کسی بھی چیز کی مارکیٹنگ کے لئے اس کا خوشنما یا دلکش ہونا ضروری ہے ۔ جتنی زیادہ وہ پراڈکٹ خوشنما اور دلکش ہو گی اتنی زیادہ تیزی سے پھیلے گی ۔”حضرت انس بن مالک رض سے روایت ہے کہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ جنت ناپسندیدہ چیزوں سے ڈھکی ہوئی ہے اور جہنم نفسانی خواہشات سے ڈھکی ہوئی ہے ۔” صحیح مسلم ۔ کتاب الجنتہ و صفتہ نعیمھا ۔
اس حدیث میں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ جنت میں جانے کے لئے ہر وہ کام کرنا ضروری ہے جو انسانی نفس پہ بھاری ہوتا ہے ۔ جیسے نماز پڑھنا ۔ روزہ رکھنا ۔ ایک دوسرے سے اچھا سلوک کرنا اور جہنم میں جانے کے لئے نفس کی پیروی کافی ہے ۔ جو دل چاہے کرتے پھرو ۔
اس اعتبار سے دین اسلام کو ایک فلاپ شو ثابت ہونا چاہیئے تھا ۔ مگر کچھ ہی عرصے میں یہ دنیا میں سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والا مذہب بن گیا ۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ الحاد بہت تیزی سے پھیل رہا ہے ۔ مگر بدقسمتی سے پاکستان میں نہ تو الحاد کا کوئی حال ہے نہ مستقبل ۔ الحاد کے پھیلنے کا حلقۂ احباب آج بھی وہی طبقہ ہے جو دین میں رہتے ہوئے دین سے متنفر تھا ۔ اپنی مرضی سے جینے کا خواہشمند تھا ۔ جن ممالک میں لوگ دینی معمولات میں دلچسپی نہیں لیتے ان ممالک میں الحاد کے پھیلاؤ کی رفتار نسبتاً تیز ہے ۔
الحاد اصل میں ہے کیا ؟ محض نفس کی پیروی ۔ یعنی جو دل چاہے وہ کرو ۔ چاہے اس کے معاشرے پر کچھ بھی اثرات مرتب ہوتے ہوں ۔ اس کو اپناتے وہی ہیں جو دین میں رہتے ہوئے بھی نفس کی پیروی کے خواہش مند تھے ۔ الحاد نے انہیں معاشرے کی ملامت سے بچانے کے لئے ایک پلیٹ فارم مہیا کر دیا ۔
اسلام انسان کو پابند بناتا ہے جب کہ الحاد انسان کو آزاد بناتا ہے ۔
مجھے حیرت اس بات پر ہے کہ جس قسم کی الحادی تعلیمات ہیں اسے تو دنیا میں ہاتھوں ہاتھ لیا جانا چاہئے تھا ؟
اسلام میں شراب پینے پر پابندی ہے کیوں کہ یہ نہ صرف انسان کی اپنی صحت کے لئے مضر ہے بلکہ آس پاس کے لوگوں کو بھی مصیبت میں ڈال دیتی ہے ۔
مگر الحاد اس پابندی سے آزاد ہے ۔ شراب پیئیں ۔ جوا کھیلیں ۔ زنا کریں ۔ جو دل چاہے وہ کریں ۔ یہ زندگی نہ ملے گی دوبارہ ۔ اس بیچ کسی اور کو نقصان پہنچتا ہے تو پہنچتا رہے ۔ الحاد کے پاس اس مسئلے کا کوئی حل نہیں ۔
اسلام آپ کو پابند بناتا ہے کہ صبح سورج نکلنے سے کچھ پہلے اٹھ کر نماز پڑھو ۔ اپنے رب کو یاد کرو ۔ دوپہر ہو تو دوبارہ وضو کر کے دوبارہ نماز پڑھو ۔ پھر سہہ پہر کو نماز ۔ پھر غروب آفتاب اور پھر رات کو سوتے وقت ۔
مگر الحاد میں ایسی کوئی پابندی نہیں ۔ جب تک دل چاہے رات جاگتے رہو ۔ جب دل چاہے سو جاؤ اور پھر جب دل چاہے سو کر اٹھو ۔ نہ وضو کی پابندی نہ غسل کی ۔
اسلام میں ایسی پابندی اور الحاد میں ایسی سہولت کے باوجود سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والا مذہب آج بھی اسلام ہے ۔
اسلام میں خواتین کو پردے کا حکم ہے اور مرد کو نگاہیں نیچی رکھنے کا ۔ اسلام آپ کو کچھ عورتوں تک محدود کرتا ہے ۔
