آج ایک صاحب کی وال پر یک سطری استفسار پڑھا کہ “کوئی ایک ایجاد جو مولوی نے کی ہو” جو کہ استفسار سے زیادہ طنز معلوم ہوا۔ اس بابت ہم اپنے ان مستفسر بھائی کی خدمت میں عرضی پیش کرتے ہیں کہ محترم دوست “مولوی” کا کام سائنسی ایجاد یں کرنا نہیں بلکہ دین سکھانا ہے اور وہ کام “مولوی” تیرہ سو سالوں سے بخوبی انجام دے رہا ہے۔ مولوی کو ہمیشہ سے اپنے دائرہ کار کا احساس و اندازہ رہا ہے، سو اس لئے وہ لبرلز و سیکولرز کی طرح بلاوجہ یہاں وہاں پھدکتا، ہر ایک کے کام میں دخل اندازیاں نہیں کرتا پھرتا ، بلکہ اسکا جو کام ہوتا ہے وہی سر انجام دیتا ہے، اسی لئے اس کی تحقیقات کے نتیجے میں ۱۴۰۰ سو سال گزرنے کے باوجود دین آج بھی اسی طرح قابل عمل ہے جیسا ۱۴۰۰سو سال پہلے تھا، وہ دین کے ہر حکم، ہر نص کو موجودہ زمانے کی تعبیر سے ہم آہنگ کرتا ہے اور ایک ایسی مطمئن نسل تیار کرتا ہے جو دین کی طرف سے مطمئن ہونے کے بعد دنیاوی ایجادات کی طرف دھیان دے سکے۔
اگر اسی لغو جملے کو الزامی طور پر استعمال کیا جائے تو پھر کہا جانا چاہیئے کہ کبھی سنا ہے کہ کسی سائنسدان نے قرآن کی جامع تفسیر یا احادیث کی شروحات لکھی ہوں یا پھر فقہی ذخیرے میں کوئی قابل قدر کام کا اضافہ کیا ہو۔ جناب من! سائنسدان کا یہ کام ہی نہیں کہ وہ یہ سب کرتا پھرے بعینہ ایسے ہی ایک مولوی کا یہ کام نہیں کہ دنیا کو سائنسی ایجادات سے روشناس کروائے۔ اسکا کام دنیا کے لوگوں کو روحانی و دینی غذا مہیا کرنا ہے جو وہ عرصہ دراز سے بخیر و خوبی انجام دے رہا ہے۔ ایجاد تو دور کی بات ہے، آپ اپنی سنائیں کہ آپ نے کیا کرلیا سوائے اس طعنہ تشنیع کے۔ آج آپ سے صرف یہ کہہ دیا جائے کہ منبر پر کھڑے ہو کر خطبہ مسنونہ سے ابتداء کرکے لوگوں کو صلوة کے مسائل بیان کردیجئے تو صرف خطبہ مسنونہ پڑھنے میں ہی آپ کے پسینے چھوٹ جانے ہیں، مسائل بیان کرنے کی باری تو بعد میں آئے گی۔ اب آپ اسکا فورا ً یہ جواب دیدینگے کہ یہ کام مولوی کا ہے، میرا نہیں سو اس کے لئے مجھے کیوں مطعون کرتے ہو، تو جناب! بالکل ایسے ہی اللہ کی جس مخلوق کو آپ نے مولوی قرار دیا ہوا ہے، اسکا کام سائنسی ایجادات کرنا نہیں بلکہ لوگوں کو دین کا علم سکھانا ہے سو اس سے صرف اسکی امید رکھیں اور ایسے فضول شوشے چھوڑنے سے گریز کیجئے۔
ویسے آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ ماضی بعید میں ایسے کئی مسلم سائنسدان گزرے ہیں جن کا دینی علم آج کے مولوی سے صد گنا زیادہ تھا اور ان کی ایجادات بھی بنیادی اور بے شمار تھیں۔ اگر ممکن ہو تو صرف کتب تاریخ میں سے خالد بن یزید بن معاویہ بن ابو سفیان رحمہ اللہ کا تذکرہ پڑھ جائیے جو کہ علم حدیث و تفسیر اور لسانیات کے علاوہ دیگر علوم و فنون میں کامل دسترس رکھتے تھے۔ ابن خلکان اپنی تاریخ میں ان کی بابت لکھتے ہیں کہ کان اول من اشتھر فی الطب بین الاسلام خالد بن یزید بن معاویہ الاموی اور پھر مزید لکھتے ہیں کہ “زمانہ اسلام میں سب سے پہلے علم طب میں جو شخص مشہور ہوا وہ خالد بن یزید بن معاویہ الاموی تھا جو قریش کی قوم میں فنون علمیہ کا ماہر تھا۔ کیمیا اور طب کے کئی بنیادی مسائل اس نے بیان کئے اور اس پر اس کے جو رسائل ہیں، وہ اسکی علمی معرفت اور ذکاوت کا پتہ دیتی ہیں۔”
