سائنسی ایجادات کاجدید انقلاب کیسےآیا؟

اٹھارویں صدی کے وسط تک انگلستان زیادہ تر ایک زراعتی ملک تھا۔ تقریباً ۱۷۶۰ء کے بعد سے اس ملک میں تیزی سے مشینی ایجادات ہونا شروع ہوئیں جنھوں نے ایک زبردست انقلاب کی بنیادیں ڈالیں جو تاریخ میں صنعتی انقلاب کے نام سے مشہور ہے۔حالانکہ انگلستان ایک طویل عرصے سے معاشی تبدیلیوں سے گذر رہا تھا لیکن ذرائع پیداوار میں یہ ایجادیں ’’یکایک‘‘ ایک مخصوص زمانے میں کیوں ظاہر ہوئیں؟ اس سوال کا جواب پام دت کی زبانی سنیے:
’’ اٹھارویں صدی کے نصف آخر میں ہندوستان میں (برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہاتھو ں) جو لوٹ مار مچائی گئی اس کی بنیادوں پر جدید انگلستان کی تعمیر ہوئی۔جب ۱۷۵۷ء میں پلاسی کی جنگ ہوئی اور اس میں برطانیہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے ریشہ دوانیاں کرکے فتح حاصل کرلی تو اس کے بعد ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے ہندوستان اور انگلستان کے درمیان بند ٹوٹ گیا ہو۔ ہندوستان کی دولت سمندری طوفان کی طر ح انگلستان میں آنے لگی۔ اس دولت کی فراوانی نے انگلستان میں ایجادات کے لیے فضا ساز گار بنادی۔ پلاسی کی جنگ کے فوراً بعد انگلستان میں کئی بڑی بڑی چیزیں ایجاد ہوئیں جن سے صنعتی انقلاب کی ابتدا ہوئی‘‘۔
۱۷۶۴ء میں بارگریوز نے کاتنے کی مشین ایجاد کی۔ ۱۷۶۵ء میں واٹ نے بھاپ کا انجن بنایا، جسے ۱۷۶۹ء میں پیٹنٹ کردیا گیا تاکہ کوئی اور شخص مؤجود کی اجازت بغیر اس مشین کو نہیں بناسکے۔ ۱۷۵۵ء میں آرک رائٹ نے سوتی کپڑے کی دوسری مشینیں ایجاد کیں۔ ۱۷۸۵ء میں کارٹ رائٹ نے بھاپ سے کرگھے چلانا شروع کیے اور ۱۷۸۸ء میں کئی ایک انجن اور بھٹیاں بھاپ سے چلنے لگیں۔ ان واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ اب انگلستان میں ان ایجادوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے مواقع کھل گئے تھے، کیو ں کہ اس سے پہلے بھی ، اٹھارویں صدی کے ابتدائی نصف میں کئی ایک ایجادات ہوئی تھیں لیکن چونکہ ان سے فائدہ اٹھانے کے مواقع (ایک طرف سرمایہ دوسری طرف مارکیٹ ) نہیں تھے اس لیے ان ایجادات کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ مثال کے طو رپر ۱۷۳۸ ء میں وائٹ نے پانی کی طاقت سے چلنے والی کپڑا بننے کی مشین ایجاد کی، لیکن وہ رائج نہیں ہو سکی۔ اسی طرح اس سے پہلے فلائنگ شٹل ایجاد ہوئی لیکن وہ بھی رواج نہ پاسکی۔
برطانیہ کی صنعتی تاریخ کے ماہر ڈاکٹر کنگھم نے اپنی کتاب عہد جدید میں برطانوی صنعت و تجارت کی ترقی میں لکھاہے کہ برطانیہ میں اس زمانے میں اتنے بڑے پیمانے پر ایجادیں صرف اس لیے نہیں ہونے لگی تھیں کہ ’’جیسے لوگوں کی ذہانت آناً فاناً پھوٹ پڑی ہو‘‘ اور اس کی صحیح طریقہ سے کوئی توجیہہ نہ کی جاسکتی ہو۔ بلکہ اصل وجہ یہ تھی کہ ملک میں سرمایہ اتنا اکٹھا ہوگیا تھا کہ ان ایجادات کا مصرف نکلنے کا امکان پیدا ہوگیاتھا۔کنگھم مزید لکھتا ہے:’’آرک رائٹ اور واٹ خوش قسمت تھے کہ حالات ان کے موافق تھے ۔ جب قیمتی آلات بنائے جاتے ہیں یا ایسے طریقے معلوم کیے جاتے ہیں جن میں لاگت بہت آتی ہے تو اس کے لیے بڑے سرمائے کی ضرورت پڑتی ہے۔ کوئی آدمی خواہ وہ کتنا ہی ذہین اور محنتی کیوں نہ ہو کسی چیز پر اس وقت تک محنت نہیں کرے گا جب تک اس کو کافی سرمایہ نہ مل سکتا ہو اور وہ جو چیز بنائے اس کے لیے وسیع منڈی نہ ہو۔اٹھارویں صدی میں ان دونوں چیزوں کے نقطۂ نظر سے حالات زیادہ سے زیادہ موافق بن رہے تھے۔ بنک آف انگلینڈ اور دوسرے بہت سے بنک قائم ہوچکے تھے جن کی وجہ سے سرمایہ اکٹھا ہورہا تھا۔ اب ایک قابل اور ہوشیار آدمی کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ آسان ہوگیا تھا کہ وہ اپنے کاروبار میں نئے، قیمتی اور ترقی یافتہ طریقے رائج کرسکے‘‘۔
سرمایہ داری نظام جیسے جیسے ترقی کرتا گیا ویسے ویسے لوگوں اور فیکٹریوں میں کام کرنے والوں کی زندگیاں اجیرن ہوتی گئیں۔ یہ زندگیاں کیا تھیں عذاب کا ایک جیتا جاگتا مظہر تھیں۔لوگ موت کو زندگی پر ترجیح دیتے تھے۔ اس دور کے مظالم پر جتنی تصنیفات وجود میں آئیں غالباً انگریزی زبان میں کسی اور موضوع پر اتنی کتب شائع نہیں ہوئیں۔ ان میں ناول بھی تھے، افسانے اور شاعری بھی اور تحقیقی کتب بھی۔ مشینوں کی ایجادات کے ساتھ جو کارخانے وجود میں آئے اور انھوں نے اس میں کام کرنے کے جو طور طریقے رائج کیے وہ انسانوں کے لیے بالکل نئے تھے۔ یہ ایک نئی زندگی تھی جس کا بوجھ ان کے لیے ناقابلِ برداشت تھا۔اس دور کے مظالم کی داستان اتنی المناک اور رلادینے والی ہے کہ آج بھی جب دنیا بالکل ہی بدل گئی ہے اور اب یہ تمام مظالم قصہ پارینہ بن گئے ہیں، اس کے باوجود ان حالات کے متعلق اب بھی جب پڑھا جاتا ہے یا لکھا جاتا ہے تو دل دہل جاتا ہے۔لیکن ان کا مطالعہ از بس ضروری ہے تاکہ سرمایہ داری نظام کی فلک بوس عمارتوں اور محلات جن انسانوں، بچوں اور عورتوں کے خون پسینے کی محنت سے کھڑے ہوئے ہیں ان کی زندگیوں اور ان پر روا رکھنے والے مظالم کا پورا پورا ادراک ہو سکے۔

٭نو آبادیاتی لوٹ مار اورقتل عام :
Non Killing Global Political Science کے مقدمہ نگار ڈاکٹر سکندر مہدی کے مطابق: قبل از قتل عظیم [Mega Murder] براعظم امریکہ کی مقامی آبادی اس وقت کی افریقہ اور یورپ کی مجموعی آبادی کے مقابلے میں زیادہ بڑی تھی۔ امریکہ کے قدیم باشندوں میں سے ۸۰ لاکھ افراد براہ راست جنگ میں موت کا شکار ہوئے یا پھر جنگ اور تشدد سے تعلق رکھنے والے امراض اور شکست کے باعث موت سے ہم کنار ہوئے۔ سکندر مہدی کی تحقیقات کے مطابق یہ ۸۰ لاکھ سرخ ہندی کولمبس کے امریکہ پہنچنے کے صرف اکیس سال کے اندر ہلاک ہوئے، صرف دو عشروں میں اتنے بڑے پیمانے پر امریکہ کے اصل باشندوں کا قتل عام اس بہیمیت کا منظر نامہ پیش کرتا ہے جو عیسائیت سے انحراف اور مغربی فکر و فلسفے کے فروغ کا لازمی نتیجہ تھا۔
اسٹینرڈ کے مطابق پندرہویں صدی کے اختتام پر کرۂ ارض پر دس کروڑ سے زیادہ افراد بستے تھے اور چند صدیوں کے بعد ان کی تعداد تقریباً ۵۰ لاکھ رہ گئی لیکن اس نے یہ نہیں بتایا کہ ساڑھے نو کروڑ لوگ کہاں چلے گئے۔ مائیکل مین کی کتاب Dark Side of Democracy اس موضوع پر ہلکی سی روشنی ڈالتی ہے لیکن یہ روشنی بھی بہت دھندلی ہے اس کے مطابق براعظم امریکہ میں نو کروڑ سرخ ہندیوں کو قتل کر دیا گیا تھا۔ جب کہ سکندر مہدی، ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری اور علی محمد رضوی مقتول سرخ ہندیوں کی تعداد صرف اسی لاکھ یا ایک کروڑ بیان کرتے ہیں لیکن مائیکل مین کی تحقیقات نے تاریخی گرد و غبار کو صاف کر کے سرخ ہندیوں کے قتل عام کو ایک نئی جہت عطا کی ہے۔
