مجھے ایک بات جو کبھی سمجھ میں نہیں آئی وہ سائنس اور مذہب کا تقابل ہے۔ اس نکتہ پر میں بارہاں اپنی مختلف تحاریر میں اشارہ کرتا رہا ہوں اور سوال یہ ہے کہ سائنس اور مذہب کو آمنے سامنے لا کر کس لیے کھڑا کیا جائے؟ جواب میں بہت ساری باتیں کی جاتی ہیں لیکن آج تک مکمل طور پر یہ طے نہیں کیا جاسکا ہے کہ سائنس اور مذہب کا اختلاف کیا ہے؟ میں فی الحال سائنس کے یا مذہب کے کسی خاص نظریہ یا عقیدہ پر نہیں بلکہ ان دونوں کے اجمالی مقاصد کے حوالے سے بات کرنا چاہ رہا ہوں۔
کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والوں کے لیے ان کے عقائد کو ایک اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ کسی مذہب کے خدا، اس کے پیغمبر اور ان کے نظریات (جب تک کہ دوسرے مذہب کے لوگوں کو ان کی وجہ سے جانی اور مالی یا کسی اخلاقی قسم کا نقصان نہ پہنچے تب تک) کسی خطرے اور کشیدگی کا باعث نہیں ہوتے۔ درمیان مذاہب البتہ اونچ نیچ اور گرمی و سردی کے موسم آتے رہتے ہیں۔
یہ بات اہم ہے کہ مذاہب کا مقدمہ بنیادی طور مندرجہ ذیل نکات پر مبنی ہوتا ہے:
۱۔ اخلاقی اقدار، معاشرت کے قوانین اور ان کے نفاذ کی کوشش۔
۲۔ مقصودِ کائنات اور انسان کی زندگی کا مقصد۔
۳۔ الہیات کی گتھیوں کا حل۔
اپنے اپنے ادوار میں مختلف فلاسفہ نے مذاہب سے مطابقت اور مخالفت میں ان تینوں نکات پر اپنی آراء دنیا کے سامنے رکھی ہیں۔ لیکن یہ تینوں ہی نکات ہمیشہ سے متنازع رہے ہیں اور رہیں گے۔ کیونکہ ان میں رفعِ تنازع کے لیے کوئی حتمی کسوٹی آج تک میسر نہیں آسکی جو ہر ایک کے لیے حجت بن سکے۔
اس کے برعکس سائنس کا موضوع “فطرت کے قوانین کی تفہیم ہے”۔ کائنات میں ظہور پذیر ہونے والے مظاہر کے مادی اسباب کا استقرائی بنیادوں پر تلاش کرنا اور ان اسباب کا استعمال انسانی فلاح و بہبود کے لیے ممکن بنانا سائنس کا کام ہے۔
اب ایک بات تو یہ طے ہوگئی کہ مذہب اور سائنس دونوں کا موضوع مختلف ہے۔ اور جب موضوع مختلف ہے تو تنازع “مذہب اور سائنس” میں تو ہرگز نہیں ہوسکتا۔ ہاں بالواسطہ اگر کوئی سائنسی علوم کو مذہب کے خلاف ہتھیار بناتا ہے اور چند ایک نظریات کو ڈھال بنا کر مذاہب کا پورا مقدمہ دریا برد کرنا چاہتا ہے تو ہم ایسی صورت میں سائنس کو قصور وار نہیں ٹھہرا سکتے۔ درحقیقت وہ لوگ جو مذاہب کے خلاف سائنس کو ڈھال یا ہتھیار بنا کر استعمال کر رہے ہیں وہ نہ تو سائنس کے نفسِ مضمون سے واقف ہیں نہ مذہب کے مقدمہ کا انہیں دماغ ہے۔ ایسے لوگوں کو سلام کرکے ان سے رخصت چاہنا مناسب ہے۔
دوسری طرف اگر کوئی مذہب کو بنیاد بنا کر سائنس کو مردود جانتا ہے تو وہ بھی اسی غلط فہمی کا شکار ہے کہ سائنس کو صرف اسی کے مذہب سے دشمنی ہے۔
