“اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اس کی پیروی کرو جو للہ نے نازل کیا تو کہتے ہیں ہم تو اس پر چلیں گے جس پہ اپنے باپ دادا کو پایا ۔ کیا اگرچہ ان کے باپ دادا کچھ نہ عقل رکھتے ہوں نہ ہدایت ؟”قرآن ۔ سورہ البقرہ ۔ آیت 70
دنیا کا کوئی بھی مذہب جس کا تعلق عقل کے بجائے محض عقیدت سے ہو وہ اپنے ماننے والوں کو ایسی نصیحت نہیں کرتا ۔ یہ اپنے ہی پیروں پر کلہاڑی مارنے والی بات ہے ۔ جبکہ قرآن جگہ جگہ عقل استعمال کرنے کے مشورے دیتا ہے ۔ یہ عقل ہی ہے جس کی بنیاد پر آخرت میں جنت اور جہنم کا فیصلہ ہونا ہے ورنہ اگر آپ غور کریں تو دینِ اسلام میں نابالغ بچے اور مجنوں پر کوئی گناہ نہیں ۔ گناہ گار صرف وہ(سمجھا جاسکتا ہے) جس کو عقل دی گئی تھی اور اس نے اس عقل کا استعمال کر کے ہدایت نہ پا لی ۔
عموماً لوگ سوال کرتے ہیں کہ اگر ماں باپ ہی حق پر نہ ہوں تو اولاد سیدھی راہ پر کیسے چل سکتی ہے ؟ ظاہر ہے جب تربیت کرنے والے نے تربیت ہی شرک کے خطوط پہ کر دی تو اولاد بیچاری کیا کرے ؟دینِ اسلام میں اس کا بھی جواب موجود ہے کہ باپ کے گناہ پر بیٹا نہیں پکڑا جائے گا نہ بیٹے کے گناہ پر باپ ۔ ہر شخص چونکہ اپنی عقل لے کر پیدا ہوا لہٰذا اپنا حساب دے گا ۔ تربیت کی اہمیت اپنی جگہ مگر بنیاد اور پیمانہ ہمیشہ عقل ہی رہے گی ۔ تربیت تو جانوروں کی بھی کی جا سکتی ہے ۔ اور ان کو کوئی مخصوص عمل کرنے پر آمادہ کیا جا سکتا ہے مگر انسان اور جانور میں بنیادی فرق عقل کا ہے ۔
ایک بندر کو آپ ناچنے کی تربیت دے دیں تو وہ ساری زندگی ناچ ناچ کر آپ کو پیسے کما کر دیتا رہے گا ۔ مگر ایک انسان کو آپ بچپن ہی سے ناچنے کی تربیت دینا شروع کر دیں ۔ وہ آپ کی دی ہوئی تربیت پہ لاشعوری طور پر بہت کم عرصہ چلے گا ۔ شعور سے روشناس ہوتے ہی اس کے اندر یہ قوتِ فیصلہ پیدا ہو جائے گی کہ اب مزید مجھے یہ کام کرنا ہے یا نہیں ۔ یعنی اب اگر وہ مزید یہ کام کرتا ہے تو اپنی مرضی سے کرے گا نا کہ کسی تربیت کے زیرِ اثر ۔
قرآن میں للہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے آدم ع کو مختلف اشیاء کے نام سکھلا دئے اور پھر فرشتوں کے سامنے ان کو پیش کر کے کہا کہ اب تم ان چیزوں کے نام بتاؤ اگر تم سچے ہو ۔ فرشتے بولے اے للہ ! تُو پاک ہے ۔ ہم اس کے سوا کچھ علم نہیں رکھتے جو تُو نے ہمیں عطا کیا ۔اس آیت کو سمجھنے میں مجھے کئی دن لگے ۔ سوچ کا محور یہ تھا کہ جب للہ نے آدم کو چیزوں کے نام بتا دئے تو فرشتوں کو بھی بتا دینے چاہئے تھے ۔ تاکہ وہ بھی بتا دیتے ۔ مقابلہ برابر کا ہو جاتا ۔