Encyclopaedia of Violence Peace and Conflict Vol.II میں Genocide and Democide کے موضوع پر تحقیقات میں ثابت کیا گیا ہے کہ بیسویں صدی سے قبل معلوم تاریخ کے ایک ہزار برسوں میں ایک کروڑ سے زیادہ افراد قتل کیے گئے جن میں ۲۲۱ قبل مسیح اور ۱۹ویں صدی کے اختتام کے مابین تین کروڑ چالیس ہزار افراد ہلاک کیے گئے۔ افریقیوں کو غلام بنانےکے نتیجے میں ایک کروڑ ۷۰ لاکھ افراد قتل ہوئے۔ یورپی باشندوں کی آمد سے لے کر ۱۹ویں صدی کے اختتام تک نصف مغربی کرہ میں ایک کروڑ ۴۰ لاکھ افراد قتل کیے گئے۔ اس طرح یہ چار قتلِ عام تقریباً دس کروڑ افراد کا احاطہ کرتے ہیں۔ [انسائیکلو پیڈیا آف وائلنس، پیس کنفلکٹ تین حصے اکیڈمک پریس، ص۶۰، ۱۹۹۹ء]
یہ بات حیرت انگیز ہے کہ ایک ہزار سال کی تاریخ میں جتنے لوگ ہلاک اور قتل کیے گئے اس سے زیادہ تعداد امریکہ کے یورپی آباد کاروں کے ہاتھوں صرف ایک صدی میں قتل کر دی گئی۔ ایک ہزار سال میں ۶ کروڑ لوگوں کا قتل عام لیکن صرف ایک صدی میں دنیا کے مہذب ترین انسانوں کے ہاتھوں جو نئی روشنی، نشاہ ثانیہ، تحریک تنویر، رومانی تحریک، عقلیت، علم، بنیادی حقوق، لبرل ازم، انسانیت، آزادی اور انسان کی خدائی کے دعوے لے کر اٹھے تھے ان کے ہاتھوں صرف ایک صدی میں نو کروڑ سرخ ہندیوں کے نشیمنوں پر بجلیوں کا کارواں گزر گیا اور دنیا خاموش رہی۔
ہٹلر کے مقتولین اور براعظم امریکہ کے مقتولین کا تقابل:
اعداد و شمار کی جادو گری بھی عجیب ہے۔ براعظم امریکہ میں سرخ ہندیوں کے قتل عام کی تاریخ معلوم کرنے اور اس سلسلے میں اعداد و شمار جمع کرنے کے لیے انٹرنیٹ پر ہزاروں ویب سائٹس کا مطالعہ کیا گیا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ چند ویب سائٹس کے سوا بیشتر سائٹس اس قتل عام کے بارے میں خاموش ہیں اور جن سائٹس پر معلومات مہیا کی گئی ہیں وہ ادھوری، ناقص، نامکمل، محرف، اور نہایت مختصر ہیں اس کے برعکس ہر ویب سائٹ ہٹلر اور ترکوں کے مظالم کی عجیب و غریب کہانیاں سناتی ہے جب کہ ہٹلر اور ترکوں نے مجموعی طور پر اتنے لوگوں کا قتل عام نہیں کیا جس قدر قتل عام امریکہ کے اصل باشندوں کا تہذیب جدید کے معماروں نے کیا۔ یورپی آباد کاروں نے ان معصوم ریڈ انڈینز کو کس طرح تباہ و برباد کیا اس کی ایک جھلک مائیکل مین کے مطابق:
The Indians’ environment became degraded and they died, even without wars. The settlers had the political and military power to achieve these dire ends without much risk to themselves. There were forcible mass deportations of sick and hungry natives, whose chances of survival outside their traditional lands were poor. The Indians were crowded on to smaller and smaller hunting lands and reservations. Many Europeans recognized the relentless ethnocide this involved but did nothing. [Dark Side of Democracy ،page No.85]
یورپی آباد کار مقامی باشندوں کو جاہل، بت پرست، ملحد، پلید، ناپاک، کیڑے مکوڑے، گنوار، کتے، بھیڑیئے، سانپ، سوراور بے عقل گوریلے کے نام سے پکارتے تھے۔ بھوک اور پیاس کے باعث ان باشندوں کی قوت مزاحمت ختم کر دی گئی تو ان پر بے شمار بیماریاں حملہ آور ہوگئیں جس سے یہ کیڑے مکوڑوں کی طرح مرنے لگے ان کی موت کا مہذب متمدن یورپی آبادکاروں کو کوئی دکھ تھا نہ افسوس نہ صدمہ اور نہ غم کیونکہ یہ انسان ہی نہیں تھے لہٰذا انسانیت کے زمرے سے خارج لوگوں سے ہمدردی بھی خارج از امکان تھی۔ بیماریوں کے باعث مرنے والوں کی ہلاکت پر یورپی آبادکار خوشی کا اظہار کرتے اور اسے خدا کی عظیم مہربانی اور رحمت کے نام سے یاد کرتے۔ سفاکی، درندگی، بہیمیت کی یہ کہانی مغربی مؤرخین و مصنفین کے الفاظ میں درج ذیل ہے:
Europeans perceived an enormous difference in civilizational level between themselves and natives. The natives were illiterate, “idolatrous,” “heathen,” “naked,” and “dirty.” Before their own arrival, this had been a land “full of wild beasts and wild men,” “a hideous and desolate wilderness.” The settlers could distinguish between the proud bearing and military skills of the Plains Indians and the lightly clad hunter-gatherers of California, described as “beasts,” “swine,” “dogs,” “wolves,” “snakes,” “pigs,” “baboons,” and “gorillas.” But ultimately, Indians were “savages.” Divine Providence was there for all to see in the form of disease. John Winthrop described the smallpox epidemic of I6I7 as God’s way of “thinning out” the native population “to make room for the Puritans.” William Bradford wrote, “It pleased God to visit these Indians with a great sickness and such a mortality that of a thousand, above nine and a half hundred of them died. Followers of the Lord, he said, could only give thanks to “the marvelous goodness and providence of God” (quotes from Nash, 1992: 136; Stannard, 1992: 238). Whatever they did to the natives could be justified ideologically. [Page No.85]
افسوسناک بات یہ تھی کہ کلیسا جو انسانیت کا دعوے دار تھا نسل کشی کے اس عمل میں سفید فام باشندوں کا ہم خیال تھا امریکا اور آسٹریلیا میں وہ انہی آبادکاروں کا حامی رہا۔ [Page No.87]
سرخ ہندیوں کو اپنی تہذیب، تاریخ اور مذہب میں سمونے کی کوشش کی گئی ،جن سرخ ہندیوں نے یورپی آبادکاروں کی تہذیب ، تمدن، مذہب کو اختیار کرلیا وہ بھی اجنبی رہے اور سفید فام معاشرے نے انھیں قبول کرنے سے انکار کر دیا، کیوں کہ سرخ ہندی یورپی آبادکاروں کے خیال میں بنیادی طور پر انسان کے روپ میں بھیڑیے تھے، جانوروں کی کھالوں، ہڈیوں میں ملبوس درندے تھے، جنھیں خدا نت نئی بیماریوں کے ذریعے ہلاک کر رہا تھا۔ (Nash, 1992: 280-5). (Champagne, I992: I33, I43-6).
