مشہور سکالر و فلسفی احمد جاوید صاحب کے ساتھ ایک نشست ہوئی جس کے بعد ڈاکٹر جمیل اصغر جامعی صاحب پروفیسر نمل یونیورسٹی نے یہ سوال کیا
سوال: ’’سر آپ نے کہا کہ فلسفے کی طرف ایک بنے ہوۓ ذہن کے ساتھ جانا چاہیے نہ کہ ذہن بنانے کے لیے کیونکہ فلسفہ ذہن کی بنانے میں اپنے لامتناہی تضادات اور تناقصات کی وجہ سے کوئی واضح رہنمائی فراہم نہیں کرتا۔ سر کیا آپ نہیں سمجھتے کہ یہ بات ہمارے مروجہ فلسفہ تعلیم کی جڑ کاٹتی ہے جو اس بات پر بہت زور دیتا ہے کہ علم کی طرف خالی الذہن ہو کر آیا جاۓ؟‘‘
جواب: ’’آپ کا سوال نہائت بنیادی اور اہم ہے۔ لیکن ایک بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ علم ہمیشہ ایک تصور علم کے تابع ہوتا ہے۔ جب بھی کوئی قوم یا فرد یا تہذیب علم کی تشکیل و ترویج کرتی ہے تو وہ یہ سب ایک تصور علم کے تابع ہو کر کرتی ہے۔ بڑے بڑے نامی گرامی فلسفہ دانوں اور ماہرین تعلیم کے ہاں بھی اس تصورِ علم کو علم پر مقدم رکھا گیا ہے۔ لہذا ہمارے لیے بھی ضروری ہے کہ جب ہم علم کے میدان میں قدم رکھیں یا فلسفہ پڑھیں تو کسی تصور علم کے تحت پڑھیں۔ اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو ہم تصوارات اور خیالات کے ایک لامتناہی بہاو کے رحم و کرم پر ہیں جو ہر ٹھوڑی دیر بعد ایک دوسرے کی تردید کرتے چلے جاتے ہیں‘‘
فلسفہ کی تخریب کے حوالے سے عمارناصر مدیر الشریعہ نے ایک دفعہ دلچسپ بات لکھی کہ :” فلسفیانہ روایت کے بڑے بڑے معمار “جھڈو” نہیں تھے جو مذہبی مفہوم میں نہ سہی، لیکن خالصتا فلسفیانہ ضرورت کے تحت اخلاقیات کا مصدر مابعد الطبیعیات میں مانتے تھے۔ تجربیت اور افادیت جیسے فلسفے کام چلانے کی حد تک ہیں، تنقیدی سوالات کی آنچ برداشت نہیں کر سکتے۔ہمارے میر احمد علی صاحب اس کی مثال ایک با کرامت پیر کے واقعے سے سمجھاتے ہیں جو کسی گاوں میں گئے اور اپنا کمال دکھانے کے لیے فرمایا کہ تم لوگ کہو تو میں آن کی آن میں یہ ساری فصل اکھاڑ کر دکھا دوں؟ لوگوں کے کہنے پر انھوں نے یہ کمال کر دکھایا۔ اب گزارش کی گئی کہ اسے دوبارہ لگا بھی دیجیے تو پیر صاحب نے ہاتھ کھڑے کر دیے اور فرمایا کہ میں “ندین” (یعنی فصل) اکھاڑ سکتا ہوں لگا نہیں سکتا۔سو فلسفے کے ہاتھ پر بیعت ضرور کیجئے، لیکن یہ ذہن میں رکھتے ہوئے کہ یہ ندین اکھاڑنے والا پیر ہے، لگا کر دینے والا نہیں”۔
تصور علم کی [Epistemology] مثال:
اگر ایک انجینئرنگ کا طالب علم ہے تو اس کے لئے تصور علم کیا ہو گا ، ایک دین کے طالب علم کے لئے کیا تصور علم ہونا چاہئے، سپیس ٹیکنالوجی کے سٹوڈنٹ کے لئے کیا ؟ وغیرہ وغیرہ ایک انجینرنگ کے طالب علم کے لیے دو طرح کے تصورات علم (فریم آف ریفرینس) قائم کرنا ممکن ہے۔ پہلا یہ کہ وہ یہ تصور علم قائم کرلے کہ ہمارے کائنات اور اس کے اُصول از خود ایک حقیقت ہیں۔ خلا، زمین، نظام شمسی میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب ایک حادثے کی پیداوار ہے اور ہماری پوری مادی کائنات جو فزکس کا موضوع ہے اس میں حتمی حوالہ مادے اور توانائی کا ہی ہے۔ لیکن دوسرا تصور علم اس سے یکسر مختلف ہے۔ اس کے تحت پوری مادی کائنات بشمول اس کے قوانین اپنے سے بڑی کسی حقیقت پر نہ صرف دلالت کرتے ہیں بلکہ اس کے متقاضی بھی ہیں۔ اور یہ کہ ہماری کائنات کا حتمی حوالہ مادہ اور توانائی نہیں ہے بلکہ کسی ماورا ذہن کا وجود ہے۔ایک قادر مطلق ہستی جو کائنات کے قوانین سے مبرا ہے۔