بات سمجھ میں یہ آئی کہ انسانی فطرت میں اور دوسری مخلوقات کی فطرت میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔ دوسری کئی مخلوقات انسان سے پہلے سے اس زمین سے روشناس ہیں ۔ انسان کی پیدائش سے پہلے جنات بھی موجود تھے اور فرشتے بھی ۔ مگر ان کے علم کی حد بس اتنی ہی تھی جتنا للہ نے ان کو عطا کیا ۔ مگر انسان کا معاملہ یہ نہیں ہے ۔ انسان تجسس کا مارا کبھی سمندر کی تہوں میں قدرت کی فنکاری کے نمونے دیکھتا ہے کبھی خلاؤں میں ۔ ایک چیل کو اڑتا دیکھ کر جہاز ایجاد کرتا ہے ۔ وہیل مچھلی کو دیکھ کر آبدوز بنا لیتا ہے ۔ للہ کی بنائی ہوئی ہر چیز کی نقل بنانے پر کوشاں ہے ۔ اور للہ کی بنائی کائنات کے رازوں سے پردہ اٹھانے کے لئے جدوجہد کرتا ہے ۔ دیگر مخلوقات میں یہ خصوصیت نہیں پائی جاتی ۔ فرشتوں کو اگر نام بتائے بھی گئے ہوں گے تو انہوں نے صرف نام ہی بتائے ہوں گے ۔ جب کہ انسان نے ان چیزوں کا پورا بائیو ڈیٹا نکال لیا ہو گا ۔ انسانی عقل محض اس بات پر مطمئین نہیں ہوتی کہ یہ کیا ہے کیسے ہے ۔ بلکہ وہ اس بات کو بھی کھوجتی ہے کہ یہ کیوں ہے ؟ اور جب انسان “کیوں” کے جواب کو کھوجنے نکلتا ہے تو اس کی تلاش اس کے خالق پہ ختم ہوتی ہے ۔ ہدایت اسی کو کہتے ہیں ۔
ملحد اور مسلمان کی سوچ میں بھی اس “کیسے” اور “کیوں” کا ہی فرق ہے ۔مثلاً ہم کھانا کیسے کھاتے ہیں ؟ بچہ کیسے پیدا ہوتا ہے ؟ پیدا ہوتے ہی ماں کا دودھ کیسے پینا ہے ؟ اس علم میں تمام مخلوقات برابر ہیں ۔ کیا جانور, کیا ملحد اور کیا مسلمان ۔ مگر “کیوں” کی کھوج صرف مسلمانوں کا ہی وصف ہے ۔ہم کھانا کیوں کھاتے ہیں ؟ بچہ کیوں پیدا ہوتا ہے ؟ پیدا ہوتے ہی ماں کی چھاتی میں دودھ کیوں تلاش کرتا ہے ؟ ان سوالات کا تعلق خالصاً مذہب سے ہے ۔ کیوں کہ اس تلاش کا دوسرا سرا خدا کی ذات ہے ۔
خدا کے انکار کی صورت میں کئی سوال حل طلب رہ جاتے ہیں ۔
یہ کائنات کیسے وجود میں آئی ؟
بگ بینگ ہوا تھا ۔
بگ بینگ کیوں ہوا تھا ؟
جواب ندارد
زندگی کی ابتدا کیسے ہوئی ؟
ارتقاء کی پوری ٹوٹی پھوٹی داستان سن لیجئے ۔
زندگی کی ابتدا کیوں ہوئی ؟
جواب ندارد ۔
پھلوں میں ذائقہ کیسے آیا ؟
وٹامن کی وجہ سے ۔
پھلوں میں ذائقہ کیوں آیا ؟
جواب ندارد ۔
سائنس صرف طریقۂ کار کی وضاحت کرتی ہے ۔ وجوہات کا تعین کرنا سائنس کا دائرہ کار نہیں ۔ یہ مذہب کا دائرہ کار ہے ۔
عموماً الحاد میں اعتراض کیا جاتا ہے کہ مذہبی لوگ جب کسی معاملے کو سمجھ نہیں پاتے تو اس کو خدا پر ڈال کر مطمئین ہو جاتے ہیں جبکہ غیر مذہبی لوگوں کی جستجو ختم نہیں ہوتی بلکہ وہ حقائق کی تلاش میں سرکرداں رہتے ہیں ۔مگر میرے الحاد سے ٹکراؤ کے بے شمار تجربوں کا نچوڑ یہ ہے کہ یہ بات اس دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ ہے ۔ میں نے جب بھی کسی ملحد سے “کیوں” کا سوال اٹھایا ہے اسے بھاگتے ہی پایا ہے ۔ بہت کم ملحد ایسے ٹکرے جنہوں نے جواب دینے کی ناکام کوششیں کیں ۔ مگر حقیقی معنوں میں کسی بھی کام کے ہونے کی وجوہات کو تلاش کرنے کی کوشش نہ ملحد کرتے ہیں نہ سائنس دان ۔ کیوں کہ عقل بتاتی ہے کہ یہ تلاش خدا پر ایمان پہ جا کر ختم ہوتی ہے ۔