جبکہ الحاد میں مادر پدر آزادی ۔ جس کو مرضی دیکھو جیسے مرضی دیکھو ۔ پردے تو کیا کپڑوں کی بھی کوئی شرط نہیں ۔ ننگے گھومنے سے وٹامن ڈی حاصل ہوتا ہے ۔ شادی کا کوئی جھنجٹ نہیں ۔ جتنی مرضی عورتوں سے تعلقات قائم کرو ۔
مگر ان تمام پابندیوں کے باوجود آج بھی دنیا میں سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والا مذہب اسلام ہی ہے ۔
الحاد میں موت کے بعد زندگی کا کوئی تصور نہیں ۔ جو مرضی کرو ۔ اگر دنیا میں سزا سے بچ گئے تو کامیاب ۔ ڈاکے ڈالو ۔ چوری کرو ۔ قتل و غارت ۔ غرض دوسرے کی دنیا تباہ کر کے اپنی زندگی اچھی کر لینا اس وقت تک کوئی جرم نہیں جب تک آپ پکڑے نہیں جاتے ۔ اور اگر پکڑے گئے تو اس بات کے قوی امکانات موجود ہیں کہ آپ دولت کے ذریعے نظام خرید لو اور باعزت بری ہو جاؤ ۔
مگر اسلام میں انسان کے پاس ایک نظریۂ حیات ہے ۔
قران پاک کی سورہ الزلزال ۔ آیت نمبر 7 اور 8 میں ﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔
فَمَنۡ يَّعۡمَلۡ مِثۡقَالَ ذَرَّةٍ خَيۡرًا يَّرَهٗ ؕ ﴿۷﴾ وَمَنۡ يَّعۡمَلۡ مِثۡقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَّرَهٗ ﴿۸﴾
تو جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہو گی وہ اس کو دیکھ لے گا ﴿۷﴾ اور جس نے ذرہ بھر برائی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا ﴿۸﴾
دنیا میں قوانین کا ڈر اپنی جگہ مگر آخرت میں بھی سزا کا ڈر ہے ۔ آپ جتنے مرضی طاقتور ہو جائیں ۔ ﷲ تعالیٰ سے زیادہ طاقتور نہیں ہو سکتے ۔ جب حساب ہو گا تو بادشاہ کا بھی ہو گا اور فقیر کا بھی ۔
اسلام میں ایک نظام ہے زکات کا نظام ۔ جس شخص کا مال ایک مخصوص حد سے تجاوز کر جائے گا وہ اس کا کچھ حصہ ﷲ کی راہ میں خرچ کرنے کا پابند ہو گا ۔
اس ٹیکس کا اطلاق غریب آدمی پر کسی صورت نہیں ہوتا ۔ بلکہ غریب آدمی یہاں ٹیکس لینے والوں میں سے ہو گا اور میرے نزدیک یہ دنیا کے تمام نظاموں میں واحد ٹیکس ہے جس کو وصول کرنے والا غریب ہے ۔
کسی چیز کی مارکیٹنگ کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اسے امراء میں مقبول بنایا جائے ۔ مگر اسلام میں مروجہ یہ زکات کا نظام امراء کے لئے ہرگز کوئی کشش نہیں رکھتا ۔ یہ خالصتاً غریبوں کی مدد کے لئے قائم کیا گیا ہے ۔ اس کے باوجود اسلام کا تیزی سے پھیلنا بذات خود اس کے حق ہونے کی دلیل ہے ۔
زکات کے نظام کا مقصد ایک تو غربت کو ختم کرنا ہے دوسرا دولت کو امیر آدمی کی بند تجوری سے باہر لا کر معیشت کو بہتر بنانا ہے ۔
ﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔
سورہ التوبہ آیت نمبر 24
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّ كَثِيۡرًا مِّنَ الۡاَحۡبَارِ وَالرُّهۡبَانِ لَيَاۡكُلُوۡنَ اَمۡوَالَ النَّاسِ بِالۡبَاطِلِ وَيَصُدُّوۡنَ عَنۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِؕ وَالَّذِيۡنَ يَكۡنِزُوۡنَ الذَّهَبَ وَالۡفِضَّةَ وَلَا يُنۡفِقُوۡنَهَا فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِۙ فَبَشِّرۡهُمۡ بِعَذَابٍ اَلِيۡمٍۙ ﴿۳۴﴾