سائنس ایک ایسا علم ہے جس کی تدوین اور ترقی کے لیے تمام مذاہب بشمول ملحدین کے، انسانوں نے صدیوں محنت اور لگن کے ساتھ کام کیا ہے۔ اسی طرح اس کے فوائد سے بھی تمام مذہبی اور لامذہب غرض ہر قسم کے افراد بہرہ ور ہوئے۔ تو پھر یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ سائنس کسی خاص مذہب یا اعتقاد رکھنے والوں کی جاگیر نہیں جن سے اسے منسوب کیا جاسکے۔ ایسے میں سائنس کے چند ایک نظریات کو صرف اس بنیاد پر مردود جاننا کہ ان سے ہمارے مخالف کو جلا ملتی ہے، یا پھر یہ کہنا کہ سائنس مذہب کے مخالف کوئی چیز ہے، یا یہ کہ سائنسی نظریات ان لوگوں سے مخصوص ہیں جو مذہب کو نہیں مانتے، یہ ساری باتیں مناسب نہیں ہیں۔
ہم جب یہ مان لیتے ہیں کہ سائنس کا کام صرف اور صرف مظاہر کے مادی اسباب تلاش کرنا ہے تو پھر اس تلاش میں جو بھی منطقی نظریات وجود میں آئیں گے انہیں غیر جانب دار ہوکر تسلیم کرنا پڑے گا۔ اس سے نہ تو کسی مذہب کے نفسِ مضمون کو نقصان پہنچتا ہے نہ کسی مخالفِ مذہب کو اس سے مذہب کی مخالفت میں بولنے کا کوئی جواز ملتا ہے. کوئی بھی نظریہ جو سائنس سے تعلق رکھتا ہے وہ چونکہ مظاہر کے ظہور پذیر ہونے کی مادی توجیہہ ہوتی ہے اور ایسی تمام توجیہات عقل اور استقراء کی مطابقت سے کشید کردہ ایک لازم نتیجہ ہوتی ہیں. اس لیے اسے انہی حدود میں رہتے ہوئے تسلیم کرنا چاہیے۔
یہاں تک آنے میں ہم نے اس بات کو سمجھا ہے کہ سائنس اپنے موضوع میں ایک ایسا علم ہے جس کے بنیادی مقاصد سے کسی مذہب کو کوئی پریشانی نہیں ہے۔ اور یہ بھی کہ سائنس مذہب اور الحاد کی بحث سے قطعاً کوئی تعلق نہیں رکھتی۔
اب جو حضرات مذہب کی حمایت کو بنیاد بنا کر سائنسی نظریات کو رد کرتے ہیں وہ بے شک رد کریں۔ لیکن کم از کم اس کی ماہیت کو ضرور سمجھیں تاکہ رفعِ تعارض کی کوئی راہ نکل سکے۔ جب بات مادی توجیہہ کی آئے گی تو سائنس کو حرفِ آخر ماننا پڑے گا۔ مثلاً اگر کوئی کہے کہ زمین پر چیزیں اس لیے گرتی ہیں کیونکہ کشش ثقل انہیں اپنی جانب کھینچتی ہے۔ اب اس کے برعکس اگر کوئی یہ بحث کرے کہ نہیں صاحب، زمین پر چیزیں خدا کے حکم سے گرتی ہیں۔ اور کشش ثقل کا کوئی وجود نہیں۔ تو ایسا کرنے والا در اصل سائنس کے مقدمے کو سمجھ نہیں پارہا۔ جب بات ہی مادی اسباب کی ہے تو مجرد اسباب پر زبردستی کرنا ایک غیر اصولی بات ہے۔