اس دور میں بعض رحم دل لوگ بھی زندہ تھے جو سرخ ہندی وحشیوں کو انسان بنانا چاہتے تھے لیکن اسے نہایت مشکل کام سمجھتے تھے، یہ رحمدل لوگ جن میں Father Fremin Lasuen جیسے لوگ نمایاں تھے، سرخ ہندیوں کو زندگی کی ضمانت اس بنیاد پر دینا چاہتے تھے کہ انھیں عیسائی بنالیا جائے اور انھیں اپنی تہذیب و ثقافت میں ضم کرلیا جائے اس کے سوا سرخ ہندیوں کی بقاء، زندگی اور حفاظت کا کوئی طریقہ نہیں تھا۔[Page No.87]
المناک بات یہ تھی کہ عیسائیت قبول کرنے کے بعد بھی ان کی زندگی غم و الم سے نشاط و طرب کی طرف لوٹنے سے قاصر تھی، جلا وطنی کا دکھ سہنے کے بعد طوعاً یا کرہاً یا بہ رضا و رغبت عیسائیت قبول کرنے کے باوجود ان کی زندگی کے شب و روز انسانوں کے شب و روز سے مختلف تھے، عیسائیت قبول کرتے ہی وہ دائمی قیدی بن جاتے تھے۔ انھیں جبری مشقت کے کاموں میں شریک ہونا پڑتا جس میں یہ جبر بھی شامل تھا کہ وہ لاطینی زبان میں طویل مناجات پڑھیں، جن کا ایک لفظ بھی وہ سمجھنے سے قاصر تھے، اگر وہ ان امور سے چھٹکارا پانے کا سوچتے اور وہ کام یا دعا سے فرار اختیار کرتے تو انھیں کوڑے مارے جاتے اور مجبور کیا جاتا کہ وہ لاطینی زبان میں مزید مناجات کا ورد کریں، صرف یہی نہیں ان جرائم کی سزا اور بھیانک تھی، کبھی زنجیروں میں جکڑے جاتے، کبھی ان کے ہونٹ گرم لوہے سے داغے جاتے، ان کے لیے فرار کے تمام راستے بند تھے کیونکہ فرار ہو کر کہاں جاتے، کوئی ان مفلوک، بے بس، درماندہ انسانوں کو پناہ دینے کے لیے آمادہ نہ ہوتا۔ نہایت خراب خوراک اور شدید محنت کے باعث ان کی صحت گرتی ہوئی دیوار تھی، ان کے جسم کے کھنڈرات بتاتے تھے کہ یہ عمارتیں کبھی عظیم الشان بھی رہی ہوں گی، صحت کے ان کھنڈرات پر وباؤں، بیماریوں کا زبردست حملہ جاری رہتا اور ان حملوں میں بچ جانے کا امکان برائے نام ہوتا، لاکھوں سرخ ہندی اسی طرح مرنے پر مجبور کیے گئے۔ یہ موت رحم دلوں کی طرف سے عطا کردہ رحم دلانہ موت تھی، جو قاتلوں کے خیال میں شاید اس موت سے بہتر تھی جو سنگ دلانہ طریقے پر پہلے عطا ہوتی تھی۔ [Page No.88]
جبری غذائی قلت کا شکار یہ سرخ ہندی جو سالوں سے قوت مزاحمت کھو رہے تھے، ان بیماریوں کا خاص نشانہ تھے، اگر ان کے جسم تنومند ہوتے، انھیں پیٹ بھر کر مناسب خوراک وقت پر ملتی ان کی صحت قابل رشک ہوتی تو یقیناًیہ بیماریوں کا مقابلہ کرسکتے تھے، لیکن ان کو لاغر، کمزور، ناتواں شاید اسی لیے رکھا گیا تھا تاکہ یہ بیماریوں کے پھیلائے جال میں آسانی سے لقمہ اجل بن سکیں اور ان کی موت کا ذمہ دار گردش سماں کو ٹھہرایا جائے اور قاتل ہر الزام سے بری ہوجائیں۔ بیماریوں، وبائی امراض سے بچاؤ کے لیے حکمراں طبقات اور یورپی آبادکاروں نے کوئی اقدام نہیں کیا، سرخ ہندیوں کو مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا، یہ مہذبانہ قتل عام تھا، پہلے عیسائی بنایا گیا پھر بھوکا مارا گیا، پھر بیماریوں کے علاج کے لیے سہولت مہیا نہ کی گئی۔ اس کے برعکس حبشی غلاموں کو بیماریوں سے تحفظ کے لیے سفید فام یورپی آبادکاروں نے بھرپور رہنمائی کی، انھیں چیچک سے بچایا گیا کیونکہ وہ قیمتی اور کارآمد تھے، اس کے برعکس سرخ ہندیوں کو مرنے دیا گیا بلکہ حبشیوں کے اتارے ہوئے کمبل سرخ ہندیوں کو دیئے گئے تاکہ وہ چیچک سے مرجائیں۔ مائیکل مین کے الفاظ میں اس المناک باب کو پڑھنے کے لیےدیکھیے: [Page No.89]
مغربی فکر و فلسفے، سرمایہ دارانہ نظام، سرمایہ دارانہ شخصیت، مذہب دشمن اقدار، تصور نفس کے خود ساختہ نظریات، الوہیت انسانی کے دعوؤں اور آخرت کے انکار کے باعث جس خلق جدید کی تعمیر سترہویں صدی کے بعد ہوئی جس کے بارے میں فوکو نے کہا تھا کہ انسان تو اٹھارہویں صدی میں پیدا ہوا ہے اس انسان کے کردار، اخلاق، تہذیب، شرافت، اصول، روایت اور برتاؤ کی پوری تاریخ اس ظلم کی داستان میں دیکھی جاسکتی ہے۔براعظم امریکہ کے اصل سرخ باشندوں کو صفحۂ ہستی سے مٹانے، ان کی آبائی زمینوں سے ہٹانے، ان کی نسلوں کو تباہ کرنے، انھیں برباد، تہس نہس کرنے کا یہ عمل پچاس برس میں تکمیل پذیر ہوگیا تھا۔ سرخ ہندیوں کا قتل عام کرنے کے لیے خوبصورت اصطلاحیں، دل فریب نعرے، دفاع کی حکمت عملی، اپنی مظلومیت کا ڈھنڈورہ اور سرخ ہندیوں کی وحشت و بربریت کی جھوٹی کہانیاں گھڑی جاتی تھیں، اس تمام عمل میں حکومت، ریاست، عدالت، اخبارات، کلیسا سب ہم آواز تھے ۔

ہندوستان میں ٹھگ:
ہندوستانی ٹھگوں کی اخلاقیات:
ہندوستان میں ٹھگی کا ادارہ اور ٹھگوں کی روایات تاریخ انسانی میں اپنی نوعیت کی منفرد روایات ہیں جن کا فطری تعلق ہندوستانی معاشرت کی قدیم سماجی روایتوں سے ہے۔ ٹھگی کے ادارے اور اس کی روایات نے الہامی مذاہب اور ہندو مذہب کی اقدار و روایات سے حیرت انگیز اثر قبول کیا اور جدال وقتال کے سلسلے میں مذہبی پابندیوں کو اپنے معتقدات میں شامل کر کے غنڈہ گردی، دہشت گردی اور بہیمیت کی بھی اخلاقیات مرتب کیں ان اخلاقیات نے ٹھگوں کے معتقدات کی تشکیل میں بنیادی اجزاء کے طور پر جگہ پائی دنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہندوستانی ٹھگوں نے مجرمانہ سرگرمیوں کو بھی ضابطہ اخلاق ،روایات، قواعد و ضوابط اور اصولوں کے حصار میں مقید کر دیا۔ اس پہلو سے ہندوستان کی سرزمین میں ٹھگی کا مطالعہ حیاتِ انسانی کی تاریخ کا ایک عجیب و غریب باب ہے۔
“India is emphatically the land of supersitition and in this land the system of Thuggee, the most extraordinary that has ever been recorded in the history of the human race had found a congenial soil, and flourished with rank luxuriance for more than two centuries” (Ramaseana, first part, page:13)
