آج اگر کسی سے کہا جائے کہ ”ھم قرون اولی کی طرف مراجعت چاھتے ہیں کہ یہی ھمارا آئیڈئیل ھے” تو اس تصور سے اسے وحشت ھونے لگتی ھے اور وہ اسے غیر عقلی و غیر فطری تصور کرتا ھے۔ اسکا مفروضہ یہ ھوتا ھے کہ زمانہ تبدیل ھوتا رھتا ھے اور یہ دعوی کرتے وقت یہ جدید انسان تبدیلی کو کوئی مجرد (abstract) و نیوٹرل و غیر اقداری (value-free) شے سمجھ رھا ھوتا ھے۔ مگر سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ اگر تبدیل ھوتے رھنا ہی حقیقت ھے تو جدید طرز زندگی سے قرون اولی کی طرف تبدیلی کیوں نہ کرلی جائے؟ آخر یہ جدید انسان تبدیلی کے اس تصور (قرون اولی کی طرف مراجعت) کو ‘بہتری’ کے بجائے ‘تنزلی’ کیوں سمجھتا ھے؟ آخر کیا وجہ ھے کہ حاضروموجود دنیا میں تبدیلی آزادی و ترقی (آج کا غالب ڈسکورس) کیلئے آرہی ھے، کسی اور مقصد کیلئے نہیں؟ اگر تبدیلی برائے تبدیلی کوئی شے ھوتی ھے تو ‘قرون اولی کی طرف’ کیوں تبدیلی نہیں ھورہی یا کیوں نہ کرلی جائے؟
بات دراصل یہ ھے کہ تبدیلی برائے تبدیلی نامی کوئی شے اس کائنات میں وجود نہین رکھتی، تبدیلی ہمیشہ ‘ایک آئیڈئیل کی طرف لائی جاتی’ نہ کہ ‘خود بخود آجاتی’ ھے۔ تنویری ڈسکورس سے نکلنے والی جدید علمیت (و عقلیت) یہ دعوی کرتی ھے کہ تبدیلی آزادی (سرمائے) میں اضافے کیلئے ھونی چاھئے، یہی اسکا مطلوب و مقصود (آئیڈئیل) تصور تبدیلی ھے۔ اس تنویری تصور تبدلی کے مطابق وہ مذہبی قوتیں جو ایسی معاشرت و ریاست کے دفاع و فروغ کی جدوجہد کرتی ہیں جس میں آزاد (سرمائے کی غلام) انفرادیت کے بجائے مذہبی انفرادیت کے پھلنے پھولنے کے امکانات ھوں، وہ anti-social (تہذیب کش) تحریکات ھیں۔ یہی وجہ ھے کہ آج زمانہ اسی حاضر و موجود اور غالب ڈسکورس (جدید تصور تبدیلی) کی طرف رواں دواں ھے (جس کیلئے اسے وضع کیا گیا تھا)۔ چنانچہ تبدیلی ہمیشہ آئیڈئیل کی طرف آتی ھے، چونکہ جدید انسان نے آزادی و ترقی (یعنی سرمائے میں اضافے) کے آئیڈئیل کو بالعموم قبول کرلیا ھے لہذا تبدیلی اسی جانب آرہی ھے، یہ نہ تو آسمان سے ٹپک رھی ھے اور نہ ہی خود بخود زمین سے اگ رہی ھے بلکہ اس کیلئے ایک نہایت پیچیدہ ادارتی صف بندی وضع کی گئی ھے جو ایک خود کار نظام کی طرح کروڑوں انسانوں کو تبدیلی کے اس عمل میں کولہو کے بیل کی طرح جوت رہی ھے۔
