ڈارونسٹ ملاحدہ کا کہنا ہے کہ ہمارا “استدلال” “عقلی” (rational) ہے اور ہم اسی حق و سچائی کی دعوت دیتے ہیں۔
لیکن ذرا ایک منٹ رکئے ۔یہ بتائیے کہ جب آپ کے بقول دنیا کا ہر وجود، بشمول انسان اور اس کی صلاحیتیں، اندھے بہرے (غیر عقلی) اتفاقات سے وجود میں آیا ہے تو ایک غیر عقلی عمل کے نتیجے میں یہ “عقل” نامی چیز کہاں سے وجود میں آگئی؟ یعنی آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ غیر عقلی عمل نے “استدلال” اور وہ بھی “عقلی” کو جنم دے دیا؟ کچھ تو سوچو کیا کہہ رہے ہو! آخر اپنے وجودیاتی فریم ورک کے اندر رہتے ہوئے تمہارے پاس اس بات کی دلیل ہی کیا ہے کہ جو کچھ تم عقل کے نام پر کہہ رہے ہو وہ “عقلی” ہے نہ کہ بذات خود ایک “غیر عقلی عمل” کا ایک مزید اظہار؟
اور یہ “حق و سچائی” کیا بلا ہوتی ہے؟ اور پھر کتابیں لکھ کر و کانفرنسز کروا کراس کی طرف “دعوت” دینا چہ معنی دارد؟ آخر اس سے فرق ہی کیا پڑتا ہے کہ میں تمہاری بات مانوں یا نہ مانوں جبکہ ہم دونوں کا وجود میں آنا اور اس وجود کا فنا ہوجانا سب کچھ لغویت کا اظہار ہے نیز جو کچھ ہوا یا ہو رہا ہے اس سب میں “عدل” نامی کسی شے کا کوئی وجود نہیں؟ آخر اس لغو ابتداء و انتہا اور اس کے مابین غیر عادلانہ عمل کے مابین معنی تلاشنے و قبول کرنے کا کیا مطلب؟
کچھ تو سوچ کیا کہہ رہے ہو!!! یہ سب نتیجہ ہے اپنے وجود کے بارے میں اس بے سروپا بات کو قبول کرنے کا جو تم نے فرض کرلی۔
رچرڈ ڈاکنز جیسے ملاحدہ مذھب کے متبادل کے طور پر جس نظریہ ارتقاء کو پیش کرتے ہیں اسے سنجیدگی کے ساتھ قبول کرنے کے بعد “اخلاق” و “قدر” سے متعلق ایسے بھیانک منطقی نتائج نکلتے ہیں کہ خود ڈاکنز اور اس کے پیروکار بھی انہیں قبول کرنے سے گریزاں ہوتے ہیں اور اپنے نفس کو مسلسل دھوکہ دینے کے لئے الٹی سیدھی تاویلات جاری رکھتے ہیں۔ ذرا ان نتائج پر غور کیجئے:
- اس نطرئیے کا مطلب یہ ہے کہ قدر (اخلاق) نامی ہر شے ایک وہم ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ انسان چند قسم کے مادی ذرات کے بے معنی اجتماع سے وقوع پزیر ہونے والا ایک اتفاقی وجود ہے۔ ایسے میں ریت کے ذرے، پتھر، درخت، کیڑے، پرندے، جانور و انسان میں فرق کرنے کی بنیاد کیا ہے؟ جب یہ سب کے سب مادے کے اندھے بہرے (یعنی بے معنی) حادثاتی اجتماعات کے سواء اور کچھ نہیں تو کسی ایک کو دوسرے پر فوقیت دینے کی بنیاد کیا ہے؟ انسان کو وقوع پزیر کرنے والا حادثہ بھی اتنا ہی بے معنی ہے جس قدر دیگر ہر معنی حادثات۔
- اس کے جواب میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ انسان کے اندر چونکہ “احساسات” ہیں لہذا انسان زیادہ قدر کا حامل ہے۔ لیکن یہ جواب بالکلیہ لغو ہے کیونکہ یہ جنہیں “احساسات” کہا جارہا ہے نظریہ ارتقاء کی رو سے انکی حیثیت بھی چند حادثاتی کیمیائی پراسس کے مجموعے کے سواء کچھ نہیں۔ ایسے میں کسی ایک کیمیائی پراسس کو کسی دوسرے کیمیائی پراسس کے مقابلے میں زیادہ اہمیت دینے کی بنیاد کیا ہے، جبکہ دونوں ہی اندھے بہرے عمل سے وجود میں آئے ہوں؟