ٹھگوں کی فہرست قتال سے خارج لوگ :
ٹھگ لوگوں کو قتل کرتے تھے، لیکن بہت سے لوگ ان کی فہرست قتال میں محفوظ قرار دیئے گئے تھے۔ اس فہرست میں سب سے نمایاں ’’اچھوت‘‘ تھے ۔ ٹھگوں کی معتقدات کے مطابق عورت کو قتل نہیں کیا جاسکتا تھا۔ سادھو، نانک پنتھی، مداری، ناچنے گانے والے لوگ، ان کو بھی ٹھگ نہیں مارسکتے۔ ان لوگوں کا قتل حرام تھا۔ اسی فہرست میں کایستھ بھی شامل تھے کہ کایستوں پر بھی ٹھگی نہیں کی جاسکتی۔ حالانکہ کایستھ اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز تھے لیکن یہ بھی اصلاًشودر تھے لہٰذا ہندو مذہب کے اصول کے تحت نیچ ذات کا قتال حرام تھا اس کے علاوہ دھوبی، بھاٹ، نانک شاہی، مداری، فقیر، ناچنے گانے والے لڑکے اور مرد، پیشہ ور گانے بجانے والے، بھنگی، تیلی، لہار، بڑھئی، سنار، جذامی، وہ شخص جس کے ساتھ گائے ہو قتال سے محفوظ تھے، معذور افراد اندھے، لنگڑے اور لولے کو بھی قتل کرنا ٹھگوں کی روایت میں حرام تھا۔ برہمچاری، کانورتی، اگر ان کے ساتھ گنگا کا پانی ہو (یعنی گنگا جل لے کر لوٹ رہے ہوں) اگر ان کے برتن خالی ہوں، تب ان کو مارا جاسکتا تھا۔ ٹھگ بنگال کے علاقے میں سکھوں کو نہیں مارتے تھے۔
ٹھگوں کا عقیدہ تھا کہ ہم نے اپنے بزرگوں سے سنا ہے کہ جن ٹھگوں نے لالچ کے پھیر میں آکر عورت کو مارا، اس نافرمانی کے نتیجے میں وہ تباہ و برباد ہوگئے۔ ٹھگ لوگوں کے اعتقاد میں عورت کو مارنا نہایت نحوست کا کام تھا۔ انھیں اس بات کا یقین تھا کہ ٹھگوں پر زوال اسی وجہ سے آیا کہ بعض لالچی ٹھگوں نے عورتوں کو کمزور شکار سمجھ کر انھیں مار دیا اور ٹھگی الہیات و اعتقادات کی تنسیخ کردی۔ (Ramaseeanal, p8).
ہندوستانی اور مغربی ٹھگوں کا تقابل:
ہندوستان کے یہ جاہل، گنوار اور وحشی ٹھگ جو مغربی تہذیب و تمدن کی چکاچوند، اور مغربی فکر و فلسفے کے اصول و مبادی سے قطعاً ناواقف تھے۔ اٹھارہویں صدی سے انیسویں صدی دو سو برس تک ٹھگ ہندوستان میں تاخت و تاراج کرتے رہے لیکن ان کی تاخت و تاراج بھی مذہب سے اخلاقی اصول اٹھارہویں صدی سے انیسویں صدی تک اخذ کر کے جدال و قتال کے طریقوں کی سختی سے پابندی کرتی تھی اور یہ ٹھگ اس مقولے کی عملی تردید کرتے تھے جس کے مطابق جنگ اور محبت میں سب جائز ہے، ٹھگ معاش اور قتال کے معاملات میں بھی اخلاقی ضابطوں، قوانین، قواعد، اصولوں اور روایتوں پر پر عامل تھے اور ان ضابطوں کی سختی سے پابندی کی جاتی تھی۔
دوسری طرف چار سو سال پہلے براعظم امریکہ میں یورپی آباد کاروں نے اس براعظم کے اصل باشندوں سرخ ہندیوں(ریڈ انڈینز) کا قتل عام شروع کیا تو کسی قاعدے، قانون، اخلاق، اصول روایت کا خیال نہیں رکھا گیا، خون کے دریا بہا کر سونے کے دریا پیدا کیے گئے اس عہد کی المناک داستانوں کو تاریخ نگاروں نے محفوظ نہ رکھا کیوں کہ اس عہد کے تاریخ نگار، روشن خیال، مہذب و متمدن انسان سب اس بربریت اور لوٹ مار کو جائز سمجھتے تھے اور اس پر انھیں کوئی تاسف نہ تھا۔ ان مظالم پر نہ آسمان رویا نہ زمین کی آنکھ نم ہوئی نہ کسی کا سینہ شفق ہوا، نہ کسی کا رنگ فق نہ کوئی چہرہ زرد ہوا، تاریخ کا یہ المناک خونی باب اب رفتہ رفتہ روشنی میں آرہا ہے۔ قتال وجدال کی یہ کیفیت غیظ و غضب کی آخری حدود کو چھو چکی تھی، سرخ ہندی عورتوں بچوں کے لیے بھی ان مہذب متمدن تعلیم یافتہ دنیا کی اعلیٰ ترین گوری نسل کے دلوں میں ہمدردی اور محبت کا ایک شمہ بھی نہ تھا۔
انگلستان کے پروفیسر ایچ میری ویل نے ۱۸۴۰ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی میں لیکچروں کا ایک سلسلہ ’’نوآبادیات اور نوآبادکاری‘‘ کے عنوان سے شروع کیا تھا۔ایک لیکچر کے دوران انھوں نے ایک سوال اٹھایا اور خود ہی اس کا جواب دیتے ہوئے بتایا: ’’لیور پول اور مانچسٹر جو معمولی قصبوں کی حیثیت رکھتے تھے کیوں اتنے بڑے اور عظیم الشان شہر بن گئے؟ کیا چیز ان کی ہمیشہ جاری رہنے والی صنعت کا پیٹ بھرتی رہی اور ان کی تیزی سے بڑھنے والی دولت کا موجب ہوتی رہی؟ ان شہروں کی موجودہ دولت افریقی حبشیوں کی عرق ریزیوں اور تباہ حالیوں کی مرہون منت ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے انھیں حبشیوں کے ہاتھوں نے ان کی بندر گاہیں بنائی ہوں اور ان کے بھاپ کے انجنوں کو بنایا ہو۔‘‘ [پروفیسر میری ویل]
سرخ ہندیوں کے وحشیانہ قتل عام کی عبرتناک داستانیں جو تین سو سال تک پوشیدہ رکھی گئی ہیں۔ اب رفتہ رفتہ منظر عام پر لائی جا رہی ہیں لیکن کئی چھلینوں سے چھان کر اس کی تفصیلات Nash, Stannard, Sheehan, Wallace, Hoxie, La Perousse, Paddison, Nichols, Phillips, Hurtado, Heizer, Brown, Churchill, Cocker, Prucha, Madsen, Rommail, Micheal Man, Glain D. Page نے نہایت تفصیل سے اپنی کتابوں میں بیان کی ہیں اس موضوع پر درج ذیل کتابیں دیکھی جاسکتی ہیں:

  1. Nash, G. 1992. Red, White and Black: The Peoples of Early North America, 3rd ed. Englewood Cliffs, N.J.: Prentice Hall.
  2. Stannard, D. 1992. American Holocaust: The Conquest of the New World. New York: Oxford University Press.
  3. Hoxie, F. 1984. A Final Promise: The Campaign to Assimilate the Indians, 1880-1920. Lincoln: University of Nebraska Press.
  4. Brown, D. 1970. Bury My Heart at Wounded Knee: An Indian History of the American West. London: Barrie & Jenkins.
  5. Churchill, Ward. 1997. A Little Matter of Genocide: Holocaust and Denial in the Americas, 1492 to the Present. San Francisco: City Light Books.