پس جدید انسان کی قرون اولی کی طرف مراجعت سے وحشت کی وجہ اس تصور تبدیلی کا کسی قانون فطرت یا عقل کے خلاف ھونا نہیں بلکہ جدید علمی و تہذیبی ڈسکورس کا فرد پر زبردست جبر ھے۔ جیسے جیسے لوگ ان جدید (جاہلی) اقدار (آزادی و ترقی) کو رد کرتے چلے جائیں گے، جیسے جیسے یہ جدید ادارتی صف بندی تہس نہس کا شکار ھوکر تحلیل کردی جائے گی، ویسے ویسے عام انسان کو قرون اولی کی طرف مراجعت کا تصور بھی فطری و عقلی محسوس ھونے لگے گا۔ ‘عوام’ کے تصورات عقل و فطرت کا ماخذ حاضروموجود غالب ڈسکورس ہی ھوا کرتا ھے۔ اسی لئے موجودہ جاہلی تہذیب کو رد کرکے غلبہ دین کی جدوجہد لازم و بنیادی ھے کہ اسکے بغیر چند نفوس کی اصلاح اور انہیں اس جبر سے بچا لیجانا تو ممکن ھے مگر اسلامی تصورات فطرت و عقل کا عوامی فروغ ممکن نہیں۔
پھر آئیڈئیل میں اھم بات یہ نہیں ھوتی کہ آپ کو وہ پورا کا پورا حاصل ھوچکا یا نہیں، بلکہ یہاں اھم بات یہ ھوتی ھے کہ تبدیلی اسکی جانب ھورہی ھے یا اسکے خلاف، یہ گویا پالیسی ویرئیبل ھوتا ھے جو عمل و تبدیلی کی جہت متعین کرتا ھے۔ یہاں یہ سوال بھی اھم نہیں ھوتا کہ آئیڈئیل پورا کا پورا حاصل ھونا ممکن بھی ھے یا نہیں، بلکہ اھم بات یہ ھوتی ھے کہ ھم اسے ‘کتنا حاصل کرسکے’۔ ظاھر ھے اس دنیا میں آئیڈئیل کبھی بھی مکمل طور پر حاصل نہیں ھوسکتا بلکہ وہ تو حاصل ھوتا رھتا ھے، اسکی مثال یہ ھے کہ جیسے انفرادی حیثیت میں ہر مسلمان کیلئے آئیڈئیل نمونہ رسول یا صحابہ کا طرز عمل اختیار کرلینا ھے، مگر ظاھر ھے کوئی بھی انسان نہ تو رسول بن سکتا ھے اور نہ ہی صحابی بلکہ وہ ایسا بنتا رھنا چاھتا ھے اور اسی بنیاد پر وہ خود کو ٹٹولتا ھے کہ کتنا اپنے آئیڈئیل سے قریب ھوپایا۔ پس جتنا کوئی دور قرون اولی کی طرف مراجعت کرچکا یا کرلے گا اتنا ہی اعلی و ارفع کہلائے گا اور جو اس معیاری دور سے جتنا دور ھے وہ اتنا ہی کمتر ھے۔ ہماری جدوجہد کی بنیاد یہ ھے کہ دنیا کو جتنا ممکن ھوسکے ویسا ہی بنادیا جائے جیسی سرکار (ص) کے زمانے میں تھی، یعنی انفرادیت، معاشرت و ریاست کا بہترین نمونہ وہ ھے جسے خود سرکار (ص) نے ‘خیرالقرون قرنی’ کہا نہ کہ موجودہ جاہلی دور۔
”تم ھمیں گھوڑوں اور گدھوں پر بٹھانا چاھتے ھو”
جب کبھی جدید سائنس و ٹیکنالوجی اور جدید تہذیب کے مظاھر پر یہ اعتراض کیا جائے کہ یہ سرمایہ دارانہ نظم کے تانے بانے ہیں نیز یہ کہا جائے کہ ھم قرون اولی کی طرف مراجعت (احیائے اسلام) چاھتے ھیں تو جھٹ سے اعتراض جڑ دیا جاتا ھے: ”تم لوگ ھمیں گھوڑے اور گدھے پر بٹھانا چاھتے ھو”۔ ایسے لوگوں سے جب پوچھا جائے کہ اچھا یہ بتاؤ کہ گاڑی میں بیٹھنے میں ایسی کونسی اخلاقی برتری ھے جو گھوڑے گدھے پر بیٹھنے میں نہیں؟ تو کہتے ہیں ‘یہ جلدی سفر کراتی ھے’۔ مگر یہ ایک لایعنی دلیل ھے، سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ کیا جلدی جلدی سفر کرنا کوئی شرعی تقاضا ھے کہ اس بنا پر کار گھوڑے پر اخلاقی برتری حاصل کرلے گی؟