سوال: تصور علم کے حصول کے ذرائع کیا ہونے چاہیں؟ یہ کیسے طے کیا جاۓ کہ کیا تصورعلم رکھا جاۓ؟ کیا ایسا نہیں کہ کوئ خاص تصور علم رکھنے سے میں لاشعوری طور پر اسی کو درست ثابت کرنے لگوں گا؟
جواب: وہ تصور علم جو کم سے کم تضاد اور ذیادہ معنویت رکھتا ہو۔ جو آپ کی عقل اور شعور کے بلند ترین میعار پر پورا اترے اور جس میں کم سے کم تضادات ہوں۔باقی تصور علم ثابت اور غیر ثابت کی بحث سے آگے کی شے ہے۔ تصور علم، علم پر حاکم ہے۔ یہ علم کا نتیجہ نہیں۔ ہاں علم اس کی سچائی پر ایک شہادت کے طور پر سامنے آسکتا ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ ہر مذہب اور ہر تہذیب میں کچھ فرضی قصے کہانیاں (Myths) پائی جاتی ہیں،جو ہر دور میں لوگوں کے عقائد و اذہان کو متاثر کرتی آرہی ہیں۔ ان فرضی قصے کہانیوں کی حقیقت کو واضح کرنا اسی صورت میں ممکن ہے جب ہم قابل اعتماد ذرائع علم کا ادراک حاصل کرلیں۔اسی وجہ سے علمیات کا بہت بنیادی سوال یہ ہے کہ کن کن ذرائع سے حاصل ہونے والا علم قابل اعتماد کہلائے گا اور کون کون سے ذرائع علم ایسے ہیں جن سے حاصل ہونے والی معلومات صرف ظن کا فائدہ دیتی ہیں۔
اسلامی علمیات میں قابل اعتماد ذرائع علم تین ہیں، یعنی حواس خمسہ،عقل اور خبر صادق۔ اسلام کا تصور علم یہ ہے کہ خالص عقل انسان کی کامل رہنمائی اور حقیقت کے ادراک کے لیے کافی نہیں، بلکہ ہماری کائنات اور ہماری ذات کے ایسے متعدد پوشیدہ پہلو ہیں جن کی حقیقت تک رسائی خبر صادق (وحی) کے بغیر ناممکن ہے۔ ہمارے مسلم مفکرین اس حوالے سے اعتدال کی راہ پر نظر آتے ہیں کہ وہ ایک طرف ذریعہ علم کے طور پر عقل کی حیثیت اور اس کی اہمیت کو باقاعدہ قبول کرتے ہیں اور دوسری جانب اسی عقل کی رہنمائی اور اسے گمراہی سے بچانے کے لیے خبر صادق کو بھی مستقل ذریعہ کے طور پر تسلیم کرنا لازم سمجھتے ہیں۔
قضایا کی ریپروڈیوسیبلٹی اور مطلقیت
اعتراض: “ہمارے ہاں منطقی کہلانے والے ریزننگ ہی میں مار کھا جاتے ہیں مثال کے طور پر غزالی، تیمیہ، اور دیگر الہئیاتی ماہرین وغیرہ جس میں افلاطون سے لے کر برکلے تک شامل ہے، جن کے پیشِ نظر ایک حتمی، مطلق سچائی ہوتی ہے، جس کی بنیاد پر دو پروپورشنز بنائیں اور نتیجہ جھٹ نکال پھینکا۔۔ یعنی بنیادی ایگذیوم axiom ہی غلط ہے، اسے یونیورسلی ایکسیپٹ نہیں کیا جا سکتا، تو کوئی بات نہیں، ایسے ماہرین کے نزدیک اسے ایک گروہ تو مانتا ہے نا”
جواب: چند معروضات پیش کروں گا:
مطلق سچائی ہونا یا اس کا حتمی ہونا کس معانی میں ہے؟ پہلے تو اس کی وضاحت کی جائے۔