  6. Cocker, M. 1998. Rivers of Blood, Rivers of Gold. London: Jonathan Cape.
    مغرب: چار سو سال میں ڈھائی ہزار جنگیں
    ایرک فرام یا ایرخ فرام کا شمار جدید مغربی دنیا کے ممتاز ترین ماہرین نفسیات میں ہوتا ہے اور ا نھوں نے The Anatomy of Human Destructiveness کے عنوان سے ۵۷۰صفحات پر مشتمل ایک کتاب لکھی ہے۔ اس کتاب کے صفحہ 243 پر ایرک فرام نے سن۱۴۸۰ سے ۱۹۴۰ تک یورپ میں ہونے والی ’’باہمی جنگوں‘‘ کی تفصیل درج کی ہے۔ وہی یورپ جو امن ، آشتی، مکالمے اور تہذیب کا علم بردار بنا کھڑا ہے اور مسلمانوں کو ان کی جائز ترین مزاحمت پر بھی شرمندہ اور احساسِ جرم میں مبتلا کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ ایرک فرام کی تحقیقی کتاب کے اعدادو شمار یہ ہیں:
    سال-جنگوں کی تعداد
    ۱۴۹۹۔۱۴۸۰-۹
    ۱۵۹۹۔۱۵۰۰-۸۷
    ۱۶۹۹۔۱۶۰۰-۲۳۹
    ۱۷۹۹۔۱۷۰۰-۷۸۱
    ۱۸۹۹۔۱۸۰۰-۶۵۱
    ۱۹۴۰۔۱۹۰۰-۸۹۲
    اس طرح اہل مغرب نے سن ۱۴۸۰ سے ۱۹۴۰ تک صرف ۶۲۵۹ جنگیں لڑی ہیں۔ ان جنگوں کے بارے میں بنیادی باتیں یہ ہیں:
    [۱] یہ تمام جنگیں یورپی طاقتوں کے درمیان ہوئیں اور کوئی غیر یورپی قوم ان میں نہ شامل تھی نہ کسی جنگ کا محرک تھی نہ ان جنگوں میں اس کی کسی خفیہ یا ظاہری سازش کو دخل تھا۔ یعنی یہ سرتا پا ایک یورپی یا مغربی معاملہ تھا۔[۲] اہل مغرب جیسے جیسے زیادہ مہذب زیادہ جدید اور زیادہ صاحب علم ہوتے گئے ان کی انسانیت سوزی میں اضافہ ہوتا گیا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ سن ۱۴۸۰ سے ۱۴۹۹ کے دوران انھو ں نے صرف ۹ جنگیں لڑیں لیکن سن ۱۹۰۰ سے ۱۹۴۰ کے دوران جب بیسویں صدی نصف النہار پر تھی اہلِ مغرب نے آپس میں چھوٹی بڑی ۸۹۲ جنگیں لڑیں۔ ایرک فرام نے ان جنگوں میں ہونے والی ہلاکتوں کے اعداد و شمار پیش نہیں کیے شاید اس کی ضرورت بھی نہیں تھی، جنگوں کی بڑھتی ہوئی تعداد خود چیخ چیخ کر بتارہی ہے کہ ان جنگوں میں کیا ہوا ہوگا۔ لیکن مغرب کے خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ نے دوسری عالمی جنگ کے جو اعداد و شمار جاری کیے ہیں، اس سلسلے میں ہنگری، یونان اور چیکو سلاواکیہ کے اعداد و شمار فوجی اور شہری کی تخصیص کے ساتھ دستیاب ہیں۔ صرف یہ بتایا گیا ہے کہ ہنگری میں ۷ لاکھ ۵۰ ہزار، یونان میں ۵ لاکھ ۲۰ ہزار اور چیکو سلاواکیہ میں ۴ لاکھ افراد ہلاک ہوئے۔ رائٹر کے مطابق مجموعی ہلاکتوں کی تعداد یہ ہے:فوجی:۲ کروڑ ۳۶ لاکھ ۳۰ ہزار،شہری: ۳ کروڑ ۸۳ لاکھ ۳۶ ہزار،کل اموات: ۶ کروڑ ۱۹ لاکھ ۶۶ ہزار۔
    یہ صرف دوسری عالمی جنگ کے اعدادو شمار ہیں۔ پہلی عالمی جنگ کے اعداد و شمار کو بھی اس کے آ س پاس سمجھ لیا جائے تو جدید مغرب صرف آپس کی دو جنگوں میں ۱۲ کروڑ افراد کو ہلاک کر چکا ہے اور وہ بھی قرونِ وسطیٰ یا Dark Age میں نہیں، بیسویں صدی کے وسط میں۔ یہاں زخمیوں کی تعداد دستیاب نہیں لیکن بین الاقوامی ماہرین کا کہنا ہے کہ جنگوں میں عام طور پر ایک ہلاک اور تین زخمیوں کی نسبت سامنے آتی ہے۔ اس فارمولے کو درست سمجھ لیا جائے تو صرف دو عالمی جنگوں میں ۳۶ کروڑ افراد زخمی ہوئے۔ مغربی دنیا کی ہلاکت آفرینی کو دیکھا جائے تو اسلامی بنیاد پرستوں میں ایک اور ایک کروڑ کی نسبت بھی نہیں ہے۔ مگر مسلمانوں میں بھی ایسے بے شمار لوگ ہیں جو مغرب کے جھوٹے پروپیگنڈے پر شرمندہ ہوتے ہیں۔ اور فرماتے ہیں’’ آہ! یہ کیا ہورہا ہے؟‘‘۔[JAS 27 Nov,2005]
    اسوقت بھی دنیا میں ناصرف یہ لوگ جنگوں میں مصروف ہیں بلکہ دوسروں کی جنگوں کو بڑھکانے اور ایندھن فراہم کرنے کا بھی کام کررہے ہیں ۔ اسوقت دنیا میں اسلحے کا اسی فی صد کاروبار: سلامتی کونسل کے چار ارکان کررہے ہیں ۔ گزشتہ دہائی کے دور ان دنیا بھر میں روایتی اسلحہ کی فروخت کا ۸۱فیصد کاروبار روس، امریکہ،برطانیہ، فرانس اور جرمنی کی تحویل میں رہا۔ یہ وہی ممالک ہیں جنھوں نے اپنی نوآبادیات کے ساتھ لوٹ مار کا رویہ اختیار کیا، لوٹ کے مال سے جدید سائنس ایجاد کی، سائنس کے ذریعے ٹیکنالوجی کو فروغ دیا۔ اس کے ذریعے صنعتی ترقی کی اور اپنی برتری کے لیے خوف ناک اسلحہ نہ صرف تیار کیا بلکہ پوری دنیا میں مسلسل فروخت کر رہے ہیں۔ اس کے باوجود یہ پانچوں ممالک دنیا میں امن کے سب سے بڑے علمبردار انسانیت نواز اور مہذب کہلاتے ہیں ان میں سے چار ممالک اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے رکن بھی ہیں۔
    تاریخ کا عجیب منظر ہے کہ اسلحہ کے تاجر دنیا بھر میں امن کے علمبردار بھی ہیں۔ شیخ سعدی کی حکایت ہے کہ ایک شکاری پرندوں کا شکار کرنے تیر کمان تان کر جا رہا تھا لیکن اس کی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز تھی، ایک پرندے نے نہایت دکھ سے اپنے ہمسفر کو مخاطب کیا کہ دیکھو یہ شکاری کتنا رحم دل ہے یہ صیاد تو ہے لیکن اس کی آنکھوں میں درد کے کتنے آنسو ہیں ، ہمسفر نے برجستہ جواب دیا صیاد کی آنکھ کے آنسو نہ دیکھو اس کے ہاتھ میں موجود تیر کمان کو دیکھو۔المیہ یہ ہے کہ عہد حاضر میں ہمارے مفکرین عالمی طاقتوں کی آنکھ کے آنسو دیکھ رہے ہیں ان کے ہاتھوں میں موجود تیر کمان نہیں دیکھ رہے اور تمام جدیدیت پسند مفکرین اسلام کو تنقید کانشانہ بنارہے ہیں علماء کی تضحیک کررہے ہیں اور مغرب کی تعریف میں مصروف ہیں۔ مذہبی تہذیبوں نے کبھی دنیا کی تاریخ میں اسلحہ کے ذریعہ معیشت کے ذرائع پیدا نہیں کیے۔
    گزشتہ تین صدیوں میں انسانی قتل عام کی تاریخ:
    رومیل نے اپنی کتاب Death by Government میں اعداد و شمار کے ذریعے ثابت کیا ہے کہ دنیا کی پوری تاریخ میں جتنے قتل عام ہوئے بیسویں صدی کے صرف اٹھاسی سالوں میں اس سے کئی گنا زیادہ قتل عام ہوئے، سترہویں صدی سے قبل کے تمام قتل عام کی تفصیل ویب سائٹ Hawaili.com سے ۵؍فروری ۲۰۰۵ء کو حاصل کیے گئے۔ رومیل کے اعداد و شمار کے مطابق سترہویں صدی سے قبل دنیا کی تاریخ میں صرف ۴۷ کروڑ لوگ مارے گئے۔ ان مارے جانے والوں میں سب سے زیادہ تعداد افریقی غلاموں اور چینی امریکی باشندوں کی ہے۔ چینی شہنشائیتوں ہیونگ، ہان، تانگ، سانگ کے ہاتھوں چین کے ۲۰ کروڑ باشندے پانچ سو سال کے دوران ہلاک کیے گئے۔ رومیل نے اس قتل عام کی وجوہات اور تفصیلات ویب سائٹ پر مہیا نہیں کی ہیں۔ اس کے بعد دوسرا نمبر امریکی استعمار کا ہے جہاں پچاس سال کے عرصے میں امریکہ کے اصل مقامی باشندے جن کی تعداد دس کروڑ تھی۔ رومیل کے مطابق ۸کروڑ ہلاک کر دیئے گئے جب کہ مائیکل مین کے مطابق ۹ کروڑ ہلاک کیے گئے۔ سرسری تفصیلات درج ذیل ہیں:
    افریقی غلام: ساڑھے چھ کروڑ قتل .