- اس موقع پر ایک بات یہ کہی جاسکتی ہے کہ نظریہ ارتقاء کی رو سے جس طرح ہر وجود سروائیول کی جدوجہد کررہا ہے، انسان کو بھی اپنی ان صلاحیتوں کی بقا کی جدوجہد کرنی چاہئے جو اگرچہ اسے اتفاقی طور پر ہی حاصل ہوئی ہیں۔ یہ بظاہر ایک ہم آھنگ جواب ہے لیکن اس جواب سے یہ قطعا ثابت نہیں ہوتا کہ انسان اس جدوجہد کے لئے مثلا “ھیومن رائٹس” پر مبنی کوئی جدوجہد کرے۔ “انسانی بقا” کے لئے جس قدر ہیومن رائٹس فریم ورک قابل لحاظ ہے اسی قدر مثلا نطشے کی قوم و نسل پرستانہ اخلاقیات بھی مفید ہے۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ سانپ اپنے بچوں کو کھا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود بھی سانپ کی نسل باقی ہے؟ تو ایسے میں کسی ایک اخلاقیات کو کسی دوسری اخلاقیات پر فوقیت دینے کی بنیاد کیا رہی؟ اس جواب سے یہ بھی لازم آیا کہ انسان کو اس دنیا میں صرف “بقا” کی جدوجہد کا حق ہے، “ترقی” کا نہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ اس دنیا میں جس قدر معذور انسان پیدا ہوتے ہیں وہ بے معنی میوٹیشن کی بنا پر ہوتے ہیں۔ ان کا علاج کرکے انہیں “تندرست” کرنا یا ان کی زندگی کو معنی خیز بنانے کے لئے لوگوں کے طرز عمل کی اصلاح کرنا، الغرض یہ سب بے معنی باتیں ہیں
یہ ہیں وہ نتائج جو نظریہ ارتقاء کو مذھب کے متبادل کے طور پر قبول کرنے سے لازما پیدا ہوتے اور جنہیں سنجیدگی کے ساتھ قبول کرنے کے بعد کسی انسان کا مطمئن ہونا تو کجا بامعنی طور پر زندہ رہنا بھی محال ہوجاتا ہے۔
خدا نے انسان کو جس فطرت پر پیدا کیا ہے چونکہ یہ نتائج اس کی یکسر نفی پر مبنی ہیں لہذا یہ نتائج درحقیقت خدا کی نہیں بلکہ اپنے نفس کی نفی پر مبنی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ تقریبا ہر ملحد کی فطرت انہیں قبول کرنے سے ابا کرتی ہے اور اپنی فطرت کی اسی آواز کو دبانے کے لئے یہ الٹی سیدھی تاویلات کرتے ہیں۔
البرٹ کیمس (Albert Camus) بیسوی صدی میں گزرنے والا ایک فرنچ فلسفی ہے جسے لٹریچر کی فیلڈ میں نوبل پرائز بھی ملا۔ البرٹ خدا و مذھب پر یقین نہیں رکھتا تھا مگر پھر بھی یہ سمجھتا تھا کہ وہ ملحد نہیں ہے۔ خدا کو جھٹلانے کا انسانی زندگی کے لئے کیا منطقی نتیجہ نکلتا ہے، کیمس نے اسے ان الفاظ میں بیان کیا:
You will never live if you are looking for the meaning of life
یعنی اگر تم زندگی کے معنی جاننے کی کوشش کرو گے تو زندہ نہ رہ سکو گے۔
اپنے وجود سے متعلق لایعنیت کا یہی وہ بدیہی متضاد بیان ہے جو ہر ملحد کے دل پر ہر روز دستک دے کر اسے اس سچائی کی طرف دعوت دیتا ہے جو خدا نے اس کے نفس میں گوندھ کر اسے اس دنیا میں بھیجا ہے کہ “ہاں تو ہی ہمارا رب ہے” اور “بے شک تو نے ہمیں بے مقصد پیدا نہیں کیا”۔