ممکن
ہے یہ بات حیران کرے لیکن
اسے قبول نہ کرنے کی کوئی وجہ بھی نہیں کہ ابھی یورپ میں گوٹن برگ کے چھاپے خانے
میں پہلی انجیل مقدس چھپ رہی تھی کہ اس سے کئی صدی قبل دنیائے اسلام میں مطبوعہ تحریریں اہل
علم وفن کے کتب خانوں کی زینت بننے لگی تھیں ۔یہ سچ ہے کہ گوٹن برگ کے متحرک چھاپہ
خانے کی ایجاد بعد کی چیز ہے لیکن یہ اسی چھاپہ خانے کی ترقی یافتہ صورت تھی جس کی
ایجاد مسلم اہل فن وحرفت کے ذہن سے ہوئی ۔
اس سلسلے میں سب سے پہلے ۱۸۹۴ ء میں آسٹریائی محقق جوزف فان کرابیک نے آرچ ڈیوک رینار کے ذاتی کتب
خانوں میں محفوظ قدیم مسلم صنعت و طباعت کے بیسیوں نمونوں کا ذکر کیا تھا ۔لیکن
فان کرابیک کی تحقیق جلد ہی لوگوں نے بھلادی ، البتہ اس صدی میں امریکی محقق تھامس
فرانیس کارو ر نے اپنی تصنیف مطبوعہ ۱۹۲۵ ء میں پھر اس طرف توجہ دلائی کہ گوٹن بر گ کی ایجاد سے پہلے مسلم
دنیامیں طباعت کا آغاز ہوچکا تھا ۔اس کے ثبوت میں اس نے ایسی طبع شدہ تحریروں کے
بے شمار نمونوں کا ذکر کیا ہے یہ تحریریں مختلف قسم کے کپڑوں اور کاغذوں پر چھپی
ہوئی ہیں ۔کارور کے مددگار محقق پروفیسر اڈالف گروہ مان (جرمن یونیورسٹی پراگ) نے
قومی کتب خانہ،وی آنا، میں محفوظ عربی مطبوعات کا ذکر توکیا ہی ہے جو آڑچ ڈیوک کے
رینار کا حصہ ہیں ، اس کے علاوہ ان مطبوعات کے مختلف نمونوں کا بھی تذکرہ کیا جو
یورپ کے مختلف عجائب گھروں اور جامعات میں موجود ہیں ۔مثلاً اس کے مطابق ان
مطبوعات کے چھ نمونے ھائیڈل برگ میں ،ایک برلن میں اور دو برٹش میں میوزیم لندن
میں موجود ہیں ۔حال میں معلوم ہواہے کہ اسی قبیل کا ایک نمونہ امریکی جامعہ
پنسلوانیا میں بھی موجود ہے جس کی عکسی تصویراگلے صفحے پر دی جارہی ہے۔
جس صفحہ کی عکسی تصویر آپ(بینر میں ) دیکھ رہے ہیں ۔و ہ دو انچ لمبا اور ڈیرھ انچ
چوڑا ہے۔ اورتیرہویں چودہویں صدی کے چوبی چھاپہ خانے کی بہترین مثال ہے اور یہ
تحریر جھلی نما کاغذ پر چھاپی گئی ہیں اور اس اعتبار سے اس کی اہمیت اور ندرت میں
اضافہ ہوجاتا ہے کہ اس قسم کی بیشتر تحریریں جھلیوں پر نہیں بلکہ کاغذ وغیرہ پر
چھپی ہوئی ہیں ۔ مسلمانوں کے یہاں کاغذ کی صنعت چوتھی صدی ہجری میں موجود تھی جس
کا تفصیل سے ذکر ابن ندیم کی ’’الفہرست‘‘ میں ملتا ہے۔
تصویر میں دیا گیا صفحہ کسی کتاب کا پہلاصفحہ معلوم ہوتاہے ۔جہاں یہ ختم ہوتا ہے
اس کے ایک دم نیچے غالباََ کتاب کے دوسرے ،یا کسی اور صفحہ کا ایک کونہ نظرآتا ہے
غالباََ ایک بڑے کاغذ پر آج کل ہی کی طرح کتاب کے کئی صفحات کا چھاپا لے لیا جاتا
تھا ،جنھیں بعد میں کاٹ کر ، ملاکر ،سی کر ،کتاب کی شکل دے دی جاتی تھی ۔
اس صفحہ کو ہم چار حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں ۔بالائی چوتھا حصہ ،صفحہ کے بقیہ تین
چوتھائی سے مختلف ہے ۔ اس میں حروف سفید اور زمین سیاہ ہے لاالہ الااللہ بہ طرز
حروف طغرہ، لکھا ہے ۔حالانکہ طرز تحریر کوفی ہے لیکن یہ بات توجہ طلب ہے کہ کلمہ
طیبہ کا پہلا حصہ صفحہ کے وسط میں اور اس کا بقیہ حصہ جو محمد اور رسول اللہ کے
حروف پر مشتمل ہیں ، صفحہ کے بالائی دائیں اور بائیں دونوں کی زینت ہیں اُس کے
بعدایک سیاہ خط آتا ہے اور پھر سفید کاغذ پر سیاہ تحریر ۔۔۔۔ جو اس زمانے کے دستور
کے مطابق۔