    فرانس: گیارہ لاکھ لوگوں کا قتل
    امریکی استعمار: آٹھ کروڑ سرخ ہندیوں کا قتل
    برطانوی استعمار: آسٹریلیا کے باشندوں کا قتل عام
    کنگ چارلس نہم: ایک لاکھ کالونسٹوں کا قاتل
    رومیل نے ہندوؤں کے ہاتھوں بدھ مت کی تباہی و بربادی اور لاکھوں بدھوں کی ہلاکت کے بارے میں اعداد و شمار مہیا نہیں کیے اسی طرح منگولوں کے ہاتھوں مسلم علاقوں کی تباہی کا بہت مختصر تذکرہ کیا گیا ہے۔ مغلوں کے ہاتھوں ہندوستان میں قتل عام کی تفصیل بھی نہیں دی گئی۔
    رومیل نے اپنی کتاب میں اعداد و شمار کے ذریعے بیسویں صدی کو دنیا کی تاریخ کی خون خوار صدی کے طور پر نمایاں کیا ہے۔ ۱۹۸۹ء سے ۱۹۹۸ء کے درمیان ۱۰۷ خانہ جنگیاں ہوچکی ہیں جنھیں uncivil war کہا جاتا ہے۔رُتھ لیگر سیورڈ کے اندازے کے مطابق، ۱۹۱۰ء سے ۱۹۸۵ء کے دوران لڑی گئی ۲۰۲ جنگوں میں تخمیناً ۷ کروڑ ۸۰ لاکھ جانیں تلف ہوئیں۔ دوسرے الفاظ میں، بیسویں صدی میں ہونے والی اموات انیسویں صدی کے مقابلے میں پانچ گناہ زیادہ تھیں۔ صرف ان دو جنگوں میں، ۱۰۰ سال سے کم عرصے کے دوران، اہم شریک ملکوں کے ۶۰ کروڑ شہری قتل ہوئے۔ یہ تعداد کئی یورپی ملکوں کی کل تعداد سے زیادہ ہے۔ہال کین نے ۱۹۹۵ء میں لکھتے ہوئے اس امر کا اظہار کیا تھا کہ ’’ایک تجربے کے مطابق ۱۹۴۵ء کے بعد ہونے والی جنگوں میں ہلاکتوں کی تعداد انیسویں صدی سے دوگنی اور ۱۸ویں صدی سے سات گنا زیادہ تھی‘‘۔
    اس حیرت انگیز اضافے کی وجہ کیا تھی؟
    اس اضافے کی وجوہات تاریخ، فکر اور فلسفہ میں ہی تلاش کرنے کے لیے ہمیں یونانی فکر و فلسفہ سے لے کر مغربی فکر و فلسفے تک کے اہم مباحث کو پیش نظر رکھنا ہوگا کیونکہ طرز زندگی میں تبدیلی کا براہ راست تعلق الٰہیات، مابعد الطبیعیات، علمیات سے ہے۔ یہ اگر تبدیل ہوں تو سب تبدیل ہوجاتا ہے۔ مغربی فکر و فلسفے کے فروغ نے دنیا میں تشدد کو جنم دیا ہے جو وسعت پذیر ہو رہا ہے۔ ۱۷ویں صدی کے بعد جب دنیا بہت مہذب ہوئی تھی انسان نیا فلسفہ نیا مذہب، نئی سائنس پیدا ہوئی اس کے بعد دہشت گردی جنگیں طاعون کی طرح پھوٹ پڑیں اور رومیل کے مطابق صرف تین سو سال میں پونے دو ارب لوگ مارے گئے۔ اس کی وجوہات فلسفیوں کے متشدد افکار میں تلاش کی جاسکتی ہیں۔ تمام مغربی فلسفیوں کے افکار آخر کار حرص و حسد کی عالمگیریت کو ممکن بتاتے ہیں۔ یہ عالمگیریت، عالمگیر تشدد، جنگی جنون کا باعث ہے، بنیادی حقوق، آزادی، انسانی حقوق نیشنل ازم، جمہوریت، لبرل ازم کے فلسفے تشدد کے فروغ کا اصل سبب ہیں کیونکہ یہ نفرت، حرص و حسد اور بہیمیت کو فروغ دینے کا باعث ہیں۔ سیاست میں یہ عمل جمہوریت کے ذریعے ممکن ہوتا ہے اور معیشت میں سرمایہ دارانہ نظم معیشت کے ذریعے یہی دو ذریعے دنیا میں جنگوں کی دائمی موجودگی کو ممکن بناتے ہیں۔
    رومیل کے اعداد و شمار کے لحاظ سے بیسویں صدی دنیا کی تاریخ کی بدترین، ظالم ترین اور وحشیانہ صدی تھی جس میں ایک ارب سے زیادہ لوگ مارے گئے۔ بیسویں صدی کو تاریخ انسانی کا سب سے اہم زمانہ کہا گیا، جب جمہوریت، مساوات، انسانی حقوق، سائنسی ترقی، خدا بے زاری، مذہب سے نجات، مذہبی اقدار سے لاتعلقی عام تھی۔ سترہویں صدی سے پہلے کے زمانے کو مغرب اور مشرق کے تمام سیکولر مفکرین Dark Age تاریک زمانہ کہتے ہیں۔ کیونکہ کہ سترہویں صدی سے قبل انسان علم کا سرچشمہ انسان کو یعنی اپنے علم، تجربے، مشاہدے، جذبات، حواس، وجدان کو نہیں سمجھتا تھا اور خارجی ذریعہ علم کو علم کا لازمی حتمی قطعی آخری اور درست وسیلہ سمجھتا تھا لہٰذا سترہویں صدی سے پہلے کے تمام انسان انسان نہیں جاہل، وحشی اور درندے تھے۔

مغربی سفاکی کا جدید فکر و فلسفہ کیساتھ تعلق:
یہ سوال انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ یورپی آبادکار اس قدر شقی القلب کیوں ہوگئے تھے؟ ظلم و ستم کی ایسی داستانیں کیوں رقم کر رہے تھے جو تاریخ میں تاتاریوں نے بھی رقم نہیں کیں؟بہیمیت کی اس تاریخ کی تحقیق اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ہم عیسائیت میں تحریف کے بعد رہبانیت کے فروغ اور ریاست سے مذہب کی بے دخلی کی تاریخ کا بے لاگ مطالعہ نہ کریں۔ سینٹ آگسٹائن کا یہ قول کہ خدا انسان بن گیا تاکہ انسان خدا بن سکے۔ اس نقطۂ نظر کے نتیجے میں عیسائیت کا خطرناک زوال شروع ہوا اور مغرب کے ہیومن ازم نے اسے ختم کر دیا۔ عیسائیت نے احکام الٰہی سے انحراف کر کے فطری طریق زندگی کو غیر فطری بنا دیا، انھوں نے رہبانیت خود اختیار کی لیکن اس کا حق ادا نہ کرسکے۔ فطری طرز زندگی سے انحراف کے نتیجے میں طبیعت وحشیانہ ہوجاتی ہے جس کا اظہار بے شمار طریقوں سے ہوتا ہے۔ تحریف شدہ عیسائیت نے غیر فطری راستوں کا سفر شروع کیا تو دنیا کی حلال لذتوں کو بھی حرام قرار دیا گیا اور پاکیزگی و طہارت کے تمام تصورات ترک دنیا سے وابستہ کیے گئے، لیکی کی کتاب تاریخ اخلاق یورپ اس تاریخ کا ایک مختصر پرتو ہے جو غلاظت سے عبارت ہے اور جسے پڑھ کر لوگ خون کے آنسو رونے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ مزید عیسائیت نے یونانی فلسفے کی حکایات، روایات اور سائنس سے متاثر ہو کر اسے عیسائی اعتقادات کا حصہ بنا لیا تھا ، یونانی مفروضہ کہ زمین ساکن ہے اٹھارہ سو سال تک عیسائی الٰہیات کے معتقدات کا لازمی حصہ بنا رہا اصلاً یہ انجیل کا عقیدہ یا نظریہ نہ تھا بلکہ یہ نظریہ ارسطو کے افکار سے عیسائیت کی الٰہیات میں سرایت کر گیا تھا کیونکہ عیسائی علماء یونانی فلسفے اور سائنس سے بے حد متاثر تھے اور اسے مذہب عیسائیت کے فروغ کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ عالم اسلام میں یہی طرز عمل معتزلہ اور فلاسفہ نے اختیار کرنے کی کوشش کی لیکن امام غزالیؒ نے ان کوششوں کو ناکام بنا دیا اور اسلام کو یونانی افکار فلسفہ اور سائنس کے مفروضات و خیالات سے اس طرح محفوظ رکھا کہ پندرہ صدیاں گزر جانے کے باوجود اس نظام میں کوئی رخنہ پیدا نہ ہوسکا۔
’’زمین ساکن ہے‘‘ اس سائنسی مفروضے کا مطالعہ جب گیلی لیو نے کیا اور اس نے سائنسی مشاہدات کی بنیاد پر اس عقیدے کا انکار کیا تو اصلاً اس نے ایک سابقہ سائنسی نظریے کا انکار کیا تھا، لیکن یہ سائنسی نظریہ مذہبی عقیدے کے طور پر صدیوں سے رائج تھا لہٰذا اسے عیسائیت کا انکار کہا گیا اور ظلم و تشدد کی ایک تاریخ مرتب ہوتی چلی گئی۔ اس تشدد کے نتیجے میں مذہب سے بغاوت عام ہوگئی، عیسائیت نے Inquisition کے ذریعے مذہبی انحراف اور بغاوت کو روکنے کی متشددانہ کارروائیاں کی گئیں جس کی مثال دنیا کی تاریخ میں کسی مذہب میں نہیں ملتی۔ ظلم و بربریت سفاکی و بہیمیت کا ردعمل تحریک اصلاح پروٹسنٹ ازم کے ذریعے ہوا اور کیتھولک چرچ کے خلاف بغاوت عام ہوگئی۔ لوتھر نے بائبل کی تشریح کا اختیار علماء کے بجائے ہر شخص کو دے دیا اور کہا کہ خدا سے براہ راست تعلق قائم کیا جائے، انجیل مقدس کو براہِ راست سمجھا جائے اور علماء کو رد کر دیا جائے۔ جس کے نتیجے میں عیسائیت تباہ و برباد ہوگئی۔ عیسائیت کے بہیمانہ ردعمل کے نتیجے میں سائنس دانوں کی توقیر بڑھی الحادو زندقہ عام ہوئے جس کے نتیجے میں مغربی فکر و فلسفے کی بنیادیں رکھی جانے لگیں۔
یورپ میں کلیسا کی شکست اور قومی ریاستوں کے قیام نے تمام اخلاقی حدود قیود کو ختم کر دیا اور بے حجابی، الحاد، زندقہ، ظلم و بربریت کا سمندر امڈر آیا، قومی ریاستوں نے نو آبادیات قائم کیں، مغربی فکر و فلسفے کے فروغ کے ذریعے بین الاقوامی لوٹ مار کا سلسلہ شروع ہوا۔ ایشیا، امریکا، افریقہ اور آسٹریلیا کے براعظموں کو لوٹا گیا اور کروڑوں لوگوں کو قتل کر دیا گیا۔ بعض مؤرخین کے مطابق لوٹ مار کے اس عمل میں یورپ کے ہر گھر کا ایک نہ ایک فرد شریک تھا۔ عیسائیت کی شکست وریخت نے اخلاقی حدود و قیود ختم کر دی تھیں لہٰذا کوئی اخلاقی رکاوٹ باقی نہ رہی تھی۔ عیسائیت کے ظلم و ستم اور مذہب سے نفرت نے ان یورپی آبادکاروں کے دل محبت سے عاری کر دیے تھے اور بہیمیت و سفاکی ان کی زندگی کا لازمہ بن گئے تھے لہٰذا کسی ہمدردی، خیر اور مروت کا سوال پیدا ہونا محال تھا۔ اس ذہنیت کے ساتھ یورپی آباد کار براعظم امریکہ میں داخل ہوئے تو ان کے پیش نظر اس زرخیز خطے پر قبضہ کے سوا کچھ نہ تھا اور اس میں حائل تمام رکاوٹوں کو دور کرنے میں کسی تاخیر کو برداشت کرنا ممکن نہ تھا کیوں کہ زندگی مختصر ہے اور اسے طویل منصوبوں کے سپرد نہیں کیا جاسکتا۔
عیسائیت کی خامیوں اور کمزوریوں کے باوجود عیسائیت کے مثبت اثرات یورپی معاشرے میں موجود تھے اس کی تاریخی شہادتیں تاریخ کی کتابوں میں محفوظ ہیں۔ مغربی فکر و فلسفے، سرمایہ داری اور سرمایہ دارانہ نظام، صنعتی ترقی سے پہلے یورپ کی اخلاقی حالت کیا تھی، کس قسم کی اقدار اور روایات معاشرے میں مقبول تھیں، حریص اور حاسد شخص کا معاشرے میں کیا مرتبہ تھا، کلیسا معاشرے اور معاشرت کے لیے کیا خدمات انجام دیتا تھا۔ لوگ حرص اور ہوسِ دنیا سے کتنے دور تھے، دنیا پرستی ، نفس پرستی اور لذت پرستی کا معاشرے میں کیا مقام تھا اس کی تفصیلات Leo Huberman نے اپنی کتاب Goods Man’s Worldly میں بیان کی ہیں۔
جاگیر داری نظام کی ابتداء میں کلیسا اس دور کے سماج کا ایک ترقی پسند اور زندہ جزو تھا جس نے رومن تہذیب کی بڑی حد تک حفاظت کی،علوم و فنون کی ترقی اور اشاعت میں حصہ لیا۔ اس مقصد کے لیے درسگاہیں قائم کیں، اس نے غریبوں کی مدد کی، یتیم خانوں کا انتظام کیا اور بیماروں کے لیے شفا خانے کھولے۔ کلیسا کی ان خدمات پر نگاہ کرتے ہوئے کہا جاسکتاہے کہ کلیسا نے اس دور میں اپنے زیرِ تصرف ریاست کا انتظام اس دور کے بہت سارے دنیاوی رئیسوں کے مقابلے میں بہت بہتر کیا۔عوام کی اکثریت سود کو حرام سمجھتی تھی:مثال کے طور پر سود خوری کے خلاف انگلستان میں ایک قانون پاس ہوا جس کے الفاظ یہ تھے:’’سود خوری خدا کے حکم سے بالکل حرام قرار دی گئی ہے۔ خدا کے احکام اور مذہبی تعلیمات ایسے شخص کے دل میں، جو دولت کی ہوس سے خراب ہوچکا ہو، جڑ نہیں پکڑ سکتے۔ ایسے شخص کے دل میں نیکی قبول کرنے کی صلاحیت باقی نہیں رہتی۔ اس لیے اس سلطنت کے لیے قانون بنایا جاتا ہے کہ اس ریاست کا کوئی شخص یا اشخاص خواہ وہ کسی مرتبہ کے ہوں، ان کا کوئی منصب ہو اور وہ کسی صفت اور حالت کے مالک ہوں، وہ کسی شعبے سے ، کسی ذریعہ، کسی قاعدے سے کوئی رقم یا رقمیں کسی قسم کے سود پر نہیں دے سکتے اور نہ سود لے سکتے ہیں اور نہ سود لینے کی امید بھی کرسکتے ہیں۔ اس رقم پر جو انھوں نے قرض دی ہے وہ کوئی اضافہ نہیں لے سکتے اگر وہ اس حکم کی خلاف ورزی کریں گے تو ان کی رقم یا رقمیں اور ان کا سود سب ضبط کرلیا جائے گا‘‘۔