مومنو! (اہل کتاب کے) بہت سے عالم اور مشائخ لوگوں کا مال ناحق کھاتے اور (ان کو) راہ خدا سے روکتے ہیں۔ اور جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور اس کو خدا کے رستے میں خرچ نہیں کرتے۔ ان کو اس دن عذاب الیم کی خبر سنادو ﴿۳۴﴾
زکات کے نظام میں جس شخص کے پاس ساڑھے سات تولے سونا یا ساڑھے باون تولے چاندی یا اس کے مساوی رقم ہو اور اس پر ایک سال گزر جائے وہ اس کا چالیسواں حصہ زکات میں دینے کا پابند ہو گا ۔ اور یہاں حکم نفل یا سنت کا نہیں بلکہ براہ راست فرض کا ہے ۔ یعنی جو ایسا نہ کرے وہ سخت گناہ گار ہو گا ۔
میں دنیا میں رائج انسانی ہاتھوں کے تیار کردہ ٹیکس کے نظام دیکھتا ہوں اور ان کا موازنہ زکات کے نظام سے کرتا ہوں تو حیرت ہوتی ہے ۔ ہر ٹیکس کے نظام میں سقم پائے جاتے ہیں جن کی روشن مثال آج ہمارے حکمرانوں کے عدالتوں میں چلتے ہوئے مقدمے ہیں ۔ مگر زکات کے نظام میں میں ایسا کوئی سقم نہیں پاتا ۔ اس سے بچنا ممکن نہیں سوائے اس کے کہ آپ اس کا ڈھٹائی سے انکار کر دیں ۔ کوئی ارب پتی شخص عدالت میں کھڑا ہو کر یہ نہیں کہہ سکتا کہ میری تو کمائی ہی پانچ ہزار روپے ماہانہ ہے اور باقی جو کچھ بھی ہے وہ میرے بچوں کا ہے میرے نام پر کچھ بھی نہیں ۔ زکات کا اطلاق آمدنی پر نہیں بلکہ جمع شدہ مال پر ہوتا ہے ۔ اب وہ جمع شدہ مال آپ کا ہے یا آپ کے بچوں کا ۔ بے شک آپ کسی کالے چور کے نام لگا دیں زکات دینی پڑے گی ۔ جس کے پاس سے نکلے گا وہی زکات دے گا ۔ زکات خصوصی طور پر آپ کے اس مال کو ٹارگٹ کرتی ہے جسے آپ نے بلاک کر لیا ہے ۔ مارکیٹ سے دور کر دیا ہے ۔
مثال کے طور پر اگر آپ کے پاس ساڑھے سات تولے سونا موجود ہے تو آپ دو میں سے ایک کام کر سکتے ہیں ۔یا تو اس کو تجوری میں چھپا لیں اور ہر سال اس پر زکات دیتے رہیں ۔یا اس کو کسی کاروبار میں شامل کر دیں ۔جو کچھ مجھے سمجھ آیا وہ یہ ہے کہ زکات کے پورے نظام کا مقصد زکات کی وصولی سے زیادہ مال کو تجوریوں سے باہر نکلوا کر مارکیٹوں میں لانا ہے ۔ کیوں کہ دوسری صورت زیادہ فائدہ مند نظر آتی ہے ۔ذرا کیلکولیٹ کریں تو آج کے حساب سے ساڑھے سات تولے سونے کی قیمت ساڑھے تین لاکھ کے آس پاس بنتی ہے اور اس پر سال بھر بعد جو زکات لاگو ہو رہی ہے وہ نو ہزار کے آس پاس ہے ۔
یہ نو ہزار روپے زکات کے نام پر کسی شخص کو دینے میں لینے والے کا شائد اتنا فائدہ نہ ہو جتنا دینے والے کا نقصان ہے ۔ اس کا مال ہر گزرتے سال نو نو ہزار کر کے کم ہوتا چلا جائے گا ۔(واضح رہے یہ میں ایک کاروباری شخص کی سوچ بتا رہا ہوں ورنہ زکات دینا باعث برکت ہے اور اس سے مال کم نہیں ہوتا ) ۔ جو شخص کاروباری ہو گا وہ یقیناً نو ہزار روپے ہر سال کم کروانے سے بہتر یہ خیال کرے گا کہ اس ساڑھے تین لاکھ کو مارکیٹ میں ڈال دیا جائے تاکہ یہ بجائے کم ہونے کے بڑھنا شروع ہو جائیں اور اس کا یہ عمل معاشرے کی ترقی کے لئے اس نو ہزار سے کہیں زیادہ فائدہ مند ثابت ہو گا ۔
جس شخص کے پاس ایک سے زائد مکان ہیں اس کے اضافی مکان پر زکات لاگو ہوتی ہے ۔ مگر اس میں کچھ مستثنات ہیں جن کو سمجھنا ضروری ہے ۔