’’بسم اللہ الرحمن الرحیم ‘‘ سے شروع ہوتی ہیں۔ ملاحظہ کیجیے شروع میں قرآن کریم
کی آیات [القرآن ۳:۱۲]
کی کتابت ہے:
اس کے بعد غیر قرآنی تحریر ہے ۔صفحہ کے طو ل وعرض اور عبارت کو دیکھتے ہوئے اس بات
کا اچھی طرح اندازہ ہوجاتا ہے کہ حروف نہایت باریک ہیں اور اس سے کندہ کار کے فن
کا بھی معترف ہونا پڑتا ہے جس نے اس قدر چھوٹے اور باریک حروف لکڑی پر اس خوبی اور
اس خوبصورتی سے کاٹے ہیں اور زاویوں دائروں اور خط منحنی کو ایسا صحیح طور پر کند
ہ کیا گیا ہے کہ عبارت پڑھنے میں دشواری نہیں ہوتی ۔
مختصر یہ کہ چھاپہ خانہ (Printing Press) کی ایجاد کو ایک جرمن موجد گوٹن برگ کے سر نہیں باندھا جاسکتا کیوں کہ جرمنی میں چھاپے خانے کی ایجاد سے ۵۰۰ سال قبل دنیائے اسلام میں مسلمان چھاپہ خانہ ایجاد کرچکے تھے ۔ پہلی مطبوعہ انجیل گوٹن برگ کے چھاپے خانے میں چودہویں صدی میں طبع ہو رہی تھی لیکن اس سے ۵۰۰ سال قبل ایک ہزار عیسوی میں قرآن مجید طباعت کی منزل سے گزر چکا تھا۔ اس اعتبار سے دنیا کی پہلی مطبوعہ الہامی کتاب قرآن مجید ہے۔ڈاکٹر حمید اللہ لکھتے ہیں :” گوٹن برگ (فوت ۱۴۶۸ء) فن طباعت کا موجد مانا جاتا ہے۔ حال میں مجھے پتہ چلا کہ ویانا (آسٹریا) کے کتب خانۂ عام میں ایک ٹکڑا قرآن مجید کا موجود ہے جو گوٹن برگ سے پانچ سو سال قبل سلجوقی دور میں (غالباً مصر میں) چھپا ہے۔ اور یہ تاریخ فرنگی محققوں نے بیان کی ہے۔ آسٹریا کو فوراً خط لکھ کر اس کا فوٹو منگایا، واقعی قابل دید اور قابل ذکر چیز ہے۔(’’معارف‘‘ کے شمارہ فروری ۱۹۸۶ء)
یہ بات قابلِ غور ہے کہ مطبع کی ایجاد سے متعلق
ایک تاریخی حقیقت کو دانستہ طور پر کئی صدیوں تک کیوں چھپایا گیا۔ اس کی وجہ وہ
تعصب ہے جو مسلمانوں کی علمی اور تحقیقی خدمات سے دنیا کے تمام خطوں میں برتا جا
رہا ہے اور صرف یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ
بوئے خوں آتی ہے اس قوم کے افسانوں سے
حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ اس قوم کے افسانوں میں بوئے خوں یعنی شہیدوں کے لہو کی
خوشبو کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت ساری خوشبوئیں شامل ہیں لیکن ان خوشبوؤں کو محسوس
کرنے کے لیے ایک ایسا دل، ایک ایسی عقل اور ایک ایسی آنکھ کی ضرورت ہے جو عصبیت کی
سطح سے اوپر اٹھ سکے اور صداقتوں کو ان کے حقیقی تناظر میں دیکھ سکے۔ عصبیت، ضد
اور ہٹ دھرمی پر قائم رہنے والے کم از کم اس اس بات کا دعویٰ تو نہ کریں کہ وہ بڑے
وسیع النظر، وسیع الخیال، غیر متعصب اور آزاد خیال تہذیب کے علمبردار ہیں جہاں ہر
ایک کو اس کی استعداد کے مطابق حق دیا جاتا ہے اور ہر سچائی بلا چون و چرا اور
بلاحیل و حجت تسلیم کرلی جاتی ہے۔ ہر وہ تحقیق یا ایجاد یا خوبی جس کا تعلق
کسی مسلم دور، مسلم شخصیت، مسلم تہذیب یا مسلم تاریخ سے ثابت ہو جائے اس تحقیق
خوبی اور ایجاد کو تاویل و تحریف کے ذریعے مسخ اور رائگاں کرنے کی بھرپور کوششوں
کا نام آج کل آزاد خیالی، روشن خیالی، جدیدیت، ماڈرنسٹ فکر اور لبرل فکر قرار دے
دیا گیا ہے۔
تحریر :ڈاکٹر قاضی عبدالقادر، سابق صدر
شعبۂ فلسفہ، جامعہ کراچی و سابق مسجل جامعہ کراچی ، ماہنامہ ساحل
مسلم فکروفلسفہ | الحاد جدید کا علمی محاکمہ
December 7, 2019 at 10:24 am[…] پہلاچھاپہ خانہ[Printing Press] مسلمانوں نے ایجادکیا! […]