اس حکم اور قانون سے ہمیں واضح طو رپر اس امر کا اندازہ ہوجاتا ہے کہ قرون وسطیٰ میں عوام کی بڑی تعداد کا خیال سود خوری کے متعلق کیا تھا۔لیکن سوال جس پر غور ضروری ہے وہ یہ ہے کہ اس دور میں لوگ سود کے مخالف کیوں تھے؟ اس سوال کے جواب کے لیے ہمیں جاگیرداری نظام کے تانے بانے پر اچھی طرح نگاہ ڈالنی چاہیے۔جاگیر داری زمانے میں تجارت بہت چھوٹے پیمانے پر ہوتی تھی۔ اس زمانے میں نفع کی نیت سے کہیں روپیہ لگانا نہ تو ممکن ہی تھا اور نہ ہی اس امر کی کوئی ضرورت ہی درپیش تھی۔ اگر کوئی شخص قرض چاہتا بھی تو اسے یہ کبھی خیال نہ ہوتا کہ وہ اپنی دولت میں اضافے کے لیے قرض لے رہا ہے، اس کو صرف زندگی کی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے قرض کی حاجت ہوتی تھی۔ دوسرے الفاظ میں قرض کی ضرورت زیادہ تر نادار لوگوں کو ہی پڑتی تھی۔ ان کے مویشی مرجاتے یا کثرت باراں سے فصل تباہ ہو جاتی تو وہ قرض کے طالب ہوتے۔قرون وسطیٰ کے مروجہ اخلاق کا یہ تقاضا ہوتاتھا کہ اگر کوئی انسان یا ہمسایہ مصیبت میں مبتلا ہوجائے تو اس کی مدد انسانی فرض ہے اور اس کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر اپنے نفع کی فکر نہ کرنی چاہیے۔ نیک عیسائی نفع کا خیال کیے بغیر اپنے پڑوسی کی مدد کرتا تھا۔
قرون وسطیٰ میں دولت کے انبار جمع کرنا اخلاقی نقطۂ نظر سے درست نہیں سمجھا جاتا تھا۔ صرف اتنا روپیہ جو زندگی کی ضروریات کی کفالت کرسکے کافی سمجھا جاتاتھا چنانچہ بائبل میں اس بارے میں کھلے ہوئے احکام موجود ہیں:’’یہ ممکن ہے ایک اونٹ سوئی کے ناکے سے گزرجائے لیکن یہ ہر گز ممکن نہیں کہ ایک دولت مند خدا کی بادشاہت میں داخل ہوسکے‘‘۔
یورپ کی یہ صورت حال سرمایہ دارانہ نظام کے فروغ سے پہلے تک برقرار تھی لیکن مغربی فکر و فلسفے کے فروغ کے نتیجے میں اخلاق رذیلہ و خبیثہ عام ہوئے اور سرمایہ داری نے حرص و حسد کو عالمگیر جذبہ بنادیا اس جذبے کے نتیجے میں سرمایہ کا پہیہ بہت تیزی سے گردش کرنے لگا مختلف براعظموں میں لوٹ مار کے مال سے یورپ میں ایجادات کا سیلاب آگیا اور صنعتی ترقی کے لیے انسانوں پر مظالم کی آزادی عطا کردی گئی۔ امریکہ میں سونے اور چاندی کی دریافت، دیسی آبادی کی تباہی، زبردستی غلام بنانے کی مہم، قدیم دیسی باشندوں کی امریکی کانوں میں تدفین، ہندوستان اور ویسٹ انڈیز پر فاتحانہ یلغار اور ان کی لوٹ کھسوٹ، اور افریقہ کے بر اعظم کا کالی چمڑی کے لوگوں کی تجارت کے لیے شکار گاہ بننا، یہی وہ بنیادیں تھیں جن پر دور جدید کی عمارت کھڑی کی گئی۔
کسی قوم و ملت کی اخلاقیات اس کے مابعد الطبیعیاتی نظام اس کی الٰہیات اور اس کی علمیات کے بطن سے طلوع ہوتی ہیں۔ سترہویں صدی سے پہلے مغرب کی علمیات الہامی مذہب پر مبنی تھی، خدا خوفی کا تصور لوگوں کےد لوں میں موجود تھا۔ سترہویں صدی کے بعد وحی الٰہی، الہام، مذہب ذریعہ علم کے طور پر مسترد کر دیئے گئے لہٰذا نئی علمیات مادہ پرستی کی علمیات تھی جس کا نقطۂ عروج مادہ پرستی تھا اور اخلاقیات، خدا خوفی ، آخرت اس علمیات کا موضوع ہی نہ تھے۔
جدید سائنس مغرب کی مادیت سے ہی نکلی ہے اسکو مکمل طور پر کسی خالص اسلامی معاشرے میں نہ فروغ مل سکتا ہے نہ کسی اسلامی ریاست میں مغرب کی مادی سائنس ترقی پاسکتی ہے ۔مثلاً دنیا کے کسی مذہبی معاشرے میں ایٹم بم جیسا خطرناک ہتھیار جو ارض و سماء میں تباہی پھیلا دے’ کبھی ایجاد نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ اسلام کا مقصد لوگوں کو ہلاک کرنا نہیں بلکہ حقیقی ہلاکت یعنی عذاب سے بچانا ہے۔ وحی الٰہی کی بنیاد پر تعمیر ہونے والی کسی تہذیب اور کسی تمدن میں انسانی زندگی کے لیے مہلک ترین ہتھیار بنانے کا تصور پیدا ہی نہیں ہوسکتا، نہ یہ معاشرے نو آبادیات قائم کرتے ہیں، نہ انسانوں کی خرید و فروخت اور جبری بے گار کے ذریعے اپنے مقبوضات سے دولت سمیٹتے ہیں نہ انسانوں کا قتل عام کرسکتے ہیں، نہ دنیا اور صرف دنیا، عیش و عشرت مادیت، معیار زندگی میں روزانہ اضافے کو مقصد زندگی قرار دے سکتے ہیں ان معاشروں میں موت آخرت کا تصورِ انحطاط کے باوجود بہرحال باقی رہتا ہے جو انسان کا دل دنیا سے اٹھا کر آخرت میں لگا دیتا ہے لہٰذا مذہبی معاشروں میں کبھی مادہ پرست سائنس کو فروغ نہ مل سکا. ان معاشروں کی سائنس و ٹیکنالوجی بھی اپنے مذہبی نظریات سے برآمد ہوتی ہے اور صراط مستقیم پر سفر کرتی ہے۔ اسی لیے مسلمانوں کی تاریخ میں امریکی برطانوی، ولندیزی، فرانسیسی المانوی، استعمار کی طرح لوٹ مار بہیمیت درندگی کے واقعات نہیں ملتے۔
تحریر ڈاکٹر خالد جامعی، بشکریہ ساحل

Leave Your Comment

Your email address will not be published.*

Forgot Password