اگر وہ شخص ایک مکان میں خود رہتا ہے اور دوسرے کو خالی چھوڑ دیتا ہے تو اس پر مکان کی قیمت کے حساب سے زکات لاگو ہو گی ۔لیکن اگر وہ اسی مکان کو کسی کو معاوضے کے عوض رہنے کے لئے دے دیتا ہے تو اس پر وصول کردہ معاوضے کے حساب سے زکات لاگو ہوتی ہے ۔ان دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔ پہلی صورت میں اگر مکان کی قیمت ایک کروڑ ہے تو زکات کی رقم ہر سال ڈھائی لاکھ دینا پڑے گی ۔دوسری صورت میں معاوضہ اگر ایک لاکھ روپے سالانہ طے ہوا ہے تو زکات ڈھائی لاکھ سے گھٹ کر ڈھائی ہزار پر آجائے گی ۔یقیناً جو شخص صاحبِ مکان ہے وہ مکان کو خالی چھوڑنے کے بجائے کسی کو معاوضے پر رکھنے کو ترجیح دے گا ۔ جس سے مارکیٹ میں کرائے کے مکانوں میں زیادتی ہو جائے گی اور نتیجتاً کرائے میں کمی واقع ہو گی ۔
زراعت کے شعبے میں فصل کٹائی پر زکات(عشر) لاگو ہوتی ہے ۔ اس پر سال پورا ہونے کی شرط نہیں ۔ جیسے ہی فصل تیار ہوگی اور اس کی کٹائی ہو گی اسی وقت زکات نکال لی جائے گی ۔
اس میں بھی کئی باتیں انتہائی غور طلب ہیں ۔مثلاً وہ زمین جو زراعت کے لئے ہے مگر خالی پڑی ہے اور اس پر کاشت نہیں کی جا رہی اس زمین پر زمین کی قیمت کے حساب سے زکات لاگو ہو گی ۔مگر اسی زمین پر آپ گندم کاشت کر لیجیئے تو اسی گندم کا کچھ حصہ آپ کو زکات میں دینا پڑے گا جو آپ نے اس زمین پر اگائی ہے اور آپ اصل زمین پر زکات دینے سے بچ جائیں گے ۔یعنی اگر آپ کاشت نہیں کرتے تو ہر سال آپ کی زمین پر جو زکات کٹ رہی ہے وہ آپ کی جمع شدہ رقم میں سے منہا ہوتی چلی جا رہی ہے ۔ مگر اگر آپ اس زمین پر گندم کاشت کر لیں تو زکات میں اسی گندم کا کچھ حصہ دیا جائے گا اور اصل زمین وہیں کی وہیں رہے گی ۔
زکات کی ان شرائط پر اگر گہرائی میں جا کر غور کیا جائے تو اس دنیا میں مہنگائی کے بڑھنے کی جو سب سے بڑی وجہ ہے وہ یہی ہے کہ کچھ سرمایہ کار محض قیمتوں میں اضافے کی غرض سے اپنی زمینیں خالی چھوڑ دیتے ہیں اور ان پر کاشت نہیں کرتے ۔ جس سے خورد و نوش کی اشیاء کی مصنوعی قلت پیدا کر دی جاتی ہے اور پھر من چاہے دام وصول کیئے جاتے ہیں ۔
جیسے جیسے انسان زکات کے نظام کو پڑھتا چلا جاتا ہے اسے دینِ اسلام کی حقانیت کا یقین آتا چلا جاتا ہے کہ اتنا زبردست نظام کی انسان کے دماغ کی اختراع نہیں ہو سکتی ۔
بنیادی طور پر جو زکات کے نظام کا اصول ہے وہ یہ سمجھ میں آتا ہے کہ اگر اصل چیز پہ زکات نہ دینا چاہیں تو اس کو مارکیٹ میں لے کر آئیں ۔ اسی سے مزید مال کمائیں اور اس کمائے ہوئے مال پر زکات دیں دیں ۔ اصل محفوظ رہے گا ۔ دوسری صورت میں اصل آہستہ آہستہ خرچ ہوتا رہے گا ۔
الحاد تو کیا پوری دنیا میں اس کے متوازی کوئی نظام نہیں ۔
تحریر محمد سلیم
Mohammed umair
September 14, 2023 at 8:04 pmماشاء اللہ۔بہت عمدہ مضمون ہے البتہ مکان کی زکات کا جو مسئلہ لکھا گیا ہے اگر فقہ حنفی کے اعتبار سے لکھا ہے تو وہ غلط ہے کہ کئی مکان والا ایک میں رہے اور دیگر خالی ہوں لیکن وہ برائے فروخت نہ ہوں تو کسی پر بھی زکات نہ ہوگی۔