سے آج ہم رکھتے ہیں نہ کہ تم!!!
انبیاءکا آنا اگر سچ ہے تو پھر ایک اسی نبی کا ہی انکار کیوں جس کی نبوت کے دلائل سب سے مضبوط ہیں ؟ جس کی زندگی کے حالات اور جس کی تعلیمات مستند ترین صورت میں آج کے انسان کو سب سے زیادہ اور سب سے وافر اور سب سے روشن صورت دستیاب ہیں ؟
جس کا انسانی زندگی پر کسی بھی انسان سے بڑھ کر اثر انداز ہونا تاریخ کا ایک واضح معلوم محسوس واقعہ ہے؟؟؟
کسی مستشرق نے کیا سچ کہا ہے کہ محمد ہی ایک وہ نبی ہے جو تاریخ کے نصف النہار میں پیدا ہوا اور سورج کی روشنی میں دیکھا گیا! پچھلے نبیوں کے تو حالات ہی مستند طور پرآج دستیاب نہیں۔
شام کے ایک مصنف نے حال ہی میں مغرب کے کچھ اہم اہم نومسلم مفکروں کے قبول اسلام کے تجربات و محسوسات ایک کتاب میں قلم بند کئے ہیں جس کا عنوان بہت خوبصورت رکھا ہے: ربحتُ محمداً (ﷺ) ولم اخسر المسیح
یعنی”میں نے محمد ﷺ کو پایا مگر مسیح کو بھی نہ کھویا“
حامد کمال الدین