درحقیقت سائنس و ٹیکنالوجی کے خلاف کوئی علمی دلیل سن کر گھوڑے اور گدھے کی پیٹھ دکھائی دینے لگنا اور اس تصور سے وحشت ھونا بذات خود ایک افسوس ناک رویہ ھے۔ اس تصور کی ذہنیت سے صاف ظاھر ھورھا ھے کہ یہ حضرات اپنے تئیں سائنس اور اسکےمظاھر کو بذات خود مطلوب و مقصود سمجھ کر عین شریعت کے تحت زندگی بسر کررھےہیں اور گویا سائنس کا ناقد انکی اس ”شرعی زندگی” میں خلل پیدا کرنے کی کوشش کررھا ھے۔ مزے کی بات یہ ھے کہ ایسے لوگ قرآن، شتم رسالت، خدا الغرض دین کی ہر واضح بات پر اعتراض سننے کو وسعت نظری کہتے ہیں مگر سائنس پر اعتراض سے انہیں یوں ناگواری ھوتی ھے جیسے قرآن اور پیغمبر سے بھی بڑھ کر کسی بات پر اعتراض کردیا گیا ھے۔
سوال یہ ھے کہ کیا سائنس و ٹیکنالوجی پر اعتراض نہ کرنا یا سننا ایمانیات کا حصہ ھے؟ کیا کسی آیت قرآنی، سنت رسول (ص) یا اجماع امت سے ثابت ھے کہ ‘پتھروں کے دور کی طرف مراجعت کبھی ذھن میں مت لانا کہ زمانہ ہمیشہ آگے بڑھتا ھے نیز تہذیب و تمدن کے نتیجےمیں ملنے والی سہولتیں ایمانیات کا حصہ بن جاتی ہیں اور ان پر کسی طور اعتراض نہیں کیا جاسکتا؟’ پس دینی منہاج کے اندر سائنس پر کسی علمی اعتراض کے جواب میں یہ کہنا کہ آپ ہمیں گھوڑوں پر بٹھانا چاھتے ہیں ظاھر کرتا ھے کہ ایسےلوگ یا تو منہاج دین سے نا واقف ھیں اور یا پھر سائنس و جدید علمیت کے غلبے نے انکا تصور دین ہی تبدیل کردیا ھے۔ چنانچہ کسی روایت یا دین کے علمی منہاج میں یہ سوال بے معنی ھوتا ھے کہ ‘کسی شے کو ترک کرنے کے نتیجے میں مزوں میں کمی تو نہیں آجائے گی؟’۔
اصل بات یہ ھے کہ شرع کو اس بات سے بالذات دلچسپی نہیں کہ آپ کار پر سفر کرتے ہیں یا اونٹ پر یا کسی اور قسم کی سواری پر، یہاں وہ اس بات سے بحث کرتی ھے کہ آیا ذریعہ یا آلہ مقاصد شریعت کے حصول میں معاون ھے یا مزاحم، بصورت مزاحمت اسے ترک کردیا جانا چاھئے۔ اگر مادی فوائد کا حصول ایسے نظام زندگی کے تسلط کا باعث بن رھا ھو جو انسانیت کی عظیم اکثریت کو جہنم کی راھوں پر دھکیل دے تو ایسے نام نہاد فائدوں کو ترک کرنا ضروری ھے۔ یہ ھے درست دینی منہاج۔
تحریر : زاہد مغل