۔
جو لوگ بڑے طمطراق سے تمام مفسرین، محدثین، متکلمین، فقہا و صوفیا پر جہالت و کم عقلی کا فیصلہ صادر کرتے ہیں انکا مفروضہ یہ ھے کہ نزول قرآن کے بعد امت میں پہلی مرتبہ یہ حادثہ رونما ھوا کہ اچانک قرآن کہیں سے انکے ھاتھ لگ گیا ھے اور اب یہ انکی ذمہ داری ھے کہ امت کو اسکے اصل مفہوم سے آگاہ کریں۔ گویا ان حضرات کے نمودار ھونے سے قبل قران کہیں طاق نسیان پر پڑا ھوا تھا اور امت آج تک شاید بائیبل یا ویداؤوں سے دین اخذ کرتی نیز انہی پر عمل پیرا رہی ھے۔
یہ عجیب تضاد ھے کہ ایک طرف تو ان حضرات کے خیال میں ”قرآن سمجھنا آسان ھے”، اسکے لئے کسی انسان کے وضع کردہ اصولوں کی تفہیم ضروری نہیں، لیکن دوسری طرف یہ اس بات کے مدعی بھی ہیں کہ قرآن اس قدر مشکل ھے کہ چودہ سو سال تک اسے کوئی سمجھ ہی نہ سکا۔ مزے کی بات یہ کہ پہلوں کے اصول تو انہیں اس لئے قبول نہیں کہ یہ ”انسانوں کے بنائے ھوئے” ہیں، اسکے بعد ھونا تو یہ چاہئے تھا یہ عقلمند کہیں ”آسمان سے” نئے اصول لاتے، مگر اسکا کیا کریں کہ پھر یہ لوگ ”چند دوسرے انسانوں (بشمول خود) ہی کے اصولوں” کی تقلید کروانا چاھتے ہیں۔
حیرت ہے، نجانے خدا نے آخر ایک ایسی کتاب نازل ہی کیوں کی جسے کوئی سمجھ ہی نہ سکتا ھو۔ گویا ایک طرف تو خدا اس بات کا اعلان کرتا ھے کہ اس کتاب کو سمجھانا ہماری ذمہ داری ھے (قیامہ 16-17) لیکن دوسری طرف چپکے سے اس بات کا بندوبست بھی کردیتا ھے کہ کسی کو اسکا مفہوم سمجھ ہی نہ آئے۔ اب یا تو معاذاللہ خدا سے وعدہ خلافی ہوگئی اور یا پھر اس سے غلطی ہوگئی کہ اس نے ایک ایسے ماحول میں اپنا آخری رسول بھیج دیا جہاں اسکی بات سمجھنے، سمجھانے اور اس فہم کی حفاظت کرنے والا کوئی تھا ہی نہیں۔ ظاھر ھے اس قدر لغو مفروضات پر وہی شخص اپنی فکری عمارت قائم کرسکتا ھے جو عقلی طور پر قلاش ھوچکا ھو۔
اسکی وجہ یہ ھے ایسی تشریح کرنے والا مفکر اپنے دور کی جاھلیت سے ناواقف ھوتا ھے لہذا وہ لازما اسلام کو جاھلیت کے ساتھ ملا کر رھتا ھے۔
پس ایسی ھر جدید تعبیر و تشریح کے مشکوک و مردود ھونے کیلئے یہی ایک پیمانہ بہت کافی ھے کہ اس پیمانے نے پچھلے ڑیڑھ سو سال میں آج تک کبھی غلط نتیجہ نہیں دیا۔