اسی طرح البیرونی آثار الباقیہ میں علامہ خالد کو اسلام کا پہلا حکیم بتاتا ہے جبکہ مشہور مستشرق و مورخ پروفیسر ہتی کہتا ہے کہ خالد بن یزید اسلام کا سب سے اول سائنسدان اور فلاسفر تھا۔ کیمبرج یونیورسٹی کے مشہور پروفیسر مسٹر براون نے “طب عربی” کے موضوع پر اوائل انیسویں صدی میں جو لیکچرز دئیے تھے جو کہ بعد میں کتابی شکل میں بھی شائع ہوئے تھے، وہ اس میں جلی حروف میں بیان کرتے ہیں کہ یونانیوں کے علم و حکمت سے واقفیت حاصل کرنے کی خواہش کی اولین تحریک اموی شہزادے خالد بن یزید بن معاویہ، جو کہ علم کیمیاء سے خاص شغف رکھتا تھا، کے دل میں پیدا ہوئی جس کے تحت اس نے یونانی فلاسفروں کو ملک مصر میں مجتمع کیا اور اس مضمون کی یونانی و قبطی تصانیف کو عربی زبان میں ترجمہ کروایا، چونکہ وہ خود بھی ماہر لسانیات تھا سو ان ترجموں کی براہ راست نگہداشت کرتا تھا۔ یہی نہیں، بلکہ اس خالد بن یزید نے اپنی تجربہ گاہ میں بعض ایسی دریافتیں اور ایجادات بھی کیں جن سے عربوں نے فن حرب میں رومیوں پر سبقت و فوقیت حاصل کرلی اور ان کو پہ در پہ شکست دینے میں کامیاب ہوئے جن میں مشہور زمانہ “گریک فائر” کے آتشی مادے کی ایجاد تھی جسکا نسخہ خالد بن یزید کی تجربہ گاہ میں ایجاد کیا گیا تھا اور جس کی ایک پچکاری چلانے سے آگ لگ جاتی تھی اور یہ قلعہ یا جہاز جس چیز پر بھی پڑتی تھی اسکو جلا دیتی تھی۔ رومی اسکو اڑتا ہوا مسلم اژدہا کہا کرتے تھے۔
لیجیے جناب، یہاں قرآن و سنت کے ایک ٹھیٹھ پیروکار جس کا دینی علم آج کے کسی مولوی سے کم نہیں تھا اور جو بقول ابو الفرج الاصبہانی قرآن و سنت پر بھی دسترس رکھتا تھا اور علم کیمیاء کا بھی پہلا مسلم سائنسدان تھا، کے حالات مختصرا پیش کردئیے گئے ہیں۔ اب ذرا خالد بن یزید کی برابری کا ہی کوئی سیکولر سائنسدان اٹھالائیے جس نے دین کی تھوڑی بہت خدمت کررکھی ہو۔ سو ہم اپنے ایسے تمام سیکولر معترضین کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ جس کا کام اسی کو ساجھے کے مصداق “مولوی” سے صرف اس چیز کی امید رکھیئے جس کام میں ماہر ہونے کی وہ تعلیم حاصل کرتا ہے اور جس بابت اسکا مطالعہ و وقت صرف ہوتا ہے۔ ایجادات کروانے کا اتنا ہی شوق ہے تو اس کام کے لئے عصری علوم میں ماہر افراد کی طرف رخ زیبا کیجئے کہ وہ اس کے ذمہ دار ہیں۔ یہ کیا بات ہوئی کہ ایک کی ناکامی کے لئے دوسرے کو مورد الزام ٹھہرایا جارہا ہے، یہ تو آپ دنیاوی پڑھے لکھے لوگوں کی نا اہلی ہے کہ ابھی تک مسلم معاشرے میں کوئی قابل قدر علمی کام سر انجام نہ دے سکے سوائے یورپ کی کی گئی ایجادات کے استعمال کے علاوہ۔ کم از کم مولوی نے آپ کی طرح یورپ سے ٹیکنالوجی مستعار لیکر کام نہیں چلایا، بلکہ اس نے اپنے دین کا کام از خود اپنی علمی قابلیت سے ادا کیا اور مستقل کررہا ہے۔ سو اصل میں شرمندہ تو آپ عصری علوم حاصل کرنے والے طبقے کو ہونا چاہیئے نہ کہ مولوی کو۔
تحریر: محمد فھد حارث