میں نے کئی مرتبہ ملحدوں سے یہ سوال پوچھا کہ پھلوں کے ذائقے مختلف کیوں ہوتے ہیں ؟ پھل اتنے لذیذ اور ذائقے دار کیوں ہوتے ہیں ؟ کیا قدرتی انتخاب میں یہ ممکن نہ تھا کہ ہر پھل کا ذائقہ گندم جیسا ہی ہوتا ؟ یا ذائقہ سرے سے ہوتا ہی نہ ؟ ضرورت کیا تھی ذائقے کی ؟ مجھے ایک خاتون ملحدہ کے سوا کسی نے جواب دینے کی کبھی کوشش ہی نہ کی ۔ ان خاتون کا جواب بھی “کیسے” پر مبنی تھا ۔ “کیوں” کا جواب وہ بھی نہ دے پائیں ۔ جانوروں کے جسموں پہ بنے خوبصورت نقش و نگار ۔ پھولوں کے رنگ ان کی خوشبو ۔ کیا یہ سب زندہ رہنے کے لئے ضروری تھا ؟
فطری انتخاب لیجئے یا بقائے اصلاح, صرف ضروریات کی وضاحت کی گئی ہے ۔ آپ کو بس یہی کہانیاں سننے کو ملیں گی کہ جس چیز کی ضرورت پڑتی چلی گئی وہ خودبخود اگتی چلی گئی اور جو چیز غیر ضروری تھی وہ ختم ہوتی چلی گئی ۔ انسان کو بیوقوف بنانے کے لئے یہاں تک کہا گیا کہ لذت اور ذائقہ کچھ نہیں سوائے ہمارے دماغ کی اختراع کے ۔
عجیب نظریہ جس میں کبھی کچھ کہا جاتا ہے اور کبھی اسی بات کے متضاد کوئی دوسری بات کر دی جاتی ہے ۔مثلاً اگر سوال پوچھا جائے کہ ڈائناسارز کیوں ختم ہو گئے ؟
تو جواب ملتا ہے کہ وہ اپنے ماحول سے مطابقت نہ رکھ پائے اس لئے ناپید ہو گئے ۔اب اگر پوچھا جائے کہ اونٹ کے اندر صحرا میں پیش آنے والی مشکلات کے لئے خصوصی صلاحیتیں کس نے ڈالیں ؟تو جواب آتا ہے کہ چونکہ وہ صحرا میں پیدا ہوا لہٰذا اس ماحول میں زندہ رہنے کے لئے ازخود اس کے اندر یہ صلاحیتیں پیدا ہوتی چلی گئیں ۔یعنی ایک طرف ایک جانور جو ماحول سے مطابقت نہ ہونے کی وجہ سے ناپبد ہو گیا اور دوسری طرف ایک جانور جس نے ماحول سے مطابقت نہ ہونے کے باوجود اپنے آپ کو برقرار رکھا ۔ بلکہ اس کے اندر خود بخود ایسے اعضاء پیدا ہو گئے کہ وہ صحرا میں زندہ رہ سکے ۔کیا کہئے اس کو کہ ایک جاندار فطری انتخاب کی بھینٹ چڑھ گیا دوسرا بقائے اصلاح کا منظورِ نظر ٹہرا ؟
مجھے تو آج تک یہ بھی نہ سمجھ آیا کہ فطری انتخاب میں فطرت سے کون مراد ہے ؟ انتخاب کے لفظ سے لگتا ہے کہ یہ کوئی رینڈم سلیکشن نہیں بلکہ سوچا سمجھا انتخاب تھا ۔ کس نے سوچا کہ اونٹ کو باقی رہنا چاہئے اور ڈائناسارز کو ناپید ہو جانا چاہئے ؟صرف ان دو جانوروں کی مثالوں سے کئی سوال جنم لیتے ہیں ۔ مگر جواب دینے والا کوئی نہیں ۔ خدا کا انکار کرنے کا شوق ہے بس ۔ چاہے اس کے نتیجے میں ذلت اور رسوائی مقدر بن جائے ۔
محمد سلیم