آیا صاحبِ تحریر کو اس پر اعتراض ہے کہ کوئی مطلق سچائی ہو سکتی ہے؟ یا یہ کہ مطلق سچائی تو ہے لیکن حتمی نہیں ہے؟ کیا وہ یہ کہنا چاہتے ہیں مطلق سچائی سرے سے موجود ہی نہیں؟ یا پھر یہ کہ مطلق سچائی تو ہے مگر اس کے لیے پیش کی گئی فلاں ارگیومنٹ غلط ہے؟
ہر ایک صورت میں کوئی ایک نتیجہ پہلے سے ماننا پڑے گا۔ کیونکہ اس کے بغیر کوئی بھی استدلال پیش نہیں کیا جاسکتا۔ آپ اس میں سے کوئی بھی دعوی کردیں۔ تو آپ کو یہ الزام دیا جاسکتا ہے کہ آپ نے پہلے نتیجہ طے کیا ہے اور بعد میں “دو پروپورشنز بنائیں اور نتیجہ جھٹ نکال پھینکا”۔ منفی پرسیپشن ہر جگہ لائقِ اطلاق ہوتی ہے۔
اگلی اور اہم بات۔ آپ نے فرمایا””کسی بھی ماورائیت کے یا قضیہ کے بنیادی ایگزیوم کو اسی وقت مانا جا سکتا ہے جب وہ reproducibility کے ساتھ نمایاں ہو، ورنہ نامکمل ہوگا، مطلق کی حیثیت اسے حاصل نہ ہوگی”
ریپروڈیوسیبلٹی یعنی کسی بھی قضیہ کا کنسیسٹنٹ مینر میں رونما ہوتے رہنا ضروری ہے۔ اور صاحبِ تحریر کے مطابق یہی اس کے “مطلق” ہونے کی دلیل ہے۔ اگر کوئی قضیہ مطابقت کے ساتھ ایک ہی طرح پر بار بار رونما نہیں ہوتا تو پھر اسے “مطلق” نہیں کہا جاسکتا۔
یہاں بہت بڑا اعتراض وارد ہوتا ہے۔ پہلے تو یہ کہ “مطلق” سے کیا مراد ہے؟ آیا مطلق کو “غیر اضافی” سمجھا جارہا ہے؟ اگر ایسا ہے تو سب سے پہلے وہ ٹولز بتائے جائیں جن سے غیر اضافی (مطلق) قضیے کشید کیے جاسکیں۔ کیا ایسا کوئی ٹول موجود ہے؟
اگر آپ حواس کو ٹول مانتے ہیں تو عرض ہے کہ یہ اضافی ہیں۔ اور اضافی ٹول سے کشید کیے گئے قضیے چاہے جتنے بھی ریپروڈیوسیبل ہوں، ہمیشہ اضافی ہی ہونگے۔ کیونکہ ان کی کانسیسٹینسی ہی اضافی ہے۔
آگے لکھتے ہیں کہ جو قضیہ ریپروڈیوسیبل نہیں وہ نامکمل ہوگا۔
حالانکہ جدید ریاضیاتی منطق سے اس بات کا حتمی ثبوت پایا جاچکا ہے کہ کوئی بھی ریپروڈیوسیبل قضیہ مکمل ہو ہی نہیں سکتا جب تک کہ اس کی ریپروڈیوسیبلٹی کی نفی سامنے نہ آجائے۔ اور وہ جب تک ریپروڈیوسیبل رہے گا، نامکمل ہی رہے گا۔
چنانچہ فزکس کے سارے قوانین، جو ہم مشاہدے میں رونما ہوتے دیکھتے ہیں، وہ سب ریپروڈیوسیبل ہیں، لیکن کمپلیٹ نہیں ہیں۔ یعنی:
انکی ریپروڈیوسیبلٹی کو صرف مانا جاسکتا ہے۔ لیکن ثابت نہیں کیا جاسکتا۔
غیر منطقی کچھ بھی نہیں ہوتا جناب۔ مسئلہ ڈومین کا ہوتا ہے کہ آپ کونسا نتیجہ کس ڈومین میں نکال رہے ہیں۔
کچھ تو فرض کرنا ہی پڑے گا جس کو بنیاد بنا کر آگے بڑھا جاسکے۔ کوئی راہ تو متعین کرنی پڑے گی جس کی بنیاد پر استدلال قائم کیا جاسکے۔ اور جب راہ متعین ہوجائے تو پھر اس کے بعد منطق کا عمل شروع ہوتا ہے۔
اوپر اسی حوالے سے عرض کیا ہے کہ اگر آپ ریپروڈیوسیبلٹی کو مطلقیت کی دلیل بناتے ہیں تو آپ کو یہ لازمی طور پر فرض کرنا پڑے گا کہ حواس سے حاصل کیا گیا علم بالکل مطلق ہے۔ اور یہ قضیہ کہ “حواس سے حاصل کیا گیا علم بالکل مطلق ہے” خود ایک نتیجہ ہے جسے پہلے طے کیا جاچکا ہے۔ باقی بحث تو آپ بعد میں شروع کریں گے۔
استفادہ تحریر : ڈاکٹر جمیل اصغر جامی ، برہان اللہ فاروقی ، عمار خان ناصر، مزمل شیخ بسمل