اسی طرح سائنس کے کسی نظریہ کو بنیاد بنا کر مذاہب کے مخالف بولنے والے در اصل مذہب کے نفس مضمون اور سائنسی مقاصد کے درمیان کا فرق ملحوظِ خاطر نہیں رکھتے۔ اور اپنے نظریات کا پرچار کرنے کی خاطر سائنس کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔ حالانکہ سائنس کا موضوع نہ تو الہیات کے معاملات میں ٹانگ اڑانا ہے، نہ اخلاقیات اور معاشرت کے قوانین بنانا۔ اب اسی کو مدِ نظر رکھ کر اگر نظریۂ ارتقا کی بحثوں کو دیکھا جائے تو وہاں بھی یہی بات صادق آتی ہے۔
نظریۂ ارتقا کو اس طرح سے زیرِ بحث لانے کی روایت در اصل عیسائی انتہا پسندوں کے بعد سے شروع ہوئی ہے۔ اور اس طرح کی بحث ہم نے عوامی فورمز اور ان لوگوں میں تو دیکھی ہے جو اکیڈیمکلی نظریۂ ارتقا کو نہیں پڑھ چکے۔ تاہم جب ہم کلاس روم میں اس نظریہ کو پڑھتے ہیں یا کوئی بھی گریجویٹ یا پوسٹ گریجویٹ طالب علم اسے پڑھتا ہے تو اس کا موضوع مذہب یا صرف انسان نہیں ہوتا۔ اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ انسان کو پڑھا نہیں جاتا۔ بلکہ یہ مطلب ہے کہ اس طرح نہیں پڑھا جاتا جس طرح عوامی فورمز میں ہم اسے ارتقا کی حیثیت سے بلا واسطہ مباحث میں لایا کرتے ہیں۔ ہم بلا واسطہ یہ نہیں پڑھتے کہ انسان کا ارتقا کیسے ہوا؟ بلکہ یہ پڑھا جاتا ہے کہ ٹیکزونومکل حیثیت سے کیا کیا تبدیلیاں جانوروں کے مختلف فائلمز میں آرہی ہیں۔ مثلاً گیسٹرو ویسکیولر کیویٹی کن مراحل سے گزر کر “ہائڈرا” سے انسان تک پہنچ کر گیسٹرو انٹیسٹائنل ٹریکٹ بناتی ہے۔ اسی طرح نان ویسکیولر سے ویسکیولر پلانٹس کس طرح ایک سیکوینس میں رکھے جارہے ہیں۔ پودے کی جڑ کی ابتدائی اور انتہائی صورتوں میں کیا تبدیلیاں آئی ہیں۔
کوئی مستند بائیولاجسٹ کبھی اس طرح بحث کرتے ہوئے نہیں دیکھا گیا کہ وہ سارا زور انسان کے ارتقا پر لگا کر اسے منوانے کی کوشش کر رہا ہو۔ جبکہ اسے بطور سائنس پڑھنے والے ہر قسم کے مذہب اور لامذہب لوگ بھی ہیں۔ اس بحث کو بڑھاوا دینے والے دو ہی قسم کے لوگ دیکھے گئے ہیں۔ ایک تو مذہبی شدت پسند عیسائی اور مسلمان یا دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے جارح قسم کے افراد۔ اور دوسرے وہ شدت پسند دہریے یا ملحد جو کسی بھی صورت میں نظریۂ ارتقا کی کسی کمزوری کو ماننے کے لیے کبھی تیار نہیں ہوتے۔
میری ناقص رائے میں دونوں ہی ایک لاحاصل بحث میں مبتلا ہیں۔ ایسی بحث سے نہ سائنس کو کوئی فرق پڑتا ہے نہ اس کے مقاصد میں کوئی کمی یا زیادتی ہوتی ہے۔ کام کرنے والے اپنے کاموں میں ہمیشہ سے مصروف ہیں۔ وہ مصروف رہیں گے۔ ہاں اپنے نظریات میں جارحیت پسند لوگ ہمیشہ ان چیزوں میں بھی اختلافات کے اسباب تلاش کرتے رہے ہیں جن میں اختلاف تھا ہی نہیں۔ اور یہی بات سائنس کے لیے مذہب کو اور مذہب کے لیے سائنس کو شجرِ ممنوعہ بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
ڈاکٹر مزمل شیخ بسمل